Home » سپریم کورٹ کا حکمنامہ ، قادیانی مسئلہ اور المورد
سماجیات / فنون وثقافت شخصیات وافکار فقہ وقانون

سپریم کورٹ کا حکمنامہ ، قادیانی مسئلہ اور المورد

سپریم کورٹ کی طرف سے حالیہ مقدمے میں دینی وآئینی پہلووں سے راہنمائی کے لیے ملک کے مختلف علمی اداروں کو نوٹس بھیجا گیا ہے جن میں المورد بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے بعض حلقوں میں ایک مہم سی دیکھنے میں آئی کہ المورد غامدی صاحب کا ادارہ ہے اور غامدی صاحب قادیانیوں کی تکفیر کے قائل نہیں تو عدالت کے اس معاملے میں ان سے معاونت طلب کرنے کا کیا مطلب ہے؟

یہ اعتراض پراپیگنڈا کے اصولوں کے لحاظ سے تو قابل فہم ہے اور اس طرز کے ماہر طبقوں یا جتھوں کو یقیناً‌ یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے، لیکن سنجیدہ اور معاملہ فہم احباب کے لیے یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ زیربحث قضیے میں یہ ایک بے جا اعتراض ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت میں زیربحث مسئلہ قادیانیوں کی تکفیر یا عدم تکفیر نہیں ہے۔ ویسے تو کسی آئینی یا عدالتی فورم پر یہ سوال بھی زیربحث آئے اور متعلقہ فورم مختلف دینی آرا سے استفادہ کرنا چاہے، تب بھی غامدی صاحب سے یا کسی بھی اسکالر سے رائے طلب کرنا ایک جائز اور معروف علمی وآئینی طریقہ ہے۔ لیکن اس قضیے میں زیربحث سوال یہ نہیں ہے، اس لیے تکفیر کے حوالے سے غامدی صاحب کی رائے کو پراپیگنڈا کے لیے استعمال کرنا کم سے کم یہاں بے محل ہے۔

دوسری بات یہ کہ عدالت نے رائے کے لیے شخصی سطح پر غامدی صاحب سے نہیں، بلکہ المورد سے رجوع کیا ہے جو ایک ادارہ ہے اور اپنے بیان کردہ اصولوں کے لحاظ سے شخصی آرا پر قائم نہیں ہے۔ اس کی عمومی نسبت اور وابستگی دبستان فراہی سے ہے، لیکن اس سے وابستہ اہل علم علمی امور میں غامدی صاحب یا دبستان کے دیگر اکابر میں سے کسی کی بھی شخصی آرا کے پابند نہیں ہیں۔

مزید برآں المورد جزوی وفروعی مسائل میں بطور ادارہ کوئی موقف نہیں رکھتا اور یہاں کے اہل علم انفرادی طور پر ہی اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں زیربحث مسئلے میں بھی عدالت کی راہنمائی یا معاونت کا جو طریقہ اختیار کیا جائے گا، اس میں اس بنیادی نکتے کی رعایت ملحوظ ہوگی۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں