حسنین خالد
لفظ جھاد اور قتال سے آخری عمر تک مولانا وحید الدین خان صاحب کی سراسر ایلرجی تھا ۔ عمر کے آخری وقت میں ایک جگہ انھوں نے الرسالہ میں جھاد اور قتال کو “قبائلی کلچر کی توسیع” کہا ہے ۔ (الرسالہ فروری ۲۰۱۵ صفحہ ۱۰) پہلے تو خان صاحب نے مسلمانوں کو جھاد کی منطقی اور تاویلی انداز میں صرف دفاع کے ساتھ خاص کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کی اثبات کے لیے بہت سے سفید أوراق کو سیاہ کیے تھے جس کو ہر بینا و نابینا اسلام کے واضح تعلیمات کے منافی سمجھتے ہیں ۔ لیکن اب خان صاحب مسلمانوں کو غلامی میں دھکیلنے کے لیے اسلام کے اصول و قوانین سے چھلانگ مار کر اس حد تک گہری غور و فکر میں گئے کہ دفاعی جھاد کے بھی انکاری بن گئے اور ایک ایسا موقف پیش کیا جس کے بارے میں میری خیال کے مطابق ان کے بیٹے بھی ان سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گے ۔ الرسالہ میں ” لڑ کر مرجانا اسلام نہیں ہے ” کے عنوان سے لکھتے ہیں:
“ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ جس چیز کی کمی ہے، وہ صبر و تحمل ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ اس کی کی بھاری قیمت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کوئی ہمارے گھر میں گھس آئے تو کیا اس وقت بھی ہم صبر کریں گے ۔ میں نے کہا کہ ہاں ۔ پھر میں نے ان کو ایک حدیث سنائی ۔ میں نے کہا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو فتنے کے دور میں ٹکراؤ سے منع کیا۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، کیا اس وقت بھی جب کہ ایک شخص میرے گھر میں داخل ہو جائے اور مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس وقت تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی طرح بن جاو (سنن أبی داؤد، کتاب الفتن و الملاحم، باب في النهي عن السعی في الفتنة )۔ اس حدیث کو سنے کے بعد مذکورہ مسلمان دو بارہ بحث کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس حدیث کو سننے کے بعد آپ یہ سوچیں کہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو ضرور اس کے اندر کوئی حکمت (wisdom) ہوگی ، اور پر غور کر کے اس حکمت کو دریافت کریں ۔” (الرسالہ : جنوری ۲۰۱۱ ء صفحہ ۱۰ )
خان صاحب کی اس موقف کو آپ ابتدا ہی سے یہ سمجھ لیجیے کہ اس کی جھاد اور قتال فی سبیل اللہ میں شھید ہونے والے اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا ۔ یہ تصور خان صاحب نے مرزا قادیانی اور سر سید احمد خان صاحب سے أخذ کی ہے ۔ جس کا اعتراف ان کے کتاب “تجدید دین” میں “اصلاحی و تجدیدی کوششیں “کے عنوان سے موجود ہے ۔ دراصل قرآن مجید میں قتال فی سبیل اللہ اور جھاد کے حوالے سے آیتیں چار سو سے اوپر ہے دوسری جانب آحادیث کی ہر ایک کتاب میں “کتاب المغازي” “کتاب السیرہ” وغیرہ کے عناوین سے اس پر خاص خاص ابواب درج ہیں ۔ یہ دین کی غلام تعبیر کے لیے راہ ہمواری ہی سمجھے ورنہ خان صاحب کے نقل کردہ حدیث مسلمانوں کی مسلمانوں کے مابین معاملے میں ہیں، کہ اگر مسلمان فتنے کے دور میں ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیں تو دوسرے کو آدم علیہ السلام کی ہابیل بیٹے جیسے بننا چاہیے نہ کہ قابیل جیسے ۔ جبکہ جھاد اور قتال فی سبیل اللہ میں مسلمانوں کا معاملہ کفار کے ساتھ “واضربو فوق الاعناق” کا ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارک ہیں کہ : (لا يدخل الجنة الديوث) جنت میں بے غیرت اور دیوث داخل نہیں ہو گا ۔یہ تو بغیرتی ہیں کہ کوئی غیر مسلم حربی کافر آپ کے گھر گھس جائے اور آپ اس کو اس طرح دیکھتے رہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک یہودی کے ساتھ مسلمان عورت کی چادر کے معاملے میں اونچ نیچ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی ۔
ایک متفق علیہ حدیث میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: امرت ان اقاتل الناس حتى اقول لا إله إلا الله محمد رسول الله ……. مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں کے ساتھ لڑوں جب تک وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ نہ کہے الی آخر الحدیث ۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ص سے روایت ہے کہ : “انا نبي الملحمة “ایک جگہ اور رسول اللہ ص سے نقل ہے “إنما بعثت با سیف ” میں تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ۔حتی کہ ایک حدیث میں یہ بھی ظاہر ہے جس کے لیے سارے مسلمانوں کی تگ و دو شروع ہے : “الجنة تحت ظلال السيوف ” جنت تلواروں کے سائے تلے ہیں ۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانی کے حوالے سے بھی فرمایا کہ: ” من جاهدهم بيده فهو مسلم ” جس نے ہاتھ سے جہاد کیا تو وہ مسلمان ہے ۔ اور یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ اسلام کی کوہان جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ : “رأس الأمر الإسلام وعمودہ الصلاۃ وذروۃ سنامه الجھاد۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امت کے رھبانیت کے حوالے سے بھی یہی فرمایا ہے کہ : “رهبانية هذه الأمة الجهاد في سبيل الله” ۔
اس طرح ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا نام ماحی ذکر کیا ہے جس کا مطلب کفر کو مٹانے والا ہے ۔
مولانا مودودی رح نے دین کی اس غلام تعبیر کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے :
“جہاد فی سبیل اللہ کی یہی فضیلت ہے جس کی بنا پر اسے تمام انسانی اعمال میں ایمان باللہ کے بعد سب سے بڑا درجہ دیا گیا ہے ۔ اور غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ درحقیقت یہی چیز تمام فضائل و مکارم اخلاق کی روح ہے ۔ انسان کی یہ اسپرٹ کے وہ بدی کو کسی حال میں برداشت نہ کرے اور اسے دفع کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجائے، انسانی شرافت کی سب سے اعلی اسپرٹ ہے ۔ اور عملی زندگی کی کامیابی کا راز بھی اسی اسپرٹ ہی میں مضمر ہے ۔ جو شخص دوسروں کے لیے بدی کو برداشت کرتا ہے اس کی اخلاقی کمزوری اسے بلا آخر اس پر بھی آمادہ کردیتی ہے کہ وہ خود اپنے لئے بدی کو برداشت کرنے لگے ۔ اور جب اس میں برداشت کا یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اس پر ذلت کا وہ درجہ آتا ہے جسے خدا نے اپنے غضب سے تعبیر کیا ہے “ضربت عليهم الذلة والمسكنة و باءوا بغضب من الله “اس درجہ میں پہنچ کر آدمی کے اندر شرافت اور انسانیت کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا ۔ وہ جسمانی وہ مادی غلامی ہی نہیں بلکہ ذہنی و روحانی غلامی میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے اور کمینگی کے ایسے گڑھے میں گرتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا محال ہوجاتا ہے ۔ اس کے بالمقابل جس شخص میں یہ اخلاقی قوت موجود ہو کہ وہ بدی کو محض بدی ہونے کے باعث برا سمجھے اور انسانی برادری کو اس سے نجات دلانے کے لئے ان تھک جدوجہد کرتا رہے وہ ایک سچا اور اعلی درجہ کا انسان ہوتا ہے اور اس کا وجود عالم انسانی کے لئے رحمت ہوتا ہے ۔”
(الجھاد فی الاسلام صفحہ :٤٤، ٤٤)
اس طرح اگے لکھتے ہے:
” حق کے آگےسر جھکانا اور ناحق کے آگے سر جھکانے پر موت کو ترجیح دینا ایک شریف قوم کا خاصہ ہونا چاہیے اور اگر وہ اعلائے حق اور اعانت حق کی قوت نہ رکھتی ہو تو اسے کم از کم تحفظ حق پر رہنا چا ہیے جو شرافت کا کم سے کم درجہ ہے ۔ لیکن اس درجے سے گر کر جو قوم اپنے حق کی حفاظت بھی نہ کر سکے اور اس میں ایثار و قربانی کا فقدان اس قدر بڑھ جائے کہ بدی وشرارت جب اس پر چڑھ کر آیے تو وہ اسے مٹانے یا خود مٹ جانے کے بجائے اس کے ماتحت زندہ رہنے کو قبول کر لے تو ایسی قوم کے لیے دنیا میں کوئی عزت نہیں ہے، اس کی زندگی یقینا موت سے بد تر ہے ۔” (ایضا صفحہ : ٤٧)
دلائل اور بحث کرنا بھی ہم چھوڑ دیں گے ہم خان صاحب کے لیے ان کے ہاتھوں لکھی تحریر لے آئیں گے جب کافر اور حربی شخص بھی نہیں تھا ایک مسلمان لڑکا تھا اور اس نے آپ پر چاقو نکالا تھا تب خان صاحب کا کیا رد عمل تھا جس کے بارے میں وہ اپنے تحریر ” لڑ کر مرجانا اسلام نہیں” میں فرماتے ہیں ۔ خان صاحب نے کیا لکھا آئے وہ پڑھے جو اس آیت کے مصداق ہے کہ : “يا أيها الذين آمنوا لما تقولون ما لا تفعلون” لکھتے ہیں:
“اکتوبر ۱۹۹۲ ء کو فجر کی نماز کے بعد رہائش گاہ (سی – ۲۹، نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) کے دروازہ کی گھنٹی بجی ۔ میں نے بارجہ سے دیکھا تو تقریبا ۲۵ سال کا ایک نوجوان لوہے کے گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا تو کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنا ہے۔ میں نے گھر کے خادم محفوظ سے کہا کہ ان کو نیچے ملا قات کے کمرہ میں بیٹھا دو، میں ابھی آتا ہوں ۔ چنانچہ اس نے انھیں نیچے کے کمرہ میں بٹھا دیا۔اس وقت میں اوپر کی پہلی منزل پر تھا۔ چند منٹ بعد میں نے دیکھا کہ وہ آدی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر آ گیا۔ میں بڑھ کر اس کے سامنے آیا اور کہا کہ آپ کو نیچے کے کمرہ میں بٹھایا تھا، پھر آپ اوپر کیسے آگئے۔ اس نے کچھ جواب دیئے بغیر میرے اوپر ہاتھ اٹھادیا۔ میں نے تیزی سے اس کو پکڑ کر فرش پر گرا دیا اور اس کی گردن دبا کر اس کی پیٹھ پر چڑھ گیا۔ میرے بیٹے ثانی اثنین خان اس وقت دوسری منزل پر تھے۔ ان کو آواز دے کر بلایا ۔ اس وقت سامنے کی سڑک پر کالونی کے کئی چوکیدار جمع تھے ۔ شور وغل سن کر وہ لوگ بھی لاٹھیاں لیے ہوئے اندر آ گئے ۔ اس کے بعد یہ لوگ اس آدمی کو پکڑ کر قریب کے پولیس اسٹیشن لے گئے اور اس کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس موقع پر میں نے جو کچھ کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت میرے لیے دوسرا انتخاب باقی نہ تھا ، اگر آدمی کے لیے جنگ اور غیر جنگ میں انتخاب کی آزادی ہوتو اس کو غیر جنگ کا انتخاب کرنا چاہیے مگر جب حالات ایسے ہوں کہ کوئی اپنادفاع کرے یا حملہ آور کے حملہ کا شکار بنے تو ایسے مواقع پر اس کو دفاع کا طریقہ اختیار کر نا چا ہے ۔ ” ڈائری: (۱۹۹۱-۱۹۹۲ صفحہ : ۳۰۸)
اس تقابل سے خان صاحب کی تحریر اور عمل کا فرق معلوم ہوا کہ مذکورہ موقف” لڑ کر مر جانا اسلام نہیں ہے” صرف کاغذ اور قلم کی حد تک کالی سیاہی ہو سکتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا خان صاحب کے بس کی بات بھی نہیں ہے ۔
جاوید احمد غامدی صاحب جس کو خان صاحب اپنے استاد مانتے تھے ان کا خان صاحب کی تصور جھاد کے بارے میں کیا رائے تھی وہ خان صاحب کی غلام تعبیر کی راہ ہمواری کے مکمل خلاف ہے ایک استفسار کے جواب میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے فرمایا ہے :
” سوال: کیا یہ درست ہے کہ مولانا وحید الدین خاں صاحب جہاد کے خلاف ہیں ؟ آپ کا اس بارے میں کیا نقطہء نظر ہے ؟
جواب: جہاد کے بارے میں مولانا کا ایک نقطہء نظر یہ ہے کہ جہاد صرف دفاع کے لیے ہوتا ہے ، اپنے اس نقطہء نظر کے حق میں انھوں نے دلائل دیے ہیں ، انھیں پڑھ لیجیے ، ہو سکتا ہے کہ آپ کا اطمینان ہو جائے ۔ میرا ان کے استدلال پر اطمینان نہیں ہو سکا ۔ اس حوالے سے میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ دفاع کے لیے جنگ سرے سے دین کا موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ تو فطرت کا تقاضا ہے ۔ جب کوئی آدمی مجھ پر چڑھ دوڑے گا تو میرا یہ فطری حق ہے کہ میں اپنا دفاع کروں ۔ اس معاملے میں دین و شریعت کو کوئی حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں ۔ دین میں تو ظلم و عدوان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب کہیں انسانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہو ، ان پر زیادتی کی جا رہی ہو ، اور خاص طور پر انھیں دین پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہو،دین پر عمل کرنا ان کے لیے جان جوکھم کاکام بنا دیا گیا ہو تو یہ فتنہ ہے ، اس فتنے کے استیصال کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور یہ دفاع کے طریقے پر بھی ہو سکتا ہے اور کسی پر حملہ کر کے بھی ہو سکتا ہے ۔” (ماہنامہ إشراق لاہور اپریل ۲۰۱۱: ء صفحہ ۲۸)
اب آتے ہیں کہ جھاد کیا ہے تو اس کی لغوی اور اصطلاحی تعریف میں گنے چنے چند حضرات کے علاوہ باقی تقریباً پوری امت کا اتفاق رائے ایک جیسی ہے ۔ عصر حاضر کے معروف محقق فروفیسر محمد مشتاق نے جھاد کی جامع اور مدلل لغوی تحقیق کے بعد اصطلاحی تعریف کچھ یوں ذکر کیا ہے :
“پس مسلم یا غیر مسلم معاشرے میں اعلاء كلمة الله کے لیے کی جانے والی ہرکوشش جہاد کے وسیع مفہوم میں شامل ہے، اسی طرح دینی احکام پرعمل کے لیے اپنی ذات کی اصلاح کے لیے کوشش بھی جہاد کے وسیع مفہوم میں شامل ہے، تاہم ایسی کوششیں قتال (جو جہاد کا خاص مفہوم ہے) نہیں کہلائی جاسکتیں، نہ ہی یہ کوششیں قتال کا بدل ہوسکتی ہیں۔ گویا جہاں شریعت کے احکام کی روشنی میں قتال فرض ہو چکا ہو وہاں جہاد کی دوسری اقسام پر عمل پیرا ہونے سے قتال کا فریضہ ادا نہیں ہوگا۔ اپنی اصلاح کی کوشش، یا اصلاح معاشرہ کی جدوجہد مستقل فرائض ہیں اور قتال (جب اس کی فرضیت کے اسباب موجود ہوں ) ایک مستقل فریضہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے نماز کی ادائیگی کسی ایسے شخص کو فریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے مبرا نہیں کرسکتی جس پر زکوٰۃ فرض ہو چکی ہو۔” (جہاد مزاحمت اور بغاوت : صفحہ ٢١٨)
خان صاحب کا لٹریچر مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانے کے بجائے غلامی کی زنجیروں کو رنگ کرنے کی وعظ و تلقین سے بھرا ہے ۔ ہم نے قلم محض اس وجہ سے اٹھایا کہ وہ اسے قرآن و حدیث کی منشاء سمجھتے ہیں ۔ وہ امت مسلمہ میں اپنے سوچ و فکر کے لحاظ سے رجل واحد تھا جو اوروں کو نہ چھیڑنے کے بجائے سب پر نسخ کی لکیر کھینچ کر خود کو ناسخ سمجھتے تھے ۔ خان صاحب کے رد الحاد اور چند تذکیری لٹریچر کے علاوہ باقی تمام لٹریچر میں آپ کو اسلام کے حوالے سے خواب غفلت کے انٹی بیاٹکس (Anti biotics) ملے گی، جس سے آپ غلامی سے مزہ لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں لے سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسنین خالد آف ملاکنڈ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں اصول الدین کے طالب علم ہیں۔
کمنت کیجے