Home » Being، Nothing، Becoming (2)
مدرسہ ڈسکورسز

Being، Nothing، Becoming (2)

عمران شاہد بھنڈر

متکلمین جسے موجود (خدا) مانتے ہیں ہم اسے موجود نہیں مانتے، صرف ایک تصور مانتے ہیں جس کا امکان اور عدم امکان دونوں موجود ہیں۔ متکلمین کے پاس صرف عقیدہ ہے کوئی فلسفیانہ و منطقی پوزیشن نہیں ہے۔
ہماری قدرے نرم اور ہمدردانہ پوزیشن یہ ہے کہ ہم اسی (خدا) کو عدم مانتے ہیں اور عدم کو وجود ہی کی ایک کیٹیگری تسلیم کرتے ہیں۔ اگر کوئی مصر ہے کہ خدا “موجود” ہے تو کائنات کے حوالے کے بغیر اس کی موجودگی کو ثابت کرے۔ اگر متکلمین کائنات کے حوالے کے بغیر خدا پر بات نہیں کر سکتے تو خدا محض ایک تصور ہے جو اپنے ہونے کے لیے کائنات کا محتاج ہے۔ کائنات میں ایسی کوئی محتاجی نہیں پائی جاتی۔ شعور (انسان) اور وجود (کائنات) کے عدم ارتباط اور ارتباط سے ماخوذ مقولات و تصورات کو خدا جیسے واہمے پر لاگو کر دینا فلسفے کا استحصال ہے جو متکلمین کرتے رہے ہیں، تاہم اب اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ جدید فلسفے نے اس کی گنجائش ہی ختم کر دی ہے۔ اگر مسیحی حکومتوں کا جبر نہ ہوتا تو خدا کی موجودگی تو بعد کی بات ہے، بہت عرصہ قبل اس کا تصور تک مٹ جاتا۔
سادہ سی بات ہے کہ وجود ہی عدم ہوتا ہے۔ جب وجود بی کمنگ کے دوران اگلے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو پہلے مرحلے میں عدم ہو چکا ہوتا ہے، یعنی وہ کچھ بن چکا ہوتا ہے جو پہلے نہ تھا۔ وجود کی ایک پوزیشن کی نفی اس کی دوسری پوزیشن کا اظہار ہے۔ جو پہلے تھا وہ بعد میں معدوم ہوا اور جو پہلے معدوم تھا وہ بعد میں وجود ہوا۔ عدم وجود کی صفت ہے جو بی کمنگ کے دوران خود کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص بی کمنگ کو نہیں مانتا، تو اس کے لیے، ارتقا، رد و نمو، حرکت و تغیر بے معنی تصورات ہیں۔ جہاں حرکت ہوتی ہے، جہاں تبدیلی ہوتی ہے، وہاں عدم و وجود دونوں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی جدلیات ہے! نفی ہونے کی صفت ہے، یعنی وجود کی موجود پوزیشن کی نفی ہے۔
متکلمین فلسفہ و منطق کی دو اہم کیٹیگریز کو چھیڑے بغیر صرف وجود پر بات کرتے ہیں اور وجود کو اس کے اظہار میں نہیں دیکھتے، جو صرف عقیدہ ہے۔
پارمینائڈز نے کہا تھا کہ وجود (کائنات) ایک ہے، یہ عدم سے وجود میں نہیں آ سکتا۔ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وجود کب عدم ہوتا ہے اور کب وجود ہوتا ہے۔ متکلمین کی سنگین غلطی یہ ہے کہ یہ ساری توجہ وجود (خدا) پر رکھتے ہیں جبکہ اس کو ثابت کرنے کے لیے “مثالیں” کائنات سے لے رہے ہیں۔ علت و معلول بھی نتھنگ اور بی کمنگ کی طرح وجود (کائنات) کی کیٹیگری ہے، اس کا ماورائے کائنات کوئی استعمال نہیں ہے۔
سبھی متکلمین کی بنیادی کمزوری ہی یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ کائنات پر کھڑا کرتے ہیں، اور کائنات کی موجودگی سے خدا کا تصور تراشتے ہیں۔ جبکہ سادہ سی بات ہے کہ اگر خدا موجود ہے تو کائنات کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنی موجودگی کا تصور نہ تراشے۔ کانٹ کے بعد خدا کے تصور کا ایک امکان باقی بچتا ہے، لیکن اس امکان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو وجود (کائنات) اور شعور (انسان) کی صفت نہ ہو۔ کانٹ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ کیونکہ کسی بھی کیٹیگری کا ماورائے تجربہ کوئی استعمال ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک ہزار برس پرانی متکلمین کی اساطیری کہانیوں میں الجھ کر پہلے سے بیوقوف اور جذباتی مذہبیوں کو بیوقوف بنانا کوئی علمی پوزیشن نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ کائنات موجود ہے۔ جو خدا کی موجودگی کا قائل ہے وہ اس کی موجودگی کو کائناتی حوالے کے بغیر ثابت کرے۔ ورنہ ایک محتاج تصور کو موجود ماننا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
نوٹ: اگلی پوسٹ پر خدا پر نفی کے مقولے کا اطلاق کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفہ کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں