سید عکاشہ
قرآن میں نظم کی موجودگی کے مشرق و مغرب میں بہت سے محقق معترف ہیں۔ پھر بھی کچھ لوگ انکاری ہیں۔ اختصار کے ساتھ اس حوالے سے کچھ باتیں ذکر کی جاسکتی ہیں:
1۔ کسی بھی کلام کے متعلق جب تک کہ کوئی مخالف قرینہ یا ثبوت نہیں مل جاتا، یہی سمجھا جائے گا کہ اس میں نظم ہے۔ اب مخلوق کا کلام ہو یا خالق کا ہو، اس میں الفاظ ہوتے، جملے ہوتے تو اس سے بڑی کوئی اکائی ہو تو اس میں بھی نظم ہونا چاہئے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اس سے خالق اور مخلوق میں تشبیہ لازم آتی ہے تو ان کے قرآن کے کلام اللہ ہونے کی بھی نفی کردینی چاہئے کہ اس میں الفاظ ہیں اور الفاظ تو مخلوق استعمال کرتے۔ یہ کلام مخلوق کے لیے ہی ہے تو اس سے بھی وہی توقعات ہوں گی۔
2۔ ہماری علمی روایت کے سامنے یہ پہلو ظاہر نہیں تھا، یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ ہمارے پاس اسلاف کی تفسیر کا جامع ریکارڈ دستیاب ہی نہیں کہ ہم قطعیت سے کہہ سکیں کہ یہ ظاہر تھا کہ نہیں۔ جتنی تفاسیر ہمیں ملتی ہیں، ان کا مقصد بھی نظم کی نشاندھی نہیں ہے۔ وہ آیات کے کچھ الفاظ یا فقروں کے اطلاقات کو بیان کرتی ہیں۔ پھر بھی سلف کی تفاسیر سے کچھ مثالیں ایسی دی جاسکتی ہیں جو نظم کو مد نظر رکھ کر تفسیر کی طرف دلالت کرتی ہیں۔ نظم پر اس کے بعد بھی مستقل کام ہوا ہے۔ علوم قرآن کی بنیادی کتب میں بھی دیکھا جاسکتا کہ قائلین نظم ہمیشہ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظم کی تفسیر میں اہمیت جتنی موجودہ قائلین کے نزدیک ہے، اتنی شاید کسی اور نے ان سے پہلے نہیں دی۔ مگر اہمیت جو بھی ہو، اپنی ذات میں وہ چیز قرآن میں پائی جاتی ہے کہ نہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے۔
3. نظم قرآن بہت کم ہی مسائل پر کوئی ایسی بات کے کر آتا ہے جو کسی آیت کی روایتی تفسیر کو بکھیر کر رکھ دے۔ اکثر یہ مختلف آراء میں ترجیح کا ہی کام کر رہا ہے۔ یہ فہم مسلط کردہ اگر ہے تو یہ مثالوں سے واضح کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں یہ کسی عاقل کے لیے اتنا مرعوب کرنے والا نہیں ہونا چاہیے یا مستشرقین تو کم از کم اس کو قبول نہ کرتے اگر یہ اتنا ہی مسلط کردہ ہے۔ پھر مسلط کردہ چیز کے متعلق بھی یہ بات حیران کن ہے کہ کچھ اصولوں کا آسانی سے متن پر اطلاق بھی ہوجاتا ہے جو نظم کے تعین کے لیے وضع کیے گئے۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ مغربی قائلین نظم اور مشرقی قائلین نظم جو کہ ایک دوسرے سے الگ تحقیق کر رہے، وہ قریب قریب ایک ہی نتیجے پر اس مسلط کردہ تصور سے پہنچ رہے۔ مثالوں اور نفسیات کے تجزیے کے بغیر ایسے کسی فہم کو مسلط کردہ کہنا کوئی مضبوط بات نہیں۔
4. قطعی و ظنی کی بحث چھیڑنے والوں کو غور کرنا چاہئے کہ سلف کو تو اس قطعی و ظنی کی تقسیم کا بھی نہیں پتا تھا۔ یہ تو بعد کی تقسیم ہیں۔ یہ متکلمین سے پیدا ہوئی ہیں۔ اگر نظم قرآن مسلط کردہ ہے تو یہ قطعی و ظنی کی بے جا بحثیں اس سے بڑھ کر مسلط کردہ ہیں۔ ان سب پر وقت کے ضیاع کے بجائے بس یہ دیکھنا چاہئے کہ آپ کی بات قرائن کی روشنی میں قلب سلیم کو درست لگتی ہے کہ نہیں۔ لگتی ہے تو مان لینا چاہئے، جحد نہیں کرنا چاہئے۔
کمنت کیجے