Home » قرآنِ مجید میں انسانی جذبات کی کمزوریوں کا بیان اور انکی تشخیص
تفسیر وحدیث کلام نفسیات

قرآنِ مجید میں انسانی جذبات کی کمزوریوں کا بیان اور انکی تشخیص

محمد خزیمہ الظاہری

یہ خصوصیت صرف اور صرف کتابِ خدا کو حاصل ہے کہ اس نے انسان کی شخصیت میں واقع اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو اپروچ کیا ہے اور اس انداز سے انسانی عقل اور مشاعر و احساسات کو مَس کیا ہے کہ انسان کے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ اسکے جذبات میں پیدا ہونے والی مختلف کیفیتیں بھی اسکے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہیں.

اس لحاظ سے قرآن صرف ایسی کتاب نہیں جو انسان کو خطابِ محض کرتی ہے اور اسے اپنی جانب بلاتی ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت کی عقلانیت اور جذباتیت کے خصائص کا مکمّل خاکہ پیش کرتی ہے جسکا بنیادی مقصد اُن لازمی کمزوریوں اور بیماریوں کی تشخیص ہوتا ہے جو کسی بھی وقت راہِ راست سے بھٹکنے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں.

اسکی آسان ترین تعبیر یوں کی جا سکتی ہے کہ قرآن نے بیک وقت دو چیزوں کو موضوعِ خطاب ٹھہرایا ہے.
ایک انسانی فہم اور دوسرا انسانی جذبات،احساسات اور قلبی کیفیتیں.

دلیل و استدلال کے علاوہ انسان کی جذباتی وابستگیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کا باب قرآن میں نہایت وسیع ہے حتیٰ کہ جنت اور دوزخ،ثواب اور عقاب پر سنائی جانے والی بشارتیں اور وعیدیں بھی اس اسلوب میں پیش کی گئی ہیں جو انسانی جذبات اور احساسات کو جھنجھوڑتا ہے.
چنانچہ قرآن مجید میں واضح طور پر اسکی تصریح یوں کی گئی ہے کہ :
“تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم و قلوبهم إلى ذكر الله” (سوره زمر،٢٣).
یعنی قرآن پڑھنے،سننے سے خوفِ خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انکے جسم اور دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں.
اس آیت میں یہ صراحت ہے کہ قرآن براہِ راست انسانی احساس کو بَر انگیختہ کر چھوڑتا ہے لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ اسی بنیاد پر یہ کتابِ انقلاب بھی ہے.
انسانی جذبات سے گہرا تعلق ہونے کی دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں دماغ کی بجائے ہمیشہ دل کو موضوع بنایا گیا ہے اور نیکی و بدی کو نیک دِلی اور شقاوتِ قلبی سے جوڑا گیا ہے جسکا تعلق قلبی احساس کے ساتھ ہے.
چنانچہ انسانی جذبات کی ترجمانی اور اس سلسلے میں قرآنِ مجید کے خصوصی اسلوب کی تبیین و توضیح سے قبل یہ حقیقت سمجھنا بیحد ضروری ہے کہ :
1 : قرآنِ مجید نے افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ دیگر انسانی خصائص کو بھی مدِ نظر رکھا ہے جسکا مقصد انسان کو اسکی عقل اور نفسیات،دونوں کے ذریعے قائل کرنا ہے.
2 : قرآنِ مجید نے علم کے ساتھ ساتھ عمل کی بھرپور حمایت کی ہے جسکے لئے علم و عقل کے علاوہ جذبات و احساسات کو فعّال کرنا لازمی امر ہے.
3 : قرآن صرف کتابِ امر نہیں ہے کہ حاکمانہ انداز میں تمام گفتگو کی جاتی بلکہ خدا کی طرف سے احکامات کے ساتھ ساتھ نصیحت کی کتاب بھی ہے لہذا علمی دلائل کے ساتھ یہ چیز بھی ضروری تھی کہ قلبی میلان بھی قائم کیا جاتا.
4 : قرآنِ مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی طرح جذبات بھی انسانوں میں خیر و شر پیدا کرنے کے لازمی ذرائع ہیں لہذا جذبات،قلبی کیفیتوں اور احساسات کو درست سمت میں چلانا اسی طرح قرآنی مطلوب ہے جیسے فکر و نظر کو راست طریقوں اور نتائج پر رکھنا حتماً مقصود ہے.
(آئندہ قرآنِ مجید کے وہ بیانات پیش کئے جائیں گے جن میں انسانی جذبات و احساسات کے مظاہر کی نشاندہی کی گئی ہے).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں