بیماری کے دوران افاقوں کے لمحات میں امام فراہی کی” لغات القرآن” دیکھنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے. عام طور پر مفکرین اپنے نظریات کے ثبوت کے لئے لغات القرآن لکھتے ہیں اور پھر ڈکشنری کے اس معنی کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کے افکار کی نمائندگی کرتا ہو جناب پرویز کی لغات القرآن اس کی واضح مثال ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا لغوی حصہ مولانا عبدالرحمن طاہر سورتی کا لکھا ہوا ہے اور فکری اضافے خود جناب پرویز کے ہیں۔
لیکن زیر نظر لغات القرآن اس متداول طریقے سے ایک سو اسی زاویے مختلف ہے. یہ بتاتی ہے کہ جن عربوں پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ اس لفظ یا اس آیت سے کیا سمجھے تھے۔
میرے پاس مشکلات القرآن کی ایک فہرست ہے. جس میں مسلسل کمی اور اضافہ ہوتا رہتا ہے. جب مجھے کوئی لفظ اس کا مفہوم اور اطلاق سمجھ نہیں آتا تو میں اس کی تلاش میں لگ جاتا ہوں. میرا تجربہ یہ ہے کہ امام رازی کے بالخصوص ان اقوال میں جو انہوں نے معتزلہ کے حوالے سے لکھ کر رد کر دئیے ہیں ان اشکالات کے شافی جوابات ہوتے ہیں. زیر نظر لغات القرآن کی اصل اہمیت یہ ہے کہ یہ براہ راست کلام عرب سے استشہاد کرتی ہے اور معتزلہ کے توسط کی ضرورت نہیں پڑتی.
کتاب نے میری درجنوں الجھنیں دور کی ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ میں اس کی افادیت پر ایک مبسوط نوٹ لکھوں گا جو میری طرف سے گواہی ہو گی۔
کتاب کے شروع میں جناب راشد ایوب اصلاحی نےایک وقیع، مبسوط علمی مقدمہ لکھا ہے جس سے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ دیوبند اور ندوہ کی طرح اصلاحی یا فراہی ایک مستند، قرآن پر مبنی ایک سکول آف تھاٹ تھا لیکن مارکیٹنگ کے اصول سے ناواقف اور اسی کو شاید کافی سمجھتا تھا کہ ہم نے حق پیش کر دیا ہے اور اب لوگوں کافرض ہے کہ وہ تلاش کریں اور اس پر عمل کریں جبکہ اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ کبھی کبھار رسول بھیجتا تھا لیکن کوئی دور انبیا سے خالی نہیں رکھتا تھا تا کہ حق کی مارکیٹنگ میں رخنہ نہ پڑے۔
اب بھی موقع ہے کہ اصلاحی مکتب فکر مارکیٹنگ کی طرف توجہ دے، کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ امام فراہی اور اصلاحی مکتب فکر کی نمائندگی جناب غامدی کر رہے ہیں جو اصلا ایک دوسرے سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے ہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے، ڈاکٹر متین احمد شاہ)
مولانا مناظر احسن گیلانی جن پر اللہ نے فہم دین کے دروازے کھولے ہوئے تھے اپنی کوتاہ نصیبی پر افسوس کرتے ہیں کہ امام فراہی سے استفادہ نہ کر سکے۔
آج کی اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال ایک دوماہ کے دورہ ہائے تفسیر ہوتے ہیں۔
اگر کوئی صاحب لغات القرآن کی اساس پر ایک سو بیس گھنٹے کے لیکچرز تیار کر کے نسل نو کو دورہ تفسیر کروا دیں تو اس کی افادیت کی پیمائش نہیں کی جا سکے گی۔
کمنت کیجے