Home » تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق : قسط اول
تہذیبی مطالعات زبان وادب سماجیات / فنون وثقافت

تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق : قسط اول

اردو میں تجدد ایک نیا لفظ ہے اور عموماً یہ انگریزی لفظ modernism کے ترجمے کے طور پر مستعمل ہے۔ ماڈرنزم کے لیے کچھ اہلِ علم نے ’جدید مشربی‘ کی ترکیب بھی استعمال کی ہے جو میری رائے میں درست نہیں۔ ہمارے ہاں اسی خاندان کے دو اور لفظ بھی خاصے مستعمل چلے آتے ہیں: ایک تجدید جس کا انگریزی متبادل revival ہے اور دوسرا مجدد، جس کا انگریزی متبادل reviver یا revivalist ہے۔ ’ماڈرنزم‘ سے ذہن انگریزی کے تین اور اہم لفظوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، ایک modernist (متجدد)، دوسرا modernization (جدید کاری) اور تیسرا modernity (جدیدیت)۔ اس طرح اردو میں یہ چھ لفظ ہیں جو باہم جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں: تجدید، مجدد، تجدد، متجدد، جدید کاری اور جدیدیت۔ بظاہر ایک ہی مادے سے بننے والے اور معنوی اشتراک رکھنے والے یہ لفظ اپنے معنوی محتویات کے اعتبار سے باہم مختلف ہیں۔ ترجمہ ہونے کی وجہ سے یہ اصطلاحات ابہام کا شکار بھی ہیں کیونکہ ابھی یہ طے شدہ نہیں ہے کہ یہ لفظ انگریزی میں موجود اپنی معنوی منڈلی کو کس حد تک اردو میں سمیٹ لائے ہیں۔ اصطلاحات اور فکر کے تراجم صرف اس وقت مفید ہوتے ہیں جب ترجمے کی زبان میں بھی برابر سطح کے علمی مباحث موجود ہوں۔ جدید یورپی زبانوں میں فکری ادراک اور علمی ابلاغ جس سطح پر کام کرتا ہے وہ اردو میں بہت حد تک نامعلوم ہے۔ ہر معاشرے میں فکری سرگرمی کی نوعیت اور سطح قومی ارادے کی فعالیت اور شعور کی حریت سے مشروط ہوتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب اور مسلم معاشروں میں قومی ارادے اور علم میں غیرمعمولی تفاوت کے باعث فکری گفتگو میں چند در چند دشواریاں داخل ہو گئی ہیں۔

ان سارے لفظوں/اصطلاحات میں ایک اَن کہا معنوی سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے، اور وہ ’ماضی‘ ہے۔ اگرچہ انگریزی میں ’تجدید‘ اور ’مجدد‘ کے لیے جو لفظ استعمال ہوئے ہیں ان کا لفظ ’modern‘ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن ’ماضی‘ کے بغیر ان کا بھی معنوی تعین نہیں ہو سکتا۔ جدیدیت ایک انتہائی ریڈیکل فکر اور پراجیکٹ ہے اور وہ اپنی ہر تعریف (definition) بھی اپنے اندر سے پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ مذہب اور معجزے کی طرح self-referential ہو سکے لیکن ماضی کا ’بھوت‘ کسی طرح اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا (یاد رہے کہ ہندی میں ’بھوت‘ کا لغوی مطلب ’ماضی‘ ہے)۔ جدیدیت، تجدد اور جدید کاری اپنی فکر اور عمل میں ماضی کے ’بھوت‘ کا کبھی اتارا نہیں کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں۔ جدید فکر ’ماضی‘ سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔ عہدِ جدیدیت میں ’ماضی‘ معروف نہیں بلکہ ’مجہول‘ ہے۔ جدیدیت کے پیدا کردہ علوم میں ماضی اپنی کسی شرط پر معلوم نہیں ہے۔ آج ماضی فکرِ جدیدیت کے حضور روبکاری کے بعد معلوم و معروف ہے۔ ماضی اب میوزیم ہے، آرکائیو ہے، آثاریات ہے، تاریخ کا کوئی ریکارڈ نہیں بلکہ ایسا کباڑ خانہ ہے جس سے جدید تاریخ نویسی اپنا بیانیہ جوڑتی ہے، اور یہ تاریخیت (historicism) کا خام مال ہے۔ جدیدیت میں ماضی نہ مستقل ہے، نہ مقدس ہے اور نہ مقتدر۔ جدیدیت اپنے غیرمعمولی علمی وسائل کے ذریعے اور اپنی ثقافتی اور سیاسی ضروریات کے مطابق ’ماضی‘ کو مسلسل re-present کرتی رہتی ہے۔

’تجدید‘ اور ’مجدد‘ کے معنوی محتویات میں جس فکر اور عمل کا عندیہ ملتا ہے اس کی اپنے ہم عصر زمانے سے نسبت تخالف اور تضاد کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر زمانۂ حال میں ایک ہیومن ایجنسی فعال ہوتی ہے اور وہ جس آئیڈیل کو اپنے عمل سے واقعاتی (actual) بناتی ہے وہ بھی قابل تعین ہوتا ہے۔ مذہبی معنوں میں، تجدید، ہیومن ایجنسی کے ذریعے کسی مقدس اور معیارِ حق ماضی کو ’زندہ‘ کر کے حال بنا دینے کی جدوجہد ہے، یعنی تجدید جس آئیڈیل کو actualize کرنا چاہتی ہے وہ ماضی میں ہوتا ہے۔ تجدید میں اہم تر زمانے کی تشکیل کنندہ ہیومن ایجنسی کی بازیافت ہے، یعنی ایسی ایجنسی جو اقبالؒ کے الفاظ میں مرکبِ ایام نہیں بلکہ راکبِ ایام ہو۔ یہ غور طلب بات ہے۔ مذہبی معنوں میں تجدید یا احیا کے مخالفین ایک سلوگن کے بڑے شوقین ہیں کہ ماضی کو لوٹایا نہیں جا سکتا یا یہ کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی۔ ایسے سلوگن کا منبع جدیدیت کا وہ خوف ہے جو وہ ماضی کے بارے میں رکھتی ہے، کیونکہ ’ماضی‘ اس کا بھوت ہے اور یہ بھوت آسیب (spectre) جیسا ہے، یہ وہی spectre ہے جس کا مارکس نے اپنے مینی فیسٹو میں ذکر کیا ہے۔ جدیدیت کی فکر میں ’ماضی‘ کوئی ’عہد‘ یا ’زمانہ‘ نہیں ہے بلکہ یہ ایک علمی ججمنٹ ہے، یعنی جو چیز ماضی ہے وہ پسماندہ ہے، ازکار رفتہ ہے، بربریت آمیز ہے، تہذیب سے گری ہوئی ہے، ترقی سے محروم ہے اور محتوائے انسانیت سے خالی ہے۔ لیکن ماضی میں کچھ کام کی چیزیں بھی ہوتی ہیں اس لیے جدیدیت ماضی کو cannibalize کرتی رہتی ہے۔ تجدید میں پنہاں تصورِ ماضی قطعی مختلف ہوتا ہے اس لیے کہ تجدید، ’ماضی‘ کو جو مستقل ہے، مقدس ہے، اور مقتدر ہے پھر سے actualize کرنے کی کوشش ہے۔ تجدید یا احیا کا اصل سوال یہ ہے کہ کیا متعلقہ ورلڈ ویو/تصورِ حیات اپنے آپ میں اتنا تونگر (rich) ہے کہ وہ ہیومن ایجنسی کو ایسے کردار کی شکل دے دے جو ایک پورائی میں تاریخ کے مقابل آ سکے۔ تاریخ اپنی حرکت میں منبعِ ہدایت سے دوری اور پستی کا میلان رکھتی ہے۔ تجدید، شعور اور ارادے کی سطح پر ہدایت سے تاریخ میں ظاہر ہونے والی اس دوری اور پستی کے ازالے کی کاوش ہے۔ تجدید، تاریخ کو مسلسل لگامیں ڈالتے رہنے کا نام ہے۔ تجدید کوئی واپسی نہیں ہے، بلکہ طبعِ زمانہ کی تازگی ہے۔ تجدید میں ہیومن ایجنسی ہدایت کی شرائط پر ’احوال‘ سے لیس ہو کر تاریخ کا سامنا کر کے نئے ’حالات‘ پیدا کرتی ہے۔ تجدید ہیومن ایجنسی کے ذریعے زمانے کی تازہ کاری ہے۔ تجدید ایک کارِ مسلسل ہے اور مومن کا مطلوب و مقصود ہے۔ تجدید میں اہم ترین نکتہ احوال اور حالات کی جدلیات کو سمجھنے کا ہے، کیونکہ آخرالامر ہر معاشرے میں انسانوں کے انفسی احوال ہی آفاقی حالات میں ظہور کرتے اور تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں۔

جدیدیت ایک پورے ورلڈ ویو، یا تصورِ حیات کے طور پر ’دنیا‘ میں اپنے جو زمانی مظاہر رکھتی ہے انہیں تجدد کہا گیا ہے۔ یہاں دنیا سے مراد کلچر، معاشرہ اور تاریخ ہے یعنی طبائع فطرت اس سے خارج ہیں۔ یعنی ہر عہد میں جدیدیت ثقافت، علوم، تعلیم، ادب، موسیقی، پینٹنگ، فیشن اور فن تعمیر وغیرہ میں جو مظاہر سامنے لاتی ہے ان سب میں باہم کچھ نہ کچھ اشتراکات موجود ہوتے ہیں۔ ان اشتراکات کے مطالعے سے یہ اشارہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ فلاں وقت میں جدیدیت اپنے فکر اور عمل کے مظاہر میں کیا خواص رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر بیسویں صدی کے آغاز میں نئے ادب، فن تعمیر اور چند در چند ثقافتی مظاہر کے لیے تجدد (modernism) کا لفظ استعمال کیا گیا اور اسے ایک ثقافتی تحریک بھی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد آنے والے مظاہر کو مابعد تجدد (post-modernism) کہا گیا۔ اس طرح یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ تجدد اور مابعد تجدد دونوں ہی جدیدیت کے پیدا کردہ معاشرتی اور ثقافتی مظاہر ہیں۔ تجدد اور مابعد تجدد پر بے شمار ادبی اور فکری بحثیں موجود ہیں۔ تجدد کا ایک اہم پہلو علم کی تشکیل اور اس کی تنظیم کاری اور علم کے بنیادی قضایا پر مشتمل مباحث کو سامنے لانا ہے، کیونکہ جدیدیت اپنے علوم کی تنظیم نو میں مسلسل مستعد رہتی ہے۔

تجدد کے دو پہلو تو بالکل سامنے کی چیز ہیں۔ مثلاً اگر ہم دین کی کوئی بات کرنا چاہتے ہیں، یا اپنی تاریخ میں ظاہر ہونے والی اسلامی تہذیب کے کلاسیکل مواقف کو سامنے لانا چاہتے ہیں تو زبان کے اسالیب و استدلال تو صرف جدید ہی ہو سکتے ہیں۔ یعنی تجدد کا ایک پہلو اس کے ابلاغ کا جدید اسالیب اور استدلال کا حامل ہونا ہے۔ ابلاغ میں یہ تبدیلی صرف مذہبی تحریروں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ثقافت گیر مظہر ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے کا کلچر ان گنت جدید اسالیب اپنے اندر سمو چکا ہے، اور یہ ایک ایسا تاریخی عمل ہے جس کی علمی تنقیح کے بعد ان کے بارے میں موقف اختیار کیا جانا چاہیے۔ ماڈرنزم کے عہد میں بھی اسلام اپنی حکمی ہیئتوں کو مکمل طور پر باقی رکھتے ہوئے اور جدید ثقافتوں پر غالب رہتے ہوئے ان کی نئی تشریط کر سکتا ہے۔

تجدد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جونہی جدید اسالیب اور استدلال اختیار کیا جاتا ہے جدیدیت کے پیدا کردہ اساسی افکار بھی ساتھ چلے آتے ہیں۔ ایک ثقہ مذہبی آدمی جدید اسالیب اور استدلال سے تو سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اگر یہ اسالیب و استدلال جدیدیت کی فکر کو آگے بڑھاتے ہیں یا جدیدیت کو مکمل طور پر اپنے اندر accommodate کرتے ہیں یا جدیدیت کی توسیط کا ذریعہ بنتے ہیں تو یہ اُس کے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ کہ جدید اسالیب میں لکھی گئی تحریریں افکار جدیدیت کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہوں صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ جدید اسالیب اور جدیدیت کی اساسی فکر سے تعارف نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں نعرے بازی زیادہ ہے اور خالص علمی کام بہت کم ہے۔

تجدد / ماڈرنزم پر مغربی دنیا میں بے شمار مباحث موجود ہیں، اور ادب، ادبی تنقید، ادبی اور ثقافتی تھیوری، کلچر، فن تعمیر، موسیقی، آرٹ، تصویر سازی، فلم وغیرہ جیسے شعبوں میں اس پر معرکۃ الآرا بحثیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ میرے نزدیک ان کی نوعیت اب اکیڈیمک ہے، اور پی ایچ ڈی کرنے کے لیے مفید موضوعات ہیں۔ مغرب کے حوالے سے میں نے مذہب کا نام اس لیے نہیں لیا کہ بیسیوں صدی کے اوائل میں تجدد/ ماڈرنزم کے ظہور سے بہت پہلے مذہب اپنے تمام پہلوؤں میں مکمل شکست کھا کر تہذیب کے کونوں کھدروں میں پناہ لے چکا تھا۔ مذہبی تجدد (religious           modernism) ایک بڑے مبحث کے طور پر استعمار سے مغلوب قوموں میں ظاہر ہوا ہے اور ان کی تہذیبی موت کا کتبہ ہے۔ مسلم معاشروں میں سب سے بڑا مبحث مذہبی تجدد ہی ہے۔ ابھی تک ان معاشروں میں اس پر کام کی کوئی بات نہیں کہی جا سکی اور اب مذہب کا یہ غالب ڈسکورس بن چکا ہے۔ حالت یہ ہے کہ جو اہل علم بزعم خویش تجدد کے خلاف جنگ آزما ہیں وہ خود بھی متجددین ہی ہیں، اور روایت وغیرہ کا لفظ محض آڑ کے لیے برتا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں مغربی تہذیب میں ظاہر ہونے والے تجدد/ماڈرنزم پر گفتگو بہت کم ہوتی ہے لیکن دیسی مذہبی تجدد کا غلغلہ بہت ہے۔ تجدد/ماڈرنزم پر گفتگو صرف اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب آدمی جدیدیت/ماڈرنٹی سے بھی ضروری واقفیت رکھتا ہو اور ان کی باہمی نسبتیں بھی اسے معلوم ہوں۔ زیادہ تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ جدیدیت/ماڈرنٹی ایک تصور (concept) ہے یعنی ایک بہت بڑا تصور، ایک تہذیبی کل بنانے والا تصور، اور تجدد/ماڈرنزم تاریخ میں تدریجاً سامنے آنے والے اس تصور کے سماجی اور ثقافتی مظاہر کا مجموعہ ہے، یعنی جدیدیت ایک تصور ہے اور تجدد ’دنیا‘ میں ظاہر ہونے والی ایک واقعیت۔ علم کی گفتگو جدیدیت کے عنوان سے شروع ہو گی اور تجدد تک آئے گی۔ زمان و مکان میں موجود انسان اور انسانی معاشروں پر جدیدیت جو اپنے نقوش ثبت کرتی چلی جاتی ہے وہ تجدد/ماڈرنزم کے تحت ہی زیر بحث آئیں گے۔ اس وقت میں اپنی گفتگو کو مذہبی تجدد تک محدود رکھنا چاہوں گا۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں