Home » تفسیر تدبر قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی : ایک طالب علم کا تاثر
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث شخصیات وافکار

تفسیر تدبر قرآن از مولانا امین احسن اصلاحی : ایک طالب علم کا تاثر

محمد رضوان سلیم سندھو

جس زمانے میں جاوید احمد غامدی صاحب کو پڑھ رہا تھا اس زمانے میں میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے متعارف ہوا کیونکہ غامدی صاحب کی کوئی بھی تصنیف انکے ذکر اور حوالے سے خالی نہیں. آپ میزان پڑھیں یا البیان آپ کو ہر جگہ مولانا کی حکمت و دانش بکھری ہوئی ملے گی . ان دنوں اشراق بھی میرے ہاں اتا تھا ، اس میں اکثر مولانا کی تحریر یا تقریر پڑھنے کو ملتی ، آپ کی تحریروں میں حکمت اور جلال نمایاں تھے. تزکیہ نفس مولانا کی وہ پہلی کتاب ھے جو میں نے پڑھی اور اسکو اس موضوع پر دوسری کئی کتابوں سے بہتر پایا. یہ کتاب دراصل ایک طرف تو ہمارے ہاں تصوف کے زیر اثر لکھی گئی کتابوں پر گہری تنقید ھے اور دوسری طرف تزکیہ نفس کو قرآن و سنّت کی روشنی میں واضح کرتی ھے . یہ کتاب مولانا کے طرز استدلال کو بہت کچھ واضح کرتی ھے .
٢٠٠٧ میں جس روز گرمیوں کی چھٹیوں کے آغاز میں نی تفسیر قرآن خریدنے کی نیت سے جب کتابوں کی دکان میں داخل ہوا تو میرے سامنے تفہیم القرآن اور تدبر قرآن دونوں رکھی تھیں . یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ پہلے کس کو خریدوں اور پڑھوں . میں نے دکان کے مالک جنھوں نے دونوں پڑھ رکھی تھیں سے رائے چاہی ، کچھ سوچتے ہوے کہنے لگے جو جی چاہے پہلے پڑھ لو مگر میری رائے میں تفہیم القرآن کو تدبر قرآن سے پہلے پڑھنا چانیے . میں نے ایسا ہی کیا تفہیم القرآن لے لی اور تدبر قرآن کو موخر کر دیا. تفہیم تب پڑھی اور تدبر اب ، میرا تجربہ ان صاحب کی رائے کی تائید کرتا ہے.
تدبر قرآن اردو میں نظمِ قرآن کی رعائیت سے لکھی جانے والی پہلی مکمل تفسیر ھے جس کی تکمیل دو بڑے علماء ، علامہ حمید الدین فراہی صاحب اور امین احسن اصلاحی صاحب کا علمی اعجاز ھے . دراصل یہ علامہ فراہی ہیں جنھوں نے قرآن میں موجود نظم پر غور و فکر کیا اور پوری (methdology) طریق تفسیر کو نہ صرف ضبط تحریر میں لائے بلکہ اس کے مطابق قرآن کی کچھ سورتوں کی تفسیر بھی لکھی . علامہ اپنے کام کو مکمل ناں کر سکے اور خالق حقیقی سے جا ملے . خدا نے انکو اتنی مہلت ضرور دی کہ وہ اپنے علم کی امانت کو اپنے شاگرد رشید مولانا امین احسن اصلاحی کے سپرد کر سکیں. مولانا اصلاحی نے علامہ سے قرآن فہمی کے حصول کے لیے اپنا صحافتی سفر حیات قربان کیا.
مولانا نے ایک لائق فائق شاگرد ہونے کا ثبوت دیا اور اپنے سیاسی مستقبل کو قربان کر کے عمر بھر اپنے استاد کی مرتب کردہ طریقہ تفسیر کے مطابق قرآن کی بےمثال تفسیر تدبر قرآن تحریر کی. سوال یہ ہے کہ تدبر قرآن میں وہ کیا خاص بات ہے جو دوسری تفاسیر میں نہیں ہے . اسکا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ اردو میں نظمِ قرآن کی رعائیت سے لکھی جانے والی پہلی مکمل تفسیر ہے . نظم قرآن سے کیا مرد ہے اور اسسے فرق کیا پڑتا ہے؟
نظم قرآن سے مرا د یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب ( حمد سے ناس تک جو کہ ترتیب توقیفی کہلاتی ہے ،یہ وہ ترتیب ہے جس کو حضور اکرم نے مرتب کروایا اور رہتی دنیا تک کے لیے ہماری ہدایت کے لیے ہمارے حوالے کر دیا) میں ایک مکمل نظم ہے، ربط ہے ، یعنی ہر سورت کا دوسری سورتوں کے ساتھ ایک معنوی تعلق ہے . یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن حکیم فرقان مجید مکّہ اور مدینہ میں حضور پر ٢٣ سال میں نازل ہوا لہذا اسکی ایک نزولی ترتیب بھی ہے جسکی جھلک ہمیں سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے . نظریہ نظم قرآن کے مطابق ، گو کہ ہمارے اسلاف میں ایسے علماء پہلے بھی گزرے ہیں جو قرآن میں نظم کے قائل تھے لیکن جس معراج پر اسے علامہ فراہی اور مولانا اصلاحی نے پہنچایا ہے اسکی کوئی اور مثال نہیں ملتی، قرآن کی سورتیں سات گروہوں میں تقسیم ہیں اور ہر گروہ اپنا ایک مرکزی موضوع اور مضمون رکھتا ہے جس کے گرد اس گروپ کی سورتیں کلام کرتی ہیں . مزید یہ کہ ہر گروپ ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مکّی سورتوں پر ختم ہوتا ہے . پھر یہ کہ سورتوں کے جوڑے جوڑے ہیں . کسی سورت میں اصول بیان ہوے ہیں تو اسکے جوڑے میں تفصیل ہے یا انفس و آفاق کی شہادتیں ہیں . سوره فاتحہ تمام قرآن کے لیے دیباچہ ہے اور سوره یٰسین کا بھی کوئی جوڑا نہیں.
اگلا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نظم تلاش کرنے سے کیا فرق پڑا ؟ ابن عبّاس ، جن کا فہم قرآن اپنی مثال آپ تھا ، نے فرمایا کہ ایک تو قرآن کے
عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اور دوسرا یہ کہ ہر زمانہ خود قرآن کا مفسر ہوگا ، یعنی ہر زمانہ قرآن سے رہنمائی لے گا . نظریہ نظم قرآن کے عدسے سے جب ہم قرآن پر غور و فکر کرتے ہے تو بلا شبہہ نئے معنی و مطالب سامنے آتے ہیں ، ہمارے فہم قرآن میں اضافہ ہوتا ہے ، قرآن کے علوم آگے بڑھتے ہیں . سب سے بڑی بات یہ کہ حضور کا موجودہ ترتیب قرآن کو ترتیب نزولی پر ترجیح دینے کی وجہ سمجھ آتی ہے . ایک ضمنی بات یہ کہ بہت سارے مُسْتَشْرِقِین کے قرآن کی موجودہ ترتیب پر اعتراضات ہوا ہو جاتے ہیں . اگر آپ زیادہ وقت نہیں نکال سکتے تو نا سہی البتہ نظم قرآن کا لطف لینے کے لیے کم از کم قرآن کی آخری سورتوں کا مطالعہ کر لیں ، خاص طور پر سوره العصر ، سوره الفیل اور معوذ تین.
میں ١٩٩٩ سے تفاسیر قرآن کا مطالعہ کر رہا اور مختلف تفاسیر کا مطالعہ کر چکا ہوں بشمول تفہیم القرآن ، ضیا القرآن ، ترجمان القرآن ، البیان ، تذکیر القرآن، احسن الکلام ، احسن البیان ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ جو لطف میں نے تدبر قرآن سے لیا ہے وہ دوسری تمام تفاسیر سے زیادہ ہے . میرا تاثر یہ ہے کہ تدبر قرآن میں دیگر تفاسیر کی خوبیاں جمع ہوگئی ہیں ، اور میں لطف اندوز بھی اس لیے ہو سکا کہ میں نے دوسری تفاسیر کا مطالعہ کر رکھا تھا . مولانا نے یہ ثابت کیا ہے کہ فہم قرآن میں خود قرآن اور اسکی زبان کا فہم سب سے زیادہ معاون ہے. ہر سورت کا عمود، اسکا اپنے جوڑے اور گروپ کے موضوع کے ساتھ تعلق اور الفاظ اور اصطلاحات کے معنی کا بیان فہم قرآن کو دو چند کر دیتا ہے . مذید یہ کہ تفسیر پڑھ کر آپ کو معلوم و محسوس ہوتا ہے کہ کلام الله پر تدبر زندگی کے بارے میں کیا فہم و ادرک پیدا کرتا ہے . تدبر قرآن میں ہر موڑ پر آپ کچھ نیا سیکھتے ہیں ، آپ جانتے ہیں کہ کلام الله کو مرکز مان کر جو بھی علم حاصل ہوتا ہے وہ کمال ہوتا ہے .
سچی بات تو یہ ہے کہ میں علوم دین میں تو ابھی طفل مکتب بھی نہیں ہوں لہذا کسی بھی تبصرے سے قاصر ہوں . البتہ اپنا یہ تاثر ضرور دینا چاہوں گا کہ ایسے مقامات بھی آے جہاں مجھے نظم کا بیان مخض ایک تکلف ہی لگا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا میری کم علمی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے ، مجھے لگتا ہے شاید یقینی طور پر. اسکے پیش نظر میری تجویز ہے کہ اہل علم تدبر قرآن کو تحقیق کا موضوع بنائیں اور سائنسی بنیادوں پر اسکے طریقہ کار اور نتائج کا جائزہ لیں . نظم قرآن کا نظریہ ایک نہایت اہم کام ہے جسکو ابھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے . آخر میں میری خدا سے پھر دعا ہے کہ وہ علامہ فراہی اور مولانا اصلاحی اور انکے شاگرد رشید جاوید احمد غامدی صاحبان کو بہترین اجر دے اور مجھ سے طالب علموں کو اپنی کتاب حکیم سے فیضیاب ہونے کی توفیق دے .آمین

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں