Home » ریاست و فرد کے تعلق کی نوعیت اور فکرِ غامدی کا تضاد
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار فقہ وقانون

ریاست و فرد کے تعلق کی نوعیت اور فکرِ غامدی کا تضاد

غامدی صاحب نہایت دلچسپ مفکر ہیں، انکے نزدیک ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ مذھب کی بنیاد پر (سواۓ دو معاملات، اقامت صلات اور زکوت) افراد پر جبر کرے، مثلا انکے نزدیک ریاست افراد سے پردہ کرنے کا تقاضا نہیں کرسکتی۔ مگر دوسری طرف یہ ریاست کا حق اس قدر وسیع مانتے ہیں کہ اپنے مملکت کے تمام باشندوں کو مجبور کرسکتی ھے کہ وہ سب ایک ہی قسم کا بارہ سالہ تعلیمی نظام اختیار کریں اور اس ایک علاوہ جتنے تعلیمی نظام ہیں ریاست کو حق ھے کہ انہیں بذریعہ جبر و قانون ختم کردے۔ ھے نا مزے کا تضاد، یعنی جہاں ”مذھب کی بنیاد” پر جبر کرنے کی بات ھو وھاں ازروۓ قرآن ریاست کو اسکا حق حاصل نہیں (یعنی اس معاملے میں غامدی صاحب انارکسٹ مفکر بن جاتے ہیں جو ریاست سے فرد کی زندگی میں مداخلت کا ہر قسم کا حق چھین لینا چاھتے ہیں) مگر جونہی حاضر و موجود (سرمایہ دارانہ) نظام کی اطاعت کی بات آتی ھے غامدی صاحب کمیونیٹیرین مفکرین کی طرح ریاست کے اس حق کو فرد کی زندگی کے ہر شعبے پر پھیلا دینے کی شدید خواھش رکھتے ھیں۔

آخر اس دلچسپ تضاد کا راز کیا ھے؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ غامدی صاحب حاضر و موجود ادارتی صف بندی کو غیر اقداری (نیوٹرل) سمجھے بیٹھے ھیں، انکے نزدیک تنویری (enlightenment) فکر انسانی عقل کے فطری ارتقاء کا اعلی اور غیر اقداری اظہار ھے۔ یہی وجہ ھے کہ وہ اپنے مجوزہ بارہ سالہ تعلیمی نظام (جو درحقیقت تنویری علوم کا مجموعہ ھے) کے جبر کو تو فطری اور جائز سمجھتے ھیں البتہ مذھبی نظام تعلیم کے جبر کو غیر فطری۔ اسی لئے وہ مذھب کی بنیاد پر جبر کو ریاست کا جانبدارانہ رویہ قرار دیکر غلط سمجھتے ہیں مگر حاضر و موجود علمیت کی بنیاد پر کئے جانے والے جبر کو غیرجانبدارانہ (گویا یہ فرد کی فطری صلاحیتوں کو اسکی حالت اصلی پر نمو دینے کا طریقہ ھے)۔ یہ اسی فکری خلجان کا نتیجہ ھے کہ غامدی صاحب کے یہاں (قدیم معتزلہ کی طرح) مسلم اور کافر کے درمیان ایک عجیب وغریب کیٹیگری پائ جاتی ھے جو انکے نزدیک مسلم بھی نہیں ھوتی اور اسے کافر کہنا بھی جائز نہیں (گویا یہ کسی غیرجانبدار پوزیشن پر برجمان انفرادیت ھے)۔

غامدی صاحب (اور انکے فکری ہمنوا وحید الدین خان صاحب) کا مسئلہ یہ ھے کہ یہ حضرات تنویری مفکرین کے اس پروپیگنڈے سے سخت متاثر و خائف ھیں کہ مذھبی ریاست چونکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ھوتی ھے لہذا یہ دیگر تصورات خیر کی بیخ کنی کرتی ھے جبکہ سیکولر ریاست غیر جانبدار، لہذا ریاست کو سیکولر ھونا چاھئے۔ یہ حضرات سیکولر لوگوں کے اس جھوٹے پراپیگنڈے کا شکار ھوکر مذہبی ریاست کو بھی سیکولر ریاست کی طرح خیر کے معاملے میں غیرجانبدار ثابت کرنے کے جوش میں ریاست سے مذھب کی بنیاد پر جبر کرنے کا حق چھین لینا چاھتے ہیں۔ لیکن یہ سادہ لوح لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کا نتیجہ ریاست کو غیر جانبدار بنانا نہیں بلکہ تنویری ڈسکورس کا پابند بنانا ھوتا ھے جو بذات خود جاہلیت کی طرف ایک جدید جانبدارانہ رویہ ھے۔ حضرت عمر (رض) کا آب زر سے لکھا جانے لائق قول ھے: ”جوشخص جاھلیت سے واقف نہیں وہ اسلام کی کڑیاں بکھیر کر رکھ دے گا”۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • غامدی صاحب نے یہ کہیں نہیں کہا کہ یہ ریاست کوئی تعلیمی نظام بالجبر نافذ کرے وہ یہ صلاح دیتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کو یوں ہونا چاہیے۔