ساویز ندیم
امام غزالیؒ پر بعض متجدد طبقہ کی طرف سے یہ الزام عائد ہے کہ انہوں نے علم ریاضی کی مخالفت کی اور علم ریاضی کو شیطانی عمل کہا۔ اس بیان کی کیا حقیقت ہے ؟ کیا واقعی امام غزالی ؒعلم ریاضی کے مخالف تھے؟
اس تحریر میں مختصر اً اس کو بیان کیا گیا ہے۔
اہل مغرب بالخصوص اُن کے محققین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ امام غزالیؒ ؒنے علم ریاضی کو شیطانی عمل کہا۔ جس کی وجہ سے علم ریاضی اور سائنس کا ارتقاء متاثر ہوا۔ان کی تقلید میں ہمارے بعض کالم نگار اور صحافی بھی اپنی گفتگو میں یہ بات ذکر کرتے ہیں کہ امام غزالیؒ Mathematics کے خلاف تھے۔ ہمارے ہاں یہ ایک بہت بڑا المیہ شروع سے ہی رہا ہے کہ ہم مغرب کی ہر بات کو آنکھ بند کر کے قطعیات کی طرح تسلیم کر لیتے ہیں خود تحقیق کرنے کا رجحان نہیں اور چند مفروضوں پر نظریات بنا لیتے ہیں۔ہمارے جدید مکتب فکر کی کتب کو اگر دیکھا جائے تو ان میں اصل اسلامی کتب کے حوالوں کے بجائے مغربی مفکرین کی کتابوں کے حوالے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ یعنی اب اتنی تحقیق تو کر لینی چاہیے کہ ان مغربی مفکرین نے جو لکھا ہے کیا ٹھیک لکھا ہے؟ کیا امر واقع میں نصوص بھی یہی کہتے ہیں؟یہ تحقیقی کرنی کی زحمت نہ کرنے کی وجہ سے مفروضوں اور غلط استدلالات کا ذہن شکار ہو جاتا ہے۔یہ مسئلہ کوئی مسئلہ کشمیر نہیں کہ جس کے لیے تگ و دو کرنی پڑے۔ کسی بھی علوم اسلامیہ کے ماہر محقق سے اگر دریافت کر لیا جاتا کہ کیا امام غزالیؒ علم ریاضی کے منکر تھے؟ تو ان کو نفی میں دلائل کے ساتھ جواب مل جاتا ۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اسلام آباد میں ایک ادارہ ” The black Hole ” کے نام سے کام کر رہا ہے۔حال ہی میں ایک نشست جس کا عنوان تاریخ اور پاکستان کے نام سے رکھا گیا تھا۔Dr A.H Nayyarصاحب نے امام غزالیؒ کو علم ریاضی کامخالف قرار دیا یعنی علم ریاضی آپ کو لاجک کی طرف لے کر جاتی ہے اور لاجک آپ کو ایمان سے دور ہٹا دیتا ہے۔ اب یہ شخصیت تو پاکستانی ہے ہیں ان سے یہ توقع نہیں تھی کہ بغیر تحقیق اور بغیر تاریخی سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی بات اتنے بڑے امام کے بارے میں نقل کر دیں۔ یہ تحریر محض ایک علمی اور تحقیقی نوعیت کے لیے لکھی جا رہی ہے تاکہ جس کا بھی امام غزالیؒ کے بارے میں علم ریاضی کی مخالفت کا نظریہ ہے اس پر خود ازسر نو غور کرے۔
امام غزالیؒ کی کتابوں سے اہل علم بخوبی واقف ہے ۔مقاصد الفلاسفہ ، تہافۃ الفلاسفہ اور رسائل امام غزالیؒ قابل ذکر ہیں۔ بلکہ احیاء علوم الدین نامی کتاب تو عوام میں بھی معروف ہے۔
ان متذکرہ بالا کتابوں میں امام غزالی ؒنے علم ریاضی جسے علم الحساب کہا جاتا ہے پر بحث کی ہے۔ مثلا
1. أما الرياضيات، فتتعلق بعلم الحساب والهندسة وعلم هيأة العلم، وليس يتعلق شيء منها بالأمور الدينية نفيًا وإثباتًا، بل هي أمور برهانية لا سبيل إلى مجاحدتها بعد فهمها ومعرفتها) الإمام الغزالي، تهافت الفلاسفة، القاهرة، دار المعارف بمصر، ط4، بدون تاريخ، ص87
“اور جو علم ریاضی ہے، یہ تو حساب اور ہندسے اور جیومٹری(جس میں عالَم کی ہیت پر بحث ہو ) سے متعلق ہے ۔ اس میں کوئی بھی چیز نہ تو اسلام کے مخالف ہے اور نہ ہی اس کے اثبات میں بلکہ یہ تو باکل واضح امور ہیں جس کا انکار ان کی فہم اور معرفت کے بعد ممکن نہیں”۔
2. فالعلوم التي ليست بشرعية تنقسم إلى ما هو محمود وإلى ما هو مذموم وإلى ما هو مباح فالمحمود ما يرتبط به مصالح أمور الدنيا كالطب والحساب وذلك ينقسم إلى ما هو فرض كفاية وإلى ما هو فضيلة وليس بفريضة أما فرض الكفاية فهو علم لا يستغني عنه في قوام أمور الدنيا كالطب إذ هو ضروري في حاجة بقاء الأبدان وكالحساب فإنه ضروري في المعاملات وقسمة الوصايا والمواريث وغيرهما وهذه هي العلوم التي لو خلا البلد عمن يقوم بها حرج أهل البلد وإذا قام بها واحد كفى وسقط الفرض عن الآخرين ص16 – كتاب إحياء علوم الدين – بيان العلم الذي هو فرض كفاية – المكتبة الشاملة
” اور جو غیر شرعی علوم ہیں ان میں بعض محمود ، بعض مذموم اور بعض مباح ہیں۔ اور جو محمود علوم ہیں ان کا دنیاوی مصالح سے تعلق اور ربط ہے جیسے کہ علم طب(Medical) اور علم حساب یعنی علم ریاضی، پھر یہ مزید فرض کفایہ اور جو اس میں بلند درجہ حاصل کرنا چاہے جو کہ فرض نہیں، تقسیم کیا گیا ہے ۔ اور جو فرض کفایہ ہے جس سے کوئی بھی چارا نہیں کیونکہ ان پر دنیاوی امور کا قیام ہے جیسے کہ علم طب ، یہ تو انسانی بدن کی بقاء کے لیے ضروری ہے ار اسی طرح علم حساب بے شک یہ تو معاملات میں ،وصیت و میراث اور دیگر امور میں ان کی ضرورت پرتی ہے یہ ایسے علوم ہیں کہ جن کو بعض افراد کے ادا کرنے سے دیگر لوگوں سے اس کا ذمہ ختم ہو جاتا ہے “۔
الجزیرۃ کی ویب سائٹ جس میں ایک امریکی مفکر نےامام غزالیؒ کے بارے میں مفروضہ بنایا ہے کہ امام غزالی ؒنے علم ریاضی کو شیطانی عمل کہا۔ میری ذاتی چھان پھٹک سے مجھے یہ عبارت نہ مل سکی۔ بلکہ یوٹیوپ پر ایک صاحب جو ٹائسن کے ناقد ہیں نے اس بات کا بطلان کیا ہے۔ ان صاحب کا نام Joseph Lumbard ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو میں اس مفروضے کو باطل قرار دیا ہے۔
يخرج علينا عالم الفلك الأمريكي نيل ديجراس تايسون (Neil deGrasse Tyson) ليزعم بأنّ الإمام الغزالي كان يقول إنّ الفلسفة والرياضيات من عمل الشيطان ويحرّمها، ولينسب له سبب انهيار الحضارة الإسلامية! وليزعم في محاضرة أخرى أنّ للغزالي تفسيرا للقرآن (ولا يوجد للغزالي تفسير) وأنه قال في هذا التفسير إنّ التعامل مع الأرقام هو من عمل الشيطان، وأنّ هذا قد قطع الطريق على أي تقدّم في الرياضيات)! هل كان الإمام الغزالي عدوّا للرياضيات؟
“ایک امریکی Astrophysicist نیل دی گریس ٹائسن نے گمان کیا ہے کہ امام غزالی کہتے تھے کہ فلسفہ اور ریاضیات شیطانی اعمال ہیں۔ اور ان کو حرام قرار دیا ہے۔اور اس طرح وہ اہل اسلام کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنے۔ایک اور جگہ یہ کہا کہ غزالی کے تفسیر قرآن میں( جو کہ وہاں نہیں پائی گئی) کہا ہے کہ نمبروں (ہندسے)کے ساتھ عمل کرنا شیطانی عمل ہے۔ جس کی وجہ سے علم ریاضی کی ترقی کا راستہ رک گیا”۔
اب ان صریح عبارات کے بعد کیا کوئی امام غزالیؒ پر یہ بہتان لگا سکتا ہے کہ وہ علم ریاضی کے مخالف تھے؟ایک طرف امام غزالی علم ریاضی کو فرض کفایہ کہہ رہے ہیں دوسری طرف یہ کہا جا رہا کہ یہ شیطانی عمل ہے۔ بلکہ امام غزالی نے تو علم ریاضی سیکھنے کی تلقین کی ہے۔اسی طرح قرآن کریم میں علم میراث کا باب (جس کو سب سے مشکل تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اجتہاد کے ساتھ ساتھ علم ریاضی(ضرب اور تقسیم) میں مہارت بھی ضروری ہے) خود علم ریاضی سیکھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ سورت النساء آیت نمبر 11 میں اس کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ یعنی اللہ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم دے رہا کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اور اگر صرف عورتیں ہی ہوں دو یا دو سے زیادہ تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو ، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکےکا) آدھاحصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا ، بشرط کہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں تہائی حصےکی حق دار ہے الی آخر الآیہ۔
البتہ حدیث میں چوسر کھیلنے کی ممانعت قمار(جوا) کی وجہ سے وارد ہوئی ہے۔صحیح مسلم کی روایت ہے کہ من لعب بالنردشیر فکانما صبغ یدہ فی لحم الخنزیر و دمہ یعنی جس نے چوسر کھیلی تو گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے خون اور گوشت سے رنگ لیا۔اب ظاہر ہے کہ جو شخص علم ریاضی کے ذریعہ قمار کھیلے گا تو اس کا یہ کام حرام ہی ٹھہرے گا۔نفس مضمون میں کوئی خرابی نہیں بلکہ اس کے استعمال میں خرابی پائی جا رہی ہے۔اسی طرح بالفرض امام غزالی ؒیا کسی اور امام نے علم ریاضی کی ممانعت کی ہو تو اس کی واضح توجیہ موجود ہے کہ علم ریاضی کے ذریعہ ستاروں کی گردشوں کو معلوم کر کے لوگوں کو مستقبل یا علم غیب بتانے کا دعوی کیا جاتا ہے اسی طرح اگر ضرب و تقسیم لگا کر سحر (جادو) کیا جائے تو یہ کام حرام ہی ٹھہرے گا۔
اصل مسئلہ معاملہ کی تفہیم کا ہے۔ ہمارے جدید مغربی مفکرین دیگر تحقیقات اور تراجم سے مدد لیتے ہیں۔ اور تراجم و تفہیم میں اہل مغرب سے فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ کسی بھی بات کو اس کے سیاق و سباق اور تاریخی پس منظر سے ہٹا کر پیش کرنا حد درجہ کی خیانت نہ صرف مصنف کے ساتھ بلکہ علم و تحقیق کے ساتھ بھی خیانت ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پرویز ہود بھائی نے اپنی کتاب Islam and science میں امام غزالیؒ سے متعلق چند باتیں ذکر کیں ہیں لیکن وہاں انہوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ امام غزالیؒ نے علم ریاضی کو شیطانی عمل کہا ہے۔ بلکہ ایک حد تک معتدلانہ تبصرہ کیا ہے۔البتہ ایسے عبارت جس میں علم ریاضی کو منطق اور عقائد سے متعلق کرنے سے گمراہی کا اغلب گمان ہو تو اس کو سد ذریعہ کے قبیل سے ایک مدت تک اجتناب کا فتوی دیا جا سکتا ہے۔کیوں کہ اہل فلاسفہ کے ساتھ سدیوں سے محض عقائد کے باب میں اختلاف رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساویز ندیم صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علومِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے