محمد طلحہ ندوی
علامہ شبلی نعمانی کی الفاروق اپنے دور کا ایک نیا کارنامہ اور عظیم تخلیق ہے،ان سے پہلے تک تاریخ نے جو ترقی کی تھی اور یورپ نے اس فن کو جس قدر فروغ دیا تھا اس سے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیائے اسلام متاثر تھی، لیکن اپنے اسلامی سرمایہ سے استفادہ کرکے اس کے اصولوں کے مطابق روایات و واقعات اور سیرت کی تدوین کا آغاز نہیں ہوا تھا، عالم عربی میں بھی تقریبا یہی صورت حال تھی، عام طور پر اہل کمال کے اجمالی تذکروں کا دور تھا، جن میں کشف و کرامات کی ایسی کثرت تھی کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس سے بجائے ان کا معتقد ہونے کے ان سے دور ہورہا تھا، علماء نے اپنے مدعا کی توضیح وتشریح کے لیے جو زبان اختیار کی تھی وہ اس دور کی ترقی یافتہ اردو کے مقابلہ میں بہت کم قابل اعتنا تھی جس کی وجہ سے ان کی تحریروں کی طرف توجہ بالکل نہیں تھی، دوسری طرف انہوں نے جدید دانش گاہوں میں جو کچھ پڑھا تھا اس نے ان کے دلوں میں اسلام کی عظمت کو بجائے بڑھانے کے کم کردیا تھا، اور وہ پوری طرح ان سے مرعوب تھے، عربی پر ان کی نظر نہیں تھی کہ اپنے قدیم سرمایہ پر اعتماد ہوتا، قومی اعتبار سے وہ مسلمان تھے اور نہایت اعلی جذبہ رکھتے تھے، ان کے اساتذہ جنہوں نے ان کی تربیت کی تھی ان کی بھی اسلام کی تاریخ وروایت پر وہ نظر نہیں تھی جن کے ذریعہ وہ ان کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوتے۔
یہ اس وقت کی ضرورت تھی کہ ان کا اپنے دین پر اعتماد بحال کیا جائے، کیوں کہ یہی قوم کے مستقبل تھے، اگر یہ دین سے برگشتہ ہوگئے تو بڑا نقصان ہوگا، وہ عربی سے عام طور واقف نہیں تھے یا برائے نام واقف تھے، انگریزی تعلیم کا فیض تھا کہ انہیں تاریخ اور ادب سے دلچسپی تھی، اردو زبان وادب کی بھی سطحی تحریر ان کو اپنی طرف مشکل سے متوجہ کرسکتی تھی، علامہ شبلی نے کالج کے طویل دور تدریس میں اس کا پوری طرح مشاہدہ کرلیا تھا، اور اپنی ذہانت وبصیرت سے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرلیا تھا، علی گڑھ کالج جہاں انہوں نے طویل عرصہ گذارا تھا اور طلبہ کے مزاج سے پوری طرح واقف تھے، اس کا عام مزاج یہی تھا اور اس کے ساتھ دیگر عصری دانش گاہیں بھی اسی کے نقش قدم پر تھیں۔
اس صورت حال کو دیکھ کر علامہ نے ہیروز آف اسلام کی سیریز کا خاکہ بنایا، اور اس کا آغاز انہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری سے کیا، کیوں کہ تاریخ میں جتنا مواد حضرت عمر کی سوانح میں ہے اور ان کے طویل دور حکمرانی کے مطالعہ سے عصری تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی تاریخ کے نظم ونسق کا جو نادر موقع ہاتھ آتا وہ سیدنا ابوبکر صدیق یا حضرت عثمان ذی النورین کے حالات زندگی میں نہیں مل سکتا تھا۔ گرچہ یہ سچ ہے کہ حضرت ابوبکر نے مملکت کی بنیاد کو مضبوط کرکے ان کے لیے راستہ ہموار کردیا تھا، ورنہ شاید حضرت عمر فاروق کو یہ موقع بآسانی نہ ملتا، نیز حضرت ابوبکر کو بھی مزید موقع ملتاتو وہ یہ کام بھی کرتے، دو سال کے عرصہ میں انہوں نے حکومت کو اس قدر مستحکم بنیادوں پر کھڑا کردیا تھا کہ کوئی آسانی سے ہلا نہیں سکتا،سارے باغیوں کی سرکوبی کردی گئی تھی، جس کا ذکر کئی اور لوگوں نے کیا ہے اور خود علامہ شبلی کو بھی اس کا اعتراف تھا،لیکن نواجوان نسل جو علامہ شبلی کے پیش نظر تھی وہ ان چیزوں سے زیادہ مغربی نظم مملکت سے مرعوب تھی، اس کو اپنی تاریخ میں کسی ایسے ہی نمونہ کی تلاش تھی۔ چنانچہ علامہ نے پورے اہتمام سے اس کے لیے اصل اور مستند مآخذ کی ورق گردانی کی، سفر ترکی کے ان کے اہم مقاصد میں ایک یہ بھی تھا کہ وہاں موجود نادر مخطوطات سے اس کتاب کے لیے کچھ قابل ذکر مواد ہاتھ آئے، اس کے بعد نہایت تحقیق سے معاصر مذاق کے مطابق یہ کتاب لکھی اور یہ ثابت کردیا کہ موجودہ نظام حکومت و مملکت سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، ہماری تاریخ میں اس کی سب سے اعلی مثال موجود ہے، اور اس وقت تک کی تاریخ میں کسی حکومت کا نظم اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا،اگر کسی کا دعوی ہے تو تاریخی شواہد اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ اسی لیے انہوں نے اس میں زیادہ انہیں موضوعات کو زیر بحث لایا جو معاصر مذاق کو اپیل ہوسکتے تھے، کشف و کرامات کے ساتھ حضرت سیدنا عمر کے ذوق عبادت، روحانی احوال اور اس طرح کے دیگر موضوعات کو اجمالی اشاروں میں ذکر کرنا کافی سمجھا۔ اور اس کے ذریعہ ان طلبہ کا اپنے دین پر اعتماد بحال اور اپنے قومی کارنامے کو فخر سے دیکھنے میں کامیابی حاصل کی، حتی کہ اعتدال مزاج شیعہ اہل علم نے بھی اس کو قبول کیا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے پیش وہ حالات نہیں تھے اس لئے مولانا نے اس کتاب پر اپنی بعض مجلسوں اور تحریروں میں یہ اعتراض کیا یہ اس کتاب میں حضرت عمر کو ایک فوجی جرنل یا بادشاہ بناکر پیش کیا گیا ہے، اور اس میں روحانیت یا روحانی ابواب کی کمی محسوس ہوتی ہے، دیگر قدیم بزرگوں نے بھی اس کتاب کو اسی نظر سے دیکھا، لیکن وقت کے ساتھ اس کی مقبولیت نے ثابت کردیا کہ یہ کتاب وقت کی ضرورت تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے حیات شبلی میں ان اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے بزرگوں کو اس کتاب میں روحانیت کی کمی محسوس ہوتی ہے لیکن الحمد للہ کہ وہ مباحث تو ہماری قدیم کتابوں میں موجود ہی ہیں یہاں ان نئے مباحث کو پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ اس طرح سید صاحب نے اس کتاب پر حضرت تھانوی اور ان کے وابستگان کا اعتماد بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
بعد میں سید صاحب پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ اس کتاب میں روحانیت کی کمی احساس بارگاہ اشرفی کا فیض ہے لیکن وجہ یہ نہیں تھی بلکہ بزرگان دیوبند کا عتماد بحال کرنے کے لئے یہ بات لکھ دی گئی تھی، اور ان بزرگوں کی آراء اس پورے ماحول سے عدم واقفیت کا نتیجہ تھیں جو علامہ شبلی کے پیش نظر تھا اور علی گڑھ کے طویل دور قیام میں انہوں نے جس کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اس کے علاوہ بھی سید صاحب نے حیات شبلی میں پوری طرح کوشش کی ہے کہ علامہ شبلی کے متعلق بزرگان دیوبند کی جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوجائیں۔
بہر حال اس پہلو سے الفاروق کی اہمیت اور قدر وقیمت آج ایک صدی گذرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی، اور ملت کھا نوجوانوں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا طلحہ نعمت ندوی، خدا بخش لائبریری، پٹنہ، بہار (انڈیا) کے ساتھ بطور تحقیق کار وابستہ ہیں۔
کمنت کیجے