Home » مفتی تقی عثمانی پر تنقید کیوں ؟
سماجیات / فنون وثقافت شخصیات وافکار

مفتی تقی عثمانی پر تنقید کیوں ؟

عامر خاکوانی

مجھے مفتی تقی عثمانی صاحب کے ٹوئیٹ پر تنقید کی سمجھ نہیں آئی ۔ خاص کر تحریک انصاف کے احباب مفتی تقی صاحب پر بلاوجہ اور ناروا تنقید کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں دو تین اہم نکات ہیں۔

پہلی بات یہ کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے جو اعتراض کیا، وہ اپنی اصل میں بالکل درست ہے۔ جس انداز کے مقابلہ حسن منعقد کئے جاتے ہیں جہاں بنیادی فوکس جسمانی نشیب وفراز اور فگر کی پیمائش پر ہو، وہاں کسی پاکستانی لڑکی کے اس مقابلہ میں شامل ہونے کی خبر ہم پاکستانیوں کے لئے تکلیف دہ اور مضطرب کرنے والی ہے، کجا یہ کہ پتہ چلے کہ پانچ پاکستانی لڑکیاں اس مقابلے میں شامل ہو رہی ہیں۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے ٹوئیٹ میں جو مطالبہ کیا ہے وہ بالکل درست ، اصولی اور صائب ہے۔ ممکن ہے کوئی الٹرالبرل شخص اس پر اعتراض کرے، میرے جیسے لوگ بلکہ پاکستانیوں کی غالب ترین اکثریت یقینی طور پر ایسے مقابلہ حسن کی مخالفت کرے گی ۔ کوئی باحیا شخص کسی بھی صورت میں اپنی بچیوں کو ایسے کسی مقابلے میں بھیجنے کا نہیں سوچ سکتا۔
اس لئے تقی عثمانی صاحب کے ٹوئیٹ پر تو اعتراض بالکل نہیں بنتا۔

دوسرا نکتہ کچھ لوگوں خاص کر انصافین احباب کا یہ اعتراض ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب ملک میں ہونے والے سیاسی جبر یا زیادتیوں پر خاموش رہتے ہیں اور اس مسئلے پر انہوں نے ٹوئٹ داغ دیا۔ ان لوگوں کا مفتی صاحب کو مشورہ یہ ہے مفتی عثمانی صاحب یا تو ان تمام چیزوں پر بھی ٹوئٹ کریں یا پھر خاموش رہیں۔

میرے نزدیک یہ اعتراض بیکار اور بلاوجہ ہے۔ مفتی تقی عثمانی ایک مکمل غیر سیاسی آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو انہوں نے کامیابی سے سیاست میں آلودہ ہونے سے بچایا ہے۔ وہ کسی بھی سیاسی ایشو پر کمنٹ نہیں کرتے۔ انہوں نے ماضی میں بھی کبھی ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی عمران خان کے خلاف بھی کمنٹ نہیں کیا۔ یعنی انہوں نے کسی بھی قسم کی سیاسی پوزیشن نہیں لی۔

مفتی تقی عثمانی ایک عالم دین ہیں، درس وتدریس اور دینی موضوعات پر تصنیف وتالیف ان کا فوکس ہے، ان کے لکھے آسان ترجمہ قرآن اور قرآن پاک کی تفسیر نے عوامی حلقوں میں بڑی پزیرائی حاصل کی ہے ۔وہ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مفتی صاحب خاصا عرصہ وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے اور تب سے وہ بالکل غیر سیاسی پروفائل کے حامل ہیں۔ ممکن ہے مفتی تقی عثمانی صاحب کا مولانا فضل الرحمن کے لئے قدرے سافٹ کارنر ہو، مگر انہوں نے کبھی ان کے لئے بھی سیاسی بیان جاری نہیں کئے اور دانستہ مولانا کی سیاسی حمایت سے بھی گریز کیا۔
ایک ایسا شخص اگر سیاسی بیان نہیں دیتا، اپنے آپ کو سیاست میں آلودہ ہونے سے محفوظ رکھ کر اپنے اصل فیلڈ پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہے ، اس کا یہ رویہ جائز، مناسب اور نہایت اصولی درجے کا ہے۔ البتہ ایسے رویے پر تنقید یقینی طور پر نامناسب اور ناجائز تصور ہوگی۔

تیسرا نکتہ اعتراض یہ ہے کہ ہمارے مولوی صاحبان فحاشی اور اس طرح کی چیزوں پر تو بیان داغ دیتے ہیں، مگر بہت سی سماجی خرابیوں اور دینی حلقوں میں موجود کمزوریوں پر چشم پوشی کرتے اور حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ اعتراض مفتی تقی عثمانی صاحب پر نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی تحریروں، گفتگو اور تقریروں میں ہمیشہ اعتدال ، توازن رہا ہے اور انہوں نے بلاوجہ طور پر دینی حلقے کا دفاع نہیں کیا۔
ان کا مدرسہ اور ان کا سکول آف تھاٹ ہمیشہ نہایت پرو پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ معتدل اور دین کی متوازن، روشن اور معقول صورت پیش کرتا رہا ہے۔ ان کے مدرسے اور ان کی اپنی شخصیت پر کوئی بھی شخص شدت پسندی، پاکستان مخالفت یا فرقہ واریت وغیرہ کا الزام نہیں لگا سکتا۔
وہ آخری شخص ہوسکتے ہیں جن پر ایسا کوئی الزام لگایا جا سکے ۔ پاکستان میں اس حوالے سے بہت مشکل حالات رہے ہیں، تقی عثمانی صاحب پر بھی بے پناہ دبائو تھا، مگر مفتی صاحب اور ان کے اہم مدرسہ دارالعلوم نے کبھی شدت پسندی، عسکریت پسندی اور فرقہ پرست کالعدم تنظیموں کے حق میں بات نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ توازن، اعتدال اور پرامن رویوں کی تلقین کی۔

ہر اس شخص کو جسے دارالعلوم میں پڑھنے کا موقعہ ملا یا اسے وہاں پڑھنے والے طلبہ سے گفتگو اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا، وہ میری اوپر لکھی گئی سطروں کی تائید کرے گا۔
مجھے دارالعلوم یا کسی بھی دینی مدرسے میں پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ یہ میری بدقسمتی ہے ، مگر میرے دوستوں اور نوجوان ساتھیون میں سے کئی ایسے تھے جو دارالعلوم سے پڑھے تھے، ان میں سے ایک آدھ اب مذہبی نہیں رہا اور وہ خود کو سیکولر کہلانا پسند کرتے ہیں، اس کے باوجود ان میں سے ہر ایک نے ہمیشہ دارالعلوم اور وہاں کی غیر فرقہ ورانہ خالص علمی دینی فضا اور اعلیٰ تعلیم وتریبت کی ستائش کی۔

آخری نکتہ فحاشی پر آواز بلند کرنے یاغیرمعمولی حساسیت کا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہر مذہب پسند اور مومن کا بنیادی ایشو ہے۔ اس لئے کہ اسلام میں اخلاقی زندگی اور اخلاقیات کی بڑی اہمیت ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے جس کا مفہوم ہے کہ حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔ (شعب الایمان للبہیقی 7467).
رب کریم نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: بے شک جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے (النور 19) مزید یہ : بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا (الأعراف 28) اور ساتھ ہی فرمایا: اے حبیب فرما دیجئے کہ میرے رب نے بے حیائی اور فحاشی کو حرام قرار دیا ہے (الأعراف 33)۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب کسی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس سے حیا کی صفت چھین لیتا ہے (سنن ابن ماجہ 4190)

اس لئے چاہے مقابلہ حسن والا معاملہ ہو ہا کسی بھی اور طرح کی فحاشی کا معاملہ، اس پر ڈٹ کر بات کرنی چاہیے، آواز اٹھانا چاہییے ۔
میری ناچیز رائے میں مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ درست ٹوئٹ کیا ہے۔ ان کو سپورٹ کرنا چاہیے، ان کی آواز کو آگے بڑھانا اور پھیلانا چاہیے ۔ ان پر کی گئی تنقید بلاوجہ ہے اوراس میں بیکار فرسٹریشن اور غیر ضروری غصہ جھلکتا ہے، اس تنقید کو بے رحمی سے رد کر دینا چاہیے ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں