خزیمہ الظاہری
دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کے بیحد ناقص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گرامر (نحو و صرف) اور ادب (شعر و نثر) کی تعلیم دی جاتی ہے اور زبان کے اصل مغز یعنی “لغت” اور اسکی مہارتوں (بالخصوص لکھنے، بولنے کی صلاحیت) کو نظر انداز کیا جاتا ہے جو کہ اصل استعمال کی زبان ہوتی ہے. چنانچہ مدارس کے فضلاء کو نحو و صرف کے قاعدے اور متنبی کے شعر تو یاد ہوتے ہیں مگر خود ایک صفحہ بھی درست نہیں لکھ سکتے. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گرامر ایک وسیلہ ہے اور ادب اصل زبان اور اسکی مہارتوں پر زائد چیز ہے جو زبان سیکھنے کے بعد آخری مرحلے میں مفید ہے.
پھر مزید ظلم یہ ہے کہ طلباء کے سامنے آٹھ سال تک عربی کتب کی عبارات ہوتی ہیں یعنی پہلے سے لکھی ہوئی عربی. خود انہیں عربی میں کچھ تخلیق و انشاء کرنے کی جانب کوئی راہنمائی نہیں کی جاتی اور اسکا اعتراف تقریبِ بخاری میں عملاً یوں کیا جاتا ہے کہ چھ آٹھ سال عربی کتب پڑھ کر فارغ ہونے والوں کو اردو کتب اور بسا اوقات اردو تراجم ھدیہ کئے جاتے ہیں. لہذا مدارس میں عربی زبان کی تعلیم میں واقع خرابی یہ ہے کہ بطورِ زبان عربی کی صلاحیت پیدا نہیں کی جاتی اور نہ ہی اسکے لئے تعلیم کا درست طریقہ اختیار کیا جاتا ہے. جبکہ اسکا تدارک اسطرح ممکن ہے کہ لغت کو ہدف بنا کر تعلیم دی جائے، نہ کہ بطورِ سبجیکٹ گرامر کے رٹّے پر ٹرخا دیا جائے۔
مدارس میں عربی گرامر اور ادب پڑھانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ طلباء عربی نصوص کی تحلیل کر سکیں اور زبان کے اعلیٰ اسلوب سے واقف ہوں. مگر عام طور پر یہ دونوں بنیادی اہداف ہی حاصل نہیں ہو پاتے ہیں. کیونکہ گرامر اور ادب، دونوں کو اس انداز سے پڑھایا ہی نہیں جاتا کہ وہ یہ نتائج پیدا کر سکیں. چنانچہ اہلِ حدیث کے معروف محقق مولانا عزیر شمس مرحوم نے اسکا اعتراف کرتے ہوئے یہ بات بیان کی ہے کہ : مدارس میں عربی قصائد کا ترجمہ پڑھایا جاتا ہے حالانکہ قصیدے پڑھنے کی سطح پر اس طالب علم کو پہنچنا چاہیے جسے استاد سے ترجمہ پڑھنے کی ضرورت ہی نہ رہے. اور استاد صاحب کو چاہیے کہ جو قصیدہ پڑھا جا رہا ہے، اس کی تحلیل کریں، اسکے موضوع پر گفتگو کریں اور اس میں کی گئی منظر کشی اور اسکے اسلوب کا جائزہ لیں مگر ترجمے پر ہی بس کر دی جاتی ہے. (تفصیل کے لئے دیکھئے مقالاتِ عزیر شمس میں عربی کی تعلیم پر انکے دو عدد مضامین).
چنانچہ جب طلباء میں ادب کی بھاری بھرکم کتب پڑھنے کا رواج ہی یہ ہو گا کہ انکا ترجمہ سمجھتے جائیں. اور انکے اصل مقصود کو نظر انداز کر دیا جائے تو مطلوب نتیجہ کبھی حاصل نہیں ہو پائے گا۔
ادب کی طرح گرامر کا بھی عموماً یہی حال ہوتا ہے کہ صیغے حل کرنے اور ترکیب کرنے تک تعلیم محدود ہوتی ہے جبکہ نحو و بلاغت کلام کے اسلوب کی جانکاری اور ترکیب کے معنوی خصائص سمجھنے میں معاون ہیں اور بالخصوص قرآنِ مجید کے گہرے فہم میں طلباء کو انکی ضرورت رہتی ہے کیونکہ قرآنِ مجید اعلیٰ اسالیب و خصائص کا جامع ہے مگر نحو و بلاغت کی تعلیم میں اس صلاحیت کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔
جیسے مدارس میں عربی زبان کی مختلف مہارات مثلاً لکھنے، بولنے وغيرہ پر کوئی خاص توجہ نہیں اور عربی زبان کی بجائے عربی گرامر اور عربی اشعار زیرِ تعلیم رہتے ہیں، بالکل اسی طرح عربی کے جو علوم پڑھائے جاتے ہیں (یعنی نحو اور بلاغہ وغيرہ)، انکی تدریس کا طریقہ کار بھی انتہائی ناقص ہے، کیونکہ (1) انکی ایک مکمّل تاریخ ہے جسے چُھوا نہیں جاتا حالانکہ موجودہ دور میں تاریخ العلوم ایک سبجیکٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی بھی فن کی سمجھ بوجھ میں اسکا اہم کردار ہوتا ہے. (2) اور عربی زبان کے ان علوم کے مستقل نظریات اور مدارسِ فکر ہیں جنکی آراء اور باہمی کشمکش کا انکی ترقی اور انکے فہم میں گہرا اثر ہے مگر یہ چیز بھی یکسر نظر انداز رہتی ہے اور براہِ راست ان علوم کی کتب شروع کروا دی جاتی ہیں جو کہ طلبہ کے لئے تشویش کا باعث بنتی ہیں. اب اس پر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ دراسات تو علومِ عربیہ میں سپیشلائزیشن کے طلبہ کی سطح پر ہونے چاہیے. اس سوال کا جواب یہ ہے هداية النحو جیسی کتب سے ہوتے ہوئے شرح ابن عقیل تک پہنچنے میں جتنا وقت لگتا ہے، اس سے نہایت کم وقت میں نحو کے مدارس اور انکے اثرات اور انکی جہات کا تعارف ممکن ہے. لہذا ان چیزوں کے اھمال کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
اس گفتگو کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ مدارس میں عربی زبان کے مختلف علوم کی تعلیم کا متکامل منہج نہیں پایا جاتا جو کہ بہت بڑی کمزوری ہے. اور اسکے تدارک کے لئے (مثلاً) مقدمہ ابن خلدون کے آخر میں علومِ عربیہ کی انواع و اقسام اور انکی مختصر تاریخ و تعارف جیسا مواد مفید ثابت ہو سکتا ہے.
چنانچہ مدارس کے نصاب میں برائے خود عربی ادب کی تاریخ پر احمد حسن زیّات کی کتاب “تاريخ الأدب العربي” شامل ہے اور بالکل اسی طرح عربی کے دیگر علوم کی تاریخ و تعارف کا سبجیکٹ کا حصہ ہونا لازمی ہے کیونکہ یہ علوم کئی ایک مدارسِ فکر اور تاریخی رجحانات کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے