Home » تنگ آمد بجنگ آمد
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات سیاست واقتصاد

تنگ آمد بجنگ آمد

ڈاکٹر عبداللہ فیضی

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حماس کا حملہ جارحیت نہیں بلکہ دنیا کے سامنے اپنے حق کے لیئے بلند کی جانے والی ایک پکار تھی۔ جو مسئلہ کئی دہائیوں سے سیاسی و سفارتی کاوشوں سے حل نا ہوسکا اور جس کو اب فلسطینیوں کو شامل کیئے بغیر ایک غاصب اور طاقتور ممالک کے درمیان یکطرفہ طریقے سے “حل” کرنا ، فلسطینیوں کو قابل قبول نہیں۔ کیا آپ نے نوٹس نہیں کیا کہ فلسطینی ، چاہے انکا تعلق کسی بھی گروہ اور علاقے سے ہو وہ اس کاروائی پر مکمل یکسو ہیں۔ وہ لاشے اٹھارہے ہیں لیکن انہیں پچھتاوا نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔ یاد رکھیئے، بعض اوقات مکمل جنگ ہی مستقل امن کی ضمانت بنتی ہے۔
مسئلہ فلسطین کا انسانی پہلو اتنا دلگیر ہے کہ اسے بنا کسی فلسطینی سے ملے سمجھنا ناممکن ہے۔
میں نے آسٹریا اور ترکیہ سے لے کر ملائشیا اور پاکستان تک دنیا بھر کی کئی جامعات میں ، فلسطینی نوجوانوں کو جوانی سے بڑھاپے کا سفر طے کرتے دیکھا ہے۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ بڑھاپا کیوں؟
ڈاکٹر حسام کا چہرہ آج بھی میرے سامنے ہے جو صرف اس وجہ سے چودہ سال سے فلسطین نہیں جاسکا تھا کہ واپسی پر اسے ایمیگریشن کے فورا بعد اسرائیلی قید اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے گی۔ کیونکہ اسرائیلی حکام باہر سے آنے والے فلسطینی نوجوانوں کو سب سے پہلے جیل میں پھینکتے ہیں اور اپنے ہی وطن داخل نہیں ہونے دیتے، بعد ازاں وہاں سے باہر نکلنا دوبارہ ایک چیلینج ہے اسی وجہ سے اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیا جاتا ہے۔
جب کوئی فلسطینی طالب علم اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے دوبارہ واپسی نصیب نہیں ہوتی لہزا وہ بارہ بارہ سال غیرب الدیاری میں جامعات کے ہاسٹلوں اور مسجدوں میں زندگیاں گزارتے ہیں۔
گھر واپسی سے محروم ہونا صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے اس قربانی کی جو ہر فلسطینی نوجوان کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیئے اٹھانا پڑتی ہے۔
اسکے علاوہ جو لوگ اس کھلی جیل میں قید ہیں انکی زندگیوں کا تصور اپنے آسودہ گھر اور پر امن شہروں میں ممکن نہیں۔
پچھلے چوبیس گھنٹے میں اسرائیل نے ایک شہر کی سات سو ملٹی سٹوری بلڈنگز (دومنزلہ یا اس سے زائد) تباہ کردی ہیں۔ ہماری گلی میں بارش کا پانی کھڑا ہوجائے تو ہمیں زحمت اور کوفت ہوتی ہے اندازہ کیجیئے کہ ایک چھوٹے سے شہر کے سات سو گھر صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں تو گلی گلی تباہی اور الم کی کیا کیفیت ہوگی۔
سکول، مسجد، ہسپتال، حتی کے اقوام متحدہ کے رجسٹرڈ پناہ گزین کیمپ تک پر وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ اور اس سب کے بیچ بین الاقوامی قانون بحیرہ روم میں ایستادہ امریکی بحری بیڑے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔
سوچیئے زرا کیا مطلب ہے اس بحری بیڑے کا ؟
اسکا مطلب ہے ، کہ اسرائیل انسانی قتل عام جاری رکھے باقی ہم دیکھ لیں گے کوئی آپکا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔
المیہ ایک چھوٹا لفظ ہے ، قیامت شاید اس سے ملتی شے ہو جو اس وقت غزہ پر ٹوٹی ہوئی ہے۔
میں اس پر مزید بھی بات کرونگا۔
فی الحال یہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عبداللہ فیضی کوالالمپور کی کرٹن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل لاء کے استاد ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں