مبصر ومقرر : ساجد حمید
ناقل و محرر:کائنات ارشد
دیکھیے جو تنقیدات ہوتی ہیں اُس سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ غلط لگنے والی باتوں سے لوگوں کو آگاہ کریں جو انہیں غلط لگ رہی ہوتیں ہیں۔ اور جو انہیں صحیح لگ رہی ہوتیں ہیں ان کی تائید کرنی چاہیے ۔ یہ اہل علم کا فریضہ ہے ۔ اُنہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور ایسے لوگ معاشرے میں غنیمت ہوتے ہیں جو تنقیدات کرتے رہتے ہیں۔
اُن کی تنقید میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اُن کے معیار کی نہیں ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ پھر بزرگ کی حیثیت سے اُسکو ڈانٹ سمجھ لیجئے۔ بزرگوں کو ڈانٹتے ہوئے یہ رُخصت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اِس طرح کی باتیں کر دیں ۔تو اُن کو اگنور کر دیجیے ۔
یہ ہمیشہ یاد رکھیے کہ ایک ہی چیز میں اگر آپ کی اپرووچ مختلف ہو جاتی ہے، آپ کے اصول مختلف ہو جاتے ہیں تو آرا بھی مختلف ہو جاتیں ہیں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ احمد جاوید صاحب کی سمجھ لیجیے کہ جو اپرووچ ہے وہ قرآن و سنت کے نصوص پر قائم ہونے کی نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی اپرووچ ہے تعقل کی ۔
تعقل یوں کہیے کہ عقل کا استعمال عقلیت rationalism جس کو کہتے ہیں۔ تو وہ آرا کی توڑ پھوڑ ، بناوٹ ، تعمیر سارا کام تعقل کی بنیاد پر کرتے ہیں نصوص کی بنیاد پر نہیں کرتے۔ نہ اُن کا یہ طریقہ ہے اور نہ ان کا میدان ہے۔ تو اس لیے لازمی بات ہے کہ وہ دوسری رائے تک پہنچیں ۔کہ اگر کوئی آدمی قرآن کے مطالعے کے بعد ایک رائے بنائے تو میں کہونگا کہ یہ اس نے نصوص کی بنیاد پر کام کیا ہے ۔
تو انہوں نے ساری بات کو تعقل کی روشنی میں دیکھا ہے ۔ان کی ایک اپرووچ مختلف ہے اور اُس اپرووچ سے ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ کہ وہ ہمارے معاشرے کے محترم و معزز لوگوں میں سے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انکا احترام قائم رکھیں۔
البتہ جو انہوں نے استدلال قائم کیا ہے وہ کچھ ان کے معیار کا نہیں ہے ۔ انہوں نے پہلی بات یہ کہنی چاہی ہے اگر میں غلط نہیں سمجھا ۔
کہ نظمِ قرآن کی وجہ سے دین کی پوری تعبیر نئی ہو گئی ہے ۔اور جو پُرانی روایت میں تعبیر موجود تھی ( مجموعی تعبیر کی بات کر رہے ہیں) اس پر سے اعتماد ختم ہو جائے گا اگر غامدی صاحب کی تعبیر صحیح ہے تو ۔
یہ استدلال بہت کمزور ہے ۔ میں اُس کے چند پہلو واضح کرتا ہوں ۔
•انسانی علوم کے اندر بہت ساری باتیں پرانے زمانے میں موجود ہوتی ہیں لیکن دبی رہ جاتیں ہیں اور بعد کے لوگ اس کو دوبارہ اِحیا کر دیتے ہیں ۔ میں اِس تعبیر کو جو ہمارے فکر میں بتائی جاتی ہے اُس کو اسی طرح دیکھتا ہوں کہ ہم نے ایک دبی ہوئی تعبیر کو ، دبی ہوئی نہیں خاموش تعبیر کو۔۔۔۔۔
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں
ایک خاموش تعبیر ہماری امت میں پائی جاتی ہے اسکو لفظوں میں بیان کیا ہے. ان تعبیرات کے مقابلے میں جس میں سے ایک تعبیر کے احمد جاوید صاحب قائل ہیں (تصوّف والی تعبیر کے)
تو ان تعبیرات کے مقابلے میں ایک دبی ہوئی خاموش تعبیر جو ساری امت کی ہے( جمہور اُمت) اس کو غامدی صاحب نے بیان کیا ہے لیکن اس کا نظمِ قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اور دوسری بات میں یہ عرض کرونگا کہ
تعبیر امت کی جو روایت چلی آرہی ہوتی ہے وہ اگر قرآن و سنت کے مطابق ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اُسکی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اس کی میں دو مثالوں سے وضاحت کرونگا ۔
1_ قرآن مجید جب نازل ہوا تو یہود کی تعبیر موجود تھی (روایتی تعبیر).
2_قرآن جب نازل ہوا تو نصاریٰ کی روایتی تعبیر چھ سو سال سے موجود تھی ۔
اللّٰہ تعالٰی نے دونوں کو اُٹھا کر پھینک دیا ۔انکی روایتی تعبیر کو قبول نہیں کیا ۔ بالکل اٹھا کر پھینک دیا تو قرآن مجید کے ہوتے ہوئے یہ کام ہم بھی کر سکتے ہیں .یہ کسی دَور کے انسانوں کی غلطی دُور ہو رہی ہے ۔ امت کی چودہ صدیوں کی تعبیر کی غلطی نہیں نکل رہی ۔ ہمیشہ یاد رکھیے دو چیزوں میں فرق کرنا چاہیے ایک امت کی اجماعی تعبیر ہے اسکو ہم نے اِحیا کیا ہے ۔ اور ایک امت کی وہ تعبیریں ہیں جو مختلف زمانوں میں پیدا ہوئیں ہیں اس کو قرآن کی روشنی میں ہم نے دیکھا ہے ۔
اگلا جو اُن کا اہم موضوع تھا وہ نظم قرآن تھا
اصل میں میرے خیال میں میری طالب علمانہ درخواست ہے کہ احمد جاوید صاحب کا یہ میدان نہیں ہے ۔ نہ پہلی بات تعبیرِ دین ان کا میدان تھا نہ نظم قرآن ان کا میدان ہے ۔
آدمی کو اپنے خاص طور پر جو بڑے سٹیٹس کے لوگ ہوتے ہیں ان کو اپنے میدان میں گفتگو کرنی چاہیے ۔ دوسروں کے میدان میں جب آئیں گے تو ایسی قدم قدم پر خطائیں ہو جاتیں ہیں کہ جس سے طالب علموں کا ان سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ یہ نہیں کرنا چاہیے تھا ان کو۔
نظم قرآن کے خلاف انہوں نے ایک ہی دلیل دی ہے جو تعقل پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو چیز متعین ہوتی ہے ۔
اُستادِ گرامی کا ایک جملہ تھا کہ ان کا ایک متعین نظم ہے اسکے اوپر انہوں نے تبصرہ فرمایا اگر یہ متعین ہے تو پھر ظاہر و باہر ہونا چاہیے ہر کسی کو نظر آنا چاہیے ۔
یہ بس ایک عقلی بہانہ سا ہے اِس سے زیادہ اس کی کوئی وقعت نہیں ہے تو یہ میرا خیال ہے۔
باقی جو مولانا اصلاحی کی مثالوں پر تبصرہ ہے وہ ان کے شایان شان نہیں تھا، نہ کرتے تو زیادہ اچھا تھا کیونکہ مثالیں جس چیز کے سمجھانے کے لیے دی جاتیں ہیں اگر آپ اس سے آگے بڑھ جائیں تو پھر یا مثال صحیح نہیں ہے یا سننے والا صحیح نہیں ہے ۔ یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح جو ہمارے نظم کلام کا مسئلہ ہے تو میرے خیال میں تنقید اس وقت صحیح ہوگی جب البیان یا تدبر قرآن کو پڑھ کر وہ بتائیں کہ دیکھیے کس طرح سے خارج سے نظم کو ٹھونسا گیا ہے ۔
ان کا اعتراض یہی ہے کہ نظم خارج سے ٹھونسا گیا ہے ۔
ہمارا اِدِّعا یہ ہے کہ ہم نے قرآن کے نصوص کے اندر سے نظم کو دریافت کیا ہے تو یہ ان کی بہت بڑی خدمت ہوگی ہمارے لیے۔ کہ وہ ہمیں بتا سکیں آگاہ کر سکیں کہ ہم نے کیسے اس کو خارج سے داخل کیا ہے ۔
مجھے یاد ہے ہمارے دوست کے گھر ایک مجلس میں انہوں نے یہی اعتراض کیا تھا کہ نظمِ قرآن خارج سے داخل کیا گیا ہے تو میں نے انہیں سورۃ الکوثر قرآن کی چھوٹی سورتوں میں سے ہے اسکو پڑھ کے جو اپنی انڈرسٹینڈنگ تھی نظم کی وہ عرض کی تھی۔ کہ دیکھیے یہ سورت کے اندر سے پھوٹا پڑ رہا ہے یہ باہر سے نہیں ہے۔
لیکن بہرحال میرے خیال میں تدبر قرآن کا کم از کم مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے۔ جو نظم قرآن پر تنقید کرنا چاہے اسکو تدبر قرآن کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جس کی اِس ساری گفتگو میں بہت کمی محسوس ہوئی۔
اور بھی بہت ساری باتیں ہیں لیکن وہ میرے لیے محترم بزرگ ہیں تو میں یہیں پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
کمنت کیجے