عمران شاہد بھنڈر
مجھے ایک پوسٹ میں ٹیگ کیا گیا ہے، لیکن میں وہاں تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ صاحبِ پوسٹ میری فرینڈلسٹ میں موجود نہیں ہیں۔ پہلے ان کی پوسٹ ملاحظہ کیجیے۔
’’جس نے بھی کہا تھا شاید سچ ہی کہا تھا کہ مشرق اور مغرب کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔ اب اس ایک بات کو دیکھ لیجیے۔ مشرق میں غزالی نے علت و معلول کے قانون سے انکار کیا تو سائنسی تحقیق اور ترقی کا بیڑا غرق ہو گیا۔ مغرب میں ڈیوڈ ہیوم نے علت و معلول کے قانون سے ویسا ہی انکار کیا تو سائنس میں تحقیق اور ترقی کی رفتار بے حد تیز ہو گئی اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ پروفیسر ساجد علی
یہ پوسٹ پڑھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ پاکستان میں فلسفے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط بنیادوں پر خیالات کا تقابل کرتے ہیں اور اس غلط تقابل سے باطل نتائج اخذ کرتے ہیں۔ آئیے ڈیوڈ ہیوم کے بارے میں اقبال کے خیالات دیکھتے ہیں۔ اقبال لکھتا ہے،
”سائنسی تجربیت کا ساتھ دیتے ہوئے ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم داخلی نوعیت کے کسی تصور سے کام لیں۔ ہیوم کی تنقید کا مطلب یہ تھا کہ تجربی سائنسوں کو توانائی کے اس تصور سے نجات دلوائی جائے جو اس کے خیال میں حسیاتی تجربے کی دنیا میں کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔ یہ جدید ذہن کی سائنسی عمل کو پاک صاف کرنے کی پہلی کوشش تھی۔ آئین سٹائن کا کائنات کا ریاضیاتی تطہیر کے اس عمل کو مکمل کرتا ہے جو ہیوم نے شروع کیا تھا۔“ تشکیلِ جدید، ساتواں لیکچر۔ص، 227
اقبال نے ہیوم بارے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس میں ایک ذرے برابر بھی کوئی شک نہیں ہے۔ ہیوم کا ماننا تھا کہ ماورائے تجربہ عقل جن حقائق تک رسائی کا دعویٰ کرتی ہے وہ فرضی اور قیاسی ہیں۔ ممکن ہے کہ عقل اس کوشش میں کسی صحیح نتیجے پر بھی پہنچ جائے، لیکن اسے کسی بھی صورت میں سائنسی جواز حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہیوم کہتا ہے کہ
”قبل از تجربہ کسی خاص معلول کا تخیل و اختراع سراسر فرضی ہو گا۔ اس تخیل سے ذہن اگر اتفاقاََ صحیح معلول کی طرف منتقل بھی ہو جائے تاہم علت و معلول کا باہمہ ارتباط فرضی ہی رہے گا۔۔۔۔۔ یہی سبب ہے کہ کسی سنجیدہ و فہمیدہ فلسفی نے کبھی کسی طبیعی عمل کی انتہائی علت بتانے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا۔۔۔۔ انسانی عقل کی انتہائی جدوجہد صرف یہ ہے کہ وہ حوادث طبیعی کے اصول کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنا دے۔“
فہمِ انسانی، ص، 50
ہیوم مزید لکھتا ہے کہ ”اصل یہ ہے کہ ذہن چاہے جتنی باریک بینی اور موشگافی سے کام لے مگر یہ اس کے بس سے باہر ہے کہ کسی پیش کردہ علت کا معلول تخیل سے گھڑ کر بتا سکے۔“ ہیوم کے ان الفاظ سے اقبال کے نکالے گئے نتیجے کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ طبیعی عمل میں علت و معلول کے درمیان تعلق کی نوعیت کو دریافت کرنا عقل کا وظیفہ ہے نہ کہ عقل ماورائے تجربہ صرف قیاس سے کام لے کر کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہیوم کا سارا زور تجربے پر ہے نہ کہ ماورائے تجربہ ’’حقائق‘‘ پر۔ ماورائے تجربہ عقلی قیاس کی حدود متعین کرنا اور عقل کو کسی بھی طبیعی عمل میں محض قیاس کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے سے روکنا ہیوم کی تشکیک کا بنیادی پہلو ہے۔ اسی پہلو کے پیشِ نظر ہیوم عقل کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ علت و معلول کے حوالے سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہیوم صرف یہ کہتا ہے کہ علت اور معلول کے درمیان کسی بھی طرح کا لزوم نہیں پایا جاتا۔ وہ ابوحامد غزالی کی طرح یہ نہیں کہتا کہ آگ روئی کو نہیں جلاتی بلکہ اللہ جلاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آگ اور روئی کے درمیان جلنے کے عمل میں جو لزوم ہے اس کو دریافت نہیں کیا جا سکتا۔ ابوحامد غزالی اور ہیوم کے نکالے گئے نتائج میں بعد المشرقین ہے۔ ابوحامد یہ بات ہی تسلیم نہیں کرتا کہ آگ روئی کے جلنے کا سبب ہے۔ جبکہ ہیوم صرف یہ کہتا ہے کہ اس سبب میں جو لزوم پایا جاتا ہے اس کو جانا نہیں جا سکتا۔ ابو حامد غزالی پورے وثوق اور بغیر کسی دلیل کے جو دعویٰ کرتا ہے وہ اس کے اپنے الفاظ میں یوں ہے،
”ہم یہ مانتے ہیں کہ احتراق کا فاعل جو روئی میں سیاہی اور روئی کے اجزا میں پراگندگی پیدا کر دے اور اسے سوختہ یا خاکستر کردے وہ بلاشرکت غیرے صرف اللہ ہے، یا تو بہ وساطت ملائکہ یا بلاواسطہ، رہی آگ کہ ایک جماد ہے تو اس کا اپنا کوئی فعل نہیں۔“ تہافت الفلاسفہ، ص، 416۔
ابو حامد جب اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ آگ روئی کو جلانے کا سبب نہیں ہے تو اس نے وہاں رُکنے کی بجائے سیدھا خداپر چھلانگ لگا دی، یہی علم الکلام کی حدود ہے۔ سوال یہاں پر یہ اٹھتا ہے کہ اگر آگ روئی کو جلانے کا سبب نہیں ہے تو ابو حامد کو یہ کیسے علم ہوا کہ روئی کو جلانے کا سبب اللہ ہے؟ دلائل کیا ہیں؟ غزالی نے ماورائے تجربہ جو نتیجہ نکالا اسی سے ہیوم کا سارا فلسفہ برسرِپیکار ہے۔ ہیوم فلسفی تھا، تشکیک اس کے نتائج کا ماحصل تھی۔ غزالی مذہب پرست تھا، دلیل سے انحراف کرکے مذہب کی آغوش میں پنا لینا اس کے مذہب کا تقاضا تھا۔ حالانکہ بات سادہ سی ہے کہ اگر ایک طبیعی عمل تجربے میں ثابت نہیں ہے تو وہ ماورائے تجربہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے! یہی ہیوم اور غزالی میں فرق ہے۔ اور یہی مشرق و مغرب کی ذہنیت اور فکری جہت میں فرق ہے۔ ماورائے تجربہ کا انکار اور تجربے کو بنیادی ماننا ہی وہ پہلو ہے جس سے ہیوم کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہیں سے سائنس کو صحیح سمت دستیاب ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے