محمد حسنین اشرف
یہ عمومی خیال ہے کہ سائنسدان کا ذاتی بیانیہ ریسرچ آرٹیکلز میں تو نہیں در آتا لیکن پاپولر لٹریچر میں بہت آسانی سے جگہ بنا لیتا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ کسی غلطی کے پکڑے جانے کا امکان کسی peer review شدہ جرنل میں زیادہ ہوتا ہے لیکن کیا کوئی جرنل یا reviewer
ذاتی بیانیے کو در آنے سے روک سکتا ہے؟اس بحث سے مقصود پاپولر لٹریچر کی بالادستی یا برابری ثابت کرنا نہیں بلکہ کسی ایک صنف کو بالکل رد اور دوسری کو قبول کرکے اس پر اندھا یقین نہ کرنا ہے۔
سو اس سوال کا سادہ جواب، نہیں، ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ریسرچ آرٹیکل سے متعلق محتاط ہوا جائے۔آئیے صرف ایک پہلو سے مسئلے سے کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسے ریسرچ آرٹیکلز میں بھی سائنسدان کا بیانیہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ایک عرصے تک سائنس و سائنسدان کی جو تصویر پیش کی جاتی رہی وہ یوں تھی کہ سائنس و سائنسدان سماج سے کٹا ہوا ایسا شخص ہوتا ہے جو جب عام آدمی ہوتا ہے تو اس میں تمام تر تعصبات ہوتے ہیں اور سائنسدان بنتے ہی وہ مذہبی،سیاسی و سماجی تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر خالص سائنسدان بن جاتا ہے۔ سائنسدان اور سائنس کی سماج سے اس کٹی ہوئی تصویر کو پچھلے کچھ عرصے میں چیلنج کردیا گیا ہےیہاں تک کہ وہ ماہرین جن نے لیبارٹری (تجربہ گاہ)اسٹیڈیز کی ہیں وہ یہ دکھاتے ہیں کہ کیسے سائنس کا پورا اسٹرکچر ایک social enterprise ہے۔اس سے سائنس کے پورے نظام کو بہتر سمجھنے اور اس میں چھپے مسائل کو دیکھنے اور بہتر کرنے کی راہ ہموار ہونے لگی ہے۔
سائنس دان کسی مسئلے میں کیسے دلچسپی لیتا ہے یہ ایک مکمل میدان ہے جس میں Ian Hacking اور دیگران نے بہت مغز ماری کی ہے کہ سائنسدان کے ہاں کسی Epistemic concept یا epistemic object میں دلچسپی کیسے پیدا ہوتی ہے۔یہ صرف سائنسدان نہیں بلکہ ہر ماہر اور عام انسان کے لیے جاننا ضروری ہے۔سائنسدان کسی مسئلے میڻ کیسے دلچسپی لیتا ہے کا بہت تعلق اس سے ہے کہ مسئلہ validate کیسے ہوتا اور اس کا حل کیسے نکلتا ہے۔اس بحث میں الجھنے کی بجائے ایک سیدھی اور سادہ مثال لیتے ہیں تاکہ Scientific values پر سخت قسم کی خشک بحث کئے بغیر مسئلے کو دیکھا و سمجھا جاسکے۔جب تک سائنس پر فیمنسٹ نقد کا آغاز نہیں ہوا تھا تب تک بیالوجی میں ایک بڑا لٹریچر قدیم سماجی اقدار کے تحت (یاد رہے ابھی ہم سائنس کی اپنی ویلیوز کی بات نہیں کر رہے)مرد اور عورت کے اجسام اور ان کے افعال کی سائنسی توجیہ کھلے دل سے بیان کر رہا تھا۔کوئی اچھے برے امپیکٹ فیکٹر والا جرنل، کوئی Single Blind Peer Review کوئی Double Blind Peer Review اس کے آگے بند نہیں باندھ سکا۔
اس کے لیے عمدہ ترین مثال Emily Martin کا آرٹیکل ہے جو انہوں نے ۱۹۹۱ میں لکھا تھا اس کا عنوان
The Egg and the Sperm: How Science has constructed a romance based on stereotypical male female roles
ایملی مارٹن یہ دکھاتی ہیں کہ کس طرح بیسویں صدی کے اوائل میں بیالوجسٹ مرد کے ایکٹیو کردار Active role اور عورت کے پیسیو Passive role
کو ایگ اور اسپرم کے رولز میں تبدیل کردیتے تھے جس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں تھا بلکہ یہ وہ سماجی بیانیہ تھا جو سائنسدانوں کے ذریعے سائنسی تحقیقات میں در آیا تھا۔یہ مکمل آرٹیکل پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اب اس بحث کے مقصد کی جانب بڑھتے ہیں۔سائنس جس وجہ سے کامیاب ہے وہ اس کی کمیونٹی اور اس سے جڑے لوگوں کے ہاں مستقل نقد اور تشکیک ہے۔ اس روح کو فروغ دیے بغیر خود سے فیصلہ شدہ آرا کو بیان کرنا، کسی ایک شے کو مکمل سیاہ اور دوسری کو سفید رنگ دینا بہت نقصان دہ ہے۔سائنس انسانی کام ہے جس میں مسائل موجود ہیں اس میں آگے بڑھنے کا ایک راستہ پاپر نے دیا تھا کہ آپ قیاس کیجیے، کوئی اسے رد کردے تو اس سے بولڈ (اس کا ترجمہ معلوم نہیں) قیاس کیجئے، پھر وہ رد ہوجائے گا تو اس سے بولڈ قیاس کیجیے۔یہ مستقل سفر ہے جہاں پڑاو کی جگہ نہیں ہے اس سفر کو اپنانے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے۔ لوگوں کے حق میں خود سے خالص و غیر خالص سائنس کے فیصلے کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ سائنسی روح اور سائنسی انٹرپرائز کو بہتر سمجھنے کے لیے کوشش کرنا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ لوگوں کا جا بہ جا لیبل کیا جائے اور خالص و نا خالص سائنس کے فیصلے کئے جائیں۔
سائنس یا سائنسدان جب بہت بولڈ اور شروع میں انتہائی غلط لگنے والے آئیڈیاز کو ہمت کرکے پیش کرتے ہیں (اس کا منفی پہلو بھی ہے کیونکہ بہت سا لٹریچر صرف کتابیں لکھنے اور پبلیکیشنز کرنے کے چکر میں لکھا جاتا ہے) تو اس سے سائنسی تحقیق آگے بڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی یہ آئیڈیاز رد ہوجاتے ہیں اور کبھی شروع میں نہایت بولڈ لگنے والے آئیڈیاز نئی دنیائیں کھول دیتے ہیں؛ ذرا سوچئیے کہ نیوٹن کی دنیا میں آئن اسٹائن کس قدر اجنبی رہا ہوگا۔ مختصر یہ کہ سائنس دان جب سائنسی کام کر رہے ہوتے ہیں تو اکثر اوقات ان کے پیش نظر اس سائنسی آئیڈیا سے مذہب یا مذہبی تعبیر کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا۔ ان کے سامنے (اکثر اوقات) بڑا منظر نامہ ہوتا ہے جس میں ان کے پیش نظر اپنی فیلڈ میں آگے بڑھنے اور ترقی کا کرنے کا شوق بھی شامل ہوتا ہے اور علم کے سفر کو آگے بڑھانا بھی پیش نظر ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر دفاعی پوزیشن اختیار کرکے لوگوں اور اصناف کو لیبل نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس عمل کی بہتری میں حصہ ڈالنا اور اس عمل کو بہتر طریقے سے لوگوں تک پہنچانا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے