جہانگیر حنیف
تصورِ نظم پر کافی پہلوؤں سے غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ نظری اصولوں کی ضمن میں ذکر کیا جانا والا محض ایک اصول ہے۔ اپنے مسمیٰ اور مصداق سے عاری۔ اصول و مبادی کی تزئین و آرائش کی غرض سے بسا اوقات اصولیین ایسے اصول اختیار کرتے ہیں، جو بطور اصول پُرکشش اور عملی طور پر غیر مؤثر ہوتے ہیں۔ کلام فہمی میں ایسے اصولوں کی کوئی خاص ضرورت یا اہمیت نہیں ہوتی۔ کلام کے کچھ فطری و بدیہی اوصاف ہیں۔ جیسے کلام جملوں سے تالیف پاتا ہے۔ جملے لفظوں سے تشکیل حاصل کرتے ہیں۔ جملے ایک خاص ترتیب سے کلام میں جگہ حاصل کرتے ہیں۔ کلام فصول میں منقسم ہوتا ہے۔ فصول کسی باب سے متعلق ہوتے ہیں۔ ابواب کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے۔ یہ کلام کی تشکیل کے فطری اوصاف ہیں۔ ان سے انکار ہے اور نہ انھیں نظم کے مبحث میںں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہم لفظوں کے بغیر کلام کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اشاراتی زبان بھی لفظی مسمٰیات کی حامل ہوتی ہے۔ یہاں لفظ سے مراد شعور کا لسانی مادہ ہے۔ ہم اس سے ماورا اپنے داخل و خارج سے متعلق ہونے سے قاصر ہیں۔ اس کا ایک اظہار صوتی الفاظ ہیں اور دوسرا علامات۔ مرقوم الفاظ علامات ہیں۔ اسے جبر سے تعبیر کریں یا فطرت سے، بات ایک ہی ہے۔ کلام کے فطری اوصاف کسی بحث کا موضوع نہیں ہوسکتے، اِلاّ یہ کہ خود شعور کے لسانی مادے اور اس کی حرکیات سے تعرض ہو۔ لہذا کلام کے فطری خواص اقرار و انکارکا موضوع نہیں بنتے۔ کیونکہ اگر یہ موضوع ہوتے، تو ہمیشہ سے ہوتے اور اگر یہ بحث کا موضوع کبھی نہ تھے، تو آج بھی ان پر بحث لایعنی ہے۔ صرف و نحو کے قواعد کو قبول کرکے بات کی بھی جاتی ہے اور سنی سمجھی بھی جاتی ہے۔ یہ تقاضا نہیں کیا جاتا کہ صرف و نحو سے آزاد حالت میں کلام کرکے دکھاؤ، اور اگر نہ کر پاؤ، تو کلام کے مؤلَّف و منظوم ہونے کا اقرار کرو۔ یہ دلیل نہیں۔ تحکّم ہے۔ محکمات کو متشابہات سے خلط کرنے کے نتیجہ میں متشابہات کے ساتھ ساتھ محکمات بھی ہاتھ سے نکل جائیں گی۔
دوسری خاصیت جو ہر کلام کا جزوِ لاینفکّ ہے اور جسے نظرِ انداز نہیں کیا جاسکتا، وہ کلام کی Intertextuality ہے۔ ہر کلام intertextual ہوتا ہے۔ وہ خود پر مکمل نہیں ہوتا۔ دوسرے texts سے مل کر مکمل ہوتا ہے۔ لہذا معنی کے فہم میں دوسرے متون اصل متن جیسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چناچہ کوئی کلام ارسالِ معنی میں خود مکتفی نہیں ہوتا۔ کوئی کلام اپنی حدود میں مکمل معنویت کا حامل نہیں ہوتا۔ وہ اپنی معنوی حدود رکھتا ہے، لیکن ان حدود کا تعین دوسرے متون کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ لہذا ہمیں لا محالہ دوسرے متون کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، تاکہ کلام کو اس کی بینَ المتنیت میں دریافت کیا جاسکے۔ آیا وہ کلام کسی سوال کا جواب ہے، یا کسی جواب پر سوال ہے۔ کیا وہ کسی موقف کی تائید ہے، یا کسی نظریہ پر تنقید۔ اُس کا سیاق وسباق کیا ہے۔ ہر کلام کو اُس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے جملے کا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے۔ ویسے کلام ایک خاص صورت حال اور ماحول میں وارد ہوتا ہے۔ اِس کا فہم از بس ضروری ہے۔ لہذا یہ تصور کرلینا کہ کلام کا اندرونی دروبست اس کے فہم کے لیے کافی ہے، خام خیالی ہے اور فہمِ متن کے معروف اصولوں کا انکار ہے۔ یہ بالکل سامنے کی چیز ہے کہ ہم متکلّم کے کلام کو سمجھنے کی غرض سے متکلّم کے بارے میں ملنے والی تمام اخبار کو بروئے کار لاتے ہیں اور اس مخمصہ میں نہیں پڑتے کہ منشائے متکلّم محض اُس کے کلام سے اخذ کیا جائے اور متکلّم سے متعلق باقی اخبار کو نظر انداز کر دیا جائے۔ کلام چونکہ محتمل للوجوہ ہوتا ہے، اس لیے مرادِ متکلم کی ثقہ واسطہ سے خبر اس کی تاویل میں ہماری مدد کرتی ہے۔ ہم بالعموم متن کی تاویل کو مروی مرادِ متکلم کی طرف لوٹاتے ہیں اور لفظوں کے ظاہری معانی کو مرادِ متکلم کی نفی کرنے کی وجہ نہیں بناتے۔ یہ چیز اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ کلام متکلم پر حاکم نہیں، بلکہ متکلّم کلام پر غلبہ رکھتا ہے۔ متکلّم کی نفی کرکے محض متن پر اصرار اغیار کی روش ہے۔ مغرب میں اس کا اظہار متکلّم کی وفات کے بیانیہ میں ملتا ہے۔ متن کو خود مکتفی سمجھنے، مراد متکلّم کو محض لفظوں کے داخلی دروبست سے دریافت کرنے اور روایت کو پسِ پشت ڈالنے کے نظریہ اور Death of the Author کے فلسفہ میں زیادہ بُعد نہیں پایا جاتا۔ دونوں مواقف کے بیان اور محرکات میں شاید اختلاف ہو، لیکن نتائج یکساں دکھائی دیتے ہیں: متکلم سے کامل اعراض اور متن پر مکمل انحصار۔
کمنت کیجے