Home » قرآنِ مجید میں نظم کلام ــــ ایک تنقید کا جائزہ
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب شخصیات وافکار کلام

قرآنِ مجید میں نظم کلام ــــ ایک تنقید کا جائزہ

سید منظور الحسن

نظم کلام کے تصور پر جناب احمد جا وید صاحب کی  گفتگو اُن کے موقف کی فی نفسہ ٖشہادت ہے۔[1] بلا شبہ وہ فرد فرد خیالات کا مجموعہ، پریشان افکار کا مرقع اور نا مربوط تاثرات کا آمیختہ ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ غالباً وہ قرآنِ مجید کے ساتھ  انسانی کلام میں بھی ربط و ارتباط کے قائل نہیں ہیں۔’’نظم قرآن کے ایک تصور پر تنقید‘‘ کے زیرِ عنوان  اُنھوں نے استاذ ِگرامی جناب جاوید احمد غامدی کے  فکر کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور  بعض تنقیدی مفردات بیان کیے ہیں۔ اِن میں سے چند نمایاں درجِ ذیل ہیں:

1۔ غامدی صاحب کا تصورِ نظم قرآن اُن کی تعبیرِ دین کی بنیاد ہے۔ اِس تصور نے  دین کی ایک منفرد اور جامع و مانع تعبیر  کو وجود بخشا ہے۔ نتیجتاً  علماے دین کی  مستنَد، مسلم اور مقبول  روایت   ناقابل اعتبار ٹھہری ہے۔

2۔ غامدی صاحب کے اصولِ تفسیر میں نظم کلام کا تصور قرآنِ مجید سے مقدم ہے۔ لہٰذا وہ اِس کی روشنی میں کتابِ الہٰی کو سمجھتے اور اِس کی متابعت میں اُس سے احکام کا استخراج کرتے  ہیں۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ   ایک ایسا تصور جو قرآن کے متن سے خارج اور اُس کے وجود سے ماورا ہے، اُسے فہم قرآن کی واحد لازمی شرط بنا دیا گیا ہے۔ یہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔[2]

3۔ اِس غلطی کا  سبب کتاب الہٰی کو انسانی کتابوں کی ساخت پر محمول کر نا ہے۔ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جس طرح انسانی کلام ایک نظم و ترتیب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اُسی طرح  الہامی کلام کو بھی منظم و مرتب کر کے نازل کیا گیا ہے۔ یہ ایک خطرناک مغالطہ ہے۔ اِس کے نتیجے میں کلام الہٰی ہمارے مفروضہ اصول میں مقید ہو جاتا ہے۔ اِس طرح کے اصول و قواعد انسانی کلام کے لیے تو استعمال  کیے جا سکتے ہیں، مگر کلام الہٰی کے فہم کو محل خطر میں لا سکتے ہیں۔

4۔ غامدی صاحب کا یہ قول درست نہیں ہے کہ ’’قرآن کی ہر سورہ کا ایک متعین نظم کلام ہے۔‘‘ اِسی طرح مولانا اصلاحی کی بھی یہ بات غلط ہے کہ ’’جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم کی ہدایات ہیں۔‘‘ اِن  اقوال کی تردید کی  دلیل یہ  مسلمہ   امر ہے  کہ  متعین  چیز مخفی نہیں ہو سکتی۔ اُسے لازماً واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے  اور ہر صاحبِ علم  کو کسی تحقیق یا تاویل کے بغیر اُسے سمجھ لینا چاہیے۔اِس بنا پر دیکھیے تو  ہماری مذہبی علمی روایت کی واقعاتی شہادت  سےنظم قرآن کے تصور کی تردید  ہو جاتی ہے۔ سلف و خلف کے علما کا کام شاہد ہے کہ اُنھوں نے کسی مفروضہ  یا موضوعہ نظم کی پابندی کے بغیر قرآن سے احکام و ہدایات کو درست طور پر اخذ کیا ہے۔

5۔ اِس غلطی کا محرک عصر حاضر کی بالادست اقوام کے علوم و افکار کی اثر پذیری ہے۔ غامدی صاحب کے تشریعی اطلاقات اور تفسیری نتائج سے اِس امر کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا  ہے۔  یہ مغربی اقوام کے خیالات، عادات اور طبائع سے ہم آہنگ ہیں۔  غامدی صاحب کے فکری مؤیدین کے عملی رجحانات سےبھی اِس قیاس  کی تصدیق ہوتی ہے۔

اِن مفردات کے تناظر میں فاضل متکلم کے کلام پر  راقم کے تحفظات درج ذیل ہیں۔

اولاً،  فاضل متکلم کے کلام سے یہ واضح نہیں ہے کہ  اُنھوں نے  اِسے کس نظام فکر میں کھڑے ہو کر ارشاد کیا ہے۔ فلسفے کے نظام فکر میں، تصوف کے نظام فکر میں، علم کلام کے نظام فکر میں، علم اللسان کے نظام فکر میں یا علوم اسلامی کے نظام فکر میں؟ اِس  امر کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نظام فکر مختلف مقدمات، جداگانہ  طرزِ استدلال اور منفردعلم کلام  کا حامل ہے۔ ایک کے اندر کھڑے ہو کر دوسرے کے بارے میں  بحث و تمحیص مفیدِ مطلب نہیں ہو سکتی۔  اِس طرح نہ  کوئی علمی مقدمہ قائم ہوتا، نہ بات کا ابلاغ ہوتا اور نہ  صحت و خطا کا تعین ہوسکتاہے۔ محض  ایک عمومی خیال آرائی سامنے آتی ہے،  جس کا مقام و مرتبہ خود کلامی سے زیادہ نہیں  ہوتا۔

ثانیاً، نظم قرآن کے باب میں غامدی صاحب کےموقف کو بیان کیے بغیر اُس پر تبصرے کا آغاز کیا  گیا ہے۔ مثبت اندازِ تنقید اِس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ پہلے اُس موقف کو بے کم و کاست بیان کیا جائے، جس پر نقد مقصود ہے۔ اِس کے نتیجے میں یہ بات سب پر عیاں ہو جاتی ہے کہ  جس نقطۂ نظر کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے، وہ ناقد پر پوری طرح واضح ہے یا وہ اُسے سمجھے بغیر دادِ تحقیق پیش کر رہا ہے۔

ثالثاً، غامدی صاحب کے تصورِ نظم پر نقد کا آغاز کرنے کے لیے درست مقام کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اِس مقصد کے لیے ’’میزان‘‘ میں ’’نظم کلام‘‘ کے زیرِعنوان لکھی گئی بحث کو منتخب کیا ہے۔ اِس  بحث کو دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی الگ مضمون نہیں، بلکہ کتاب کے مقدمے ’’مبادی تدبرِ قرآن‘‘ کے دس نکات میں سے آٹھواں نکتہ ہے۔ سات نکات اِس سے پہلے  ہیں۔ یہ سب باہم متصل اور مربوط ہیں اور خاص استدلالی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں۔ اِن میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو نظم قرآن کی بحث میں اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن سے صرفِ نظر کر کے نظم کلام   کے نکتے سے نقد و جرح  کا آغاز ابلاغِ نقد  کے لیے کار گر  نہیں ہو سکتا۔

تفہیم مدعا کے لیے اِس  بات کی  کچھ تفصیل عرض ہے۔ دیکھیے، ’’مبادیِ تدبرِ قرآن‘‘ کے اِن  نکات میں سے پہلی چیز یہ بیانِ واقعہ ہے کہ قرآنِ مجید عرب کے قبیلۂ قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ گویا پروردگارِ عالم نے نہ وہ زبان اختیار فرمائی ہے،  جس میں وہ مثال کے طور پر فرشتوں سے یا جنوں سے یا  اجرام فلکی سے یا زمین و آسمان کی متنوع مخلوقات سے ہم کلام ہوتے ہیں اور نہ کسی نئی زبان کو وجود بخشا ہے۔ اِس کے برعکس اُسی  زبان کا انتخاب فرمایا ہے، جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قبیلۂ قریش کی زبان تھی۔ یہ انسانوں کی زبان تھی، جو اُنھوں نے نطق کی فطری صلاحیت کی بنا پر صدیوں کے تعامل سے تشکیل دی تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کی بہم رسانی کے لیے وہی الفاظ، وہی اسالیب، وہی استعارے، وہی کنایے، وہی تشبیہات، وہی روز مرہ، وہی محاورے استعمال کیے، جو انسانوں کے وضع کردہ تھےاور قریش عرب میں ابلاغ مدعا کے لیے مستعمل تھے۔[3]

’’مبادیِ تدبرِ قرآن‘‘ میں دوسری چیز  اِن نصوص کا بیان ہے کہ اللہ نے قرآن کو عربی مبین، یعنی واضح عربی زبان میں نازل فرمایا  ہےاور اُس کے بیان کو ہر طرح کی کجی اور ہر قسم کے الجھاؤ سے  پاک رکھا ہے۔ تیسری چیز  یہ بیانِ واقعہ ہے کہ قرآن  کا اسلوب نظم و نثر کے عام اسالیب سے مختلف ایک منفرد اسلوب ہے۔ چوتھی چیز  یہ نصوص ہیں کہ  قرآن  کا متن حق و باطل کے لیے ’میزان ‘اور ’فرقان ‘اور تمام سلسلۂ وحی پر ایک ’مہیمن‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔یعنی حق و باطل میں امتیاز کے لیے یہی کسوٹی اور معیار ہے۔ پانچویں چیز قرآن کی وہ تعریف ہے، جو خود اُس نے اپنے بارے میں کی ہے کہ وہ ’کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا‘ ہے۔ یعنی اُس کے مضامین اِس انداز سے بار بار سامنے آتے ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے شرح و تفسیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ چھٹی چیز اِس واقعے کا بیان ہے کہ قرآن خدا کی آخری کتاب ہدایت ہے اور خدا ہی کی طرف سے ودیعت کیے گئے فطرت کے حقائق، دین ابراہیمی کے مراسم اور نبیوں کے صحائف اِس سے پہلے ہیں۔[4] ساتویں چیز یہ واقعہ ہے کہ قرآن اپنے مضمون کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگذشت ِ انذار ہے ۔

اِن سات چیزوں کے بعد نظم کلام کی بحث ہے، جس کا آغاز اِن الفاظ سے ہوا ہے:

’’آٹھویں چیز یہ ہے کہ قرآن کی ہر سورہ کا ایک متعین نظم کلام ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الگ الگ اور متفرق ہدایات کا کوئی مجموعہ نہیں ہے،بلکہ اُس کا ایک موضوع ہے اور اُس کی تمام آیتیں نہایت حکیمانہ ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اُس موضوع سے متعلق ہوتی ہیں۔ …‘‘

(میزان 51)

رابعاً،  اِس امر کا خیال نہیں کیا گیا کہ جس روایتی مذہبی فکر  کا اعتبار کر کے تنقید، تغلیط اور تردید  کی جا رہی ہے، اُس کا اپنا علمی طرزِ عمل کیا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ’مقدم از قرآن‘ اور  ’خارج از قرآن‘   کے جن دلائل کو غامدی صاحب کے فکر  کی تردید کے لیے وضع کیا گیا ہے، وہ روایتی  فکر کے تصورات کی تردید  کے لیے بھی یکساں طور پر  کارآمد  ہو گئے ہیں۔  گویا  جوسیفِ   برہان تصورِنظم قرآن کے لیے بے نیام کی گئی ہے، وہ علوم القرآن کے روایتی تصورات ــــمکی و مدنی، ناسخ و منسوخ،  محکم و متشابہ،  وجوہ و نظائر، اعجاز القرآن اور تفسیر القرآن بالقرآن ــــ   کے لیے بھی قاطع ہو گئی   ہے۔[5]

بہرحال یہ سراسر الزام ہے کہ نظم قرآن کا اصول خارج سےمسلط کیا گیا ہے۔ ہرگز  نہیں،  یہ اُسی طرح قرآنِ مجید کے متن سے مستنبط ہے، جس طرح  علوم القرآن کے مذکورہ بالا اصول قرآن کے  کلام پر مبنی ہیں  اور اُسی سے اخذ و استنباط کر کے مرتب کیے ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ کتابِ الہٰی کا متن اپنے وجود سے شہادت دیتا ہے کہ وہ متفرق اجزا کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک منضبط اور منظم کلام  کا شہ پارہ ہے۔

برسبیل تنزل عرض ہے کہ اگر موقع ہو تو  ’مقدم از قرآن‘ اور ’خارج از قرآن‘ کی بحث  کے تناظر میں تفسیر بالماثور کے اصول کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور  بتانا چاہیے کہ اُس کا قرآن کے داخل سے کیا تعلق ہے؟

خامساً، تصورِ نظم قرآن کی تغلیط کے لیے بعض ایسے دلائل پیش کیے گئے ہیں، جو علمی لحاظ سے ناقابلِ اعتنا ہیں۔ اِس کی سب سے نمایاں مثال  یہ استدلال   ہے کہ  کلام میں تعیین اورعمومی توضیح اور ابہام  اور عمومی اخفا باہم لازم و ملزوم ہیں۔یعنی اگر کوئی چیز متعین ہے تو ضروری ہے کہ وہ سب کے لیے یکساں طور پر واضح ہو۔ اگر سب لوگ اُس سے یکساں وضاحت حاصل نہیں کر سکے تو اِس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ متعین  نہیں ، بلکہ مبہم ہے۔

اِس طرزِ استدلال کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر ایک مشہود واقعے کو دیکھنے والے افراد اگراُس کے بیان میں اختلاف رکھتے ہیں تو اُس سے اُس کا وقوع لازماً غیر حتمی ہو جاتا ہے یا  کسی گفتگو کو سننے والے اُسے نقل کرنے میں مختلف ہیں تو اِس کا  لازمی مطلب یہ ہے کہ اُس کا مفہوم غیر واضح ہے، اِسی  طرح کسی کتاب  کے قارئین یا شارحین اگر اُس کے مطالب پر متفق نہیں ہیں تو لازم ہے کہ وہ کتاب ابہامات کا مجموعہ ہو۔ اِن مثالوں میں استدلال کی غلطی یہ ہے کہ تعیین کا معیار یک طرفہ طور پر وصول کنندہ کو مان  لیا گیا ہے اور  خطا کو ارسال کنندہ  پر  منحصر کر دیا گیا ہے۔[6]  یعنی شاہد، سامع اور قاری  فیصلہ کن مقام پر فائز ہیں اور ابہام و اخفا یا نقص و خطا کی تمام ذمہ داری مشہود، متکلم اور مصنف پرعائد کر دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ مدرسۂ فراہی کے علما کے نزدیک  تعیین حقائق کے معاملے میں فیصلہ کن حیثیت دو چیزوں کو حاصل ہے:

ایک، مصدر ،

دوسرے، شواہد و دلائل۔

وصول کنندگان کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔

چنانچہ  مصدر اگر اللہ کا کلام ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل ہے یا صحابۂ کرام  کا  اجماع  ہے تو  باقی تمام انسانوں کے مقابلے میں اِنھی کو معیار مانا جائے گا۔ اِن کی بات کے فہم میں اگر اختلاف ہو گا تو اُس میں صحت یا عدم صحت کا فیصلہ سامعین، قارئین یا شارحین کی اکثریت و اقلیت یا اُن کےاتفاق و اختلاف سے نہیں، بلکہ عقل و نقل کے دلائل سے کیا جائے گا۔

یہی موقف ہمارے اسلاف کا ہے۔ علم حدیث پر محدثین اور فقہا کے کام پر غور کیا جائے تو ہماری بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے۔

حدیث کی تعیین و عدم تعیین، ردو قبول  اورتفہیم و تشریح میں اصل اور فیصلہ کن حیثیت اُس کے مصدر یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور من حیث المجموع آپ کے اقوال و افعال کو حاصل ہے۔ راویوں کےفہم، محدثین کی تحقیقات، شارحین کی تشریحات اور فقہا کے اطلاقات  کو  یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اِس معاملے میں اگر اختلاف ہو تو اُس کا فیصلہ عقل و نقل کے دلائل سے کیا جاتا ہے، افراد کی قبولیت یا عدم قبولیت کو معیار نہیں بنایا جاتا۔ چنانچہ اِس علم کا  معمول ہے کہ علما  کی ایک جماعت کے معیارات پر پوری اترنے والی صحیح اورحسن کے درجے کی روایات  کو کوئی صاحب ِ علم بعض اوقات خلافِ قرآن ہونے کی بنا پر ، بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متواتر عمل سے متصادم ہونے کی وجہ سے، بعض اوقات مخالفتِ عقل کی دلیل سے اور بعض اوقات استحالۂ عقلی کی بنیاد پر رد کر دیتا ہے۔[7] یہی معاملہ برعکس طور پر بھی ہے۔ یعنی کبھی سنداً ضعیف روایتوں کو عقلی شواہد و قرائن کی بنیاد پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے قبول کر لیا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے  کہ تعیین صحت و قبولیت کی اساس دو ہی نکات پر مبنی ہے:

ایک: نسبت اور دوسرے: عقل و نقل کے دلائل۔

انسانوں کی اقلیت یا اکثریت یا اُن کے اختلاف و اتفاق یا اُن کے تفرد و اجماع کو یہ حیثیت  ہر گز حاصل نہیں ہے۔

یہ جناب احمد جاوید صاحب کے مفردات پر راقم کے  تحفظات کا خلاصہ ہے۔  اِن کے بیان سے مقصود اُن مخمصات  اور ترددات کی نشان دہی ہے، جو  اُن کی گفتگو سے ظاہر و باہر ہیں اور  جن   سے اعتنا برتے بغیر نظم کلام پر تنقید سعی لا حاصل  کے مترادف  ہے۔ ھذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

خاتمۂ کلام کے طور پر  مناسب ہو گا کہ نظم قرآن کے زیرِ بحث  موضوع پر بھی   اپنے زاویۂ  نظر سے چند  نکات پیش کر دیے جائیں :

1 ۔  کلام الہٰی  ابلاغِ معانی کے لیے نازل ہوا ہےاور ابلاغِ معانی   نظم کلام  کو لازم کرتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کا مخاطب  ـــ انسان ــــ منظم کلام ہی کو سمجھ پاتا ہے۔ یعنی وہی کلام اُس کے فہم و ادراک تک رسائی حاصل کر تا ہے،  جس کا واضح مضمون اور متعین مدعا ہو۔ جس کا کوئی پس منظر،   کوئی سیاق و سباق ،  کوئی دروبست،  کوئی آغاز   اور کوئی اختتام ہو ۔   اِن اجزا سے خالی  مجموعۂ الفاظ اُس کے لیے ناقابلِ فہم ہوتا ہے۔ سبب یہ ہے کہ  اُس میں نہ  خطاب کا رخ متعین ہوتا ہے، نہ مخاطب کی تعیین ہوتی ہے،نہ محذوفات و مقدرات واضح ہوتے ہیں ، نہ روزمرہ اور محاورے سمجھ میں آتے ہیں، نہ لف و نشر کی ترتیب کا پتا چلتا ہے، نہ تلمیحات سے آگاہی ہوتی ہے، نہ تشبیہ و استعارے اور اشارے کنایے کے رموز کھلتے ہیں اور نہ  اصل اور فرع، اصول اور اطلاق اور  حقیقت اور مجاز میں فرق نمایاں ہوتا  ہے۔ یہی وہ انسانی ضرورت یا محدودیت ہے، جس  کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک منظم و مرتب کلام ارشاد فرمایا ہے۔

2۔  کلامِ الہٰی کا مقصود فقط ابلاغِ معانی نہیں ہے، بلکہ اُس ابلاغ کو اتمام حجت کے مقام تک پہنچانا بھی ہے۔  یعنی اُسے اِس سطح پر انذار کرنا ہے کہ  مخاطبین اگر اُس کے پیغام کا  انکار کریں  تو اُنھیں   صفحۂ ہستی سے مٹا  کر ابدی جہنم کا مستحق بنا دیا جائے۔  لہٰذا یہ ضروری ہےکہ اُس کے الفاظ اُس کے مدعا پر پوری طرح واضح ہوں۔ وہ نہ صرف ایہام و ابہام اور تعلی و مبالغے جیسے اُن صنائع سے پاک ہو، جو شعر و ادب کا لازمی جز سمجھے جاتے ہیں، بلکہ اپنے بیان میں پوری طرح منظم و مرتب بھی ہو۔

3۔ اللہ نے قرآن کو محض عربی میں نہیں، بلکہ عربی مبین میں نازل فرمایا اور اُس کے بیان کو ہر طرح کی کجی اور ہر قسم کے الجھاؤ سے  پاک رکھا  ہے۔ ’نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ، عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ‘[8] اور ’قُرْاٰناً عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ‘[9]  کے نصوص اِسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ یہ دونوں آیتیں نظم کلام کے مفہوم پر دال ہیں۔   اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی غیر منظم کلام ‘مبین’ اور’غیر ذی عوج’ نہیں ہو سکتا۔ اُس میں خلا ہوں گے، فواصل ہوں گے، اخفا ہوں گے، اغلاق ہوں گے، الجھاؤ ہوں گے۔ اِن کی بہ دولت اُس  کی نوعیت لا ینحل چیستان کی ہو گی،  جو مدعا  کے ابلاغ سے قاصر ہو گا۔   سورۂ شعرا  کی مذکورہ آیت کی وضاحت میں امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

’’ یہ اہل عرب پر اظہار احسان ہے کہ اللہ نے یہ تم پر خاص فضل فرمایا ہے کہ اُس نے اُس کلام کو نہایت واضح عربی زبان میں اتارا ہے۔ یہ چیز تمھارے لیے باعثِ شرف بھی ہے اور اِس میں تمھارے اوپر اتمام حجت بھی ہے۔ اب تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ تم اِس کے سمجھنے سے قاصر رہے۔ اِس اہتمام کے بعد بھی اگر تم نے اِس کی قدر نہ کی تو اِس کی ذمہ داری تمھارے ہی اوپر ہو گی۔‘‘ (تدبر قرآن 5/558)

4۔ ’القرآن لا یحتمل إلا تأویلاً واحدًا[10]  کا اصول نظم کلام کا  فطری نتیجہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ  جب نظم کی بہ  دولت مدعا غیر مبہم ہو اور بات پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جائے  تو ایک سے زیادہ تاویلات کا امکان سرے سے  ختم ہو  جاتا ہے اور قاری کے لیے کلام الہٰی کی دلالت  اُس کے مفہوم پر قطعی ہو جاتی ہے۔

اِس پر بادی النظر میں  یہ اعترض کیا جاتا ہے کہ اگر قرآن  تاویل واحد پر مبنی ہے تو پھر مفسرین میں اختلاف کیو ں پایا جاتا ہے؟ اِس  اعتراض میں جہاں تک اِس مفروضے کا تعلق ہے کہ اختلاف قطعیت کو ختم کرتا اور ظنیت  کو لازم کرتا ہے، تو اِس کا محاکمہ سطورِ بالا میں ہو چکا ہے۔ تاہم،  اِس کے باوجود چند  مقدر سوالوں  کا جواب ضروری ہے:[11]

ایک سوال یہ ہے کہ  اگر کوئی مفسر نظم کلام کی رو سے  کسی آیت کی واحد تاویل  کرتا ہے تو کیا اُس تاویل  کا کلام الہٰی  کے مدعا کے عین مطابق ہونا لازم ہے؟

اِس کا جواب نفی میں ہے۔

عین ممکن ہے کہ وہ منشاے الہٰی کے مطابق ہو اور عین ممکن ہے کہ اُس سے غیر مطابق ہو۔ اِس کا  صحیح علم قبل از قیامت ممکن نہیں ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر  تاویل کی صحت یا عدم صحت کا علم قیامت تک موقوف ہے تو  پھر اُسے قطعی کیوں کہا جاتا ہے؟

اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ اِس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تاویل جانبین کے لیے قطعی  کے درجے میں ہوتی ہے۔ متکلم  ــــ اللہ تعالیٰ ــــ کے لیے تو بلاشبہ قطعی ہے، مگر مخاطب ــــ انسان ـــــ کےلیے بھی اِس بنا پر قطعی ہوتی ہے کہ وہ اُسے بلا تردد اپنے پروردگار کا منشا سمجھ رہا ہوتا ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ ایک مفسر کی تاویل واحد کیا دوسرے افراد کے لیے بھی قطعی کا درجہ رکھتی  اور اِس بنا پر اُن کے لیے حجت قرار پاتی ہے؟

اِس کا جواب نفی میں ہے۔ ہر عالم و عامی اُسی بات کا مکلف ہے، جسے وہ اپنے علم و فہم کے مطابق خدا کی بات کے طور پر قبول کرتا ہے۔ دوسرے کے علم و تحقیق کو قبول کرنا لازم نہیں ہے۔

چوتھا سوال یہ ہے کہ اگرقطعیت کا دائرہ فردِ واحد ہی تک محدود ہے تو پھراُسے ظنیت سے کیوں تعبیر نہیں کر دیا جاتا؟

اِس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اِس لیے نہیں کیا جاتا، کیونکہ اِس کے نتیجے میں اولاً، متکلم ـــ اللہ تعالیٰ ــــ کے کلام پر ظنیت کا الزام آتا ہے، جو بالبداہت باطل ہے اور ثانیاً، مخاطب کے لیے دین کے علم و عمل کو شعوری طور پر اختیار کرنا ممکن نہیں رہتا۔

پانچواں سوال یہ ہے کہ تاویل واحد اور قطعیت اور ظنیت کے اِس تصور کی تفہیم کے لیے کیا قرآنِ مجید سے کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟

اِس کا جواب اثبات میں ہے۔

شریعت کے مطابق رمضان کی راتوں میں بیویوں کے پاس جانا جائز ہے۔ زمانۂ رسالت میں بعض مسلمان اِس اجازت سے لاعلم تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس سے منع فرمایا ہے۔ یعنی وہ اِس معاملے میں شریعت کی غلط تاویل پر قائم تھے۔ اُن میں سے بعض لوگوں نے جب بیویوں سے رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس اقدام کو اپنے آپ  کے ساتھ خیانت سے تعبیر کیا اور اپنی جناب  میں خطا قرار دیا۔

اِس مثال سے واضح ہے کہ اللہ کا قطعی حکم ’جواز‘ کا تھا، جب کہ لوگ ’عدم جواز‘ کو اللہ کا قطعی حکم سمجھ رہے تھے۔ یعنی قلتِ علم کے باعث تاویل کی غلطی کا شکار تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ نے کس قطعیت کا اعتبار کیا؟ خدائی قطعیت کا یا انسانی قطعیت کا؟ جواب یہ ہے کہ قرآن سے واضح ہے کہ اللہ نے انسانی قطعیت کا اعتبار کیا۔ یعنی اُن کی غلط تاویل کو اِس لیے خیانت قرار دیا کہ وہ اُن کے نزدیک صحیح تاویل تھی۔

اِس مثال سے واضح ہے کہ جب انسانی سطح پر قطعی کا لفظ بولا جاتا ہے تو وہ خدائی سطح پر ابدی قطیعت  کو لازم نہیں کرتا۔ اِس قطعیت کا تعلق انسان کے حدودِ  علم و ادراک  سے ہوتا ہے اور یہ انسان کے اجتماعی شعور پر  مبنی ہوتی ہے۔یہ شعور قطعیت کے حق میں دلائل  فراہم کرتا ہے اور  انسانوں کے مابین صحیح اور غلط کے امتیاز کو مبرہن کرتا  ہے۔یہی انسانی قطعیت   ہے، جس  پر دنیا کا نظام قائم ہے اور یہی انسانی قطعیت ہے،  جو بارگاہ  ِخداوندی میں علم و عمل کا معیار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید منظور الحسن صاحب جی سی یونیورسٹی سے ایم فل اسلامیات ہیں اور ادارہء علم و تحقیق المورد فیلو اور ماہنامہ اشراق امریکہ کے مدیر ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی:

[1]۔ یہ گفتگو اِس لنک کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے:

[2]۔ موضوع سے متعلق دوسرے لیکچر میں  فاضل متکلم نے  اِس راے کو کچھ ملفوف  کرنے کی کوشش کی ہے، مگر  اُس میں کسی نمایاں تغیر کی وضاحت نہیں کی۔ چنانچہ  فی الحال  یہی راے اُن کے موقف کی ترجمان جانی چاہیے۔

[3]۔ تاہم جب اللہ تعالیٰ نے اُنھیں استعمال کیا تو اِس شان سے استعمال کیا کہ وہ انسانی کے بجاے الہامی  کلام کی صورت اختیار کر کے فکر و نظر اور زبان و بیان کا عظیم معجزہ قرار پائے۔

[4]۔ اِن تینوں کا اثبات بھی قرآن  کے متن سے ہوتا ہے۔

[5]۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرزِ استدلال سے نظم کلام کو قرآن سے مقدم  اور خارج کہا گیا ہے، اُسی کی بنا پر یہ تصورات بھی قرآن سے مقدم اور خارج قرار پاتے ہیں۔

[6]۔ دراں حالیکہ یہ عین ممکن ہے کہ تمام وصول کنندگان مجموعی طور پر غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں اور ارسال کنندہ  بالکل درست ہو ۔

[7]۔ رد کرنے کی گنجایش اِس لیے ہے کہ حدیث کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت یقینی نہیں، بلکہ ظنی ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید کی چونکہ آپ سے نسبت یقینی ہے، اِس لیے وہاں رد کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

[8]۔ ’’اِس کو تمھارے دل پر روح الامین لے کر اترا ہے، اِس لیے کہ دوسرے پیغمبروں کی طرح تم بھی خبردار کرنے والے بنو، نہایت صاف عربی زبان میں۔‘‘ (الشعرا 26: 93-95)

[9]۔  ’’ایسے قرآن کی صورت میں جو عربی زبان میں ہے، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، اِس لیے کہ وہ خدا کے عذاب سے بچیں۔‘‘ (الزمر 39: 28)

[10]۔ ’’قرآن میں ایک سے زیادہ تاویلات کی  کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔‘‘ (رسائل الامام الفراہی 230)۔

[11]۔اِس کی ضرورت جناب احمد جاوید صاحب کے نقد  کی دوسری قسط سے نمایاں ہوتی ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں