قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث کے تناظر میں ایک دوست نے جناب حسن الیاس صاحب کی ایک مختصر تحریر وٹس ایپ پر شئیر کی۔ تحریر میں کوئی ایسی قابل ذکر دلیل موجود نہیں جس پر تبصرے کی ضرورت ہو۔ البتہ صاحب تحریر نے آخر میں جاکر یہ سوال پوچھا ہے:
“کیا خدا کے کلام کو قطعی ہونا چاہئے یا مہمل، بس (یہ بتا دو)؟”
اس سوال میں محض جذباتیت سے کام لیتے ہوئے قطعی کے مقابلے پر مہمل کو لایا گیا بے جو کوئی وزن نہیں رکھتا۔ مہمل دراصل مفید کلام کے مقابلے پر آتا ہے نہ کہ قطعی کے۔ مفید کلام قطعی بھی ہوتا ہے اور ظنی (یعنی گمان غالب کا فائدہ دینے والا) بھی۔ قطعی اور مہمل کے درمیان گمان غالب (یعنی ظن) کے کئی درجے ہوتے ہیں جو سب مفید معنی فراہم کرتے ہیں۔ مہمل تو متشاہہہ کو بھی نہیں کہتے چہ جائیکہ یہ ظنی کو کہا جائے۔ یہاں ہم امام غزالی کی کتاب “المستصفی” سے کچھ امور کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ جناب حسن الیاس صاحب اور مکتب فراہی کے دیگر حضرات کے لئے اصولیین کی بات سمجھنا آسان ہوسکے اور وہ کوئی متعلقہ بات کرسکیں۔
• امور دو طرح کے ہیں: وہ جو کسی غیر پر دلالت کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے۔ جو کسی غیر پر دلالت کرتے ہیں وہ دو قسم کے ہیں:
– وہ جو بطریق ذات یہ دلالت کرتے ہیں (یعنی جن کی یہ دلالت ذاتی ہوتی ہے)، انہیں دلائل عقلیہ کہتے ہیں (یہاں ان کی تفصیل سے سہو نظر کریں)
– وہ جو بطریق وضع (by way of stipulation) یہ دلالت کرتے ہیں۔ یہ دو قسم کے ہیں: آواز و غیر آواز (یعنی لفظی و غیر لفظی)
• لفظی دلائل دو طرح کے ہیں: مفید و غیر مفید:
– مفید وہ ہے جس سے بات سمجھ آئے جیسے زید آیا
– غیر مفید وہ ہے جو بے معنی ہو، اسے مہمل کہتے ہیں، جیسے لفظ “ایں ما ٹیں تا”
• مفید کلام عربی زبان میں تین قسم کے الفاظ پر مشتمل ہے: اسم، فعل و حرف (انہیں آسانی کی خاطر پارٹس آف سپیچ سمجھئے)
• ان الفاظ کے مجموعے سے بننے والا کلام تین طرح کا ہوگا:
– وہ جو سب وجوہ سے ازخود مفید ہو (مُسْتَقِلٍّ بِالْإِفَادَةِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ)۔ اس کی مثال وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا نیز لَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ہے۔ متکلمین اسے اصطلاحاً “نص” کہتے ہیں
– وہ جو از خود مستقل طور پر مفید نہیں ہوتا بلکہ کسی قرینے کا محتاج ہوتا ہے (مَا لَا يَسْتَقِلُّ بِالْإِفَادَةِ إلَّا بِقَرِينَةٍ)۔ اس کی مثال ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ یا أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ وغیرہ ہے۔ اسے اصطلاحاً “ظاہر” کہتے ہیں
– وہ جو بعض وجوہ سے از خود مفید و واضح ہوتا ہے اور بعض وجوہ سے نہیں ہوتا (مَا يَسْتَقِلُّ بِالْإِفَادَةِ مِنْ وَجْهٍ دُونَ وَجْهٍ)، اسے متکلمین کے ہاں “مجمل” کہا جاتا ہے اور اس کی مثال وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ہے، یہ الفاظ کھیتی سے کچھ دئیے جانے کے وجوب کے اعتبار سے تو نص ہیں لیکن اس “حق” کی تفصیل کے اعتبار سے مجمل، اسی طرح حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ آیت جزیے کی مقدار کے اعتبار سے مجمل ہے۔ مجمل از خود اس اجمال کو دور کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور اس لئے یہ ایک خارجی بیان کا محتاج ہوتا ہے
چنانچہ نص، ظاہر و مجمل ہونا ایک ہی آیت میں ممکن ہوتا ہے نیز یہ سب کلام مفید کی صورتیں ہیں۔ پس جب اس فریم ورک میں نص، ظاہر و مجمل کے بارے میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ ان کی دلالت قطعی ہے یا ظنی، تو اس پر یہ سوال داغنا کہ “بتاؤ کیا تمہارے نزدیک کلام اللہ قطعی ہے یا مہمل” ایک بے معنی بات ہے۔
کمنت کیجے