اصول فقہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ قائلین و منکرین قیاس کی بحث پہلی صدی ھجری سے چلی آرہی ہے۔ ان کے مابین قیاس کی شرعی حجیت کی بحث دراصل لغت سے معنی اخذ کرنے کی بحث ہے، یعنی فریقین کا اس بات پر اختلاف ہے کہ الفاظ سے معنی اخذ کرنے کے کونسے طرق صائب (valid) ہیں اور کونسے باطل۔ متکلم کے خطاب میں اس کی جانب انہی معنی کی نسبت کرنا درست ہوسکتا ہے جن کے بارے میں یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ کلام سے معنی اخذ کرنے کے جائز طریقوں پر مبنی ہے۔ قیاس کا مفہوم یہ ہے کہ متکلم نے دوران خطاب جس جزئی کا ذکر کرکے حکم کو اس کے ساتھ دائر کیا، وہ حکم صرف اس جزئی تک محدود نہیں بلکہ وہ کسی ایسے وصف کے ساتھ مربوط ہے جو اس حکم میں مؤثر ہے اور اس وصف کی حکم میں تاثیر کی بنا پر ہم وہ اصول یا قاعدہ اخذ کرسکتے ہیں جس کے پیش نظر متکلم نے اس جزئی کا ذکر کیا۔ مثلا شارع نے جب خمر کا ذکر کر کے اسے حرام کہا اور ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اس حکم کے پس پشت “نشہ آوری” کا وصف کار فرما ہے تو اس سے ہمیں یہ قاعدہ حاصل ہوا: “ہر نشہ آور شے حرام ہے”۔ اس کے بعد صرف خمر ہی نہیں دیگر نشہ آور چیزیں بھی حرام ہوں گی اگرچہ شارع نے ان کا نام نہ لیا ہو۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے عربی زبان بنانے والوں نے بعض الفاظ کی گردان کرکے دکھائی اور پھر الفاظ کی تصریف کے بعض اوزان مقرر کئے گئے (جیسے ضرب یضرب، یا فتح یفتح وغیرہ) جس کے ذریعے گویا انہوں نے یہ کہا: “جب بھی کوئی لفظ فلاں وزن پر آئے تو اس کی گردان یوں کرلینا، اگرچہ اس کی گردان ہم سے براہ راست منصوص نہیں”۔ ایسے میں جب کوئی شخص کسی نئے لفظ کی کسی وزن پر تصریف کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے کچھ نیا ایجاد نہیں کرتا بلکہ اس لفظ کو واضعین لغت کی جانب سے پہلے سے طے کردہ اصول کے ساتھ مربوط کردیتا ہے۔ یہی معاملہ قیاس کا ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے شارع کہے: “چور کے ہاتھ کاٹو” اور پھر ہم مختلف صورتوں (مثلا بجلی چوری، کفن چوری، جیب کاٹنا وغیرہ) کی تحقیق کریں کہ آیا وہ چوری کے اس معنی میں شامل ہیں یا نہیں جس پر یہ سزا مقرر ہوئی۔ اس تحقیق کے بعد مجتہد جس بھی صورت پر یہ حکم دائر کرے وہ کسی حکم کا وضع کرنے والا نہیں کہلاتا بلکہ ایک پیش آمدہ صورت کو شارع کے حکم کی جانب لوٹانے والا ہے۔ اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ قیاس “مظہر حکم” ہوتا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مانعین قیاس کا اصل اعتراض یہ تھا کہ آخر اس امر کا تعین کیسے ہوتا ہے کہ کسی حکم پر موثر وصف کونسا ہے جس کی بنیاد پر قاعدہ بنا کر دیگر امور کا اس جزئی کے ساتھ الحاق کیا جاسکے؟ اسے مسالک علت کی بحث کہتے ہیں جس کا مطلب متکلم کے الفاظ سے اس معنی یا وصف کو اخذ کرنے کے طریقے ہیں جو کسی جزئی کے پیچھے کارفرما اصول کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ قیاس کی حجیت دراصل الفاظ سے معنی اخذ کرنے کے طریقوں کی حجیت کی بحث ہے۔ اگر یہ بات پیش نظر ہو تو اصول فقہ میں “منکرین قیاس” سے متعلق کچھ امور صاف ہوتے ہیں۔ مثلا:
الف) الفاظ و معنی کے ربط سے متعلق اس قسم کے اختلاف صرف قیاس کے باب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس کی دیگر صورتیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً احناف مفہوم مخالف یا عموم مقتضی کے قائل نہیں وغیرہ۔ تو جنہیں مانعین قیاس کہتے ہیں دراصل وہ حکم کی علت اخذ کرنے کے بعض طریقوں کی حجیت کے قائل نہیں ہیں۔
ب) ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر فقہی گروہ علت اخذ کرنے کے کسی نہ کسی طریقے کی حجیت کا انکار کرتا ہے۔ متکلم کی جانب سے کسی حکم کی علت مقرر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سببیت کا مفہوم پیدا کرنے والا لفظ استعمال کرلیتا ہے (مثلا “کی” (تاکہ)، من اجل ذلک (اس لئے))، یا اس مفہوم کو پیدا کرنے والا حرف جار (preposition) لے آتا ہے (مثلا لام تعلیلیہ)، یا اس کے جملے کی ساخت میں سببیت کے معنی پر تنبیہہ و اشارہ ہوتا ہے جیسے کہ شرط و جزا کے تعلق میں جملہ لانا، مثلاً “من بدل دینه فاقتلوہ” (جو اپنا دین بدلے اسے قتل کردو) وغیرہ)۔ علت مقرر کرنے کے ان طرق میں سے اکثر کے مانعین قیاس بھی قائل تھے اور اس طریقے میں صرف “تحقیق مناط” کا قیاس رہ جاتا ہے، یعنی یہ طے کرنا کہ کونسی صورت کس اصول کے تحت آرہی ہے۔ اس کے بعد مسکوت کے الحاق کا ایک طریقہ وہ ہے جسے مفہوم موافق، قیاس اولی، قیاس مساوی، دلالت نص یا تنقیح مناط وغیرہ کہتے ہیں جیسے “اف” کی ممانعت سے مارنے کی ممانعت پر استدلال یا یتیم کا مال کھانے کی ممانعت سے اس کے مال کو ڈبونے کی ممانعت کا استدلال وغیرہ۔ خود مانعین قیاس میں بھی بعض اس کی حجیت کے قائل اور بعض منکر ہیں۔
اس کے بعد وہ طریقہ آتا ہے جسے تخریج مناط کہتے ہیں جس کی دو صورتیں ہیں:
• مناسبت، یعنی کسی حکم کی علت مقاصدی تعلق کے تحت مقرر کرنا اگرچہ اس وصف کو براہ راست اس حکم کی علت مقرر نہ کیا گیا ہو
• طرد و عکس یا شبہ، یعنی کسی حکم کا کسی وصف کے ساتھ وجودی حدوث و عدم کے تعلق میں دائر ہوجانا۔
امام غزالی کہتے ہیں کہ تخریج مناط کی حجیت کی بنیاد متکلم کی عادت ہے، یعنی اس کے کلام میں لغوی دلالتوں و احکام کی بیان کردہ حکمتوں وغیرہ پر غور کرکے یہ سمجھنا کہ اجرائے احکام میں اس نے کن امور کا لحاظ رکھا، یہ متکلم کے کلام کے استقرائی مطالعے سے عبارت ہے اور یہاں بھی مجتہد اپنی جانب سے معنی مقرر نہیں کرتا۔ احناف بالعموم تخریج مناط کی حجیت کے قائل نہیں اور امام دبوسی و امام غزالی کے مناقشے میں اسی کی حجیت زیر بحث آئی تھی جو مقاصد شریعت کے نظرئیے کے ظہور کا باعث بنی۔ یہاں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ کیا جمہور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ احناف منکر قیاس ہیں کہ وہ قیاس مناسب کو نہیں مانتے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود جمہور کے مابین تخریج مناط کی بعض صورتیں مختلف فیہ ہیں لیکن اس بنا پر کوئی کسی کو منکر قیاس نہیں کہتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منکر قیاس کی اصطلاح ایک اضافی اصطلاح ہے، بعض قیاس کی زیادہ صورتوں کے منکر ہیں اور بعض کم۔
ج) آخری قابل غور بات یہ ہے کہ قائلین قیاس ہوں یا منکرین قیاس، دونوں کے نزدیک یہ اصول مشترک ہے کہ دین کا کوئی نہ کوئی حکم ہر معاملے میں موجود ہے۔ جنہیں عام طور پر منکرین قیاس کہا جاتا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ علت مقرر کرنے کے جو طرق ان کے نزدیک حجت نہیں وہاں شارع نے “براۃ اصلیہ” کے تحت انسان کو عمل کی آزادی دی ہے کہ ان پر اس کا مواخذہ نہ ہوگا جبکہ ان طرق کو حجت کہنے والے وہاں بذریعہ قیاس کوئی معین حکم لاگو کرتے ہیں۔ مانعین قیاس کے نزدیک انسان کی یہ آزادی بھی حکم الله ہی سے ماخوذ ہے۔
کمنت کیجے