حسنین خالد
مولانا وحید الدین خان صاحب کی مولانا مودودی کے تصور الدین پر نقد کے بعد بہت سے لوگوں نے ان کی تنقید کو گلے لگا کر اس کی توضیح و تشریح شروع کی اور خان صاحب کے تائید گزاروں کے صف میں شمار ہو گئے ۔ ان مؤيدين حضرات میں ایک ہمارے محترم جاوید احمد غامدی صاحب بھی ہیں ۔
جس طرح جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب نے اپنے کتاب “سیاسی اسلام” میں استاد کے حوالے سے تائید کے اس نکتے پر بات کی ہے ۔ اور خود اپنے بہت سے لیکچرز میں بھی وہ اس بات کا معترف رہا ہے ۔ ابھی تازہ تازہ مولانا وحید الدین خان صاحب کے وفات پر بھی اپنے ماہنامہ جریدے إشراق مئی 2021ء کے شمارے میں تائید کے اس نکتے کو اشارہ کیا ہے ۔ اسی بنا پر جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور الدین پر بحث بھی اتنی تفصیل کے حامل نہیں رہے اگر چہ جاوید احمد غامدی صاحب نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے ساتھ بحث و مباحثے میں خان صاحب کو بھی متشوش کیا تھا جس کا ذکر ہم نے “ماہنامہ الشریعہ” فروری کے شمارے میں “صاحب تعبیر کے تصور الدین میں تذبذب” کے عنوان سے کیا ہے ۔ ادھر ہم اتنا ہی ذکر کرتے ہیں کہ جو لوگ آج کل خود کو صاحب تعبیر سمجھتے ہوئے مولانا مودودی پر تنقیدی تیر برساتے ہیں اور لوگوں کو تشویش کی طرف متوجہ کر کے عام مسلمانوں کے دلوں کو روایتی اسلام کے حوالے سے تذبذب کا شکار بناتے پھرے بیٹھے ہیں، یہی سب لوگ آج جس کو غلط کہہ رہے ہیں کل تک یہ ان کے ہمنوا اور ہم نشین کس دلیل کے ساتھ تھے ، خواہ وہ مولانا وحید الدین خان صاحب ہو جاوید احمد غامدی صاحب ہو مولانا علی میاں صاحب ہو یا کوئی اور یہ سب مولانا مودودی کے تصور الدین کے حامی ہی تو گزرے ہیں ۔
اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کونسی علمی غوطوں نے انھیں دین کی غلام تعبیر پیش کرنے کے مؤجدین بنائے ۔میں امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کا قائل ہوں کہ اس قبر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کے علاوہ ہر کسی کے ساتھ اختلاف ممكن ہیں۔ اس کے ساتھ میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ فکری ارتقاء کے تحت تبدیلی انسانی فطرت کے ساتھ وصل ہیں، لیکن یہاں ہم جس فکری ارتقا کے حوالے سے جاوید احمد غامدی صاحب کے فکری رجوع کو زیر بحث لانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ فکری ارتقاء کے بجائے قرآن و حدیث سے أخذ تصور الدین اور تعبیر الدین سے انحراف ہے ۔ جس کے ناطے ہم چند سطور لکھنے کی زحمت صرف ایک معتدل فکری فضا کو ہموار کرنے کے تحت کر رہے ہیں ۔ یہاں میں پہلے جاوید احمد غامدی صاحب کا وہ اعتراف جو انھوں نے مولانا مودودی کے تصور الدین کے ساتھ اظہار میں کیا تھا، نقل کرتے ہیں جو کہ ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب کی معروف و مشہور انٹرویو ہے جس میں جاوید احمد غامدی صاحب ان کے استفسار کے جواب میں فرماتے ہیں :
” مجھے مولانا مودودی کی تعبیرِ دین سے اتفاق ہے لیکن یہ تعبیرِ دین میں نے مولانا مودودی سے نہیں سیکھی بلکہ قرآن و حدیث کے آزادانہ مطالعہ سے براہِ راست حاصل کی ہے۔ بعد میں مولانا مودودی کی تصنیفات پڑھے تو معلوم ہوا کہ مولانا بھی تو اسی طرح سمجھتے ہیں جیسا کہ میں نے سمجھا ہے۔ پھر جب ان میں بھی وہی بات دیکھی جو میں نے سمجھی تھی تو ان کے ساتھ شامل ہوگیا لیکن بعض مسائل پر مجھے مودودی صاحب سے اختلاف بھی ہے اگر چہ وہ بنیادی مسائل نہیں ہیں۔”
(بحوالہ : دینی مدارس، روایت اور تجدید علما کی نظر میں صفحہ ؛ ٧٣ : ایمل مطبوعات،اسلام آباد اشاعت ؛ ٢٠١٢ء)
اب قارئین ہی فیصلہ کر لیں کہ جو أصحاب تعبیر کے جھنڈے گاڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ان کے موقف میں انھوں نے قرآن وسنت کے مطالعہ سے جو تعبیر صحیح سمجھا وہ تو وہی تعبیر تھا جو مولانا مودودی کا ہے ۔
اب قرآن و سنت کے مطالعہ کے بعد جب ان پر یہ بات عیاں ہوا کہ یہی صحیح تعبیر الدین ہیں، تو میں پھر کہتا ہوں کہ وہ کونسی نایاب لٹریچر اور بلند علمی پرواز تھا جسے طے کر کے وہ قرآن و حدیث والے تصور الدین سے منہ موڑ کر دین کے غلام تعبیر پیش کرنے کے مؤجد بن گئے ۔
یہاں افسوس ہمیں اس بات کی ہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب اب علی الإعلان اپنے وڈیوز لیکچرز میں احترامات کے بعد اس بات کے منادی ہیں کہ میں مولانا مودودی رح کے تصور الدین کو سراسر غلط سمجھتا ہوں ۔ کیا ان کے نزدیک قرآن و حدیث کے مطالعہ سے مستنبط تعبیر الدین کو اس طرح غلط کہا جا سکتا ہے؟
اس انحراف سے ہمیں یہ بات واضح ہوا کہ اختلاف ان کو انسانی ہاتھوں اور دماغوں سے مرتب کتابیں دیکھنے سے پیدا ہوا ہے ۔ جو کہ قبول کرنے کے لیے کوئی خاص حجت نہیں بن سکتا ۔اب اگر کوئی بندہ جاوید احمد غامدی صاحب کے قرآن و سنت سے مستنبط تعبیر الدین اپنانا چاہتے ہیں تو وہ وہی تعبیر الدین اپنائے جو مولانا مودودی نے پیش کیا ہے، اور اگر وہ جاوید احمد غامدی صاحب کے کلام الناس سے مستنبط تعبیر کو اپنانا چاہتے ہیں تو وہ ان کے آج کل کے ملوکی تعبیر الدین ہی کو اپنائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متعلم اصول الدین بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
کمنت کیجے