پاکستان و بھارت میں مدارس کے احباب کے لیے علم الکلام، سائنس، جدیدیت، مسائل جدیدیت سے متعلقہ نئی علمی روایت کا آغاز ہوا۔ ناقدین نے خوب آڑے ہاتھ لیا۔ان تنقیدات پر میرا تجزیہ درج ذیل ہے :
1: ناقد اصلاحی و متوازی پیڑن دینے سے قاصر ہیں اور بس تنقید کر دی ہے ۔ متبادل منہج متعارف کروانے سے عاجز ہیں۔
2: ناقدین ایک جانب علوم و فلسفہ مغرب سے متعارف کروانے اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں لیکن دوسری جانب مغرب اور جدیدیت و مابعد جدیدیت کے بارے میں آزادانہ مطالعہ و مکالمہ کی دعوت کی بجائے وہ تعصب اور ناقص منہج سے مغرب اور جدیدیت دکھانا چاہ رہے ہیں جبکہ محقق کو معلومات و تحقیقات کے ضمن میں آزادی چاہئے۔
3: اب تک کی تنقیدات میں ان حضرات کے سامنے دو مناہج رہے ہیں ۔
منہج اول :
شخصیات اور ان کے ایمان پر حملے
منہج دوم :
افکار پر تنقید سے ابتداء اور اس کے ضمن میں استشراقی تسلسل کی فاسد نوید نو
راست منہج یہ تھا کہ فریق منقود یعنی جن پر وہ تنقید کرنا چاہتے ہیں، ان پر شبہ اور ان کی ایمانیات کا خطرہ ہے تو پھر فکریات پر تنقید اور فکری متوازی و متبادلات کی فراہمی کی جاتی ۔نہ کہ مفروضات کی عمارتیں کھڑی کرتے۔ اس غیراخلاقی منہج تنقید کے بارے میں جوہر صاحب کا کہنا ہے :
” روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا وہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ شرمناک ذہنی پسماندگی اور علمی فلاکت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اقبالؒ نے تو تہذیبی ’مے خانوں‘ کے بند ہونے کا نوحہ کیا تھا، اب ایسا لگتا ہے کہ ان ’مے خانوں‘ کی کوئی اینٹ بھی باقی نہیں رہی۔”
4. ناقدین کا Academic Critical ethics کی پابندی کی بجائے تمسخرانہ لہجہ، بالآخر تلملا کر مستشرق یا مستشرق نو کے القابات نوازنے میں کافی جرات مندانہ مظاہرہ کیا جانا، یہ مسلم روایت میں نہ تو روا تھا اور نہ یہاں اخلاقی جواز بنتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کا اعتراض ہے کہ ہم روایت پر اور روایت کے تناظر میں بات کیوں بات کرتے ہیں ؟ جبکہ ہم روایت سے انقطاع کے مدعی بالکل ہے ہی نہیں ہیں ۔بلکہ روایت کا تسلسل و احیاء چاہتے ہیں لیکن روایت کی ٹھوس کلامیاتی، تاریخی اور متنوعات کی موجودگی کی بنیاد پر، نہ کہ منجمد بلکہ روایت پسندوں کی مصنوعی جھوٹی أساسات پر۔
محمددین جوہر لکھتے ہیں :
” مغربی جدیدیت کے زیر سایہ پیدا شدہ اسلامی جدیدیت کو چیلنج کرنے والی مذہبی قوتیں فی زمانہ قریب المرگ ہیں۔ گزشتہ صدیوں میں جدیدیت کے روبرو ہمارے علما نے جو جعلی علمی موقف اختیار کیے رکھے وہ اب گوالے کے ملاوٹی پانی کی طرح سیلاب کے ساتھ ہیں یا خس و خاشاک ہیں۔ فی الوقت ہمارے مذہبی علما کا اخلاقی دامن اور علمی ذہن دونوں خالی ہیں”
5: یہ کیسے جدید علمی کلامیاتی ڈسکورس کے پہلوؤں کو اجاگر کر رہے ہیں؟ یہ تو ناقدین و سامعین پر انحصار کر رہے ہیں ۔حالانکہ تمام سامعین اور ناقدین درجہ دیانت پر نہ ہوں بلکہ ممکن ہے مخصوص نقطہ نظر سے جداگانہ تشخص رکھتے ہوں۔
6: انتہائی ناامیدی ان ناقدین کی تحریروں میں واضح ہے۔ ایسے اسلام، اسلامی روایت کے تسلسل کے ساتھ تجدیدی میتھڈلوجیکل گراؤنڈز پر اتنے ناامید ہیں کہ اسلامی روایت کے اسلوب کی تجدید کے قدیم تسلسل کو یہودیت و عیسائیت کے معاصر مزاج کو اسلامی روایت کے لیے بھی نتیجہ سمجھ لیتے ہیں، مثلا یہودیت و عیسائیت پر جو بات جوہر صاحب نے کی کہ یہودیت و عیسائیت نے contending Modernities سے consenting Modernities کا جو سفر طے کیا ہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے وہ ایسے ہو گئے ہونگے۔ یہ ان کی روایت کے انٹرنل پوٹینشل نہ ہونے کا مسئلہ ہے ۔ ان لوگوں کو کیوں خوف ہے کہ روایت متوازی پیراڈائم کے طور پر نئے مناہج کی بنیاد پر مقابلہ نہیں کر سکے گی ؟ بلکہ خود consenting بن جائے گی۔ جبکہ روایتی طبقہ تو ‘ الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ ‘ کے معتقدین ہیں۔ تو خوف کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئیے ۔
مزید برآں :
دیندار نوجوانوں کو جانکاہ محنت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے تاکہ مغرب اور مغربی فکر کے متنوع رجحانات کو آزادانہ مطالعہ کر کے جاننے اور ان مغربی فکریات پر غیر جانبدارانہ تحقیق، تدقیق، تنقید اور صحت مند مکالمہ کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاصر مغربی فکر کے متوازی parallel اسلامی روایت کا اسلوب جدید سے احیاء کر سکیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
کمنت کیجے