محترم احمد جاوید صاحب کی ایک اور ویڈیو (“فہم اور درجات فہم”) دیکھنے کا موقع ملا۔ اس ویڈیو میں آپ نے قطعی الدلالۃ کی گفتگو کو جس نہج پر اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے اور درحقیقت آپ نے اس زاویہ نگاہ کی نمائندگی کی ہے جس کا عنوان “فقیہہ بمقابلہ صوفی” ہے۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا جب کوئی حکم دیتا ہے تو ایک اس کی صوری قطعیت ہے کہ مثلا نماز پڑھو اور اس طرح پڑھو وغیرہ۔ اس نوعی مفہوم میں یہ الفاظ قطعی ہیں۔ لیکن اس حکم سے متعلق نفس کی ایک کیفیتی شے بھی ہے جس کی کوئی حد نہیں اور جو اس احساس سے متعلق ہے کہ نماز میرے اور خدا کے مابین حاکم و محکوم کے فطری تعلق اور اس کی بندگی کے ذوق کی تکمیل کا مظہر ہے۔ اس دوسرے پہلو سے ہر حکم اپنے اندر ایسے بے پناہ پہلو رکھے ہوتا ہے جن کی حد بندی ممکن نہیں۔ چنانچہ “نماز پڑھو” کے حکم کی نوعی یا صوری مفہوم (یعنی اس کی قانونی شرائط و ارکان وغیرہ) متعین کرکے بس نماز پڑھ لینا اور یہ کہنا کہ میں نے خدا کے حکم کو پوری طرح سمجھ لیا اور اسے ادا کردیا اور نفس سے متعلق اس کے دیگر احوال پر کوئی توجہ نہ دی، یہ خدا کے حکم کی ایک قسم کی توھین ہے۔ پس اللہ کا ہر حکم صرف ذھنی یا مفہومی نہیں ہوتا، وہ صرف فعلی بھی نہیں ہوتا بلکہ بایں معنی وجودی بھی ہوتا ہے کہ اس سے میرے وجود سے خیر و شر کے قیام کی شھادت پیدا ہوتی ہے اور میرے اندر بندگی کا ذوق پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ حکم اس کلیت کا نام ہے اور اسے صرف مفہومی فرض کرکے قطعی سمجھ لینا، یہ حکم کے دیگر پہلووں سے کفران نعمت ہے۔
نوعی و کیفیتی قطعیت میں فرق سمجھانے کے لئے آپ رات کی مثال لائے ہیں کہ اپنی نوع کے اعتبار سے رات سورج کی روشنی معدوم ہوجانے کا نام ہے اور اس معنی میں یہ معنی قطعی ہے لیکن اس کے باوجود رات کے کئی شیڈز (مثلا روشنی کم زیادہ ہونا وغیرہ) و احوال ہوتے ہیں جو مختلف افراد کے رات کے ساتھ تعلق سے انفرادی مفاہیم پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ الاسکا کے علاقے کی رات، جنگل کی رات یا کسی شہر کی رات میں فرق ہوتا ہے، اگرچہ رات کا مفہوم یکساں ہے۔ پس نوعی یا لغوی قطعیت کے باوجود مختلف بنا پر فہم معانی میں اختلاف ہوسکتا ہے۔
ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دراصل mechanistic یا قانونی ذہن کی تردید فرمانا چاہتے ہیں جو قطعی الدلالۃ کے نام سے مفہومی یا نوعی قطعیت کو خدا کا کل حکم قرار دینے پر اصرار کرتا ہے۔ احمد جاوید صاحب اس مفہوم میں قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کے انکاری نہیں ہیں جو قانون یا فقہ میں مراد ہوتی ہے۔
کمنت کیجے