ڈاکٹر جمیل اختر
سال ۲۰۲۲ء میں جب آکسفورڈ سنٹر فار ریلیجن اینڈ کلچر، آکسفورڈ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاک کر رہا تھا تو اسی دوران برادرم اکبر ڈاکٹر مبشر حسین صاحب کی مشاورت سے مستقبل کے منصوبہ جات کی جامع فہرست بھی تیار کرتا رہا، اس فہرست میں مختلف مسلم ممالک کا وزٹ بھی شامل کیا۔ ۲۰۲۲ء کے اختتام پر پوسٹ ڈاک مکمل کرنے کے بعد واپسی پر ترکی کا وزٹ کیا، جس میں یونیورسٹیز کا وزٹ، پروفیسر خواتین و حضرات سے ملاقات اور مستقبل میں مل کر کام کرنے کے حوالے سے کارآمد گفتگو ہوئی ۔ (اسی وزٹ کے نتیجے میں اس سال بھی ترکی کی ایک یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں پیپر پڑھنے کے لیے مجھے مدعو کیا گیا)۔ تاریخی مقامات کی سیر و تفریح کرانے اور ترکی کے کلچر کو متعارف کروانے میں ترکی میں موجود ان پاکستانی طلبہ نے کافی وقت دیا جو ڈاکٹر مبشر صاحب کی راہنمائی سے ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لے چکے تھے (وللہ الحمد)۔ ترکی کے وزٹ سے اتنا کچھ سیکھنے کا موقع ملا کہ مزید ممالک کا وزٹ پلان کیا۔
اس سال اکتوبر کے آخری عشرہ میں انڈونیشیا کی ایک سرکاری یونیورسٹی (یوجی ایم) جس کی بنیاد ۱۹۴۹ میں رکھی گئی تھی، کے مطالعہ مذاہب کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مجھے پیپر پڑھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ جانے سے پہلے ڈاکٹر مبشر صاحب کی راہنمائی سے ہوم ورک مکمل کیا کہ اس وزٹ سے کس طرح زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکتا ہوں۔ ترکی کے وزٹ سے ایک بات کا اندازہ تو مجھے ہو چکا تھا کہ اگر آپ کسی ملک کا وزٹ کر رہے ہیں تو آپ کے ساتھ کوئی ایسا گائیڈ ضرور ہونا چاہیے جو وہاں رہ رہا ہو یا وہاں رہ کر آیا ہو۔ اگر آپ اکیلے ہی اس ملک کے کلچر کو سمجھنا شروع کریں گے تو اتنا نہیں سیکھ سکھیں گے جتنا آپ کو گائیڈ بتا سکے گا۔ جب آپ گائید کے ساتھ ہوں گے تو اس کی انفارمیشن کے ساتھ ساتھ آپ اپنے مشاہدات بھی شامل کرتے جائیں گے تو اس کلچر کو بہت جلد سمجھ سکیں گے۔ اب ہوا یوں کہ انڈونیشیا کی کانفرنس کے لیے جب پیپر بھیجا تو سوچ رہا تھا کہ انڈونیشیا میں تو کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ جب بندے کی نیت خالص ہو تو اللہ راستے کھول ہی دیتا ہے۔ اس سال ۲۰۲۳ء میں، میں نے امریکہ، آسٹریلیا اور ترکی کی جن بڑی یونیورسٹیوں کی چھ مختلف بین الاقوامی کانفرنسز میں پیپر پیش کیے ان میں ترکی کی (کریککل یونیورسٹی) میں پیپر پیش کرنے کے لیے انڈونیشیا کی (یو این آئی) یونیورسٹی سے ڈاکٹر جاروت سے ای-ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے نہایت محبت اور شفقت سے مجھے انڈونیشیا میں خوش آمدید کہا، یونیورسٹیز کا وزٹ کروایا، مختلف ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈز سے ملاقات کروائی، بڑے بڑے اداروں کا وزٹ کروایا۔ انڈونیشیا میں اساتذہ کے ساتھ ملاقات بہت مفید رہی، مستقبل میں مل کر کام کرنے کے حوالے سے کچھ معاہدات طے پائے جن میں سے دو پروجیکٹس پر الحمدللہ کام بھی شروع ہو چکا۔ (اگر زندگی نے اجازت دی تو اگلے سال ڈاکٹر مبشر صاحب کی معیت میں ملائیشیا کا وزٹ کرنے کا پروگرام ہے جس کے لیے ہوم ورک شروع ہو چکا ہے، الحمدللہ)۔
انڈونیشیا کا وزٹ میرے لیے بہت سے حیران کن حقائق سامنے لے کر آیا اور مجھے خوشی ہوئی کہ کوئی اسلامی ملک ایسا بھی ہے جہاں کے لوگ بامنظم اور پروقار ہیں، جہاں کے حکمرانوں کو واقعی عوام کا خیال ہے اور وہ اپنی عوام کا ہر طرح سے خیال رکھنے کے بھر پور کوشش کرتے ہیں، ان کے ہاں جان کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ جس کا اندازہ مختلف جگہوں پر تعینات سیکورٹی گارڈز سے لگایا جا سکتا ہے جو کسی کو روڈ کراس کروانے کے لیے گاڑیوں کو روک کر کیسے منظم طریقے سے راستہ بنا دیتے ہیں، جہاں پر عوام کے شعور کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور سے زیادہ بائیکس کا رش ہونے کے باوجود کسی ایک بائیک والے کو بھی اشارے اور رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا، جہاں پر غیرملکی سیاحوں کی بھرمار کے باوجود انڈونیشیا کے لوگوں کو اسلامی روایات کو برقرار رکھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جہاں کے مکانات کا ڈھانچہ تو مغربی طرز کا ہے لیکن لوگوں کا طرزِ عمل اسلامی ہے، جہاں تمام عورتوں کو کام کرنے کی آزادی ملنے کے باوجود وہ کیسے اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت کا خیال رکھنا اپنے لیے لازم سمجھتی ہیں، جہاں عوام کے لیے منظم کیے گئے حج پیکچز کا انداز دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسے بھی لوگوں کے لیے حج کی آسانی کی جا سکتی ہے، جہاں پر یونیورسٹیز اور ریسرچ کے ادارے نام سے زیادہ کام کو اہمیت دیتے ہیں، جہاں حکومتی عہدوں پر براجمان لوگ پروفیسرز حضرات کے سامنے اپنے مسائل رکھتے ہیں اور بہترین حل تجویز کرنے کی درخواست کرتے ہیں جس پر پروفیسرز بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں اور پھر حکومت بھی ان تجاویز کو کارآمد بناتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہوتا جیسا کہ پاکستان میں اکثر پروفیسرز ایچ ای سی سے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر پروجیکٹس حاصل کر لیتے ہیں اور پھر دو، تین سو صفحات پر ایک خود ساختہ رپورٹ بنا کر جمع کروا دیتے ہیں جو نہ تو اس قابل ہوتی ہے کہ اس سے حکومت مستفید ہو سکے اور نہ ہی حکومت کو کوئی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ اسے کارآمد بنانے کے لیے واقعتاً اس فیلڈ کے ماہرین سے راہنمائی لے سکیں۔
اگر میں بین المسالک رواداری کے طالب علم کی حیثیت سے انڈونیشیا کا مطالعہ کروں تو مجھے وہاں پر دو بڑی جماعتیں نظر آتی ہیں (۱) نھضۃ العلماء اور (۲) محمدیہ موومنٹ۔ یہ دونوں انڈونیشیا میں بہت منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں جن میں سے اول الذکر کا زیادہ فوکس دینی مدارس اور دیہی علاقوں پر ہے جب کہ موخر الذکر کا زیادہ فوکس عصری تعلیمی اداروں اور صحت پر ہے۔ وہ دونوں جماعتوں حکومت کی طرف سے رجسٹرڈ ہیں اور تقریباً تمام سرکاری ملازمین کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں گروپس میں سے کسِ ایک گروپ کے ساتھ رجسٹر ہو جہاں اس کا ریکارڈ رکھا جائے گا اور وہ روزانہ دو گھنٹے ان کے ساتھ مل کر سوشل ورک کرے گا۔ بین المسالک رواداری کی جو مثال ان دونوں جماعتوں کے ہاں دیکھ سکتے ہیں وہ ہمیں پاکستان میں کہی نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک والے کو کافر نہیں تو کم از کم گمراہ سمجھنا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔ میں نے دونوں جماعتوں کے اہم لیڈران سے ملاقات کی، ان کے دفاتر کے وزٹ کیے، ان کے سیٹ اپ کو سمجھا، ان کے ساتھ کئی دنوں کا وقت گزارا جس سے مجھے ان گروپس کے کام کرنے کا طریقہ کار کا پتہ چلا کہ یہ لوگ کیسے اپنی عوام کی تربیت کر رہے ہیں اور اس ضمن میں کیسے حکومت ان کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ان لوگوں سے مختلف موضوعات پر مکالمے کرنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے ہاں کس قدر وسعت پائی جاتی ہے۔ میں اپنے محترم خورشید ندیم صاحب کی بات ہی دہرانا چاہوں گا “ختمِ نبوت کے بعد،کسی کا قول فی نفسہ واجب الاتباع نہیں”۔
اگر میں بین المذاہب رواداری کے طالب علم کی حیثیت سے انڈونیشیا کا مطالعہ کروں تو مجھے خوشی ہے کہ غیرملکی انڈونیشیا کی سیاحت کرنے بلاخوف آتے ہیں اور انہیں یہ ڈر نہیں ہوتا کہ کوئی ان کے لباس کی وجہ سے ان پر آوازیں کسے گا یا ان کو اغوا اور قتل کرے گا۔ پاکستان میں اگر کوئی غیر مسلم آ جائے تو ہم اسے اسلامی لباس میں دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں، بصورتِ دیگر اس کا پاکستان میں رہنا دوبھر کر دیتے ہیں۔ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے ان کی معیشت پر جو واضح مثبت اثر پڑا ہے اسے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ بین المذاہب رواداری تو آپ کو پورے انڈونیشیا میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گی جہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ تاہم اس کی سب سے بڑی مثال “بالی” شہر ہے جہاں پر آپ کر اکثر گھروں کے باہر ہاتھوں سے تراشے خودساختہ بگوان اور مندر نظر آئیں گے۔ ان کے تاریخی مندروں کو حکومت کی نگرانی حاصل ہے اور ان تاریخی مقامات کی مکمل دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
ایک طرف میرے لیے یہ فخر کی بات تھی جب محمدیہ فاونڈیشن کے رفاہ کا کام کرنے والے ایک ڈائریکٹر نے بتایا کہ ہم نے علامہ اقبال، سرسید احمد خان اور ڈاکٹر فضل الرحمان کے افکار اور نظریات سے بہت کچھ سیکھا اور ان کو عملی شکل دی ہے، تو دوسری طرف میرے لیے یہ شرمندگی کی بھی بات تھی کہ ہم نے من حیث القوم کبھی اپنے بزرگان کی نظریاتی محنت کو عملی شکل دینے کی کوشش ہی نہیں کی اور اگر کسی نے فرداً فرداً کوشش کر کے ایسی کوئی تحقیق پیش بھی کی تو ہمارے حکمرانوں کی کبھی یہ ترجیح ہی نہیں رہی کہ اس کو قابل عمل بنا کر نافذ کیا جائے۔
کمنت کیجے