Home » مولانا ابوالکلام آزاد کے ہاں مذہب اور پیروانِ مذہب کا فرق
ادیان ومذاہب شخصیات وافکار

مولانا ابوالکلام آزاد کے ہاں مذہب اور پیروانِ مذہب کا فرق

گل رحمان ہمدرد

مولانا ابوالکلام آزاد مذہب اور پیروانِ مذہب کا فرق بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

”قرآن کہتا ہے کہ خدا کی سچائی تمام انسانوں اور قوموں کے لیے یکساں طور پر آتی رہی ہے. دنیا کا کوئی ملک، کوئی گوشہ نہیں، جہاں خدا کے سچے بندے نہ پیدا ہوئے ہوں اور انھوں نے سچائی کی تعلیم نہ دی ہو، لیکن ہمیشہ ایسا ہوا کہ لوگ کچھ دنوں تک اس پر قائم رہے، پھر ”اپنے خیال“اور ”وہم“ سے طرح طرح کی ”نئی اور جھوٹی باتیں“ نکال کر اس طرح پھیلا دیں کہ خدا کی سچائی ”انسانی ملاوٹ “ کے اندر گم ہو گئی ۔“

(حوالہ کتاب ‘ذکر آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی)

اسلام کے پیروکاروں یعنی مسلمانوں نے اسلام کے ساتھ کیا حشر کیا۔؟۔اس کے بارے میں ابوالکلام کی راۓ ہے کہ مسلمانوں میں دو قسم کے مذہبی پیروکار ہیں۔

١۔مقلدین (شیعہ , ,جنفی ,جنبلی,مالکی,شافعی,حنفی اور پھر ان کی ایکسٹینشن دیوبندی او بریلوی)

٢۔غیر مقلدین( اہل حدیث ,سلفی )

ابوالکلام کا موقف ہے کہ مقلدین اور غیر مقلدین دونوں کا اسلام کی روحِ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔مقلدین امت محمدیہ کے نُصرانی ہیں جبکہ اہل حدیث امت محمدیہ کے یہودی ہیں۔یعنی مسلمان خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی, مقلدین ہوں یا غیر مقلدین ,ان کی اکثریت خدا کے اصل دین سے بہت دورکھڑے ہیں۔ مولانا آزاد نے بہت پرلطف پیراۓ میں اپنا یہ موقف بیان کیا ہے۔ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں :

”بڑی مصیبت یہ ہے،کہ جماعت اہل حدیث بھی اپنے اصلی ذوق اور ذہنیت سے ہٹ گئی ہے،علی الخصوص موجودہ علماء اہل حدیث کی مینٹیلٹی اس درجہ عمل و عزائم سے ابعد(دور) ہوگئی ہے کہ کسی طرح انہیں راہ ِعمل پر نہیں لایا جا سکتا۔ایک ”لاعلاج مرض“ حد درجہ پستی فکر و معیارِنظر کا پیدا ہوگیا ہے۔مبتدعین و مقلدین کی “نُصرانیت” کے مقابلے میں یہاں ظاہر پرستی و تقشف کی “یہودیت” سرایت کر گئی ہے۔کس کس کو آپ راہ پر لائیں گے اور کتنا وقت آپ سنگ تراشی میں صرف کریں گے؟“

(مولانا ابوالکلام آزاد، تبرکات آزاد،ص 31)

مسلمانوں نے اپنی تشریحات و تاویلات کےزریعہ اپنے مذہب کا جو حشر کیا ہے,دیگر مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذاہب کے ساتھ یہی حشر کرچکےتھے۔یعنی ایسا نہیں ہوا کہ صرف مسلمان ہی اصل دین سے بہت دور نکل کر اپنے خودساختہ نظریات وعقائد کی تاریکیوں میں اصل حقیقت کوگم کر گیۓ بلکہ اس سے پہلے والے مذاہب کے پیروکار بھی ایسا ہی کرچکے تھے۔ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ”صداۓ حق“ میں اسکی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوۓ لکھتے ہیں:

”دنیا کے تمام مذاہب کے انحطاط وہلاکت کی ایک بڑی علت رؤساءِ ِ مذہبی کا معبودانہ اقتدار ہے,اسلام نے اس زہر کا تریاق اسی اصل اصول کو تجویز کیا تھاکہ امر بالمعروف کی خدمت کو اس طرح عام اور ہر فردِ ملت پر پھیلایا جاۓ کہ ہندوؤں کے برہمنوں اور عیسائیوں کے رومن کیتھولک فادروں کی طرح, مذہبی دعوت و اصلاح کی کوئی جماعت اپنی اقلیم حکمرانی نہ بناۓ ۔۔۔لیکن اب صدیوں سے دیکھیۓ کہ مسلمان جن پیڑوں کو کاٹتے آۓ تھے,ان سے خود ان کے پاؤں بوجھل ہورہے ہیں“

(صداۓ حق ,صفحہ 43)

گویا کہ مسلمان جس بیماری کا علاج کرنے آۓتھے خود ہی مولانا آزاد کے بقول اسی بیماری میں مبتلا ہوگیۓ۔مسلمان اس بیماری میں کب سے مبتلا ہوۓ ؟اس اقتباس میں مولانا آزاد کا جواب ہے ”صدیوں سے“۔ابوالکلام کی اسطرح کی تنقیدات پڑھ کر ڈاکٹر خضریاسین یاد آتے ہیں جنہوں نے واشگاف الفاظ میں لکھا ہے:

”جس طرح سابقہ مذاہب کو ان کے علماء نے انسانی خیالات سے آلودہ کرکے ان میں ترمیم وتنسیخ کی ہے,بالکل اسی طرح اسلام کے علماء نے بھی تفسیر,حدیث ,فقہ اور علم کلام کا سہارا لےکر اسلام میں بھی انسانی خیالات دھڑلے سے داخل کردئیے ہیں۔مسلمان اب نبوت کما ھئی (کتاب وسنت)پر قانع نہیں ہیں بلکہ ائمہ فقہ کے اجتہادات , ائمہ حدیث کے مختارات اور مفسرین کے مفہومات کو بھی انہوں نے مذہب کا مستقل حصہ بنالیا ہے۔اس اعتبار سے مسلمانوں اور سابقہ مذاہب کے پیروکاروں کی گمراہی میں کوئی جوہری فرق نہیں۔سابقہ مذاہب کے علماء نے اپنے مذہب کے ساتھ جو کچھ کیا وہی کچھ اسلام کے علماء نے اسلام کے ساتھ کیا ہے۔افسوس ہے کہ کسی کو اس کا احساس تک نہیں۔“(خضریاسین ,واٹس ایپ میسیج 2022)

آج اگر کوئی غیرمسلم ہم سے یہ سوال پوچھ لے کہ اسلام کا حقیقی ورژن کس فرقے والوں کے پاس ہے؟تو یقین کریں ہم جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔سنت کی تعداد اور ہئیت بارے مختلف فرقوں کا اختلاف ہے,کہیں کہیں یہ اختلاف بہت شدت اختیار کرجاتا ہے۔ایک ہی عمل بعض کے نزدیک سنت اور دوسروں کے نزدیک بدعت ہے۔علمِ حدیث میں شیعہ علم حدیث کے اصول ونتائج سنی اور اباضی علم حدیث کے اصول و نتائج سے متصادم ہیں۔اور کچھ معلوم نہیں کہ کس کا موقف درست ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو اس کے حقیقی مدعا کے بارے میں مختلف فرقوں اور مختلف مکاتب فکر کے مفسرین مختلف تفسیری اصولوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مختلف راۓ رکھتے ہیں۔ہر شخص اپنے ذاتی ایقان کے مطابق قرآن کو سمجھ رہا ہے۔لیکن کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے قرآن کے حقیقی مدعا کو پوری طرح سمجھ لیا ہے۔افکاروخیالات کی ان بھول بھلیوں میں رسولِ خدا و اہل بیت اور اصحابِ رسول کا اسلام کس مکتب فکر کے پاس ہے,یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ہم میں سے کوئی شخص جاہل ہو تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ”حقیقی اسلام “ وہ ہے جو ہمارے فرقے کے اسلاف نے بیان کیا ہے یا وہ ہے جوہم نے اپنی تحقیق و جستجو سے سمجھ لیا ہے ,لیکن کوئی بھی باشعور شخص اس قسم کا احمقانہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں اور میرے ہم فکر لوگ اسلام کو سو فی صد درست طور پر سمجھ گئے ہیں۔ ایسے میں ایک عام مسلمان کیا کرے؟اس کےلیۓ راہِ نجات کیا ہے؟بس یہی کہ جس کو وہ درست سمجھ رہا ہے اس پر عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس کی اجازت دے کہ وہ جسے درست سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں۔آگے خدا رحیم وکریم ہے۔اس کی رحمت سے امید ہے کہ آخرت میں وہ ہمارے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرےگا۔

اوپر اسلام کے بارےمیں جو بات کی گئی ہے دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کو اسی پر قیاس کیجیۓ۔مسلمانوں کی طرح دیگر مذاہب والوں کی اکثریت بھی اصل حقیقت کو گُم کرچکی ہے اور اب اپنے اپنے فرقوں کے اسلاف کے افکار وخیالات کی بھول بھلیوں میں گُم ہیں۔ہاں لیکن اُن میں بھی جیسا کہ خود قرآن کہتا ہے سب ایک جیسے نہیں ۔ان مذاہب کے پیروکاروں میں سچے اور مخلص پیروکار بھی موجود ہوتے ہیں ۔لیکن ہر مذہب میں اکثریت راہِ حق سے ہٹ کر رسمی دین پر چلنے والوں کی ہوتی ہے۔ابوالکلام کاموقف جو انہوں نے سورہ فاتحہ کی تفسیر ام الکتاب اور ترجمان القرآن کے ابتدائی پانچ پاروں میں بیان کیا ہے یہ ہےکہ ہر زمانے (جس میں ماضی کے ساتھ ساتھ حال ومستقبل کا زمانہ بھی شامل ہے)کے تمام مذاہب کے سچے اور حقیقی پیروکار نجات کے مستحق ہوں گے جبکہ جنہوں نے حق کی راہ چھوڑ کر گمراہی اختیار کی اور دینِ حقیقی(جوکہ تمام انبیاء کا مشترک ہے) کے بجاۓ خود ساختہ مذہبی گروہ بندیاں بناکر ان کے خود ساختہ عقائد ونظریات کی پیروی کی ,تو ایسے لوگ آخرت میں ناکام ٹھریں گے الاّ یہ کہ ان میں کوئی اس قابل ہو کہ اس کے ساتھ کسی محکم عذر کی وجہ سے رحم کیاجاۓ۔

اہم ترین نکتہ یہاں یہ ہے کہ چونکہ خدا کی رحمت عالمگیر اوراس کا عدل بے لاگ ہے,اسلیۓ اگر رعایت کی جاۓ گی توکسی ایک مذہب کے پیروکاروں(مثلاََ مسلمانوں ) کے ساتھ نہیں کی جاۓ گی بلکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ رعایت کی جاۓ گی اور اگررعایت نہیں کی جاۓ گی تو کسی ایک مذہب والوں کے ساتھ بھی رعایت نہیں کی جاۓ گی۔یہ بات خدا کے عالمگیر قانون عدل کے خلاف ہے کہ ایک ہی طرح کے جرم(یعنی اپنےمذہب کی حقیقت کو گُم کرنے کے جرم) میں ایک خاص مذہب والوں کےساتھ تو رعایت کی جاۓ اور دیگر مذاہب والے خدا کی اس رحمت سے محروم رہ جاٸیں۔بہرحال ابوالکلام اس بات کے قائل ہیں کہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ خدا اپنی عالمگیر رحمت کے مطابق معاملہ کرے گا۔سب خدا کی رحمت سے فیض یاب ہوں گے۔چنانچہ گاندھی جی مولانا آزاد کے بقول اُن برگزیدہ اور پرہیز گار لوگوں میں سے ایک تھے جو ایسی پاکیزہ روح رکھتے تھے کہ اس سچائی تک وہ پہنچے ہوۓ تھے۔ انہوں نے ہندو دھرم کی اتنی اونچی جگہ بنائی تھی کہ دنیا کےتمام جھگڑے انہیں مٹے ہوۓ نظرآتے تھے۔ان کے سامنے ”ایک “ کھلی ہوئی سچائی تھی۔مولانا آزاد کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

”گاندھی جی ہندو تھے اور ہندوہی رہے ۔لیکن انہوں نے ہندو دھرم کی اتنی اونچی جگہ بنائی تھی کہ جب وہ اس بلندی پر سے دیکھتے تھے تو دنیا کے تمام جھگڑے انہیں مٹے ہوۓ نظر آتے تھے۔ان کے سامنے ایک کھلی ہوئی سچائی تھی جو کسی ایک (فرد,قوم,سماج یامذہب)کا ورثہ نہیں ہے بلکہ سورج اور اس کی شعاعوں کی طرح سب کےلیۓ ہے۔۔۔“(گاندھی جی کی وفات پر تعزیتی کانفرنس سے  خطاب)

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں