Home » کلامِ علی عباس در بابت ارطاطالیس و فلاطون
تاریخ / جغرافیہ سماجیات / فنون وثقافت شخصیات وافکار فلسفہ

کلامِ علی عباس در بابت ارطاطالیس و فلاطون

عمران شاہد بھنڈر

علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب “اقبال کا علم کلام” میں لکھا ہے کہ یہودی متکلم فیلو نے کہا کہ “ارسطو اور افلاطون پیغمبر موسی کے پیروکار تھے۔”
یہ پڑھنے کے بعد یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ اس حد تک غیر ذمہ دارانہ بات کوئی سنجیدہ مفکر کیسے کر سکتا ہے؟ ارسطو کی طرف تو بعد میں آتے ہیں پہلے یہ جان لیں کہ ہر یونانی فلسفی، سوائے افلاطون کے، کائنات کو قدیم مانتے تھے۔ صرف افلاطون ایک ایسا فلسفی تھا جس کے مطابق کائنات کا مادہ قدیم ہے، خدا نے صرف اس پر بطور ایک کاریگر کام کیا ہے۔ یہ فکر بائبل کی کتاب پیدائش سے یکسر الٹ تھی جس کے تحت خدا نے کائنات کو چھ دن میں مکمل کیا۔ جہاں تک ارسطو کی بات ہے تو وہ کائنات کو قدیم مانتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ارسطو کے نزدیک موت کے بعد جسم کے ساتھ روح بھی فنا ہو جاتی ہے اور کوئی زندگی نہیں ہے۔ کیا یہ موسی کی پیروی میں کہا گیا تھا؟ صرف افلاطون روح کی بقا کا قائل تھا نہ کہ جسم کے اٹھائے جانے کا۔ کیا یہ موسی کے خیالات ہیں؟ ارسطو اور افلاطون دیوتاوں پر یقین رکھتے تھے لیکن ان کے دیوتا ان کو منطق ایجاد کرنے سے نہ روک سکے۔ کیا موسی نے کوئی منطق لکھی؟ افلاطون نے اپنے مکالمات میں سچ تک پہنچنے کا جو جدلیاتی منہج تشکیل دیا تھا، کیا موسی کے ہاں ایسا کوئی منہج موجود ہے؟ فیلو یہودی کا خیال تھا کہ افلاطون کی مثالی دنیا کی موسی کی حیات بعد ممات دنیا سے مصالحت کرائی جا سکتی ہے۔ جن لوگوں نے توریت کو پڑھا ہے وہ جانتے ہوں گے کہ اس میں جنت کا ذکر انتہائی مبہم انداز میں صرف دو یا تین مقامات پر ہوا ہے۔ افلاطون کی مثالی دنیا عقل سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ کسی پیغمبر کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ پھر توریت میں بیسیوں مقامات پر مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے تمام مردوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ کیا افلاطون اور ارسطو نے ایسا کبھی کہا؟ یہ ایسی بنیادی باتیں ہیں کہ جن میں موسی کی تعلیمات اور ارسطو اور افلاطون کی تعلیمات میں بعدالمشرقین ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جدید تحقیق کے مطابق توریت موسی سے ایک ہزار برس بعد لکھی گئی۔ موسی سے متعلق ساری باتیں قصے کہانیوں کی شکل میں زبانی کلامی آگے منتقل ہوتی رہیں۔ توریت کی اشاعت یونانی فلسفے کی اشاعت کے بعد ہوئی۔ ارسطو اور افلاطون کی کتابوں میں تھیلس، انیکساغورس، ایمپیڈوکلز، انیکسی مینڈر، پارمینائیڈز، سقراط، پروٹاغورس، ڈیموکریٹس، لیوسیپس سمیت کئی دوسرے فلسفیوں پر بحث موجود ہے، لیکن موسی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ارسطو نے اپنی تین کتابوں مابعدالطبیعات، فلکیات اور فزکس میں فلکیات پر گہری گفتگو کی ہے جو سینکڑوں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ کیا موسی کو فلکیات کا  علم تھا؟ پتا نہیں کیوں یہ لوگ غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے رہتے ہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفہ کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں