Home » اقبال کا تصورِ نبوت
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار کلام

اقبال کا تصورِ نبوت

 

عمران شاہد بھنڈر

فکرِ اقبال میں نبوت ایک ایسا تصور ہے جسے اقبال کے شارحین نے گہرائی میں جا کر موضوع نہیں بنایا۔ بیشتر شارحین جو کہ اقبال کو تنقیدی نظر سے نہیں دیکھتے وہ اس قسم کے تصور کا تنقیدی جائزہ لینے سے بھی گریزاں ہیں، اور اگر موضوع بناتے بھی ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اقبال کے خیالات کی اس طریقے سے توڑ مروڑ کی جائے کہ انہیں اسلام سے ہم آہنگ دکھایا جا سکے۔ جبکہ فکرِ اقبال کی تفہیم کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے تصورِ نبوت کا اسی طرح جائزہ لیا جائے جیسا کہ اقبال نے اسے پیش کیا ہے۔ بعد ازاں یہ بھی دیکھا جائے کہ جس طرح اقبال نے اسے پیش کیا ہے اس سے اقبال کی فکر میں کیا تضادات نمایاں ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ میں نے یہی کوشش کی ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ کسی بھی تصور کے بارے میں اقبال خود کیا کہتے ہیں۔ اقبال کے افکار کی تاویلات تو بعد کا معاملہ ہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے نزدیک وحی انسان کا داخلی شعور ہے نہ کہ کسی ماورائی ہستی کے نازل کیے گئے خیالات اور احکامات کا مجموعہ ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو اقبال کا تصورِ وحی ان کے تصورِ نبوت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ اقبال کہتے ہیں:

”پیغمبر کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک طرح کا متصوفانہ شعور ہے۔ اس میں وحدانی تجربہ اپنے کناروں سے باہر اچھل جاتا ہے اور اجتماعی زندگی کی طاقتوں کو نیا رُخ دینے اور نئی صورت عطا کرنے کے مواقع تلاش کرتا ہے۔ اس کی شخصیت میں زندگی کا متناہی مرکز پھر سے ابھرنے کے لیے اس کی اپنی لامتناہی گہرائی میں نئی توانائی کے ساتھ دوبارہ ابھرتا ہے اور پرانے طور طریقوں کو تباہ کرتا ہے اور زندگی میں نئی جہات کو منکشف کرتا ہے۔“ (نئی تشکیل، پانچواں لیکچر، ص، 154)

اس اقتباس میں ہمارے لیے دلچسپ پہلو صرف اس خیال کا فہم حاصل کرنا ہے کہ اقبال نے پیغمبر کے شعور کو متصوفانہ شعور کے متماثل گردانا ہے۔ ان میں سطحوں کا فرق ہے، لیکن ماہیت کا فرق نہیں ہے۔ یعنی پیغمبر کہیں سے نازل نہیں ہوتا بلکہ وہ صوفی کی مانند خود باطنی کیفیت سے گزرتا ہے اور اس کیفیت کا شعور حاصل کرتا ہے۔ تاہم یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر اور صوفی کا شعور بلاواسطہ ہوتا ہے یا بالواسطہ؟ متصوفانہ تجربے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اقبال اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں۔

”اس سلسلے کی پہلی چیز تجربے کا بلاواسطہ ہونا ہے، اس لحاظ سے یہ انسانی تجربے کی ان دوسری سطحوں سے مختلف نہیں ہے جو علم کے لیے مواد مہیا کرتی ہیں، تمام تجربہ بلاواسطہ ہوتا ہے۔ عمومی تجربے کے دائرہ کار میں ہم علم کے لیے خارجی دنیا سے حاصل ہونے والے حسیاتی مواد کی توجیہہ کرتے ہیں۔ اسی طرح علمِ خداوندی متصوفانہ تجربے کی توجیہہ سے حاصل ہوتا ہے۔ متصوفانہ تجربے کی بے واسطگی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خدا کی ذات کا علم بھی اسی طرح حاصل ہوتا ہے جس طرح ہم دوسری اشیا کو جانتے ہیں۔“ (پہلا لیکچر، ص، 38)۔

اقبال کے اس اقتباس میں کئی پیچیدگیاں اور الجھاؤ ہیں جن کی وضاحت انہیں کرنی چاہیے تھی۔ اقبال کا یہ کہنا کہ ”تمام تجربہ بلاواسطہ ہوتا ہے“ اس لیے متصوفانہ تجربہ بھی بلاواسطہ ہے، ایک بڑا دعویٰ ہے جس کی فلسفیانہ پرکھ بہت ضروری ہے۔ ہم آگے چل کر اس نکتے پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ اس کے علاوہ اقبال صرف یہ دعویٰ کر کے آگے بڑھ گئے ہیں کہ متصوفانہ تجربے سے خدا کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خدا کا علم حاصل کرنے کا مطلب خدا کی ماہیت کو جاننا ہے۔اگر اقبال کسی ایسے تجربے سے گزرے تھے تو ان کو خدا کے علم کی نوعیت اور خدو خال کی وضاحت کرنی چاہیے تھی، لیکن اقبال نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ مستزاد یہ کہ وہ ہمیں یہ بھی باور کراتے ہیں کہ

”مذہبی تجربہ دوسروں تک پہنچایا نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ کہ وہ بنیادی طور پر غیر مربوط جذبات کا معاملہ ہے، جنہیں استدلالی منطق چھو کر بھی نہیں گزری۔“ (پہلا لیکچر، ص، 42)۔

اگر مذہبی تجربے کو بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ غیر مربوط جذبات سے تعلق رکھتا ہے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان غیر مربوط جذبات کی بنیاد پر خدا کا ’مربوط‘علم حاصل کر لیا گیا ہے؟ کیا خدا کا علم غیر مربوط جذبات، احساس اور فکر سے حاصل ہوتا ہے اور بعد ازاں اس علم کو مربوط کر کے پیش کیا جاتا ہے؟ اگر مذہبی تجربہ غیر مربوط ہوتا ہے تو اس کو مربوط کرنے کے عمل میں عقل کی فعلیت شامل ہو گی، جس سے بآسانی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر مربوط (مذہبی تجربہ) کو خارج سے عقل کے ذریعے مربوط کیا گیا ہے۔ لہذا غیر مربوط کے بیان میں عقل کی آمیزش جو کہ غیر مربوط کو مربوط بناتی ہے یہ واضح کرتی ہے کہ مذہبی تجربے کو ویسے بیان نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ وہ وارد ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا میلان چونکہ تصوف کی جانب تھا، اس لیے وہ ایسے دعوے کرتے رہے اور ان دعوؤں سے متضاد خیالات بھی وہ خود ہی پیش کرتے رہے ہیں۔ اگر کوئی صوفی باطنی تجربے کی رہنمائی میں خدا کا علم رکھتا ہے تو اس علم کی حیثیت بھی آفاقی ہونی چاہیے۔ چونکہ اقبال کی فکر بھی غیر مربوط ہے، اس لیے وہ لیکچرز میں اپنے ہی دعوے کا ابطال کردیتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

”اتنا بہرصورت کہا جا سکتا ہے کہ تجربے کی وہ سطح جس پر تصور کا اطلاق نہیں ہو سکتا، کوئی آفاقی علم عطا نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ تصورات ہی ہیں جو معاشرے پر منطبق کیے جاتے ہیں۔ اس شخص کا نقطہ نظر جو حقیقت پر گرفت حاصل کرنے کے لیے مذہبی تجربے پر بھروسہ کرتا ہے، ہمیشہ ایک فرد رہنا اور دوسروں تک اپنی بات نہ پہنچا سکنا اس کا مقدر ہے۔“ (ساتواں لیکچر، ص، 213)۔

آخری لیکچر میں اقبال نے تسلیم کیا ہے کہ باطنی تجربہ آفاقی علم عطا نہیں کرتا، جبکہ وہ ہمیں یہ بتا چکے ہیں کہ متصوفانہ تجربے سے خدا کا علم حاصل کیا جا تا ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے داخلی تجربے کو بلاواسطہ قرار دیا ہے، یعنی خارجی دنیا سے کٹا ہوا ہو، اس کی وضاحت کے لیے جس زبان کا سہارا لیا جا سکتا ہے وہ باطنی نہیں بلکہ ثقافتی تشکیل ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلاواسطہ باطنی تجربہ ہی ناممکن ہے۔ مطلب یہ کہ کیا صوفی اور پیغمبر کا داخلی شعور خارجی حوالے سے قبل تشکیل پاتا ہے یا خارجی حقیقت سے ربط میں آنے کے بعد تشکیل کے مراحل سے گزرتا ہے؟ فلسفیانہ سطح پر دیکھیں تو انسان اپنے وجود کو خارجی تجربے کے بغیر متعین نہیں کر سکتا۔ وجہ یہ کہ انسان خود کو بلاواسطہ طور پر خارجی دنیا میں موجود پاتا ہے، اور جب تک خارجی دنیا میں ایک مستقل وجود کی موجودگی نہ ہو اس وقت تک کسی بھی مفکر اور صوفی کو اپنے وجود کا شعور تو بعد کی بات ہے اس کا وجود متعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اسی خارجی دنیا کی وساطت سے یعنی بالواسطہ اپنے ہونے کا شعور حاصل کرتا ہے۔”میں ہوں“ صرف میری موجودگی یا میرے ہونے کا شعور ہے، جو ہر خیال کے ساتھ موجود ہے، لیکن میں کیا ہوں؟ یہ فقط میرے ہونے سے معلوم نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ خارج میں ایک مستقل وجود کو تسلیم نہ کیا جائے جو میرے داخلی شعور کی مختلف سطحوں کی تعیین میں معاون ہو۔ آسان الفاظ میں یوں کہ جب تک ذہن سے باہر معروضات کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اس وقت تک داخلی تجربہ ممکن نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنا غلطی ہے کہ باطنی تجربہ بلاواسطہ ہوتا ہے اور اس سے خارجی اشیا مستنبط ہوتی ہیں۔ لہذا خارجی تجربہ وجود کی زمانے میں تعیین کرتا ہے، نہ کہ داخلی تجربہ بلاواسطہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ہم صرف مظاہر کا علم حاصل کرتے ہیں۔ باطنی شعور کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے باطن سے کوئی راستہ خدا کے علم کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ التباس تو ہو سکتا ہے، اسے علم سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال خود یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ صوفی کا تجربہ غیر مربوط ہوتا ہے، جسے بیان بھی نہیں کیا جا سکتا اور باطنی تجربے سے حاصل ہونے والا علم بھی آفاقی نہیں ہوتا۔ لہذا اگر کوئی شے باقی بچتی ہے تو وہ صرف دعویٰ ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔

پیغمبر کی خصوصیت کی وضاحت کے بعد اقبال مزید کہتے ہیں،

”جس طریقے سے لفظ القا (Inspiration) قرآن میں استعمال ہوتا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ قرآن اسے زندگی کی آفاقی صفت سمجھتا ہے۔ اگرچہ اس کی نوعیت اور کردار زندگی کے ارتقا کے مختلف مدارج پر مختلف ہوتے ہیں۔“ (پانچواں لیکچر، ص، 154)۔

اس میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ وحی کا تعلق زندگی سے ہے اور اقبال نے کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ وحی کسی بھی مفہوم میں خدا سے کوئی تعلق رکھتی ہے۔ ارتقا کے مختلف مدارج پر وحی یعنی داخلی شعور کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ داخلی شعور، حقیقت میں، خارجی حالات کا پابند ہے۔ وہ خارجی حالات ہی ہیں جو داخلی شعور کو اسی سمت میں متعین کرتے ہیں جس سمت میں ان حالات میں پائے جانے والے تضادات کی ’صحیح‘ تحلیل کا امکان ہوتا ہے۔اقبال نے ان اقتباسات میں یہ واضح کر دیا ہے کہ داخلی شعور کی تعیین خارجی حالات کرتے ہیں۔ تاہم داخلی تجربہ جو خارجی حالات سے متعین ہوتا ہے وہ اپنی گہرائی میں خارجی حالات میں پائے جانے والے تضادات کی تحلیل کا صحیح راستہ دریافت کر لیتا ہے۔ اس کے لیے ماورائے تجربہ کسی سمت میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ پیغمبر از خود اس سارے تجربے اور عمل سے گزرتا ہے۔ وہ کہیں سے ہدایت نہیں لیتا، بلکہ اس کا داخلی تجربہ ہی اس کے لیے ہدایت کا کام کرتا ہے۔ یہاں ایک انتہائی اہم نکتے کی وضاحت کرنا ازحد ضروری ہے۔ اقبال نے پیغمبرانہ شعور اور متصوفانہ شعور کو ممیز کرنے کے لیے پانچویں لیکچر کی ابتدائی سطور میں عبدالقدوس گنگوہی کا ایک قول نقل کیا ہے جو کچھ یوں ہے،

”محمد عربی آسمان کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے اور واپس آگئے، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اگر میں اس مقام تک پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا۔”صوفیا کے تمام ادب میں شاید ایسے الفاظ تلاش کرنا بے حد مشکل ہو جو ایک ہی جملے میں پیغمبرانہ اور متصوفانہ اقسام کے شعور میں ایسے نازک ادراکی نفسیاتی امتیاز کا انکشاف کرتے ہوں۔ صوفی یہ نہیں چاہتا کہ وہ وحدانی تجربے کی پرسکون حالت سے واپس لوٹے، اور جب کبھی وہ لوٹتا ہے یا اسے لوٹنا پڑتا ہے تو اس کی واپسی سے انسانیت پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوتا، پیغمبر کی مراجعت تخلیقی ہوتی ہے۔“ (پانچواں لیکچر، ص، 153)۔

اس سے یہ نکتہ بھی مکمل طور پر عیاں ہو جاتا ہے کہ اقبال کے لیے واقعہ معراج جسمانی نہیں بلکہ باطنی شعوری تجربے سے عبارت ہے۔ جیسا کہ اقبال کا کہنا ہے کہ ”صوفی یہ نہیں چاہتا کہ وہ وحدانی تجربے کی پُرسکون حالت سے واپس لوٹے“ یعنی واقعہ معراج ”وحدانی تجربے“ کی کیفیت سے عبارت ہے۔ یہ داخلی شعور ہے جس کی گہرائی میں صوفی بھی اتر سکتا ہے، البتہ یہ الگ بحث ہے کہ اس داخلی شعوری تجربے میں اترنے کے بعد کوئی صوفی واپس آتا ہے یا نہیں۔ تاریخِ فلسفہ میں، بہرحال، ایسے فلسفی گزرے ہیں جنہوں نے اس داخلی شعوری تجربے سے واپس آکر اس تجربے کی ”مکمل“ تفصیل بھی رقم کی ہے۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خارجی حالات کی درستی کے لیے جو قدم پیغمبر اٹھاتا ہے وہی قدم صوفیا بھی اٹھائیں، یعنی اگر پیغمبر تلوار اٹھاتا ہے تو کیا صوفی بھی تلوار اٹھائے تاکہ ان دونوں کے درمیان فرق کو ختم کیا جا سکے؟ اور اگر پیغمبر کا اٹھایا گیا قدم ہی واحد ’درست‘ قدم ہوتا تو اس درستی کو تسلسل میں رہنا چاہیے تھا۔ ”خاتمیت“ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ”درستی“ کے لیے مزید اقدام بھی کیے جا سکتے ہیں، جو انسانی عقل کے احاطے میں آتے ہیں۔صوفی اور پیغمبر کا طریقہ عمل مختلف ہونا عین فطری ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ داخلی شعور یا متصوفانہ یا پیغمبرانہ شعور وجود رکھتا ہے تو عین ممکن ہے کہ اس میں درجات کا فرق ہو۔ اگر پیغمبر اپنے داخلی تجربے سے واپس لوٹ آتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ صوفی کے تجربے کی اس سطح کو چھو نہ پایا ہو، جہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہے۔ باطنی تجربے کے مختلف درجات یا کیفیات ہو سکتی ہیں۔ عمومی خیال یہی ہے کہ زیادہ گہری کیفیت سے باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ اقبال خود کہتے ہیں کہ داخلی تجربے کو بیان نہیں کیا جا سکتا، تو اقبال کی اس بات کا اطلاق خود اقبال پر بھی ہوتا ہے۔ اگر داخلی تجربہ ناقابلِ بیان ہے تو اقبال کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ صوفی کے اس تجربے کی حدود متعین کر رہے ہیں جو خود اس صوفی کے لیے، بقول اقبال، ناقابلِ بیان ہے؟ ہم اقبال کے ساتھ اس نکتے پر تو متفق ہو سکتے ہیں کہ واقعہ معراج کیفیات کا بیان ہے، تاہم یہ تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ کوئی صوفی اس بلند کیفیت سے نہیں گزر پایا۔ ممکن ہے جس بلندی کا اقبال نے ذکر کیا ہے وہ صوفی کے باطنی تجربے میں ایک مخصوص سطح تک محدود ہو۔ ہم اقبال کے لیے بھی وہی معیار مقرر کرتے ہیں جو خود انہوں نے صوفیا کے لیے متعین کر رکھا ہے۔

پیغمبر اور صوفیا کے متصوفانہ شعور میں مماثلت کی تفصیل بیان کرنے کے علاوہ اقبال نے کچھ ایسے خیالات پیش کیے ہیں جو ان کی فکر میں نہ صرف یہ کہ تضادات کو نمایاں کر دیتے ہیں بلکہ ان کی فکر میں منطقی سطح پر بے ربطگی کو بھی عیاں کر دیتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں،

”اسلام میں چونکہ نبوت (Prophecy) اپنی تکمیل کو پہنچ گئی، تو اس کے ساتھ ہی اسے ختم کرنے کی ضرورت بھی پیدا ہوگئی۔ اس کے پیچھے گہرا ادراک یہ تھا کہ انسانوں کو ہمیشہ بیساکھیوں (Strings) کے سہارے نہیں چلایا جا سکتا۔ مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو بلآخر اپنے ذرائع استعمال کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے۔“ (پانچواں لیکچر، ص، 155)۔

اقبال کے ان خیالات پر کئی جہات سے اعتراضات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اگر پیغمبرانہ شعور ایک قسم کا متصوفانہ شعور ہے تو کوئی وجہ ایسی معلوم نہیں ہوتی کہ کسی خاص مرحلے پر وہ پیغمبرانہ شعور اپنی نمو کو روک دے۔ مستزاد یہ کہ اس امر کی بھی کوئی گنجائش نکلتی دکھائی نہیں دیتی کہ صوفیا ناپید ہو جائیں، یعنی متصوفانہ تجربہ ناممکن ہو جائے اور تصوف کے حامیوں کو اپنا سارا مقدمہ ماضی کے حوالوں پر ہی قائم کرنا پڑے۔ اقبال جب یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ نبوت کو ختم کرنے کے پیچھے گہرا ادراک یہ تھا کہ انسان کو”بیساکھیوں“ کے سہارے نہیں چلایا جا سکتا، تو اس سے ایسا لگتا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کوئی داخلی تجربہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس کو ختم کرنے کی ضرورت کو محسوس کر لیا گیا تھا۔ کیونکہ داخلی تجربے کو ختم کرنے کی ضرورت ایک احمقانہ خواہش کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔ اقبال کے ان خیالات سے یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ نبوت کا تصور داخلی شعور کا تشکیل کردہ نہیں تھا، بلکہ خارج سے لوگوں پر لاگو کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ اقبال نے خود ہی بتا دی ہے کہ اس وقت لوگوں کو ماورائی ”بیساکھیوں“ کی ضرورت تھی۔ تاریخی اعتبار سے بھی یہ ثابت ہے کہ نبوت کا تصور اُس عہد کا چلن تھا۔ لوگ عقلی سطح پر اتنے مستحکم نہیں تھے کہ وہ منطقی استدلال کی اہمیت کو سمجھ سکتے یا اس کے قائل ہو جاتے۔ اس لیے انہیں ماورائیت کے تصور سے متحرک کیا جاتا تھا۔ بہرحال جو بھی ہو، اقبال کے اس اقتباس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ نبوت کا تصور انسان کے شعور کا پرتو نہیں تھا، بلکہ فکری سطح پر معذور انسان کو چلانے کے لیے ایک “بیساکھی” کا کام انجام دیتا رہا ہے۔ تاہم اقبال کا پیغمبرانہ اور متصوفانہ پروجیکٹ اس وقت مشکوک ہو جاتا ہے جب اقبال نبوت کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس عمل میں انہیں گہرا شعور بھی دکھائی دیتا ہے۔ نبوت کو ختم کرنے کا مطلب بہت واضح ہے کہ داخلی تجربے کو ہی ناممکن قرار دے دیا جائے۔ اقبال کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان اپنے ذرائع کو استعمال کرے۔ لہذا عقل کا استعمال پیغمبرانہ وحی پر اضافہ ہے، اور یہ اضافہ اسی صورت ممکن تھا کہ نبوت کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ عقل کا استعمال مکمل خود شعوری کی شرط ہے۔ یعنی جو وحی نہیں کر پائی وہ عقل کو کرنا تھا۔ وحی کا کام جہاں ختم ہوتا ہے، وہاں سے عقل کا تفاعل شروع ہوتا ہے۔ فکرِ اقبال کا یہی وہ جان دار پہلو ہے جو انہیں عقلیت پسند مفکروں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ پیغمبرانہ شعور ”ایک طریق، جس سے انفرادی فکر میں جامعیت اور انتخاب آجاتا ہے، بنے بنائے طریق، انتخاب اور عملی ڈھنگ فراہم کر دیے جاتے ہیں۔“ تاہم جب عقل فعال ہو جائے انسان کو کسی “بیساکھی” کی ضرورت نہیں رہتی۔ اقبال لکھتے ہیں، ”عقل اور تنقیدی خواص کی پیدائش کے ساتھ زندگی اپنے ہی افادے میں غیر عقلی طریقہ شعور کی صورت گری اور نمو کو روک دیتی ہے۔ یہ وہی راستے ہیں جن میں انسانی ارتقا کی پہلی سطح پر زندگی کی توانائی بہا کرتی تھی، انسان بنیادی طور پر ایک جذبے اور جبلت کے زیرِ اثر ہوتا ہے، استقرائی استدلال اکیلا ہی انسان کو اپنے ماحول پر غالب کر دیتا ہے، یہ ایک کارنامہ ہے، اور جب وہ ایک بار پیدا ہو جائے تو پھر اس کو تقویت دینے کے لیے باقی طریق علم کی نشو و نما لازمی طور پر روک دینی چاہیے۔“ (پانچواں لیکچر، ص، 154-155)۔

اس اقتباس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ”عقل اور تنقیدی خواص“ کی پیدائش زندگی کے ارتقا کے دوران ایک مخصوص وقت پر ہوتی ہے، اور جب تک عقل کی آزاد فعلیت کی نمو نہیں ہوتی اس وقت تک غیر عقلی (وحی، نبوت) طریقہ اختیار کر لیا جاتا ہے۔ جب زندگی کے معاملات میں غیر عقلی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس وقت انسان ”جذبے، احساس اور جبلت کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔“ ارتقائی عمل کے ساتھ عقلی کی تنقیدی صلاحیت تشکیل پاتی ہے، اور عقل ہر شے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ عقل کی آزاد اور خود مختار فعلیت کے لیے یہ لازم ہے کہ عقل کو اس کی اپنی حرکت میں سفر کرنے دیا جائے۔ کیونکہ عقل اب اس مقام پر پہنچ چکی ہوتی ہے کہ کسی بھی غیر عقلی طریق پر عمل کرنا نہ صرف یہ کہ عقل کی عقلی حیثیت پر قدغن ہے، بلکہ انسان کو صدیوں پیچھے دھکیلنے کے مرادف ہے۔ اقبال کا یہ کہنا بجا ہے کہ عقل کی خود مختار فعلیت کے لیے لازم ہے کہ غیر عقلی طریق کو روک دیا جائے۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب پرست نہ صرف یہ کہ عقل کی تنقیص کرتے ہیں بلکہ مستقل طور پر غیر عقلی (وحی) ذرائع کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان کے لیے یہ سمجھنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے کہ وحی کی تمام تر تفسیر، تشریح اور تاویل عقل کی مرہونِ منت ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ عقل ناقص ہے تو اس بات کا تعین کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے کہ عقل نے وحی کی جو تعبیر پیش کی ہے وہ ناقص نہیں ہے۔ کیونکہ ناقص کیا ہے اور کیا نہیں ہے، یہ بھی عقل ہی طے کرتی ہے۔ اور اگر عقل کو اس کے تفاعل سے روک دیا جائے، یا اس پر مخصوص حدود کے اندر سوچنے کی پابندی لگا دی جائے تو پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وحی سے فلاں نتیجہ عقل کا نکالا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ جب عقل اپنی کُلیت میں فعال ہی نہیں ہے تو اس کا نکالا گیا نتیجہ بھی اس کا اپنا نہیں ہے، بلکہ یہ نتیجہ اس پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی اور ’قوت‘ عقل کی حدود متعین کرتی ہے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان حدود کے اندر عقل کا تفاعل اس کا اپنا نہیں ہو سکتا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عقل اپنی حدود کو خود طے کرے۔ عقل خود اس نتیجے پر پہنچے کہ کیا اس کے احاطہ ادراک میں آ سکتا ہے اور کیا نہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ عقل استقرائی ہے جو ”اکیلے“ ہی انسان کو اس کے ماحول پر غالب کر دیتی ہے۔ کیا عقل کے علاوہ کوئی بھی طریقہ علم ہمیں خارجی دنیا کا علم عطا کر سکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے ارد گرد کی دنیا کی تفہیم ہے جس کے بغیر انسان کی بقا خطرے میں رہے گی۔ یہی وہ ارد گرد کی دنیا ہے جس کی تفہیم کے لیے وحی ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ عقل کی فعلیت وحی سے اگلا مرحلہ ہے، یعنی عقل ارتقا کی اگلی سطح پر ہے، اسے صدیوں برس قبل کی دنیا میں نہیں بھیجا جا سکتا، جہاں پر عقل صرف ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے چیزوں کو دیکھتی رہے اور حیران ہوتی رہے، لیکن ان کو سمجھنے کی سعی نہ کر سکے، صرف اس خیال کے پیش نظر کہ ایک ”برتر ذریعہ علم“ موجود ہے جو ہر شے کی تشریح اس سے ماورا جا کر کرتا ہے۔ عقل سے ماورا کسی بھی شے کا تصور ناقابل فہم ہوتا ہے، کیونکہ فہم عقل کی صفت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب عقل کی فعلیت کا آغاز ہو جائے۔ جدید مغربی معاشروں میں عقل کی آزادانہ فعلیت کا آغاز ہوئے کئی صدیاں گزر گئی ہیں، جب کہ اقبال کو احساس تھا کہ مسلمانوں کے ہاں ابھی اس عمل کا آغاز ہونا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ ”گزشتہ پانچ سو برس سے اسلامی فکر عملی طور پر جمود کا شکار ہے۔“وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ عقل کی آزاد فعلیت پر پہرے بٹھائے جاتے رہے ہیں، اور جب عقل کو معذور کر دیا جائے تو پھر صرف نبوت کی ”بیساکھی“ باقی بچتی ہے، جس پر اقبال معترض ہیں، کیونکہ وہ ارتقا کا اگلا نہیں، گزشتہ مرحلہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں