Home » متن اور اس کے فہم کی عینیت وغیریت پر زاہد مغل سے مکالمہ
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

متن اور اس کے فہم کی عینیت وغیریت پر زاہد مغل سے مکالمہ

گل رحمان ہمدرد

چند روز قبل فیس بک پر مں نے ایک پوسٹ کی تھی جس میں لکھا تھا :
”تفہیمِ متن میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ الفاظ کے معانی الفاظ کے ساتھ ہی مربوط ہوتے ہیں یا لفظ معانی سے تہی ہوتا ہے اور معانی لفظ پر ذہن کی imposition ہے؟۔۔۔اگر الفاظ کے معانی الفاظ سے الگ ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خود لفظ معانی سے خالی ہوتا ہے۔اس صورت میں پھر جملے کو بھی معانی سےتہی تصور کرنا ہوگا۔متن جب معانی سے تہی ہو تو فہم کا سارا معاملہ ذہن کے رحم وکرم پر ہوگا ہے کہ وہ اسے جو معانی دینا چاہیے دے دے۔اس صورت میں مختلف لوگ اپنے اپنے قومی,سماجی,جغرافیاٸ,لسانی,تاریخی,مذہبی اور نفسیاتی پس منظر میں ہی متن پر مفہوم مسلط کرتے رہیں گے,اور آپ کسی بھی فہم کو غلط نہیں کہہ سکیں گے کیونکہ جب آپ نے متن کو معانی سے تہی متصور کرلیا ہے تو اب اس کو معانی کا جامہ پہنانے کا عمل ذہن کے سپرد ہی ہوگا۔نیزچونکہ مختلف لوگ مختلف طرح سے سوچتے ہیں اس وجہ سے متن کو ہر شخص اپنے پس منظر میں انٹر پریٹ کرے گا۔ اور آپ کسی کو بھی غلط نہیں کہہ سکیں گے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ یہ مان لیں کہ متن معانی سے تہی نہیں ہوتا ۔متن کے ساتھ ہی معانی جڑے ہوۓ ہوۓہوتے ہیں۔مختلف لوگ جب متن کو سمجھنا چاہ رہے ہوتے ہیں تو وہ درحقیقت متن کے اس معانی کو سجھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں جو متن کا جزو لاینفک ہوتا ہے۔
مذہبی علماء ہمیں سمجھاٸیں کہ قرآن کا متن معانی سے تہی ہے یا معانی اس متن کا جزولاینفک ہیں؟۔ ۔۔۔
دونوں مواقف کے الگ الگ نتاٸج و عواقب ہیں ۔اس میں جو بھی موقف آپ اپنانا چاہیں اسکی اساسات اور نتاٸج کو سمجھ کر اپناٸیں۔
فراہی مکتب فکر ,غامدی صاحب اور ڈاکٹر خضریاسین صاحب کا موقف ہے کہ متن کے معانی متن کے ساتھ ہی منسلک ہیں۔جبکہ صوفیاء متن کو موضوعی انداز میں انٹر پریٹ کرنے کے قاٸل رہے ہیں۔صوفیاء کےلیۓ حقیقت چونکہ ماوراۓ متن ہے اسلیۓ ان کے لیۓ الہامی متن کوٸ خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ان کے تلاش حقیقت کا منہج ہی الگ ہے۔لیکن علماۓ شریعت کا تو سارا دار ومدار ہی متن پر ہے۔اسلیۓ ان کےلیۓ یہ سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ “
میری اس پوسٹ پرمحترم زاہد مغل صاحب سے کمنٹس اور جوابی کمنٹس کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔

زاہد مغل صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ :

”آپ یہ بتائیں کہ لفظ معنی کی کون کونسی تہوں کا کنٹینر ہوتا ہے اور کونسی اقسام لفظ کا مدلول کہلانے کی مستحق نہیں نیز ان تہوں کی درجہ بندی کیا ہے۔۔۔۔“

میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ :

”پہلا سوال یہ ہے کہ لفظ معانی کا کنٹینرہوتا ہے بھی یا نہیں ہوتا۔؟
جب یہ طے ہوجاۓ تو پھر اگلا سوال ہوگا کہ معانی کی مختلف تہوں/سطحوں کا مسلہء کیا ہے اور مین اسٹریم مفہھوم اور Subways مفہوم میں کیاربط ممکن ہے؟۔۔۔آپ کی کل کی باتوں سے ہمیں یوں لگا کہ آپ متن کو معانی کا کنٹینر سمجھتے ہی نہیں۔ممکن ہے ہم آپکا موقف غلط سمجھے ہوں۔لیکن اگر ہم غلط سمجھےہیں تو آپ اس بات پر اپنا موقف واضح کریں کہ کیا آپ متن کو فہم کا کنٹینر سمجھتے ہیں یا نہیں؟۔۔۔
میں یہ ماننے کےلیۓ تیار ہوں کہ متن معانی کی ان تمام سطحوں کا کنٹینر ہے جن کا انکار متن کا انکار متصور ہوسکتا ہو۔۔۔لیکن اس سے قبل آپ کو یہ ماننا ہوگا کہ متن ان معانی کا کنٹینر ہے جن کا انکار متن کا انکار متصور ہوسکے؟“۔

انہوں نے جواب دیا کہ :

”لفظ بطریق وضع معانی کا کنٹینر ہوتا ہے (آگرچہ اس میں تفصیل ہے)۔ اب بات آگے کیجئے“

میں نے جواب میں لکھا کہ :

”الہی متن اگر بطریق وضع معانی کا کنٹینر ہے جو مختلف درجاتی سطحوں پر اپنا ظہور کرتی ہے تو پھر الہی متن ہی مقدس نہیں بلکہ اس کے معانی بھی مقدس ہیں ۔۔۔۔متن ہی مختارات الہیہ نہیں اس کے معانی بھی مختارات ِ الہیہ ہیں۔۔۔“۔

زاہد مغل صاحب نے لکھا کہ
” اس سے کیا ثابت ہوا؟ “

میں نے جواب دیا کہ :

”اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ نے گزشتہ دنوں متن کے فہم کو مختارات الہیہ ماننے سے انکار کیا تھا۔اس پر آپ نے ایک پوسٹ بھی لکھی تھی۔۔۔۔۔
سیدھی بات یہ ہے کہ ہیگل کا متن اور اس متن کا حقیقی فہم دونوں ہی ہیگل کی طرف منسوب ہوں گے۔کیونکہ متن کا سہارا لیکر ہیگل نے اپنا مافی الضمیر ہم تک منتقل کیا ہے۔پس ہیگلیٸن متن اور اس کا حقیقی فہم دونوں ہیگل کا مقصود و مطلوب ہیں۔اسی طرح الہی کلام اور اس کے حقیقی معانی دونوں ہی مقدس ہیں ۔دونوں ہی مختارات الہیہ ہیں۔اگر تمام انسان دنیا میں نہ رہیں تو بھی الہی متن کےساتھ وہ معانی منسلک رہیں گے جن معانی کا وہ کنٹینر ہے۔اور اگر کوٸ انسان اس متن کے مفہوم کو سمجھ جاۓ تو وہ خدا کی بات کو سمجھ جاتا ہے کہ خدا اس سے کیا مطالبہ کررہا ہے۔“۔

زاہد مغل صاحب نے لکھا کہ :

” آپ نے میری جانب غلط منسوب کی ہے کہ میں کلام اللہ کے معنی کو اللہ کی جانب مفہوم نہیں مانتا۔ یہ مختارات الہیہ کی اصطلاح میرے حساب سے خلط مبحث پیدا کرتی ہے اس لئے نہیں اسے بے جا طور پر نہیں بولنا چاھتا، ھمارے اس کے لئے درست اصطلاح مقدرات شریعہ ہے جیسے نماز کی خاص رکعتیں۔ لہذا آپ کی اس گفتگو کا کوئی معنی نہیں کہ میں نے پہلے یہ کہا تھا اور اب یہ، آپ کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے تو الگ بات ہے۔
– آپ نے طویل کمنٹ میں میرے سوال کا جواب دیا ہی نہیں کہ کلام کے کن معانی کو آپ مراد سمجھتے ہیں اور کن کو نہیں۔ یہ سوال لفظ کی معنی پر دلالت کرنے کی اقسام سے متعلق ہے اور آپ نے اس پر ایک بھی لفظ نہیں لکھا لیکن صفحہ بھردیا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اس کی جانب توجہ دیں، ورنہ مبھم گفتگو مفید نہیں“۔

میں نے لکھا کہ :
” یہاں تک تو آپ بات مان چکے ہیں کہ الفاظ معانی کا کنٹینر ہیں۔اور الہی کلام کے صرف الفاظ ہی مقدس نہیں معانی بھی مقدس ہیں۔یعنی صرف الفاظ ہی مختاراِ الہیہ نہیں ان کے معانی بھی مختاراتِ الہیہ ہیں۔آپ سے بحث میں مشکل مرحلہ یہی تھا جو طے ہوگیا۔اب سب سے پہلے اصولی طور پر آپ کو اپنی کل والی پوسٹ میں اٹھاۓ گیۓ اعتراضات کو واپس لینا چاہیۓ ۔۔۔۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کلام کی تفہیم کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں تو کیا وہ سب مختارات الہیہ ہیں یا ان میں سے چندسطحیں ۔۔۔تو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیۓ کہ فہم کے درجات الگ چیز ہے اور غلط فہمی ایک بالکل ہی الگ چیز ہے۔غلط فہمی اس کو کہتے ہیں کہ متن جس کا حامل ہی نہ ہو۔سورہ کوثر میں کوثر کا ترجمہ اگر اہلبیت کردیا جاۓ جیسا کہ شیعہ مترجمین نے کیا ہے یا مسلمِ حنیف سے مراد امام ابوحنیفہ کے پیروکار مسلمان لیۓ جاٸیں جیسا کہ بعض سنی علماء سے ہم نے سنا یاجیسا کہ قرآن میں موجود لفظ احمد کو احمدیت پر منطبق کیا جاۓ تو یہ فہم کا کوٸ درجہ نہیں بلکہ غلط فہمی ہے۔یہ ایسا نہیں ہے کہ فہم کے مختلف لیول یا سطحوں میں سے کم تر سطح کا کوٸ فہم ہے بلکہ یہ کلیٸر کٹ غلط فہمی ہے متن میں اس کا کوٸ قرینہ ہی نہیں پایا جاتا ۔ متن کے مفہوم کی ہر وہ تہہ اور لیول اور سطح جس کا متن میں قرینہ موجود ہو اور جس کا انکار اس متن کا انکار متصور ہوسکے تو فہم کی وہ سطح مختارات الہیہ ہے۔لیکن باردگر عرض ہے کہ فہم کی سطحیں الگ چیز ہے اور غلط فہمی بالکل ہی الگ چیز ہے۔نیز متن کا ہر وہ فہم جس کےبارے میں ہمیں تاریخ کی واضح شہادت سے معلوم ہو کہ وہ رسول اللہ ص اور ان کے اصحاب کے دور میں کبھی رہا ہی نہیں۔ایسا فہم قرآن کا فہم نہیں ہے۔مثال کے طور پر کچھ لوگ جدید ساٸنسی نظریات کو قرآن کی مختلف آیات سے ثابت کررہے ہیں ,ہمیں معلوم ہیں کہ رسول اللہ ص اور انکے صحابہ کے دور میں یہ چیزیں تھی ہی نہیں تو ساٸنس ,فلسفہ ,ادب ,قانون,اور دیگر شعبوں میں قرآن کے متن سے کھینچاتانی کرکے بالجبر ایسے مفاہیم کا نکالنا جس کا دور رسالت و دور اہل بیت و صحابہ میں کوٸ تصور ہی سرے سے نہ رہا ہو قرآن کا کوٸ فہم نہیں ہے بلکہ متن کو بالجبر اپنے عہد کے اوٹ پٹانگ نظریات ثابت کرنے کےلیۓ استعمال کرنے کا عمل ہے۔کسی سمجھدار شخص سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔۔۔کل ایک شخص نے کلام غالب سے تھیوری آف ریلیٹیوٹی ثابت کرکے دکھاٸ۔یہ فہم نہ تھا کیونکہ غالب اس چیز سے واقف ہی نہ تھا۔اسطرح کی چیزیں متن پرجبر کرکے نکالی جاسکتی ہیں لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ ص اور ان کے اہل بیت و صحابہ کےدور میں آیات کا یہ مطلب لیا گیا یا نہیں۔اگر نہیں لیا گیا تو وہ چیز کبھی دین ہو ہی نہیں سکتی جس سے پیغمبر اور اہل بیت وصحابہ ناواقف ہوں۔۔۔“
میں نےزاہد مغل صاحب کو مخاطب کرتے ہوۓ مزید لکھا کہ :

”گزشتہ دو تین دنوں سے آپ کے کمنٹس اور کل آپکی جو پوسٹ تھی اس سے تو یہی معلوم ہورہا تھا کہ آپ متن اور اس کے معانی میں سے صرف متن کو ہی مختارات الہیہ مانتے ہیں۔۔۔۔بہرحال اگر دونوں کو مختارات الہیہ مانتے ہیں تو اچھی بات ہے۔۔۔۔۔باقی آپ نے سوال کیا تھا کہ کلام کی مختلف تہیں اور سطحیں ہوتی ہیں ان میں سے کونسی سطح مختارات الہیہ ہے اور کونسی نہیں۔۔۔تو اس کا تو میں اوپر تفصیلی جواب دے چکا ہوں کہ قرآنی متن کے فہم کی ہر وہ سطح /لیول مختارات الہیہ ہے جو دو شراٸط کو لازماَ پورا کرے:
١۔وہ غلط فہمی نہ ہو۔جیسا کہ اوپر کمنٹ میں مثالیں دی میں نے۔۔۔الکوثر کو اہل بیت سمجھنا,مسلم حنیف کو امام ابوحنیفہ کے پیروکار مسلمان سمجھنا اور احمد کو احمدیت پر منطبق کرنا فہم نہیں بلکہ غلط فہمی ہے کیونکہ کلام میں ایسا کوٸ قرینہ نہیں پایا جاتا۔۔۔
٢۔دوسرا یہ کہ متن سے فلسفہ,ساٸنس,ادب ,قانون و دیگر علوم کے ایسے نظریات ثابت نہ کیۓ جاٸیں جن سے اس کتاب کو لانے والے رسول اور ان کے ابتداٸ مخاطبین واقف ہی نہیں تھے۔۔۔۔قرآنی متن سے ایسے افکار کا اخذ کرنا متن پر جبر کیۓ بغیر ممکن نہیں۔۔۔۔
اسکے علاوہ متن کے فہم کے مختلف سطحوں اور درجات /لیول میں سے ہر وہ سطح جس کا قرینہ کلام میں موجود ہو اور جس انکار متن کا بھی انکار متصور ہوسکتا ہو تو وہ مختارات الہیہ ہے۔مختلف سطح کے اذہان کے مابین اس فہم کے لیول /سطح یا صدرا کے الفاظ میں درجہ gradation کا فرق ہوسکتا ہے۔“۔
زاہد مغل صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ :
“آپ واضح کریں کہ فہم کی غلطی اور متن کی گنجائش کو آپ کیسے الگ کرتے ہیں؟ ۔۔۔ ھمارے ہاں قرآن پڑھ کر حنفی شافعی مالکی وغیرہ آراء کی صورت مختلف آراء سامنے آئی ہیں اور ہم ان سب کو مختارات الہیہ کے اندر مفہوم مانتے ہیں۔ آپ بتائیں آپ کیا کہتے ہیں؟“
میں نے انہیں جواب دیتے ہوۓ لکھا کہ :
”آپ نے عجیب سوال کیا ہے کہ فہم کی غلطی اور متن کی گنجاٸش میں خط امتیاز کیا ہے؟۔۔۔ کسی بھی متن میں مختلف قرینے ہوسکتے ہیں لیکن نظم کلام اور کلام کا سیاق وسباق فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے جس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کلام کا کونسا قرینہ متن قبول کرتا ہے اور کونسا قرینہ متن قبول نہیں کرتا۔۔۔انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی کی بات سنتا ہے یا پڑھتا ہے تو سمجھ جاتاہے کہ متکلم کیا کہنا چاہتا ہے۔اگر بالفرض کسی کو کسی بھی وجہ سے کوٸ غلط فہمی لاحق ہوجاتی ہے تو اس کو رفع کرنا ہر سماج میں علمی ضرورت مانا جاتا ہے۔۔۔۔۔رہی آپ کی دوسری بات یعنی کلام میں موجود گنجاٸیش کا معا ملہ۔۔تو گنجاٸیش تو یہ نہیں ہے کہ آپ متن کے مدعا کے بالکل الٹ ایک بات سمجھ جاٸیں یا متن سے کوٸ ایسی بات نکال دیں جو متن میں موجود ہی نہ ہو۔۔۔
رہی آپ کی یہ بات کہ حنفی و شافعی آراء کو آپ لوگ متن کی گنجاٸیش سمجھتے ہیں ۔ان کا کیا کریں؟۔تو میں کہتا ہوں کہ صرف ابو حنیفہ و شافعی ہی نہیں,سقراط ,افلاطون ,ارسطو ,اور جدید ساٸنس دانوں و فلسفیوں کی آراء کی گنجاٸیش بھی اگر متن میں موجود ہو تو ضرور آپ مانیں ۔لیکن اس سے قبل آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گاکہ متن میں جو ” گنجاٸیش “ آپ اپنے کسی مخصوص نظریہ یا فکر یا راۓ کےلیۓ پیداکررہے ہیں وہ نظریہ ,فکر یا راۓ دور رسالت و اہل بیت و دورصحابہ میں موجود تھی۔جو نظریہ ,فکر یا راۓ دور رسالت و اہل بیت دور صحابہ میں موجود ہی نہ رہی ہو وہ دین کیسے ہوسکتی ہے۔“

یہاں پر زاہد مغل صاحب نے ایک ایسی بات کہی جس کی مجھے ان سے توقع نہیں تھی۔انہوں نے لکھا کہ:
”اب آخری بات آپ کے پاس یہ رہی ہے کہ جو بات کہی جائے وہ آپﷺ اور صحابہ کے دور میں ہونی چاھئے۔ ایسا لگ رہا ہے کوئی سلفی بول رہا ہے۔ خیر، اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سب فقہی گروہوں کا دعوی ہے کہ ہمارے آئمہ کی آراء سلف سے چلی آرہی ہیں۔۔۔ “دور صحابہ میں ہونا” کسی چیز کے دین ہونے کے لئے پیمانہ نہیں ہے۔۔۔“
اس کمنٹ کے جواب میں میں نے لکھا کہ :
” آپ نے آخری بات کہی ہے یہ بڑی کمال کی ہے۔کہ سب فقہی اٸمہ کی آراء پہلے ہی سے چلی آرہی ہیں۔۔۔۔جی,اگر ایسی کوٸ آراء فی الواقع ہوں اور متن کسی نہ کسی سطح پر اس کو قبول کرنے کی گنجاٸیش رکھتا ہو تو ضرور اس کو اپنایا جاۓ ۔ایسی آراء پر میرا کوٸ اعتراض نہیں ہے ۔۔۔۔
آپ کے آخری کمنٹ میں یہ جملہ بہت ہی کمال کا ہے :
”دورِ صحابہ میں ہونا کسی چیز کے دین ہونے کےلیۓ پیمانہ نہیں“۔۔۔۔
ہمارا موقف تو یہی ہے کہ دین کی تکمیل رسول اللہ ص کےدور میں ہی ہوچکی تھی ۔ دین پورے کا پورا رسول اللہ ص سے اہلبیت وصحابہ کو اور اہل بیت و صحابہ سے مابعد کے لوگوں کو منتقل ہوا ۔اور آپ کا موقف یہ ہے کہ کچھ نظریات ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو اہل بیت و صحابہ کے دور میں راٸج نہ تھے (یعنی مابعد کے دور میں سامنے آۓ ) لیکن ہیں وہ دین ہی۔۔۔۔زرا سوچیں آپ کہہ کیا رہے ہیں؟۔“

میں اسلام کے بارے میں پہلے بھی زرا کنفیوزڈتھا,” اسلام ایک نامعلوم حقیقت “کے نام سے ایک مضمون لکھ چکاہوں۔لیکن زاہد مغل صاحب کی یہ بات سن کرکہ”دورِ صحابہ میں ہونا کسی چیز کے دین ہونے کےلیۓ پیمانہ نہیں“میں کچھ مزید کنفیوزڈ ہوگیا ہوں۔ایک طرف آج تک ہمیں یہ سکھایا جاتا رہا ہے کہ دین اللہ تعالی ٰ کہ طرف سے رسول اللہ ص پر نازل ہوا۔رسول اللہ ص کی عین حیات میں دین کی تکمیل ہوٸ۔رسول اللہ ص نے یہ دین پورے کا پورا اہل بیت و صحابہ کرام تک منتقل کیا اوراہل بیت و صحابہ کرام نے بعد والوں کو منتقل کیا۔اس ترتیب کی لازمی بات یہ ہے کہ بعد والوں کے پاس دین کی حیثیت سے جو کچھ ہے وہ لازماََ اہل بیت و صحابہ کے پاس موجودہونا چاہیۓ ۔لیکن آج زاہد مغل صاحب نے یہ عجیب انکشاف کرکے کہ ” دورِ صحابہ میں ہونا کسی چیز کے دین ہونے کےلیۓ پیمانہ نہیں“ ہمیں ورطہء حیرت مں ڈال دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔

 

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں