Home » تصورِ نظمِ قرآن میں غامدی صاحب اور احمد جاوید صاحب کی مشترک خطا
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

تصورِ نظمِ قرآن میں غامدی صاحب اور احمد جاوید صاحب کی مشترک خطا

گل رحمان ہمدرد

نظم کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں ۔لیکن ان میں سے دو زیادہ اہمیت کی حامل ہیں;
١۔سیاق کلام کا نظم(Contextual     Coherence)
٢۔موضوعاتی نظم(Thematic      Coherence)
ان میں سے پہلا تصور نظم ایک فطری نظم ہے جو ہر بامعنی کلام میں ہوتا ہے۔لیکن مولانا حمید الدین فراہی صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں موضوعاتی نظم (Thematic     Coherence )موجود ہے۔قرآن میں موضوعاتی نظم کے موجود ہونے تک ہی اگر بات رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔لیکن اس مکتب فکر کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کا یہ موضوعاتی نظم قرآن فہمی کےلیۓ شاہ کلید(Master     Key )ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں سے ہمارا اختلاف شروع ہوتا ہے۔آیات کو سیاقِ کلام کے فطری نظم میں رکھ کر دیکھنا ایک بات ہے اور موضوعاتی نظم میں رکھ کر دیکھنا بالکل ہی دوسری بات ہے۔کسی آیت یا سورہ کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ جب تک اس کا موضوعاتی نظم پیش نظر نہ ہو اس کے حقیقی مفہوم تک نہیں پہنچا جاسکتا آیاتوں اور سورتوں کے مستقل بالذات مفہوم کے حامل ہونے کی نفی کرنےکا دعویٰ ہے۔
احمد جاوید صاحب نے فراہی کے تصور نظم قرآن پر جو تنقید کی ہے اس میں سیاق کلام کا نظم اور موضوعاتی نظم میں فرق وامتیاز قاٸم نہ کرسکے۔اسی وجہ سے احمد جاوید صاحب کا حملہ نظم کے ہر تصور تک وسعت اختیار کرگیا ہے۔دوسری طرف غامدی صاحب نے نظم قرآن پر حسن الیاس سے جوگفتگو کی ہے اس میں انہوں نے بھی نظم کے مذکورہ بالا دوتصورات کو خلط ملط کردیا ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں فراہی کے تصوِ نظم قرآن کا دفاع نہیں کیا بلکہ عام نظم قرآن جسے سیاق کلام کا نظم کہتے ہیں کا دفاع کیا ہے۔ حالانکہ انہیں فراہی کے موضوعاتی تصور نظم کا دفاع کرنا چاہیۓ تھا اور ثابت کرنا چاہیۓ تھا کہ اسطرح کا نظم قرآن فہمی میں شاہ کلید کیسے ہے؟۔

غامدی صاحب کے حلقے کے زیادہ تر لوگ غامدی صاحب ہی کی طرح سیاقِ کلام کے فطری نظم جو ہر کتاب میں ہوتا ہے اور موضوعاتی نظم میں فرق و امتیاز نہیں کر پارہے۔اسلیۓ ان کے تمام دلاٸل سیاقِ کلام کے فطری نظم سے متعلق ہیں۔اصل موضوع کی طرف وہ نہیں جارہے۔وہ نظم قرآن کے حق میں قدماء میں جن علماء کے حوالے درج کررہے ہیں وہ بھی موضوعاتی نظم سے متعلق نہیں ہیں بلکہ سیاق کلام کے نظم سے متعلق ہیں۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ فراہی کا دریافت کردہ موضوعاتی نظم (Thematic    Coherence)قرآن میں موجود ہی نہیں ہے۔ فراہی کے علمی آثار کا سرسری مطالعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیۓ کافی ہے کہ فراہی کےموقف میں وزن بہرحال موجود ہے۔یہ بات بھی مانی جاسکتی ہے کہ فراہی کا دریافت کردہ نظم قرآن فہمی میں معاون ہے۔لیکن یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ فراہی کا تصور نظم قرآن فہمی کےلیۓ شاہ کلید(Master    Key)ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل رحمان  ہمدرد  صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں