Home » تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق : قسط دوم
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق : قسط دوم

پہلا مسئلہ تو مذہبی تجدد کو define کرنے کا ہے۔ دین کا براہِ راست مخاطب، اس کا exclusive            focus انسان ہے، فرد کی حیثیت سے اور اجتماع کی حیثیت سے بھی۔ جب دین کا یہ خطاب منقلب ہو جائے اور جدیدیت کے پیدا کردہ نظریات کے تتبع میں معاشرہ، تاریخ اور طبائع فطرت دین کے مخاطب بن جائیں تو نتیجہ مذہبی تجدد ہوتا ہے۔ اس امر کی تفصیل ضروری ہے:

(۱) عقیدے کا انہدام

مذہبی تجدد کے ظہور کی سب سے بڑی وجہ نئی وہابی توحید کا ظہور اور مسلم عقیدے کا انہدام ہے۔ جدید عہد میں مسلم عقیدہ اپنی تنزیہہ باقی نہیں رکھ سکا، اور جدید تشبیہی اور مادی علوم کے سانچے میں ڈھل کر discursive            knowledge کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جیسا کہ اسماعیل راجی فاروقی شہید نے اپنی انگریزی کتاب ”التوحید“ میں اس کا اعتراف کیا ہے، جو بقولِ مصنف سلفی توحید کا بیان ہے۔ جدید عہد میں مسلم عقیدے اور جدید علوم کے مابین امتیازات کے خاتمے سے مسلم عقیدے کی معنویت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس کا اگلا مرحلہ غیب و شہود کے امتیازات کو باقی نہ رکھ سکنے کا تھا اور تمام کے تمام مذہبی علوم تشبیہی اور positivist وجودیات پر قرار پکڑتے چلے گئے۔ اس سطح وجود پر مغربی علوم اور ٹکنالوجی کے سامنے کھڑے ہونے کا سوال ہی ختم ہو گیا۔ گزشتہ دو سو سال میں مسلمانوں نے جو علمی داد سخن دی ہے جدیدیت اس کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئی لیکن ہم اپنی دانست میں احیا کے منزل کے قریب آتے چلے گئے ہیں۔

(۲) علمیات (epistemology) کا خاتمہ اور ہرمینیات (heremeneutics) کا عروج

مذہبی تجدد ہر طرح کے علم کی نوع، موضوع اور منہج کے بارے میں بنیادی سوالات سے مکمل اعراض سے پیدا ہوتا ہے۔ علم میں بنیادی ترین سوال یہ ہوتا ہے کہ ’عقل کیا ہے؟‘ مذہبی تجدد جدید علم کی تشکیل میں کام آنے والے تمام وسائل سے مکمل ترین بے خبری میں جنم لیتا ہے۔ عقل کا معروض یہ دنیا ہے، اور جن کو نظری علوم کہا جاتا ہے ان کا موضوع صرف یہ دنیا ہے۔ مذہبی تجدد میں کسی بھی قسم کا کوئی معروض باقی ہی نہیں رہتا اور عقل کے ہر معروف تصور کے خاتمے سے ایک صوابدیدی ہرمینیات جنم لیتی ہے۔ مسلمانوں کو ایک بہت بڑی خوش فہمی یہ ہے کہ ان کا تصورِ عقل exclusive ہے اور یہی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ عقل ایک انسانی ملکہ ہے اور علی الاطلاق، معروف اور دنیا کے سارے انسانوں میں مشترک ہے۔ ہر تہذیب عقلی ملکات سے اپنے ورلڈ ویو کی علمی اور فکری توثیقات کا کام لیتی ہے، اور ہمارے ذمے بھی یہی کام ہے لیکن اس کام کو کرنے کے لیے universal          reason پر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ ہماری یہ خوش فہمی ہے کہ ہمارا تصورِ عقل exclusive ہے۔ اگر اسے مان بھی لیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن گزشتہ دو سو سال میں اس کے حاصلات پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ ہمارے مذہبی اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ عقلِ سلیم، عقل تسلیم ہے وغیرہ۔ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس کے پیدا کردہ سب علوم حد درجہ عقیم ہیں نہ دنیا میں مفید نہ آخرت میں کام کے۔ یہ عقل سلیم کوئی مسلم کردار بھی سامنے نہیں لا سکی۔ یہ ہماری moral           self کو برقرار رکھ سکی ہے اور نہ اس کا دفاع کر سکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس عقل سلیم کو اپنے اسلاف کے ورثے کی بھی کوئی خبر نہیں اور نہ یہ عقل جدید دنیا کو سمجھنے میں کوئی پیشرفت کر سکی ہے۔ یہی وہ نام نہاد عقل ہے جو مذہبی تجدد میں بھی کارفرما اور فعال ہے، اور اس کا بس ایک ہی کام ہے کہ جدیدیت کے پیدا کردہ کفر کو دینی اصطلاحات میں بیان کرتی چلی جائے۔

(۳) مذہب اور استعمار کے پیدا کردہ اداروں کے درمیان متوازیت

ایک امر میں اختلاف شاید کم ہو کہ مذہبی تجدد مسلم ممالک میں استعمار کے عملی قیام کے بعد شروع ہوا۔ استعمار میدان جنگ سے شروع ہوتا ہے یعنی وہ اول اول ہمارے اجتماعی سیاسی اور معاشی ادارے فنا کرتا ہے۔ اس کا دوسرا پڑاؤ گھر آنگن ہے، یعنی ہماری معاشرت ہوتی ہے۔ اس کی آخری منزل مستعمرین کا شعور، ارادہ اور نفس ہے۔ استعمار طاقت اور معاش کی نئی ہیئتوں اور تعلیم اور علم کی نئی اوضاع سے مستعمرین کی پوری داخلیت کو بھی مکمل بدل دینے کی پوری استعداد رکھتا ہے۔ یعنی استعمار محکوم قوموں اور معاشروں کے آفاق اور انفس کی نئی تشکیل کرتا ہے۔ جب استعمار نے برصغیر میں نئے ادارے قائم کیے تو ان کے پیچھے استعماری جدیدیت کی بہت بڑی اور توانا فکر کام کر رہی تھی، اور ہمارے اہل علم کی نظر وہاں تک کبھی نہیں پہنچی، اور آج بھی وہ افکار اہل علم کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اور ہمارے اہل علم نے مذہب اور استعماری اداروں میں براہ راست متوازیت پیدا کر کے ان کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ ہم نے مثلاً یہ سوال تو اٹھایا کہ کیا جمہوریت اسلامی ہے یا نہیں، لیکن اس تہذیبی فکر پر ڈھنگ کا کوئی ایک سوال بھی نہیں اٹھایا جا سکا جو ایک تہذیبی مظہر کے طور پر جمہوریت کی تشکیل کنندہ تھی۔ اسی طرح جدید ریاست اور ساورنٹی کا تصور ہے۔ اس پر ہمارے اہلِ علم نے جو دادِ سخن دی وہ محض لطیفہ ہے۔ ترقی کا تصور بھی برصغیر میں ایک بہت بڑا علمی اور ثقافتی مظہر تھا۔ یہ کس بلا کا نام ہے ہمارے اہل علم کو اس کی ہوا تک نہیں لگی اور اس پر رائے زنی بڑھ چڑھ کر کرنے کا شوق بھی دیدنی ہے۔ ان تمام تہذیبی مظاہر پر مذہب کی ججمنٹ ازحد ضروری ہے، لیکن ان کا تجزیہ عقلی علوم اور ان میں کارفرما نظام استدلال سے ہو گا۔ مذہبی ججمنٹ یا فتویٰ ان علمی نتائج پر مرتب ہو گا۔ عقل اور علم کی مطلق عدم موجودگی میں جب ہم نے جدید استعماری اداروں پر مذہبی بحث شروع کی تو اس کا لازمی نتیجہ تجدد کی صورت میں برآمد ہوا۔ مثلاً جدید تعلیم ہی کو دیکھ لیں۔ اس پر ہر مذہبی بحث کا نتیجہ تجدد ہے۔ دو ڈھائی سو سال گزر چکے لیکن مجال ہے جو ذرہ بھر عقل بھی آئی ہو۔ بستے کو آگے پیچھے کرنے سے تعلیمی نظام پیدا نہیں ہوتے۔ ہر جدید موضوع پر مذہبی بحث کا نتیجہ تجدد ہو گا، اور اب تو یہ حال ہے کہ جدیدیت کا اونٹ خیمے میں قرار پکڑ چکا ہے اور بدو باہر اپنے علم کا ڈھول پیٹ رہا ہے۔ اس میں مولانا وحید الدین خان کی تحریریں مذہبی تجدد کے تناظر میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے مہلت دی تو ان کو بھی واضح کروں گا۔ جدید اداروں کو نظری اور عقلی علم کا موضوع بنانے کی بجائے مذہبی بحث کا موضوع بنانا جدیدیت کو مکمل طور پر accommodate کرنے کا کام ہے، اور مذہبی تجدد اسی عمل کا نام ہے۔

(۵) ضروری فکری سوالات اٹھانے سے مکمل گریز

اگر ہم گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ استعماری جدیدیت جن تہذیبی مظاہر کے ساتھ برصغیر میں متمکن ہوئی اس پر کوئی علمی سوال نہیں اٹھایا جا سکا۔ روایتی علم الکلام بھی اس سے خالی ہے۔ لیکن ایک چیز کا جائز شوق بہت رہا کہ مذہب سے رہنمائی لی جائے۔ مثلاً لاؤڈ اسپیکر کا لطیفہ تو ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ مذہب انسان اور اس کے افعال و احوال پر ججمنٹ دیتا ہے وہ لاؤڈ اسپیکر کے بارے میں کچھ بتانے نہیں آیا، یا یہ کہ زمین گول ہے یا چپٹی ہے، یہ گھومتی ہے یا ساکن ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان چیزوں کی اول علمی تنقیح ہو گی اور نتائج پر مذہبی فتویٰ مرتب ہو گا۔ مجھے تو دارالحرب اور دارالاسلام کے موضوع پر جو بحثیں ہوئیں ان کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ علمی حالات کس حد تک تنزلی کا شکار ہو چکے تھے۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ یہ قضیہ بھی ختم ہو گیا ہے کہ کوئی علمی، فکری اور نظری سوالات بھی ہوتے ہیں جو اس دنیا کی پنہاں نسبتوں کو سامنے لاتے اور مذہب کے سامنے ججمنٹ کے لیے پیش کرتے ہیں۔ فقہ جس پر ہماری پوری تہذیب کھڑی تھی اس کا تصور محض عدالتی قانون تک محدود ہو کر رہ گیا اور اس کے وسیع تر تناظر بالکل ہی ختم ہو گئے۔ فقہ کی کلاسیکل کتابوں میں علم اور عمل کی نسبتیں قائم کرنے کی منہج میں جو زبردست گہرائی اور پیچیدگی نظر آتی ہے وہ اعلیٰ ترین سطح پر مذہبی اور تہذیبی کارفرمائی کو ظاہر کرتی ہے اور اب تو فقہ صحافت سے بھی نیچے گر گیا ہے۔

(۶) استعمار اور استشراق کی تہذیبی معنویت سے مکمل بے خبری

یہ امر کہ تاریخ اور اس کے مؤثرات انسانی شعور اور اس کی نفسی ساختوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ انسان کی ثقافت میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اور جدید تاریخ جن سائنسی اور ٹکنالوجیائی مؤثرات کے ساتھ ظاہر ہوئی اس کے پیچھے جو نئے علوم کارفرما تھے ان سے ہمارا تعارف استعمار اور استشراق کی صورت میں ہوا۔ اگر محکوم قومیں اور مستعمرین ان مباحث کی ابجد سے واقف ہوتے تو مذہبی تجدد جنم ہی نہیں لے سکتا تھا۔ ہمارے ہاں مذہبی تجدد ان تمام ضروری سوالات سے خالی ہے جو ہم عصر دنیا اور اس میں علوم کی نئی تشکیل پر اٹھائے جانے چاہئیں تھے۔ مذہبی اصطلاحیں باقی رہ گئیں اور ان کے بطون استعمار اور استشراق کے پیدا کردہ معانی سے بھر گئے۔ تجدد مذہب کو جدیدیت کے سانچے پر ڈھالنے کی طویل ثقافتی سرگرمی ہے جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مختلف اہل علم میں ایک ہی منہج پر ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں ظاہر ہونے والے مذہبی تجدد کا مسئلہ یہ ہے کہ جدیدیت سے عدم واقفیت کی وجہ سے اسے مسلسل دین کے اندرون میں سمویا جا رہا ہے اور ثقہ دینی مواقف تیزی سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ مذہبی تجدد نہ صرف اپنے اسالیب و استدلال میں جدید ادائیگی رکھتا ہے بلکہ جدید فکر کا حمال بھی ہے۔ ہمارا مسئلہ ادا سے نہیں، تحمل سے ہے۔ یعنی یہ کہ دین کی نمائندہ تحریریں تحمل اور ادا دونوں میں ثقہ ہوں۔ تجدد کی گفتگو میں اس امر کو پیش نظر رکھنا ازحد ضروری ہے کہ جدید اسالیب و استدلال ناگزیر ہیں جبکہ جدیدیت کی فکر پر روک لگانا ممکن اور ضروری ہے۔ اگر ہمیں جدیدیت کے پیدا کردہ افکار کی تہذیبی تفہیم حاصل ہوتی تو تجدد پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمارے ہاں تجدد افکار جدیدیت کو مذہبی لبادے میں پیش کرنے کا نام ہے۔

جدید کاری یا ماڈرنائزیشن اصلاً ایک معاشرہ گیر سیاسی، معاشی اور طبعی عمل ہے جس کے پیچھے کارفرما بنیادی فکری موقف یہ ہے کہ انسان ماحول کی پیداوار ہے اور اگر انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا طبعی ماحول بدل دیا جائے تو انسان بھی بدل جائے گا۔ ماڈرنائزیشن تھیوری اور عمل، تاریخ کے مطلق مادی تصور سے پیدا ہوئے ہیں، یعنی یہ کہ انسان تاریخ کے مطلق مادی مؤثرات کا پیدائیہ (product) ہے، اور اس تھیوری کی اساس میں تاریخیت (historicism) کا نظریہ پوری قوت سے موجود ہے۔ جدید کاری کا موقف ہے کہ اگر جدید تعلیم، جدید طرزِ زندگی، جدید شہری سہولیات کی فراہمی، جدید میڈیا کی توسیع، اور نئی معاشی سرگرمیوں وغیرہ کے ذریعے روایتی رہن سہن کو تبدیل کر دیا جائے تو انسان کے تصورات، عقائد اور رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ اس تصور کا تناظر مکمل طور پر مادی ہے۔ اہم تر نکتہ یہ ہے کہ انسانی رشتوں میں فیصلہ کن چیز جدید معاشی رشتے ہیں۔ اگر جدید پیداواری عمل اور آرگنائزیشن سے نئے انسانی رشتوں کو معاشرے میں واقعاتی طور پر قائم کر دیا جائے تو انسانی رشتوں کی مادی تشکیل مکمل ہو جاتی ہے اور مذہب کے پیدا کردہ انسانی رشتوں کی اخلاقی اور روحانی ہیئتوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں Daniel     Lerner کی کتاب The        Passing          of           the           Traditional Society: Modernizing           Middle          East دیکھی جا سکتی ہے جس میں مصنف نے جدیدکاری کی اپنی تھیوری کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جدیدیت تاریخ اور نیچر میں جو نئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی مظاہر واقعاتی طور پر پیدا کرتی ہے وہ ایک نئے انسان پر مشتمل ایک نئے معاشرے کو سامنے لے آتے ہیں، یعنی اگر کسی پرانے معاشرے کے طبعی ’حالات‘ کو تبدیل کر دیا جائے تو اس میں رہائش پذیر انسان کے انفسی ’احوال‘ بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں، اور وہ نئی خودی کا حامل جدید انسان بن جاتا ہے۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں