بعض ناسمجھ لوگ آخرت میں اٹھائے جانے اور حساب کتاب کے تصور کو غیر عقلی کہتے آئے ہیں اور آج بھی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے غیر عقلی سمجھتے ہیں حالانکہ انہیں غیر عقلی کا مفہوم تک معلوم نہیں ہوتا۔
حکم عقلی تین طرح کا ہے:
• واجب، وہ جس کا ہونا دلیل کی رو سے بایں معنی لازم ہے کہ اس کا عدم تضاد لازم کرے
• محال، وہ جس کا نہ ہونا دلیل کی رو سے بایں لازم ہے کہ اس کا وجود فرض کرنے سے تضاد لازم آئے جیسے جمع بین النقیضین
• ممکن، وہ جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرسکتا ہے
ایک شے ان تین میں سے کسی ایک حکم کی حامل ہوگی۔ چنانچہ غیر عقلی کا پہلا مطلب واجب کو محال و ممکن یا محال کو واجب و ممکن سمجھنا ہے۔ اب سوچئے کہ:
• کیا مرنے کے بعد زندگی کا تصور عقلاً واجب ہے؟ جواب نفی میں ہے
• کیا یہ تصور عقلاً محال ہے؟ جواب نفی میں ہے، یعنی ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس کی رو سے ایسی زندگی کا تصور کسی استحالے کو جنم دے
• کیا حکم عقلی کی رو سے یہ ممکن ہے؟ جی ہاں۔ نیز عقل کہتی ہے کہ جب ایک مرتبہ انسان عدم سے وجود میں آسکتا ہے تو پھر مرنے کے بعد کیوں نہیں آسکتا؟ یہ بات کہ “میں نے ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا” اس تصور کو محال ثابت نہیں کرتا۔ جو اسے اس بنیاد پر محال یا غیر عقلی کہتا پھرے اسے محال کا مطلب ہی معلوم نہیں
معلوم ہوا کہ پہلے معنی کی رو سے زندگی بعد از موت کو غیر عقلی کہنا از خود بے عقلی کی بات ہے۔
ہر وہ شے جو عقلاً ممکن ہو لازم نہیں کہ وہ موجود اور واقعہ بھی ہو۔ اگر صحیح دلیل اس کے ہونے کا تقاضا کرے تو اسے مانا جائے گا، اگر اس کے نہ ہونے کا تقاضا کرے تو انکار کیا جائے گا اور اگر صحیح دلیل موجود نہ ہو تو توقف کیا جائے گا۔ چنانچہ غیر عقلی کا دوسرا مطلب دلیل ہونے کے باوجود ممکن کو معدوم کہنا ہے اور یا پھر دلیل کے بغیر اسے موجود یا معدوم کہنا۔
دلیل یا حسی و باطنی مشاہدے سے آتی ہے اور یا استدلال (یعنی نظر) سے۔ جسے “خبر صادق” کہتے ہیں وہ بھی استدلال کی صورت ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جاتا ہے کہ “فلاں شخص سچا ہے اور ممکنات میں سچے کی بات پر یقین کیا جاتا ہے” تو یہ استدلال ہے۔ اسی طرح جب یہ کہا جاتا ہے کہ خبر متواتر قطعیت کا فائدہ دیتی ہے تو یہ بھی استدلال ہے اس لئے کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ پوری کی پوری نسل یا ملکوں یا شہروں کی آبادیوں کا کسی جھوٹ بات پر جمع ہوجانا عادتاً محال ہے۔ مثلا محمد(ﷺ) نامی ایک شخصیت عرب میں گذری، انہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور قرآن کو اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کیا وغیرہ، یہ سب تواتر کے ساتھ منقول امور ہیں اور یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ مختلف ادوار اور علاقوں میں مختلف رجحانات و مفادات رکھنے والے افراد نے ان باتوں کو خلاف واقعہ ہونے کے باوجود نقل کرنے پر اجماع کرلیا ہو۔
پس جب عقل حیات بعد از موت کو ممکن کہتی ہے اور خبر صادق اس کے وجود و وقوع پر دلالت کرے تو اس پر یقین رکھنا غیر عقلی نہیں بلکہ عقلی رویہ ہے۔ جو شخص ایسی زندگی کا منکر ہے دراصل وہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے بھی یقینی طور پر ایک غیر عقلی بات کرتا ہے کیونکہ اگرچہ وہ خبر صادق پر یقین نہ رکھتا ہو تب بھی اس کے پاس حیات بعد از موت کے نہ ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ وہ توقف اختیار کرسکتا ہے۔
یہاں آخری بات یہ نوٹ کیجئے کہ نبی کی خبر کی سچائی صرف اس معنی میں خبر صادق نہیں کہ جیسے کسی عام سچے انسان کی بات پر ہم یقین کرتے ہیں بلکہ یہ “مؤید بالمعجزۃ” ہونے کی بنا پر صداقت کی حامل ہوتی ہے، یعنی اس شخص کے سچا ہونے کی دلیل معجزے کی صورت خدا کی جانب سے دکھائی جاتی ہے اور اس لئے یہ کسی عام سچے انسان کی خبر سے کیفیت میں بڑھ کر ہوتی ہے۔
کمنت کیجے