Home » غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ حجاب پر ان کی وضاحت پر تبصرہ
تفسیر وحدیث شخصیات وافکار فقہ وقانون

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ حجاب پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے دوسری مثال پر غامدی صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے۔ اس مثال میں ہم نے واضح کیا تھا کہ سورۃ نور کی آیت 58 میں پردے کے احکام میں جو تبدیلی کی گئی، قرآن نے اسے تبیین کہا (كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ) اور یہی مولانا اصلاحی صاحب کی رائے ہے کہ آیت 58 میں آیت 31 کے احکام میں اضافہ کیا گیا ہے۔

اس پر نقد فرماتے ہوئے غامدی صاحب نے فرمایا کہ فاضل ناقد (یعنی ہم) نے جوش تنقید میں یہ دیکھنے کی زحمت نہ کی کہ آیت 31 میں اجازت لینے کی کوئی بات ہی مذکور نہیں بلکہ اجازت لینے کی بات کا ذکر آیات 27 تا 29 میں ہے اور ہم نے یہ غور کئے بغیر ہی اصلاحی صاحب کی بات قبول کرلی۔ رہی بات اصلاحی صاحب کی جانب سے آیت 31 لکھنا، تو یہ گویا آیت کا نمبر لکھنے میں تسامح ہے۔ یوں انہوں نے اپنے بقول ہمارے استدلال کی بنیاد ہی کو ختم کردیا۔ پھر آیات میں مذکور تبیین کو آپ نے جس طرح بیان فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے:

سورہ نور کی آیات 27 تا 29 میں جب اجازت طلب کرنے کا حکم دیا گیا تو وہاں بچے بوجہ عوراض اہلیت اور غلام وغیرہ بوجہ خصوصی رخصت اس حکم میں شامل نہ تھے، لہذا ان پر یہ حکم نہیں تھا کہ وہ اجازت طلب کریں

پھر سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ حکم خواب گاہوں سے متعلق بھی تھا کہ بچوں اور غلاموں کو وہاں بھی اجازت کی ضرورت نہیں؟ تو آیت 58 میں اسے واضح کردیا گیا کہ اس حوالے سے تین اوقات کا خیال رکھنا ہے

اور خواب گاہ آیات 27 تا 29 کے ابتدائی حکم (کہ ان خاص طبقات کو گھر میں داخلے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں) سے عقل عام کی رو سے مستثنی تھی، یعنی ان کے مطابق ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ کسی کے گھر میں داخلے کے لئے اجازت کی ضرورت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی خواب گاہ میں بھی بلا اجازت جاسکتے ہیں۔ پس قرآن نے ایک واضح یا obvious بات کو بیان کردیا ہے۔

اس طرح آپ نے ایک جانب یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم نے مولانا اصلاحی صاحب کو غلط سمجھا اور دوسری جانب یہ دکھانے کی کوشش کی کہ قرآن نے یہاں جسے تبیین کہا اس میں کسی حکم کے اندر کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوئی بلکہ ابتدائے کلام میں جو بات واضح تھی اسے کھول دیا گیا ہے۔

تبصرہ

محترم غامدی صاحب کی جانب سے اصلاحی صاحب کی بات کو ہوا میں اڑا کر ہماری بات کو بے بنیاد کہنے کی کوشش مفید مقصد نہیں۔ معلوم ہوتا ہے آپ نے اصلاحی صاحب کی تفسیر ملاحظہ کرنے کی زحمت نہ فرمائی کیونکہ اصلاحی صاحب نے آیت 31 کی تفسیر میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ اس میں مذکور احکام کا استثناء آگے آیت 58 میں آرہا ہے۔ چنانچہ ملازموں و غلاموں وغیرہ کے سامنے ظہور زینت کے احکام میں نرمی کے تحت وہ لکھتے ہیں

آگے اسی سورہ میں، انہی احکام سے متعلق، بعض توضیحات آئیں گی جو بعد میں نازل ہوئیں۔ ان میں لونڈیوں اور غلاموں دونوں کو، تین مخصوص اوقات کے علاوہ، اجازت کے بغیر گھر میں آنے جانے کی اجازت دی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ’طَوّٰفُوْنَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘ کہ تم ایک دوسرے کے سامنے ہر وقت آمد و شد رکھنے والے ہو۔ان وجوہ سے میں ان فقہاء کی رائے کو صحیح سمجھتا ہوں جو اس لفظ کو لونڈیوں اور غلاموں دونوں کے لیے عام مانتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے بھی وہ پابندی ضروری ہو گی جو خود قرآن نے بیان کر دی ہے اور جس کی وضاحت آگے آیت ۵۸ میں آئے گی۔

پس اصلاحی صاحب کے نزدیک آیت 31 میں مذکور احکام کے پیش نظر ہی آیت 58 میں اضافی قیود عائد کی گئی ہیں، ان کی بات کو تسامح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اصلاحی صاحب کے نزدیک اجازت لینے کے حکم سے غلاموں کا استثناء رخصت کے عام قواعد سے ماخوذ نہیں ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا مفروضہ ہے بلکہ آیت 31 پر مبنی تھا جسے بعد میں مقید کردیا گیا۔

مولانا اصلاحی صاحب نے تفسیر کے علاوہ اپنے ایک رسالے “قرآن اور پردے کے احکام” میں بھی ان آیات کو موضوع بنایا ہے جس کی جانب بھی ہم محترم غامدی صاحب کی توجہ مبذول کرانا چاہیں گے۔ اس رسالے میں آیت 58 میں مذکور حکم کی توجیہہ اصلاحی صاحب نے قدر مختلف انداز سے کی ہے۔ اس رسالے میں آپ نے آیات 27 تا 31 کو اکٹھے لکھ کر گھر کے اندر پردے کے احکام ذکر کئے ہیں۔ پھر آیت 58 کے بارے میں لکھا ہے

غلاموں اور نابالغ بچوں کو گھر کے اندر آنے جانے کے لئے ہر وقت اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف نماز فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت اور عشاء کے بعد اجازت لینی ضروری ہے (۔۔۔) یہ ضرورت کے لحاظ سے اوپر والے احکام میں گویا تخفیف کی گئی ہے

یہاں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے غلاموں کو آیت 27 کے عموم میں شامل کیا ہے اور پھر آیت 58 سے ان کے حکم میں تخفیف کی ہے کہ انہیں ہر وقت اجازت لینا ہے۔ ہر دو صورت میں اگرچہ نتیجہ ایک ہے، یعنی ابتدائی حکم کے برعکس غلاموں اور بچوں نے تین اوقات میں اجازت لینا ہے نہ کہ ہر وقت، تاہم بنائے استدلال فرق ہے۔ ایک صورت میں یہ ابتدائی حکم پر اضافی قید ہے اور دوسری صورت میں یہ تخفیف ہے اور یہ دونوں باتیں ہمارے مقدمے کو ثابت کرتی ہیں کہ اصل حکم پر اضافہ و کمی قرآن کے محاورے میں تبیین ہے جیسا کہ مولانا اصلاحی صاحب کے دو بیانات سے ثابت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک ہی حکم کی توجیہہ مختلف انداز سے کیا جانا ممکن ہوتا ہے اور مکتب فراہی کا یہ اصرار بے سود ہے کہ آیات کا کوئی دوسرا قابل فہم محل گویا ممکن ہی نہیں۔

مولانا اصلاحی صاحب کی بیان کردہ توضیحات انوکھی نہیں ہیں، یہی رائے امت کے جلیل القدر مفسرین بیان کرتے آئے ہیں۔ مثلا امام رازی (م 606 ھ) لکھتے ہیں

وَظَاهِرُ الْآيَةِ يَدُلُّ عَلَى اخْتِصَاصِ عَبِيدِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْأَطْفَالِ مِنَ الْأَحْرَارِ بِإِبَاحَةِ مَا حَظَرَهُ اللَّه تَعَالَى مِنْ قَبْلُ عَلَى جَمَاعَةِ الْمُؤْمِنِينَ بِقَوْلِهِ: لَا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْرَ بُيُوتِكُمْ [النُّورِ: 27] فَإِنَّهُ أَبَاحَ لَهُمْ إِلَّا فِي الْأَوْقَاتِ الثَّلَاثَةِ وَجَوَّزَ دُخُولَهُمْ مَعَ مَنْ لَمْ يَبْلُغْ بِغَيْرِ إِذْنٍ وَدُخُولَ الْمَوَالِي عَلَيْهِمْ

اسی طرح علامہ قرطبی (م 671 ھ) لکھتے ہیں

قَالَ الْعُلَمَاءُ، هَذِهِ الْآيَةُ خَاصَّةٌ وَالَّتِي قَبْلَهَا عَامَّةٌ، لِأَنَّهُ قَالَ:” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلى أَهْلِها” [النور: 27] ثُمَّ خَصَّ هُنَا فَقَالَ:” لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ” فَخَصَّ فِي هَذِهِ الْآيَةِ بَعْضَ الْمُسْتَأْذِنِينَ، وَكَذَلِكَ أَيْضًا يُتَأَوَّلُ الْقَوْلُ فِي الْأُولَى فِي جَمِيعِ الْأَوْقَاتِ عُمُومًا. وَخُصَّ فِي هَذِهِ الْآيَةِ بَعْضُ الْأَوْقَاتِ، فَلَا يَدْخُلُ فِيهَا عَبْدٌ وَلَا أمة

اس سے واضح ہوا کہ غامدی صاحب آیات کے جس فہم کو بے بنیاد قرار دے کر اور اصلاحی صاحب کے بیانات کو ہمارا سوئے فہم بنا کر گفتگو کو بے محل قرار دینا چاہتے ہیں وہ غیر مفید کاوش ہے۔

اب آئیے غامدی صاحب کی جانب سے کی گئی تاویل کی جانب۔ غامدی صاحب نے آیات کی جس طرح توجیہہ کی ہے وہ بوجوہ محل نظر ہے۔

نمبر 1۔ ان کا مفروضہ ہے کہ آیت 27 میں لفظ “بیوت” کہہ کر “بعض البیوت” مراد لیا گیا تھا، اسی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ خواب گاہ عقل عامہ کے اصولوں کے تحت ابتدا ہی سے اس حکم سے الگ تھی۔ اصول فقہ کی اصطلاحی زبان میں ان کا دعوی یہ ہے کہ یہاں دلالت تضمنی کے تحت کل بول کر بعض مراد لیا گیا تھا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ دلالت تضمنی کے حوالے سے غامدی صاحب کا کیا موقف ہے۔ یعنی کیا وہ اسے لغوی دلالت کہتے ہیں یا عقلی نیز حقیقت سمجھتے ہیں یا مجاز۔ جب تک یہ امور واضح نہ ہوں اس وقت تک ان کے دعوے پر بامعنی گفتگو ممکن نہیں کہ آیا اس مقام پر کل بول کر بعض مراد لینے کی دلیل کیا ہے؟ نیز اگر وہ اسے حقیقی کہتے ہیں تو کیوں کر اور اگر مجازی تو یہاں مجازی معنی مراد لینے کی دلیل کیا ہے جبکہ حقیقی معنی کسی بھی طرح متعذر نہیں۔ آیت 58 میں قرآن نے ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جس سے اس آیت کے حکم کو خواب گاہوں سے متعلق کیا جائے، آیت تین معین اوقات میں چند اشخاص کے لئے داخلے کے لئے اجازت کی بات کررہی ہے اور پیچھے سے چلے آنے والے احکام کے سیاق کلام سے واضح ہے کہ یہاں بھی گھر میں ہی داخلے کی اجازت کی بات ہورہی ہے جسے محترم غامدی صاحب نے اپنے زور بیان سے خواب گاہ کا ذکر بنادیا ہے۔

نمبر 2۔ آیت 59 سے غامدی صاحب کا درج بالا مفروضہ غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہوا

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ

یعنی جب بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ لوگ اجازت لیتے ہیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ بڑوں کو اجازت لینے کا حکم گھروں سے متعلق ہے اور آیت 59 کہہ رہی ہے کہ بچے بلوغت کے بعد بڑوں کی طرح گھر میں داخل ہونے کی ہر وقت اجازت طلب کیا کریں۔ یعنی بلوغت سے قبل گھر میں اجازت کا جو حکم تین اوقات سے متعلق ہے، بلوغت کے بعد وہ عام حکم کی طرح ہے۔ الغرض ثابت ہوا کہ آیت 58 میں گھر کے اندر دخول کی اجازت ہی کی بات ہورہی ہے جسے غامدی صاحب نے اپنے نظریہ تبیین کو درست ثابت کرنے کے لئے آرام گاہ وغیرہ کے احکام بنا دیا۔

امام رازی نے آیات 27 اور مابعد کا تناظر یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگنے کا سبب اتفاقاً آپ کو خلوت کی حالت میں پالینا تھا۔ اس لئے اللہ تعالی نے اس واقعے سے متعلق احکام بیان کرنے کے بعد مسلمانوں کو ہدایت دی کہ وہ بغیر اجازت دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کریں، مبادا کہ وہ کسی کی خلوت میں مدخل ہوکر ایسی تہمت کا سبب بنیں۔ چنانچہ اس تناظر میں یہاں بیت سے “بعض البیت” مراد لینے کی کوئی وجہ نہیں۔

نمبر 3۔ غامدی صاحب کی تشریح میں ایک کام یہ کیا گیا ہے کہ جو شے (یعنی خواب گاہ وغیرہ) بیت کے معنی میں بطور عبارت النص شامل تھی، پہلے قدم پر انہوں نے دلالت تضمنی کے تحت اسے اس لفظ سے خارج کیا اور پھر دوسرے قدم پر دلالت نص بنا کر آیت 58 میں مراد لے لیا۔ ظاہر ہے زبان فہمی کا یہ کوئی علمی طریقہ نہیں، دلالت نص میں وہ امور شامل ہوتے ہیں جو لفظ کے لغوی معنی سے خارج ہوں جبکہ خواب گاہ وغیرہ بیت کے مفہوم میں اصلاً شامل ہے۔

نمبر 4۔ غامدی صاحب کا مفروضہ یہ بھی ہے گویا عربوں کے ہاں کنالوں پر محیط گھر ہوا کرتے تھے جن میں خواب گاہیں الگ تھلگ ہوا کرتی تھیں۔ اس مفروضے کے برعکس مولانا اصلاحی صاحب اپنے رسالے کے اندر آیات 27 تا 31 میں مذکور پردے کے احکام بیان کرتے ہوئے جن امور کو پس منظر میں ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتے ہیں ان میں یہ بھی ہے

سادہ بدوی زندگی کی وجہ سے اس زمانے میں عموما نہ مکانوں کے ساتھ مردانہ بیٹھکوں کا رواج تھا اور نہ دروازے پر پردے ہوتے تھے

معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کا یہ مفروضہ بھی درست نہیں کہ اس کے تحت بھی ایسی رائے کی گنجائش پیدا ہو۔

خلاصہ کلام یہ کہ اپنے مخصوص نظریہ تبیین کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کے اس مقام کی جس طرح تشریح کی گئی وہ آیات کے الفاظ، سیاق کلام اور لغوی اصولوں سے مناسبت نہیں رکھتی اور درست بات وہی ہے جو متعدد مفسرین سمیت مولانا اصلاحی صاحب نے سمجھی کہ ان آیات میں ابتدائی حکم میں اضافہ یا تخصیص ہوئی۔ ہر دو صورت میں اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ تقیید و تخصیص قرآن کی رو سے تبیین میں شامل ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں