Home » مکتبِ فراہی اور قدیم مفسرین (قطعى الدلالة کے تناظر میں)
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب کلام

مکتبِ فراہی اور قدیم مفسرین (قطعى الدلالة کے تناظر میں)

خزیمہ ظاہری

عام مفسرین اس قاعدے پر چلتے رہے ہیں کہ “العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب” یعنی الفاظ کی عمومیت کا اعتبار ہے.. نا کہ آیات کا معنیٰ و مفہوم انکے شانِ نزول کے ساتھ خاص ہے.
اسکے بعد مفسرین ایک قدم اور بڑھ کر اشارات،استدلالات اور قرائن کی بنیاد پر تفسیر کرنے میں مزید وسعت اختیار کرتے رہے ہیں جس سے تفسیر کے بیشتر منہاج سامنے آئے ہیں جیسے صوفیاء کی اشاری تفسیر وغيرہ.
دوسری جانب فراہی مکتب اسکے بالکل بر عکس چلا ہے. انکے نزدیک سیاق،کلام کے اندرونی نظم،الفاظ کی حدود اور جملے کی ساخت کو دیکھ کر کلام کا معنیٰ نا صرف متعین و مقرر کیا جا سکتا ہے بلکہ ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے تا کہ قرآنی آیات کا اصل مدعا سامنے رہے.. اور جب آیات کا اصل مدعا محدَّد و معیَّن کرنا ممکن ہے تو پھر اس حقیقت سے انکے ہاں خروج کرنا جائز نہیں کہ قرآن کی دلالت اپنے سیاق،نظم،جملے اور الفاظ کی بنیاد پر قطعی ہو جاتی ہے.. اسی چیز کو انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ “القرآن لا يحتمل إلا تأويلا واحدا” یعنی قرآن صرف ایک ہی تاویل کی گنجائش رکھتا ہے.. اور اسی چیز سے متعلق انکا کہنا ہے کہ قران “قطعى الدلالة” ہے یعنی اپنے مفہوم پر قطعیت و وضوح کے ساتھ از خود دلالت کر دیتا ہے.
بظاہر یہ ایک ایسا اختلاف ہے جس میں فراہی مکتب اور دیگر مفسرین ایک دوسرے کے بر عکس کھڑے ہیں.. اور اس سے یہ اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فراہی مکتبہ فکر قرآن کو اسکے اصل مدعا سے جوڑتا ہے جبکہ دیگر مفسرین کے ہاں کوئی قید نہیں ہے بلکہ تفسیر کے نام پر بہت سی اضافی چیزیں بھی تفسیروں میں ڈال دی گئی ہیں.
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں طریقوں پر نا صرف یہ کہ اس مقام پر اعتراض درست نہیں ہے بلکہ ان دونوں طریقہائے تفسیر کا اختلاف بہت حد تک “لفظی نزاع” کی قبیل سے ہے.
ہمارے اس دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ “نا تو فراہی مکتب کے علماء قرآن سے اسکے مدعا کے علاوہ اضافی استدلال و استنباط کے منکر ہیں اور نا ہی قدیم مفسرین کے ہاں ایسا رہا ہے کہ وہ آیات کے اصل مدعے سے بالکل غافل ہوں اور غیر متعلق چیزوں کی بنیاد پر تفسیر کرتے ہوں”.
چنانچہ مولانا امین احسن اصلاحی نے تفسیر تدبر قرآن کے ابتدائیے میں درج کیا ہے کہ “ہم قرآن سے اضافی استنباط کے منکر نہیں ہیں بلکہ یہ چیز علماء کے سپرد ہے لہذا وہ جب چاہیں استنباط کر لیں،ہم نے اس تفسیر میں البتہ صرف آیات کا اصل مدعا بیان کرنے کی کوشش کی ہے”. (مولانا اصلاحی کی گفتگو کا مفہوم از مقدمہ تدبرِ قرآن).
دوسری جانب دیگر مفسرین ہیں تو انکے ہاں ایسا نہیں کہ وہ آیات کے بنیادی مفہوم اور اصل مدعے سے غافل ہوا کرتے تھے.. بلکہ انکی تفاسير میں یہ چیز دیگر استنباط و استدلال اور قرائن و وجوہ کے ساتھ ملا کر بیان کی جاتی تھی.. لہذا مثال کے طور پر اگر ہم تفسیر طبری کو دیکھیں تو اس میں کسی بھی آیت سے متعلق سلف کے لگ بھگ ہر قسم کے اقوال جمع ہوتے ہیں.. ان میں سلف کی تفسیر،آیات سے استدلال اور آیات سے مستنبط کردہ لطیف اشارات وغيرہ الغرض سب کچھ ایک جگہ جمع ہوتا ہے.. اور اس جمع و حشو سے یہ غلطی لگتی ہے کہ یہاں کلام کا اصل مدعا تو گویا درج ہی نہیں کیا گیا.. بس مختلف الوجوہ اقاویل بَھر دئے گئے ہیں.. حالانکہ اگر ایک ہی آیت سے متعلق ایسے تفسیری اقوال کا دراسہ کریں تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ بعض اقوال میں تفسیر کی گئی ہوتی ہے اور بعض میں آیت سے اضافی استدلال کیا گیا ہوتا ہے.. لہذا سلف کی تفسیری کلام اور قدیم مفسرین کی تراث سمجھنے میں یہ بہت بڑی غلطی بلکہ حماقت کی جاتی ہے کہ کسی بھی آیت کے نیچے بیان کیا گیا ہر قول اُس آیت کی عین تفسیر سمجھ لی جاتی ہے.. اور اسکے نتائج یہ نکلتے ہیں کہ آیات سے نکالے گئے اشارات و استنباط طلباء کے ذہنوں میں اپنی جگہ سے سِرک کر اصل تفسیر کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں.. جبکہ اسکا غلط اثر اس وقت مرتب ہوتا ہے جب ایسے استنباطی اقوال کو لوگ عین قرآنی حکم سمجھ کر بیان کرنے لگتے ہیں.. اسکے بعد جب ہم حافظ ابن جریر طبری کا کام دیکھتے ہیں تو مزید کھل کر یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر کلام کا مدعا ظاھر کرنے پر بھی مکمّل توجہ مرکوز کی ہے.. چنانچہ بیشتر مقامات پر سلف کے تفسیری اقوال میں سے بعض کو اختیار کر کے باقی اقوال ترک کر رہے ہوتے ہیں یا انہیں مرجوح قرار دیتے ہیں جسکا یہ مطلب نہیں کہ طبری ہر وقت سلف کی کلام پر حاکم بنتے ہیں بلکہ انکا مقصد یہ بیان کرنا ہوتا ہے کہ “یہ قول بطورِ تفسیر زیادہ لائق ہے اور باقی اقوال سے راجح ہے جبکہ باقی اقوال کی حیثیت عین تفسیر کی نہیں ہے بلکہ انکا تعلق اضافی استدلال وغيرہ سے ہو سکتا ہے”.
یہاں ہم نے امام طبری کے طریقہ کار کا کسی حد تک استقراء کر کے یہ نتیجہ درج کیا ہے.
اس تفصیل کے خلاصے کے طور پر چند اہم نتائج اور چند ملاحظات ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں :
1 : فراہی مکتبِ فکر کا قرآن کے لئے “قطعى الدلالة” کی اصطلاح استعمال کرنا اس معنیٰ و مفہوم میں بالکل درست ہے کہ : قرآن کے سیاق،نظم،الفاظ اور جملے کی بناوٹ وغيرہ کی روشنی میں آیات کے اصل مدعا تک پہنچنا اور اسکی تحدید کرنا عین ممکن ہے.. لیکن اسکے باوجود اس میں بعض مقامات پر ظنّیت کا دخل ممکن ہے جسکی تفصیل آخر میں درج کی جا رہی ہے.
2 : مکتبِ فراہی کی نظر آیات کے بنیادی معنیٰ و مفہوم پر ہے جس سے یہ بات نکالنا درست نہیں کہ وہ قرآنی دلالات کی وسعت کو محدود کرتے ہیں.
3 : قدیم مفسرین سے متعلق بھی یہ دعویٰ غلط ہے کہ انکی تفاسير کلام کے اصلی مدعا سے غافل ہو کر غیر متعلق اقوال و تاویلات کے مجموعے کی حیثیت رکھتی ہیں.
4 : قدیم مفسرین کے ہاں عام طور پر کلام کا اصل مدعا الگ سے متعین و مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ استنباط وغيرہ کے ساتھ ملا کر اسے بیان کیا جاتا ہے.. یہ طریقہ کار اپنی ذات میں بالکل ٹھیک ہے البتہ قاری کو مطالعے کے وقت یہ استعداد پیدا کرنی چاہیے کہ کلام کے اصل مدعا کو آیات سے نکالے گئے اضافی استنباط و استدلال سے الگ کر کے پہچان سکے.
5 : جہاں تک یہ قاعدہ مفسرین کے ہاں معتمد رہا ہے کہ “العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب” تو اسکے دو پہلو ہیں اور دونوں اپنی جگہ درست ہیں.
(١) کسی بھی آیت سے اسکے شان نزول یا اصل مدعا کے نام پر اضافی استنباط کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا.
(٢) آیات کی تفسير کرتے ہوئے اور انکا بنیادی مفہوم نکالتے ہوئے بھی آیات کو شان نزول وغيرہ کے ساتھ خاص نہیں کیا جا سکتا بلکہ قرآنی کلام اور اسکے الفاظ کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے اور تفسیر میں انکو پورا پورا حق دینا لازمی ہے.
6 : یہ سمجھنا کہ قدیم مفسرین کی تفسیروں میں بیان کردہ تفسیر “ظنى الدلالة” ہے اور ہم چونکہ سیاق،نظم اور الفاظ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہذا ہماری تفسیر “قطعى الدلالة” ہے،ایک نا قابلِ فہم اور انتہاء پرستانہ طرز ہے.. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی دلالت بیشتر مقامات پر قطعی ہے اور ہو سکتی ہے اور یہ فراہی مکتب کی تفاسير کے ساتھ خاص بات نہیں ہے بلکہ دیگر مفسرین کی تفسیر بھی اسی طرح بیشتر مقامات پر قطعیت تک پہنچ جاتی ہے اور اسی طرح بلا امتیاز سب کی تفسیر میں ظنّیت کا دخل بھی ممکن رہتا ہے.

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں