سید منظور الحسن
سید منظور الحسن
“نظم قرآن”کے ناقدین کا مخمصہ
برادرِ عزیز جہانگیر حنیف صاحب نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے تصورِ نظم قرآن پر ایک تاثراتی مضمون تحریر کیا ہے۔(1) یہ اِس موضوع پر جناب احمد جاوید صاحب کی گفتگو کا برسبیلِ تنزل اعادہ ہے۔ اِس کا مقصد تو استاذ ِ گرامی کے موقف کا تنقیدی جائزہ ہے، مگر اِس قبیل کا کوئی مواد اِس میں دستیاب نہیں ہے۔ مہمل تبصرے، مبہم مفروضے اور مشتبہ خیالات ہیں، جنھیں یک جا کر کے ’’کیا قرآنِ مجید میں نظم پایا جاتا ہے؟‘‘ کے زیرِ عنوان نقل کر دیا ہے۔ تمام تبصرے محض دعوے ہیں، جو اپنے اثبات کے دلائل سے یک سر محروم ہیں۔ ایک دعویٰ بھی ایسا نہیں ہے، جسے کسی دلیل سے مدلل کیا گیا ہو یا کسی ثبوت سے متحقق کیا گیا ہو یا کسی شہادت سے مؤکد کیا گیا ہو۔ چند دعوے ملاحظہ ہوں:
* ’’…ان دونوں اصحاب (فراہی و اصلاحی)نے محض نظمِ قرآن کو قرآنِ مجید کی تفسیر کے دوران بطور ایک راہنما اصول کے اختیار کیا، جبکہ غامدی صاحب نے اسے ایک باقاعدہ نظام کی شکل دی۔ ‘‘
یہ ایک اسٹیٹمنٹ ہے، جو اِنھی الفاظ سے شروع ہو کر اِنھی پر ختم ہو جاتی ہے۔ نہ یہ بتایا ہے کہ اِس کا مدعا کیا ہے، اِس کا مصداق کیا ہے۔ نہ یہ واضح کیا ہے کہ فراہی و اصلاحی رحمہما اللہ نے کیسے نظم کو ’’رہنما اصول‘‘ بنایا تھا اور غامدی صاحب نے کیسے اُسے ’’ایک باقاعدہ نظم‘‘ کی شکل دی ہے۔
*’’ … ایسے شواہد موجود ہیں کہ اگر (غامدی صاحب) کا یہ نظام ان اصحاب(فراہی و اصلاحی) کو ان کے حینِ حیات پیش کیا جاتا، تو وہ اِسے رد کردیتے۔‘‘
علم ِ غیب پر مبنی یہ پر زور دعویٰ تو کر دیا ہے، مگر اُن ’’موجود شواہد‘‘ میں سے کسی ایک شاہد کا بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
*’’ … نظمِ قرآن سے مراد قرآنِ مجید میں نظم کا عمومی اثبات نہیں۔ بلکہ غامدی صاحب کا پیش کردہ نظمِ قرآن ہے۔ جو اپنی ساخت میں پیچیدہ ترین اور قرآن مجید کی شانِ خطابت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ ‘‘
یہ بھی ایک تاثراتی بیان ہے۔ اصحابِ علم جانتے ہیں کہ اگر اِسے تنقید کے مقام تک پہنچانا ہے تو پہلے یہ بتانا ہو گا کہ ’’قرآنِ مجید کی شان خطابت‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے، پھر اُس شانِ خطابت کو قرآن سے ثابت کرنا ہو گا، پھر یہ بتانا ہو گا کہ ’’غامدی صاحب کا پیش کردہ نظم قرآن‘‘ کیا ہے، پھر اُس کی ’’ساخت کی پیچیدگی‘‘کے شواہد پیش کرنے ہوں گے اور پھر ثابت شدہ شانِ خطابت اور تحقیق شدہ پیچیدگی کی ’’عدم مناسبت‘‘کے دلائل دینے ہوں گے۔ اِس کے بعد یہ تاثر اِس لائق ہو گا کہ اِسے تنقید کے زمرے میں شمار کیا جائے ۔ اِس کی صحت یا عدم صحت جانچنے کا مرحلہ تو اُس کے بعد آئے گا۔
* ’’’’البیان‘‘ میں نظم کو انھوں (غامدی صاحب )نے زیادہ تر سے زیادہ اصولی و فقہی مباحث میں برتا ہے۔‘‘
یہ بھی ایک تبصرۂ محض ہے۔ جناب والا، پہلے تو یہ فرمائیے کہ آپ کے نزدیک کون سے مباحث اصولی ہوتے ہیں اور کون سے فقہی ہوتے ہیں، پھر اِس تفریق کو قرآن کی مثالوں سے واضح کیجیے۔ اِس کے بعد بتائیے کہ ’’البیان‘‘ میں کون سے ’’اصولی و فقہی مباحث‘‘ میں نظم کو برتا ہے اور کیسے برتا ہے اورپھر سمجھائیے کہ کون کون سے مباحث بےنظم چھوڑ دیے ہیں۔
* ’’ … دورِ جدید سے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے قرآن مجید کی ہدایت کو نظم کا موضوع بنایا ہے۔‘‘
یہ بھی ایک خیال ہے، جو ابلاغِ مدعا سے عاری ہے۔ اِس خیال کا ابلاغ مقصود ہے تو بتانا پڑے گا کہ دورِ جدید کے وہ کون سے مسائل ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے قرآن کی ہدایت کو نظم کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اِس کے بعد’’البیان‘‘ کے شواہد سے اُس کا اثبات کرنا ہو گا۔
* ’’ … ان کا تصورِ نظم اپنی نوعیت میں مکینیکل ہے اور قرآن مجید کے معانی کو ایک خاص دائرے تک محدود رکھتا ہے۔‘‘
یہ بھی ایک ہوائی ہے، جو بے بنیاد اڑا دی گئی ہے۔ بھائی پہلے یہ بتائیں کہ آپ مکینیکل نوعیت کس کو کہتے ہیں، پھر اُس مکینیکل نوعیت کا ’’البیان‘‘ پر اطلاق کریں، پھر یہ بتائیں کہ قرآنِ مجید میں فلاں فلاں مقامات پر آفاقی مفہوم پایا جاتا ہے، جسے غامدی صاحب نے فلاں خاص دائرے میں محدود کر دیا ہے۔
*’’ …یہ بات شاید کہنے کی ضرورت نہیں کہ حکیمانہ تعبیرات آفاقی اور فقہی تعبیرات زمان و مکان میں محصور ہوتی ہیں۔ ‘‘
یہ بات اگر ’’البیان‘‘سے متعلق ہے تو پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن میں”حکیمانہ تعبیرات “سے اور اُن کی “آفاقیت” سے کیا مراد ہے اور “فقہی تعبیرات” اور اُن کے “زمان و مکان میں محصور ہونے” کا کیا مطلب ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر’’البیان‘‘ میں قرآن کی حکیمانہ تعبیرات کو فقہی تعبیرات کی صورت دے کر زمان و مکان میں محصور کیا ہے تو مذکورہ تفسیر میں اُس کی چند مثالیں کیا ہیں؟
یہ برادرِ عزیز جہانگیر حنیف صاحب کے چند نمائندہ خیالات ہیں۔ باقی خیالات بھی اِسی طرح دو دو جملوں کے تاثرات پر مبنی ہیں۔ اِن تاثرات پر جو کلماتِ تحسین اُن کے اساتذۂ کرام نے پیش کیے ہیں، وہ بھی حروفِ نیم گفتہ اور تاثراتی اسلوب نگارش کا نمونہ ہیں۔(2)
محترم نادر عقیل انصاری صاحب نے لکھا ہے:
’’… اس(تصورِ نظم ) میں اور بھی بڑے بڑے مسائل ہیں: مثلاً، نظم کا وجود کلام میں ہوتا ہے یا یہ قاری کے تخلیقی ذہن کی پیداوار ہوتا ہے؟ زیادہ وضاحت سے کہا جائے تو یوں ہے: پہلے کلام کا نظم ایجاد ہوتا ہے اور پھر معنی کا فہم حاصل ہوتا ہے – یا – پہلے فہم حاصل ہوتا ہے اور پھر نظم ایجاد کیا جاتا ہے؟ اول الذکر پر اعتراض یہ ہے کہ اگر فہم ِکلام ہی حاصل نہیں ہوا تو نظمِ کلام کیسے ایجاد ہُوا کیونکہ نظمِ کلام تو فہمِ متن کے بعد ہی سمجھ میں آ سکتا ہے؟ اور موخر الذکر پر یہ سوال ہے کہ اگر فہمِ کلام، جو اصل مقصود تھا، پہلے ہی حاصل ہو گیا ہے(یعنی نظم کے بغیر) تو اب تلاشِ نظم کی کیا ضرورت باقی رہی؟‘‘
یعنی پہلے ‘نظم ‘ اور ‘کلام ‘ میں تفریق قائم کی، پھر ‘کلام’ اور ‘مفہوم’ کو الگ کیا، پھر دائرۂ امکان میں کلام کو مقدم اور مفہوم کو مؤخر اور پھر مفہوم کو مقدم اور کلام کو موخر کر کے اعتراضات وارد کر دیے۔ یہ دیکھا ہی نہیں کہ قرآن میں نظم کا موقف رکھنے والے اپنی بات کو کس زاویے سے اور کس تناظر میں بیان کر رہے ہیں اور کیسے نظم کو کلام کا ایسا جزو قرار دیتے ہیں، جو اُس کی پیدایش ہی سے اُس میں سرایت ہوتا ہے(3) اور پھر کیسے اپنی تفاسیر سے اُس کی شہادت پیش کرتے ہیں۔ کیا علمی سوال ایسے اٹھائے جاتے ہیں؟ کیا اعتراض ایسے کیا جاتا ہے؟ کیا تنقید اِس کو کہتے ہیں؟؟؟
برادرِ مکرم طالب محسن صاحب کا ایک تبصرہ بھی اِسی اسلوب کا عکاس ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ … ابھی اس کا موقع نہیں آیا کہ اجزا کا تجزیہ ہو۔ ابھی تو کلام بحیثیت کلام کیا ساخت رکھتا ہے اس پر کلام ہوگا۔ یعنی سورہ کس نوعیت کی وحدت ہے اور اس کی آیات کے باہمی ربط کی صورتیں کیا ہیں۔ آپ نے جن نقائص کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک وجہ ہیں نظام کے تصور کے ناقدانہ جائزے کی۔ لیکن ممکن ہے وہ نقائص محض نفس نظم کی پروڈکٹ نہ ہوں۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ پہلے تصور ہی کی تنقیح اور تشکیل موضوع بننی چاہیے۔‘‘
شاگردِ رشید کے پیش کردہ بے دلیل تبصروں کو پہلے نقائص کہہ کر سندِ تائید سے مشرف کیا ہے اور پھر یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ اُن کے نزدیک یہ نقائص بعض دیگر اسباب کا نتیجہ ہیں۔ یہ نہایت درجہ کا تاثر تو دے دیا ہے، مگر یہ نہیں فرمایا کہ وہ نقائص کیا ہیں، کیوں ہیں، کہاں پائے جاتے ہیں، کیسے ثابت ہوتے ہیں؟ اِس ضمن میں کوئی مبسوط اور مدلل بات نہ ماضی میں کبھی فرمائی اور نہ اب فرمائی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
علوم کے اصول و قواعد اُس کے مظاہر میں فطری طور پر کار فرما ہوتے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہوتے ہیں، جو اُن مظاہر کی تنظیم و تشکیل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اِن کی حیثیت خارجی عوامل کی نہیں، داخلی عناصر کی ہوتی ہے۔ علما و ماہرین اِنھیں مظاہر اور اُن کے متعلقات سے اخذ کر کے خاص ترتیب میں بیان کر دیتے ہیں۔ اِس کا مقصد مظاہر کی تفہیم و تسہیل ہوتا ہے۔(4)
یہ بیانِ واقعہ ہے، اِس کے درجِ ذیل نتائج مسلم ہیں:
اول، اصول و قواعد واقعاتی ترتیب میں اطلاقات و انطباقات سے مؤخر ہوتے ہیں۔ تعلیم و تعلم کی ضرورت کے پیشِ نظر اُنھیں بہ طور مقدمہ پیش کیا جاتا ہے۔
دوم، اصولوں اور اطلاقات کا باہمی تعلق لازم و ملزوم کا ہے۔ اصول اطلاقات سے مستنبط ہوتے اور اطلاقات اصولوں سے سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں کو الگ الگ کر کے نہ سمجھا جا سکتا اور نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔
سوم، اگر کسی مظہر کے علمی اصول مرتب نہیں ہوئے تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مظہر اصول و قواعد کی پابند ی سے آزاد ہے۔ مطلب فقط یہ ہے کہ اہل علم نے اُس پر غور کے اُس کے اصولوں کو اخذ نہیں کیا۔
اِس امر کو چند مثالوں سے سمجھنا مناسب ہوگا:
‘عروض’ وہ علم ہے، جس سے شعروں کے اوزان کی تعلیم حاصل ہوتی ہے۔ اہلِ ادب جانتے ہیں کہ یہ علم شاعری سے مقدم نہیں، بلکہ مؤخر ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے عروض کے اصول وضع کیے گئے اور پھر اُن کے اطلاق سے شاعری وجود میں آئی۔ واقعہ یہ ہے کہ شاعری ہمیشہ سے موجود تھی، پڑھی اور سمجھی بھی جاتی تھی اور اُس کے موزوں اور غیر موزوں اجزا میں تفریق بھی قابل فہم تھی۔ دوسری صدی ہجری میں خلیل بن احمد نے عربی شعرا کے کلام کو سامنے رکھا اور اُس کی بنیاد پر 15 بحریں متعین کیں، بعد میں اہل ایران نے فارسی کلام کو سامنے رکھتے ہوئے چند مزید بحروں کا اضافہ کیا۔
‘زبان و ادب’ کے علوم ـــــ صَرف، نحو، بیان، بدیع ـــــ کے جملہ اصول و قواعد خود زبان و ادب ہی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ماہرینِ لسانیات نے نظم و نثر اور خطبات و مکالمات کے ادب پاروں کو سامنے رکھا ہے اور اسم، فعل، حرف؛ فعل، فاعل، مفعول؛ تشبیہ، استعارہ، مجاز، کنایہ اور تضاد، مبالغہ، تعلیل، تجنیس کے مختلف اور متنوع اصول متعین کیے ہیں۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی زبان و ادب کے خارج سے داخل نہیں کی گئی۔
یہی معاملہ اسلامی علوم کا ہے۔ تفسیر کی کتابیں مقدم ہیں اور اصول تفسیر کی کتب مؤخر ہیں ــــ بلکہ اِن میں سے بیش تر دور ِحاضر میں تالیف ہوئی ہیں۔ حدیث کے مجموعے پہلے مرتب ہوئے اور اُس کے رد و قبول اور فہم کے اصول بعد میں ترتیب پائے ہیں۔ فقہ اور تاریخ و سیرت کی بھی یہی صورت ہے۔ چنانچہ اِن علوم میں اصل حیثیت تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت کے متون کی ہے، جو ایک پہلو سے اصولوں کا ماخذ اور دوسرے پہلو سے اُن کا اطلاق قرار پاتے ہیں۔ لہٰذا اِن علوم کے اصولوں کو اُن کے مآخذ اور اطلاقات سے الگ کر کے سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔
یہ تقریر عالم شہود کے جملہ علوم سے متعلق ہے۔ اُن علوم کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے، جو تخیلی، باطنی اور روحانی واردات اور ماوراء الطبیعیاتی احوال کی جستجو کے لیےوضع کیے جاتے ہیں۔ یہ علوم چونکہ معدوم و موہوم پر غور و فکر کے مقصد سے تشکیل پاتے ہیں، اِس لیے اِن کے اصولوں کی تخریج کے لیے مشہود، محسوس اور مجسم مظاہر غیر موجود ہوتے ہیں۔ گویا نہ وہ مصادر فراہم ہوتے ہیں، جن سے اصولوں کا استخراج کیا جا سکے اور نہ وہ مظاہر دستیاب ہوتے ہیں، جن پر مستخرجہ اصولوں کا اطلاق کیا جا سکے ۔ لہٰذا اِن علوم میں نہ اصول تشکیل پاتے ہیں اور نہ اُن کے اطلاق کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اِن علوم میں اصولوں کی جگہ مزعومات، قیاسات، احتمالات اور متخیلات ہوتے ہیں، جنھیں تفہیم مدعا کی خاطر یا تمہید کلام کے پیشِ نظر یا تعلیم و تدریس کی غرض سے اصولوں کے پیراے میں بیان کر دیا جاتا ہے۔ غیر واضح چیزوں کی تحقیق و جستجو کے لیے یہ طریقہ غلط نہیں ہے۔ سائنس جیسے خالص مادی علم میں بھی جب نامعلوم حقائق کی تحقیق پیشِ نظر ہو تو اِسی طرح قیاسات اور مفروضات کو اساس بنایا جاتا ہے۔ حیاتیات میں ارتقا اور طبیعیات میں بگ بینگ کے تصورات اِسی کی مثال ہیں۔(5)
اِس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم ِ شہود کے مصادرِ علوم اور عالم خیال(6) کے مصادرِ علوم ایک دوسرے سے یک سر مختلف ہیں۔ ایک کے مصادر مشہود اور دوسرے کے غیر مشہود ہیں۔ ایک کے علوم اصول و قواعد پر اور دوسرے کے مفروضات اور قیاسات پر مبنی ہیں۔ لہٰذا نہ اِن کا تقابل ہو سکتا ہے، نہ ایک کو دوسرے پر قیاس کیا جا سکتا ہے، نہ ایک کے اصولوں کا دوسرے پر اطلاق ممکن ہے، نہ ایک کے زاویۂ نظر سے دوسرے کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ایک کے تناظر میں دوسرے کا محاکمہ کیا جا سکتا ہے۔
’’نظم قرآن ‘‘ کے ناقدین کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ موخر الذکر علوم کے دائرے میں کھڑے ہو کر مقدم الذکر طرز کے ایک علم پر جرح کر رہے ہیں۔(7) یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تنقید میں علوم اسلامی کے روایتی اسالیب اور مسلمہ اصولوں کو اختیار ہی نہیں کرتے۔ اپنے نقد کے دلائل میں وہ نہ قرآن و حدیث کے نصوص پیش کرتے ہیں، نہ تاریخ و سیرت کا حوالہ دیتے ہیں، نہ زبان و ادب سے استشہاد کرتے ہیں اور نہ علوم اسلامی کے جلیل القدر علما کی آرا کو بہ طورِ شہادت نقل کرتے ہیں۔ ہر بات، ہرگفتگو، ہر تحریر مجردات سے شروع ہوتی اور مجردات پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علوم اسلامی کے علما کے لیے بے محل اور طلبہ کے لیے بے معنی قرار پاتی ہے۔
اُنھیں اِس مخمصے کا ادراک کرنا چاہیے اور اِس حقیقت کو باور کرنا چاہیے کہ غامدی صاحب کے تصور ِنظم قرآن پر اُن کی تنقید اُسی صورت میں لائق اعتنا اور قابلِ فہم ہو گی، جب وہ اُسے اسلامی علوم کی روایت کے اندر کھڑے ہو کر پیش کریں گے اور ’’البیان‘‘ کے مندرجات پر اُس کا اطلاق کر کے دکھائیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔ یہ مضمون اُن کے فیس بک پیج پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
2 ۔ انھیں بھی جہانگیر حنیف صاحب کے فیس بک پیج پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
3 ۔ ’’نظم کلام کسی کلام کا ایسا جزو لاینفک ہوتا ہے کہ اُس کے بغیر کسی عمدہ کلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ قرآن، جس کو فصاحت و بلاغت کا معجزہ قرار دیا جاتا ہے اور جو فی الواقع معجزہ ہے، ایک بہت بڑے گروہ کے نزدیک نظم سے بالکل خالی کتاب ہے۔ اُن کے نزدیک نہ ایک سورہ کا دوسری سورہ سے کوئی ربط و تعلق ہے، نہ ایک سورہ کی مختلف آیات ہی میں باہم کوئی مناسبت و موافقت ہے۔ بس مختلف آیات مختلف سورتوں میں بغیر کسی مناسبت کے جمع کر دی گئی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا فضول خیال ایک ایسی عظیم کتاب کے متعلق لوگوں کے اندر کس طرح جاگزیں ہو گیا ہے، جس کے متعلق دوست دشمن، دونوں ہی کو اعتراف ہے کہ اُس نے دنیا میں ہل چل پیدا کر دی، اذہان و قلوب بدل ڈالے، فکر و عمل کی نئی بنیادیں استوار کیں اور انسانیت کو ایک نیا جلوہ دیا۔ ‘‘ (تدبر قرآن1/17)
4 ۔ اِسی تناظر میں مظاہر کو اطلاقات سے تعبیر کیا جاتا ہے، دراں حالیکہ اُن کی نوعیت مآخذِ اصول کی ہوتی ہے۔
5 ۔ یہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر علماے تصوف طریقت اور شریعت کے علوم کو ہمیشہ الگ الگ بیان کرتے اور الگ الگ طریقے سے سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔
6 ۔ یہ اصطلاحات فقط تفہیم مدعا کے لیے وضع کی گئی ہیں۔
7 ۔ یعنی تفسیر اور اصولِ تفسیر پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید منظور الحسن صاحب جی سی یونیورسٹی سے ایم فل اسلامیات ہیں اور ادارہء علم و تحقیق المورد فیلو اور ماہنامہ اشراق امریکہ کے مدیر ہیں ۔
کمنت کیجے