ذہن کی جانب سے کسی شے پر عائد کردہ حکم یا جزم کے ساتھ ہوگا یا نہیں۔ جزم کا مطلب ایسا حال ہے جس میں دوسری جانب کا احتمال نہ ہو۔ جزم کے ساتھ یعنی یک طرفہ لگایا جانے والا یہ حکم یا معلوم کے مطابق ہوگا اور یا نہیں ہوگا۔ اگر مطابق ہو تو یا یہ کسی دلیل پر مبنی ہوگا اور یا نہیں۔ اگر دلیل پر مبنی ہو تو اسے “یقین” (اور اصطلاحاً علم) کہتے ہیں (جو پھر “ضروری” و “نظری” میں منقسم ہے)۔ اگر معلوم کے مطابق یہ جزم بغیر دلیل ہو تو اسے تقلید کہتے ہیں اور بغیر دلیل کے یہ جزم معلوم کے مطابق نہ ہو تو اسے جہل کہتے ہیں۔ اور اگر ذہن کا حکم جزم کے بغیر ہو (یعنی دوسری جانب کا بھی احتمال ہو) تو دو جانب کا یہ رجحان یا مساوی ہوگا یا نہیں۔ اگر دونوں جانب رجحان مساوی ہو تو اسے “شک” کہتے ہیں اور اگر ایک جانب زیادہ راجح ہو تو جو جانب راجح ہو اسے “ظن” یا “گمان غالب” کہتے ہیں اور جس جانب رجحان کم ہو اسے “وہم” کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اعتقاد کا مطلب ذہن کا کسی شے کے ساتھ ربط ہے جو پانچ حالتوں سے عبارت ہے: یقین، تقلید، جہل، ظن اور شک۔
اس سے معلوم ہوا کہ تقلید کا مطلب ہے (الف) اعتقاد جازم، (ب) جو بغیر دلیل ہو (ج) اور حقیقت کے مطابق ہو۔ اب سوال پیدا ہوا کہ کیا اس قسم کا ایمان جسے تقلید کہا جاتا ہے وہ معتبر ہے؟ اس سوال کی پوری معنویت تب سمجھ آئے گی جب پس منظر کی یہ بات واضح ہو کہ متکلمین کے نزدیک علمیاتی ترتیب میں انسان پر سب سے پہلی تکلیف “نظر کا وجوب” (یعنی غور و فکر کرنا واجب ہونا) ہے کہ اگر انسان پر نظر ہی واجب نہیں تو اس پر ذات باری، اس کی صفات اور نبی کی تصدیق کرنا بھی واجب نہ ہوگی کہ ان امور کی تصدیق غور و فکر و دلیل پر مبنی ہے، لہذا نتیجتاً بندے پر شریعت کے کسی حکم کی تکلیف لازم نہ آسکے گی۔ ظاہر ہے اگر بندے پر غور و فکر ہی واجب نہیں تو جس شخص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا اس پر اسلام قبول کرنا بھی واجب نہ رہے گا کہ حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے بھی غور و فکر ہی درکار ہے، چنانچہ اگر اس شخص کے حق میں غور و فکر کرنا ہی واجب نہیں تو حق و باطل میں تمیز کرنا بھی واجب نہیں اور نتیجتاً اسلام قبول کرنا بھی واجب نہیں۔ اس پس منظر میں سوال پیدا ہوا کہ کیا مقلد کا ایمان معتبر رہتا ہے؟ اس سوال کو ناقدین کلام مختلف طرح کے دلائل کے ساتھ زور و شور سے اٹھاتے ہیں کہ اگر ایمان کا اعتبار ان دلائل میں منحصر ہے جو علمائے کلام کا طریقہ ہے تو پھر عامی کیا کرے کہ وہ ان دلائل کی پیچیدگی کو سمجھنے سے قاصر ہے نیز آپﷺ کے دور میں لوگوں کو دلائل سیکھنے کا پابند نہیں کیا گیا تھا بلکہ بدو قسم کے سیدھے سادھے لوگ تو انہیں سمجھ ہی نہیں سکتے تھے مگر آپﷺ نے ان کے ایمان کو قبول کیا۔
اس کے جواب میں بعض نے یہاں تک کہا کہ مقلد کا ایمان معتبر نہیں، بعض نے کہا کہ معتبر تو ہے مگر غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہے۔ تاہم علمائے کلام کی اکثریت اس جانب نہیں گئی بلکہ محقق علماء نے اسے معتبر کہا ہے تاہم اسے دلیل سے کلی طور پر غیر مربوط نہیں کیا۔ اس نکتہ نظر کی نمائندگی امام رازی کے جواب میں بخوبی جھلکتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
قلنا: لما ثبت بالدلالة القاطعة أنه لا بد وأن يكون المكلف مميزا بين الدين الحق والدين الباطل فنقول: لما حكم النبي-عليه السلام-بإسلام أولئك فلا بد هناك من أحد أمرين:
أحدهما: أن يكون النبي-عليه السلام-قد علم من ذلك الشخص كونه عالما بأوائل الأدلة في هذه الأصول، وذلك القدر كاف في حصول اليقين، ولا يلزم من عدم اقتدارهم عن التعبير عن تلك المعاني أن لا يكونوا عالمين بها، فإن العامي إذا رأى تغير الهواء من الرعد والبرق فقال: سبحان بالله! علمنا أنه إنما قال ذلك لما تقرر في اعتقاده أن هذه الحوادث لما اختص حدوثها بالوقت المعين مع جواز ذلک قبله او بعدہ استند ذلک لا محالة إلى فاعل مختار، فهذا المعنى إذا كان متقررا في عقله كان عالما بالله بدلیله، ولا يضره عدم الاقتدار على بيان ذلك و شرحه.
وثانيهما: أن ذلك الشخص قد علم النبي-عليه السلام-من حاله أنه غير مستعد لفهم هذه الأشياء، فيكون التكليف بذلك ساقطا عنه لعدم قدرته عليه.
“مفہوم: جب کہ دلیل سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ بندہ دین حق و باطل میں فرق کرنے کا مکلف ہے، تو آپﷺ کی جانب سے ایسے لوگوں کے اسلام کا حکم جاری کرنے کے معاملے میں دو پہلو ہیں: پہلا یہ کہ آپﷺ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ شخص اس علم کے اوائل و سادہ دلائل و اصولوں سے واقف ہے اور حصول یقین کے لئے اس قدر ہی کافی ہے، ان سادہ دلائل کو بیان کرنے سے عاجزی اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ان سے متعلق حقائق کو جانتا ہی نہیں۔ چنانچہ اگر ایک عامی مثلاً بجلی کی گرج و چمک سے ہوا کو بدلتا ہوا دیکھ کر اللہ کی تسبیح بیان کرے، تو ہم اس سے یہی سمجھیں گے کہ وہ جانتا ہے کہ ان حوادث کا وقت معین پر رونما ہونا ایک فاعل مختار کے وجود کی دلیل ہے کیونکہ یہ افعال اس سے پہلے اور بعد بھی ہوسکتے تھے۔ پس اگر اسی قدر معنی اس کے ذھن میں موجود ہیں تو یہی کہا جائے گا کہ وہ دلیل کے ساتھ اللہ کا علم رکھتا ہے اور متکلمین کی طرح منظم انداز میں دلیل بیان کرنے سے عاجز ہونا اسے مضر نہیں۔ دوسرا پہلو یہ کہ آپﷺ کو علم تھا کہ وہ شخص ان دلائل وغیرہ کو سمجھنے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتا، لہذا عدم استطاعت کی وجہ سے اس پر یہ تکلیف ساقط ہوگئی۔”
غور کیجئے کہ امام رازی ایک عامی کے وجوب کی سطح کو بیان کرتے ہوئے بھی اسے کسی نہ کسی سطح پر دلیل ہی کے ساتھ مربوط کررہے ہیں، اگرچہ اسے اپنی دلیل بیان کرنے کی قدرت نہ ہو تب بھی اس کے عامیانہ دلائل وجوب نظر کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ علامہ نور الدین الصابونی (م 580 ھ) فرماتے ہیں کہ ایک سادہ ترین بندہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ گھر اگر بنا ہے تو اس کا بنانے والا ہے اور اس قدر دلیل بھی کفایت کرنے والی ہے۔ اور اگر وہ بالکل ہی ایک سیدھا سادہ بندہ ہے جو کچھ بھی سمجھ نہیں سکتا تو اب اس سے عدم استطاعت کی بنا پر تکلیف مرتفع ہوجائے گی۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جسے علم کی ہر سطح سے عاری و الگ نری یا اندھی نما تقلید کہتے ہیں، علمائے کلام نے اسے مقلد کے ایمان کے درجے کے طور پر تھیورائز کرکے اسے روا نہیں رکھا۔ اس کی وجہ بالکل صاف ہے کہ اگر بلا کسی عذر اس قسم کا اعتقاد بھی مظہر حقیقت مانا جائے تو پھر علمی اعتبار سے ہر دین کا معتقد ایسی تقلید کی بنا پر حق پر ہوگا۔ قرآن مجید نے اس قسم کی تقلید کی ہر مقام پر حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ اگر ہر سطح کی دلیل سے مبرا نری تقلید ہی کفایت کرنے والی ہو تو ایسی تقلید کرنے والے پر از خود یہ سوال ہے کہ وہ کسی ایک ہی بات کی تقلید کیوں کررہا ہے نہ کہ دوسری، جبکہ اس کی نظر میں ہر طرف مساوی ہونی چاہئے؟ آخر وجہ ترجیح کیا ہے؟ کسی وجہ ترجیح کے بغیر ترجیح کا دعوی مکابرہ ہے۔ الغرض علم اور عقیدہ یا ایمان کو دو پلڑوں میں رکھنے کا رجحان اسلامی علمی روایت کا مظہر نہیں۔ اگر اصول فقہ میں فقہی معاملات کے اندر تقلید کی بحثیں ملاحظہ کی جائیں تو وہاں بھی یہی جھلک نظر آئے گی، نری تقلید کو وہاں بھی تھیورائز نہیں کیا گیا۔
کمنت کیجے