Home » تصور علت کی حقیقت: متکلمین کا طریقہ بحث اور غلط فہمیوں کا ازالہ
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

تصور علت کی حقیقت: متکلمین کا طریقہ بحث اور غلط فہمیوں کا ازالہ

علت و معلول کے تصور کی وضاحت ہم متعدد تحاریر میں کرچکے ہیں، یہاں چند اہم غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے اختصار کے ساتھ متکلمین کے طریقہ بحث کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ علت کا درست مفہوم واضح ہوسکے اور قدیم و جدید فلاسفہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے۔ یہ تحریر نفس مدعا کے بیان کے لئے دلیل حدوث کو ذرا الگ ترتیب سے پیش کرتی ہے۔
1۔ زمانی تقدم و مکانی اقتران علت ہونے کی شرط نہیں
علت و معلول کے تصور کے بار ے میں بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ علت زمانی طور پر مقدم اور معلول مؤخر ہوتا ہےنیز ان کے مابین مکانی اقتران پایا جانا لازم ہے، یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ جب آپ پانی میں ہاتھ ہلاتے ہیں اور ساتھ پانی ھلتا ہے ، جب روئی کو آگ کے قریب لے جاتے ہیں تو وہ راکھ بنتی ہے، جب ھاکی کو بال پر ماریں تو بال ہلتی ہے وغیرہ تو کیا زمان میں کوئی پہلے و بعد ہے؟ حوادث کے ظہور کی ترتیب میں جنہیں عادتاً علت و معلول سمجھا جاتا ہے، معاملہ یہ ہے کہ تجربے میں آنے والے دونوں حوادث ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر علت زمان میں پہلے اور معلول ایسے دوسرے لمحے میں ہو جس لمحے علت موجود نہیں تو وہ دوسرے لمحے میں موجود معلول کی علت کیسے ہے جبکہ وہ خود اس لمحے معدوم ہے؟ کیا معدوم بھی کسی شے کی علت ہوسکتی ہے؟ بعض دوستوں کو یہ بات سمجھنے میں مشکل آتی ہے کہ علت معلول سے قبل نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہوتی ہے (نوٹ: یہاں ساتھ سے ہماری مراد “زمانی ساتھ ” نہیں بلکہ خاص مفہوم کا وجودی اقتران ہےجس کی تفصیل آگے آرہی ہے، بات سمجھانے کے لئے ہم یہاں زمانی اقتران کو لے رہے ہیں)۔ علت کہتے ہی اسے ہیں جس کا وجود معلول کے وجود اور عدم معلول کے عدم کو لازم کرے۔ بات کو مزید آسان کئے دیتے ہیں، تین امکانات ہیں:
الف) علت لمحہ اول میں موجود مگر لمحہ دوئم میں معدوم اور معلول لمحہ دوئم میں موجود ۔ کیا یہ ہوسکتا ہے؟ نہیں اس لئے کہ لمحہ دوئم میں جو شے معدوم ہے وہ لمحہ دوئم میں موجود شے کی علت کیسے ہے؟ یہ علت کے تصور ہی کے خلاف ہے
ب) علت و معلول دونوں لمحہ اول یا دونوں لمحہ دوئم میں موجود۔ یہ علت کہلائے جانے کے لئے درست بات ہے
ج) علت لمحہ اول و دوئم دونوں میں موجود اور معلول لمحہ دوئم میں موجود۔ یہ بھی جائز ہے لیکن اس صورت میں علت کے لمحہ اول میں پائے جانے کی بات غیر ضروری ہے، صرف لمحہ دوئم میں پایا جانا ضروری ہے
علت کے زمانی طور پر مقدم ہونے کے مفروضے کے درست ہونے کے لئے یہ ماننا ہوگا کہ جس شے کو علت کہا جارہا ہے اس میں کوئی ایسی تاثیر ہے جو شے کے معدوم ہونے کے باوجود لمحہ الف و دوئم دونوں میں برقرار رہتے ہوئے لمحہ دوئم میں دوسری شے پر اثر انداز ہوکر اسے وجود میں لاتی ہے۔ ظاہر ہے اس مفروضے کی نہ کوئی مشاہداتی دلیل ہے اور نہ عقلی، یہ نرا مفروضہ ہے جو ارسطو نے حوادث کی ترتیب سے قائم کرلیا تھا، تاہم متکلمین نے ارسطو کی اس غلطی کو بخوبی بھانپ لیا کہ اقتران (coexistence) علیت (causation) بمعنی تاثیر کی دلیل نہیں کہ تاثیر کا مشاہدہ کبھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ علت ہونے کے تصور میں “زمانی طور پر مقدم ہونے” کو شامل سمجھنا فاش غلطی ہے، ان شاء اللہ آگے یہ بات واضح ہوگی کہ علت کے تصور میں زمانی اقتران بھی شرط نہیں چہ جائیکہ زمانی تقدم۔ پھر اگر اس مفروضے کو مان مان بھی لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ جسے تاثیر کہا جارہا ہے یہ امر ثبوتی و وجودی ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو یہ اس بات کو قبول کرنا ہے کہ علت معلول کے ساتھ پائی گئی۔
علت کے تصور میں مکانی اقتران ہونا بھی شرط نہیں۔ مثلاً جب حکومت وقت کسی حکمنامےکے اجراء سے کسی کا حق متعین کردیتی ہے، تو یہ حکمنامہ اس کے حق کی علت سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں ان دو امور کےمابین “مکانی اقتران” نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح قیاس کے عمل میں جب ایک حکم کو فرع پر پھیلایا جاتا ہے تو یہ بھی مکانی اقتران کی بنا پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب انسان اپنی خواہشات اور اعمال کے مابین جاری سلسلوں کو علت و معلول قرار دیتے ہیں تو یہ بھی مکانی اقتران کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مادی نہیں بلکہ معنوی امور کی مثالیں ہیں کیونکہ اگر زمان و مکان کا تصور علت کے لئے جزو لاینفک ہوتا تو ان صورتوں میں بھی وہ موجود ہوتا۔
الغرض علت و معلول کے مابین نہ زمانی تقدم ہونا شرط ہے اور نہ مکانی اقتران، ان کے مابین بایں معنی وجودی و ثبوتی تعلق پایا جانا شرط ہے کہ جب علت ہو تو معلول (حادث) بھی ہو اور اگر علت نہ ہو تو معلول نہ ہو۔ متکلمین اس بارے میں بالکل واضح تھے۔ زمانی تقدم علت سے مختلف شے ہے، یہ بات ان کے مباحث میں اس قدر واضح ہے کہ امام رازی حدوث کے معنی پر بحث کرتے ہوئے تقدم کے پانچ معنی کا تذکرہ کرتے ہیں (امام رازی چھٹی قسم کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن فی الوقت اس سے سہو نظر کرتے ہیں):
الف) تقدم زمانی، جیسے باپ کی پیدائش کا بچے کی پیدائش پر تقدم
ب) علت کا معلول پر تقدم
ج) تقدم طبعی، بغیر علت و زمان کے منطقی تقدم جیسے شرط کا مشروط سے یا عدد “ایک ” کا “دو ” سے مقدم ہونا
د) رتبے کے اعتبار سے تقدم، جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دیگر صحابہ سے مقدم ہونا
ھ) مکانی تقدم، جیسے امام کا مقتدی سے آگے ہونا
جو فلاسفہ علت کے بارے میں اس بنیادی بات کو نہ سمجھ سکے وہ اس غلط فہمی میں رہے کہ علت کا تصور یا زمانی و مکانی تجربات سے ماخوذ ہے اور یا صرف انہی پر مرتب ہوتا ہے۔
2۔ تصور علت حادث کی احتیاج سے ماخوذ ہے
اب آئیے اس سوال کی جانب کی علت کا مفہوم کیا ہے، اس تصور کی بنیاد کیا ہے نیز یہ کیوں کر ایک بدیہی وجودی و ثبوتی حقیقت ہے نہ کہ محض کوئی خیال۔ علت کا تصور اصلاً زمان و مکان میں رونما ہونے والے حوادث کی ترتیب کے مشاہدے سے نہیں بلکہ حادث کی احتیاج (dependence) سے جنم لیتا ہے۔ یہ احتیاج حادث وجود کی صفت لازم ہے، یعنی حادث تقاضا کرتا ہے کہ اس کی علت ہو بصورت دیگر وہ موجود نہیں ہوسکتا۔ حادث وہ وجود ہے جو عدم سے وجود میں آئے ، ممکن تھا کہ حادث معدوم رہتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ وجود قبول کرے ۔ “عدم سے وجود ” لازماً کسی مقدم وجود بطور علت کا تقاضا کرتا ہےکہ عدم قطعاً وجود کی علت نہیں ہوسکتی، جو اس بدیہی وجودی حقیقت کا انکار کرے وہ مکابر ہے۔ یہ احتیاجی تقدم ہی علیت کی بنیاد ہے۔ چنانچہ علت وہ ہے جو حادث کی احتیاج کو بایں معنی پورا کرے کہ اس کا وجود حادث (معلول) کے وجود کو لازم کرے اور اس کا عدم حادث کے عدم کی توجیہہ کرے، اسی لئے متکلمین علت کو “مرجح “کہتے ہیں۔ یہ ہے وہ منطقی اقتران جو تصور علت کی وجودی و اثباتی بنیادہے۔ اس کے ساتھ زمان و مکان کے تصورات کو گڈ مڈ کردینا مغربی فلاسفہ کا کارنامہ ہے، متکلمین یہ غلطی نہیں کرتے۔ دھیان رہے کہ اشیا سے متعلق انسان کا اصل مشاہدہ ان کے حدوث کا ہے نہ کہ ایک شے کا دوسری پر اثر انداز ہونے کا، لہذا یہ دعوی کرنا کہ علت کا تصور اشیا کی زمانی و مکانی ترتیب یا اقتران سے ماخوذ ہے ایک بے بنیاد بات ہے۔ پس جب علت کے تصور کی کم سے کم اور درست بنیاد واضح ہوگئی تو جو شخص اس میں زمان و مکان کی جہت کو لازمی طور پر شامل کررہا ہے وہ مدعی ہےاور اسے اس کی دلیل دینا ہوگی۔ ھیوم و کانٹ اور ان کے متاثرین کی جانب سے کیا جانے والا یہ مایہ ناز استدلال کہ “علت و معلول تو زمان و مکان سے ماخوذ تصورات ہیں اور ان ہی پر لاگو ہوسکتے ہیں نیز اس بات کا کوئی علم نہیں ہوسکتا کہ آیا زمان و مکان سے ماوراء یہ موجود ہیں یا نہیں”، اس استدلال کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔
3۔ حادث علت نہیں ہوسکتا
اب یہ سمجھتے ہیں کہ حادث علت کیوں نہیں ہوسکتا۔ عقل یہ حکم تو لگاتی ہے کہ حوادث علت کے محتاج ہیں، لیکن اس مفروضے کو قطعی طور پر غلط و بے بنیاد کہتی ہے کہ حادث مرجح (یعنی علت ہونے) کی صفت سے بھی متصف ہوسکتا ہے ۔ حادث پر علت (مرجح ) کا اطلاق اس لئے نہیں ہوسکتا کیونکہ انسانی عقل “حادث” کو “مرجح” ماننے ہی سے ابا کرتی کیونکہ یہ دونوں اپنی وضع میں متضاد تصورات ہیں، حادث تو ہے ہی معلول (محتاج) کا دوسرا نام! غور کیجئے کہ علت کا تصور تب لاگو ہوتا ہے جب عقل کو پہلے وجود اور پھر اس سے متعلق واجب، محال اور ممکن کا ادراک حاصل ہوچکا ہو۔ جو وجود واجب و محال ہو اس کے لئے علت کی کیٹیگری غیر متعلق ہوجاتی ہے، پھر جو حادث و ممکن ہو عقل اس کی احتیاج کی پیاس بجھانے کا سفر شروع کرتی ہے۔ یعنی علت کا اطلاق شروع ہی تب ہوا جب عقل کے پاس حادث و ممکن کا تصور آیا، جب اس نے حادث پر غور کیا تو جان لیا کہ یہ خود اپنی توجیہہ نہیں کرسکتا، اسی لئے مرجح کا محتاج ہے ۔چنانچہ علت کا بدیہی تصور دو حقائق کے ادراک کے بعد شروع ہوتا ہے:
• متعلقہ وجود حادث و ممکن ہے
• حادث وجود خود اپنی توجیہہ نہیں ہوتا ، چہ جائیکہ دوسرے کی علت بن سکے
پس یہ اعتراض کرنا کہ تغیر ایک ایسا تصور ہے جو تجربے سے ماخوذ ہے لہذا علیت کا تصور بدیہی نہیں نظری ہے، درج بالا تفصیل کے پیش نظر یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ علت کا تصور نہیں بلکہ حدوث کا تصور عدم سے وجود کے تغیر پر منحصر ہے، عدم وجود کی علت نہیں ہوسکتی یہ بات بدیہی ہے اور یہ دوسری بات علیت کی بنیاد ہے۔ نیز ہمارا تجربہ صرف عدم سے وجود سے متعلق ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حادث (جو عدم سے وجود میں آیا) اس کی علت بھی حادث ہی ہوگی۔ حادث سرے سے علت ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ معلول ہے۔
4۔ علت زمان و مکان میں نہیں ہوسکتی
جب عقل یہ پہچان لے کہ “عالم حادث ہے “(حدوث عالم کے دلائل پر یہاں بحث نہیں کی جائے گئی) ، تو جس کیٹیگری کا نام آپ نے “علت” رکھا آخر وہ اپنے مافیہ کے اطلاق (یعنی “مرجح”) کو اسی حادث عالم کے اندر موجود فرض کرکے کیسے احکام جاری کرسکتی ہے جس کے بارے میں اسے پہلے سے یہ خبر موصول ہوچکی کہ یہ عالم معلول (حادث) ہے نہ کہ مرجح؟ پس پہلے اس غلط مفروضے کو ترک کیجئے کہ عالم کے اندر مشاہدے میں آنے والی بعض چیزیں بعض کے لئے “علت ” (مرجح) ہوسکتی ہیں ، عقل پہچان چکی ہے کہ یہاں سب حوادثات (یعنی معلولات ہیں) اور حادث علت نہیں ہوا کرتا ۔ وہ جانتی ہے کہ عالم میں صرف ایک کے بعد دوسرا حادث رونما ہورہا ہے اور اس لئے وہ ان میں سے ہر ایک کو علت کا مصداق قرار دینے سے انکاری ہے۔ پس وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جب سارا عالم حادث ہے تو علت کے حکم کا اطلاق اس عالم سے ماورا کسی موجود پر ہوگا نیز اس موجود کو واجب ہونا چاہئے (فی الوقت اس کی دلیل سے سہو نظر کیجئے)۔صریح عقل حکم لگاتی ہے کہ علت یعنی وجہ ترجیح عالم سے ماورا ہے، اگر عالم کی علت عالم میں ہو تو وہ حادث ہوگی اور حادث خود مرجح کا محتاج ہوتا ہے نہ کہ علت۔ مغربی فلاسفہ نے اس بنیادی حقیقت کو پہچاننے میں غلطی کرتے ہوئے یہ تصور قائم کرلیا کہ حوادث ایک دوسرے کی علت ہوسکتے ہیں، کانٹ کو صرف اس مسئلے کو حل کرنےسے دلچسپی تھی کہ عالم شہادت میں جن حوادث کو ہم عادی طور پر علت سمجھتے ہیں انہیں ہی علت قرار دینے کی توجیہہ کیسے بنائی جائے، علی الرغم اس سے کہ انہیں علت کہنا کوئی معقول بات ہے بھی یا نہیں۔ ھیوم و کانٹ ایک ایسے تصور (یعنی حادث) کو مرجح ثابت کرنے کی کوشش میں تھے جو اپنی وضع میں مرجح ہونے کے عقلی حکم کو قبول ہی نہیں کرتا۔
5۔ عالم کی علت موجود ہے
جب یہ معلوم ہوگیا کہ حادث ممکن ہے اور کسی ایک جانب ترجیح کے لئے مرجح کا محتاج ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حادث موجود ہے، تو عقل لازما کہتی ہے کہ مرجح بھی موجود و ثابت ہے۔ یہ علت چار سوالات کا جواب دے گی:
• حادث کے لئے عدم سے وجود کی ترجیح
• وجود کے بعد معدوم ہونے کے بجائے وجود پر بقا کی ترجیح
• حوادث میں تقدیم و تاخیر کی ترجیح
• حوادث کی کیفیات و مقدار کی ترجیح
جو علت ان چار سوالات کا جواب دے، وہ عالم کا مرجح کہلانے کی مستحق ہے۔ اب مرجح کے تصور پر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ “ارادہ” ہے اور اس پر ہم الگ سے گفتگو کرچکے ہیں، ترجیح و ارادے کا مطلب دو میں سے ایک جانب کا اختیار ہے، اگر یہ اختیار ثابت نہیں تو ترجیح کاکوئی مطلب نہیں۔ اب اگر کہا جائے کہ علت بننے کے لئے “ترجیح ” ہونا کیوں ضروری ہے، تو ہم کہیں گے کہ پھر سے حادث و ممکن کے تصور پر غور کیجئے: وہ جو دو یا اس سے زائد امکانات میں معلق ہو اور کسی ایک جانب کے لئے ترجیح کا محتاج ہو۔ حادث (یعنی جو ترجیح کا محتاج ہے) کی احتیاج “ترجیح دئیے جانے ” کے بغیر بھلا کب پوری ہوسکتی ہے! معلوم ہوا کہ عالم جس علت کا محتاج ہے وہ دراصل فاعل ہے، ایسا فاعل جو بااختیار ذات ہے۔
6۔زمان و مکان میں حوادث کے مابین ترتیب سے ماخوذ علل علامات ہیں
یہاں آخری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمان و مکان میں جن امور کو عادتاً علت کہا جاتا ہے ، ان کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا جواب ہے “علامات”، یعنی ان کی حیثیت اسی طرح کے سائن بورڈز کی ہے جو کسی ھائی وے پر لگے ہوتے ہیں: “ریسٹ ایریا دو کلو میٹر” اور پھر دو کلومیٹر بعد ریسٹ ایریا موجود ہو۔ اس تجربے سے یہ لازم نہیں آتا کہ سائن بورڈ ریسٹ ایریا کی بایں معنی علت ہے کہ وہ اس پر مؤثر ہے چاہے کتنی ہی مرتبہ اس ترتیب کا مشاہدہ ہو۔ ایک حادث کے ساتھ جب دوسرے حادث کا مشاہدہ ہو تو اگرچہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی علت ہے، تاہم عقل جانتی ہے کہ جسے علت سمجھا جارہا ہے وہ بھی معلول (حادث) ہی ہے لہذا اسے حقیقی معنی میں علت نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تو از خود محتاج ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ علت (یعنی فاعل ) کے افعال کی نشانی قرار دیا جاسکتا ہے کہ فاعل ایک کے ساتھ دوسرا فعل اس طرح سر انجام دیتا ہے کہ حوادث ترتیب وار مرتب ہوتے ہیں اور ہم بذریعہ استقرا ایک فعل کے اثر کو دیکھ کر اسے دوسرے فعل کے اثر کی نشانی مقرر کرکے دوسرا اثر ظاہر ہونے کی امید رکھ سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ھائی وے پر متعدد مرتبہ ریسٹ ایریاز کے بورڈ کے بعد ریسٹ ایریا کو موجود پا کر اگلا سائن بورڈ دیکھنے پر یہ قوی امید رکھتے ہیں کہ دو کلو میٹر بعد ریسٹ ایریا بھی موجود ہوگا کہ ھائی وے اتھارٹی اسی نہج پر افعال سرانجام دیتی ہے۔ تاہم عقل ان بورڈز کو از خود علت (وجہ ترجیح و مؤثر) سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرتی بلکہ انہیں فاعل کے فعل کی نشانی سمجھتی ہے۔
جس نے ان امور کو سمجھ لیا اس کے لئے تصور علت سے متعلق ھیوم و کانٹ وغیرہ ایسے فلاسفہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں ان شاء اللہ کافور ہوجائیں گی ۔
وما توفیقی الا باللہ

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • منطق میں اگر أپ یہ کہے کہ” اگر A ھو گا تو B بھی ھو گا”۔ تو یہ منطقی طور پر اس جملے کے برابر ھے” اگر B نہیں ھو گا تو A بھی نہیں ھو گا “۔ اسی طرح اگر أپ یہ کہے کہ “اگر A نہیں ھو گا تو B بھی نہیں ھو گا “تو یہ اس جملے کے برابر ھے کہ “اگر B ھوگا تو A بھی ھو گا”۔ اب علت ومعلول سے متعلق درجہ ذیل کو غور سے پڑھے ۔
    “الغرض علت و معلول کے مابین نہ زمانی تقدم ہونا شرط ہے اور نہ مکانی اقتران، ان کے مابین بایں معنی وجودی و ثبوتی تعلق پایا جانا شرط ہے کہ جب علت ہو تو معلول (حادث) بھی ہو اور اگر علت نہ ہو تو معلول نہ ہو۔ ”
    یہاں پر محترم نے دعویٰ کیا ھے کہ اگر علت ھو گا تو معلول بھی ھو گا اور اگر علت نہیں ھو گا تو معلول بھی نہیں ھو گا۔ جو کہ منطقی طور پر اس دعویٰ کے برابر ھے کہ اگر علت ھو گاتو معلول ھو گااور اگر معلول ھو گا تو علت ھو گا۔ اب محترم یہاں پر یہ نہیں سوچتے کہ ایسی صورت میں پتہ کیسے چلے گا کہ علت کونسا ھے اور معلول کونسا۔
    ڈاکٹر اسماعیل خان