Home » حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب شخصیات وافکار

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل /مشرف بیگ اشرف

جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش فرماتے ہیں کہ تبیین کے جو دو معانی وہ مقرر فرماتے ہیں یہ بات گویا اصولیین کی روایت سے ہم آھنگ ہے۔ ان کی کتاب “مقامات” کی ایک تحریر سے ان کا یہ گمان ظاہر ہوتا ہے کہ بیان کی بحث میں وہ اپنے تئیں امام شافعی کے کسی دیرینہ نامکمل پراجیکٹ کی تکمیل کررہے ہیں اور ان کے اس گمان کو یقین میں بدلنے کے لئے جناب عمار خان ناصر صاحب نے قرآن و سنت کے باہمی تعلق پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے (جس پر تفصیلی تبصرہ پیش کیا جا چکا ہے)۔ کتاب “برھان” کے مضمون “رجم کی سزا” میں غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ رجم کی سزا پر ائمہ امت کا موقف اس لئے غلط ہے کہ:
(الف) از روئے قرآن سنت کا منصب قرآن کی تبیین ہے اور
(ب) تبیین میں نسخ شامل نہیں ہوتا
(ج) جبکہ رجم کی سزا نسخ ہے،
(د) لہذا سنت سے اس کا اثبات نہیں ہوسکتا۔
اس دلیل کے مقدمہ (ب) کو تقویت فراہم کرنے کے لئے انہوں نے امام بزدوی حنفی (م 482 ھ) کی بھی ایک عبارت پیش کی تھی جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ علامہ بزدوی کے مطابق بھی نسخ بیان میں شامل نہیں بلکہ بیان کسی سابقہ کلام کے مضمرات سے پردہ کشائی سے عبارت ہے (یہ الگ بات ہے کہ امام بزدوی نے خود بھی نسخ کو اصطلاحی بیان میں شامل کیا ہے)۔ وہ عبارت درج ذیل ہے:

حَدَّ الْبَيَانِ مَا يَظْهَرُ بِهِ ابْتِدَاءُ وُجُودِهِ فَأَمَّا التَّغْيِيرُ بَعْدَ الْوُجُودِ فَنَسْخٌ وَلَيْسَ بِبَيَانٍ
’’بیان کا اطلاق اُس شے پر کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے اُس شے کا ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہونا ظاہر ہو جاتا ہے ۔ رہا وہ تغیر جو کلام کے وجود میں آنے کے بعد کیا جائے تو وہ نسخ ہے، اُسے بیان قرار نہیں دیا جا سکتا۔”

ہم نے ایک تحریر میں یہ بتایا تھا کہ علامہ سرخسی اور علامہ بزدوی میں سے ہر ایک کے ہاں بیان کی اقسام میں جو فرق ہے وہ ایک اصطلاحی اختلاف کی بنا پر ہے اور تعریف مقرر کرنے کے اس اختلاف کی بنا پر علامہ بزدوی نے نسخ کو اس میں شامل سمجھا جبکہ علامہ سرخسی نے اسے شامل نہیں کیا۔ امام بزدوی بیان کو “بیان محض” کہہ کر نسخ کو اس میں شامل کرتے ہیں جبکہ امام سرخسی “بیان” (محض کے سابقے کے بغیر) کہہ کر نسخ کو بیان کی اقسام میں شامل نہیں کرتے۔ غامدی صاحب نے اپنی ایک حالیہ ویڈیو میں اس تحریر کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ موقف اختیار فرمایا کہ بیان کے جو دو معانی یہ بتاتے ہیں وہ اصولیین احناف کے ہاں معروف تصورات سے ہم آہنگ ہیں۔ ان کا مدعا یہ ہے کہ لفظ بیان کے عربی لغت میں دو معانی آتے ہیں:
1: إظهار الشيء، اس معنے میں یہ کسی شے کو ظاہر کرنے و ابلاغ کے ہم معنے ہے۔ یہاں غامدی صاحب “تبلیغ الشیء” کو بھی واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “جب میں نے ایک بات بیان کی تو وہ میرے مدعی کا بیان ہے، لیکن جس وقت آپ نے اسے بیان کیا تو اس وقت وہ تبلیغ کے معنے میں چلا جائے گا، لیکن جب آپ اسے کھولتے ہیں تو یہ دوسرے مفہوم میں ہو جائے گا یعنی شرح کے مفہوم میں۔”
2: إظهار ما في الشيء، اس معنے میں بیان شرح کرنے کے معنی میں آتا ہے جس میں کسی کلام کے مضمرات کو واضح کیا جاتا ہے خواہ وہ عقلی مضمرات ہوں یا لسانی۔ ان کے دعوے کے مطابق بیان کے اس مفہوم میں کسی بھی طرح تبدیلی، تغییر، نسخ وغیرہ شامل نہیں۔
غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ امام بزدوی نے بیان پر بحث کرتے ہوئے “بیان المقصود” کی بات کی ہے جبکہ امام سرخسی نے “بیان المعنی” کی، ان میں سے اول الذکر وہی ہے جسے انہوں نے “اظہار الشیء و الابلاغ” قرار دیا جبکہ مؤخر الذکر “اظہار ما فی الشیء” ہے۔ علامہ سرخسی و بزدوی کے مابین مذکورہ بالا اصطلاحی فرق کو بیان سے متعلق اپنی اس رائے سے مربوط فرماتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ بیان کی اقسام سے متعلق ان دو ائمہ کا اختلاف دراصل بیان کے ان دو معانی پر متفرع ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ امام جصاص اور امام بزودی نے پہلے مفہوم کو ترجیح دی ہے یعنی اظہار شے، اسے غامدی صاحب نے تازہ ویڈیو میں “اظھار المقصود” کا نام دیا ہے۔ اس میں ہر چیز (وعظ، وعید، اوامر ونواہی وغیرہ) داخل ہے، اس مفہوم کے لحاظ سے اس میں وہ امور بھی داخل ہیں جن میں کوئی حکم ابتدا میں آیا اور پھر اس میں تبدیلی ہوئی۔ اس تصور پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برعکس امام سرخسی و دبوسی نے دوسرے مفہوم کو ترجیح دی ہے، اسے انہوں نے “اظہار المعنی” کہا ہے۔
غامدی صاحب نے اس طرف تنبیہ فرمائی کہ ہماری تحریر سے یہ متبادر ہے کہ ہم نے بیان کی اقسام کے فرق کو گویا بیان کے تصور میں فرق کی علت قرار دیا جبکہ یہ معاملہ دوسری طرح ہے، یعنی ان دونوں حضرات میں سے ہر ایک کے ہاں چونکہ بیان کا ایک جداگانہ تصور کارفرما ہے اس لیے اس کی اقسام بھی ان کے ہاں الگ ہو گئیں۔ غامدی صاحب نے اس مرحلے پر پوری بات کو “برہان” کے مضمون کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اسی سیاق میں علامہ بزدوی کا وہ قول نقل کیا تھا کہ کلام بوقت پیدائش جس مفہوم کو اپنے اندر لیے ہوئے ہوتا ہے اس کی توضیح ہی بیان ہے، اس میں کوئی نئی چیز نہیں آسکتی، صرف اس کے مضمرات آسکتے ہیں خواہ عقلی ہوں خواہ لسانی۔
یہاں پھر غامدی صاحب ہمارے مضمون کے ایک جزوی پہلو سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “بیان محض” کی تعبیر ائمہ اصول بیان تقریر اور بیان تفسیر کے لیے بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے علامہ تفتازانی اور محشی حسامی کی تطبیق پر گفتگو کی اور اسے سورة النحل کے ساتھ وابستہ کیا اور بتایا کہ کیسے وہاں غامدی صاحب نے “لتبين للناس ما نزل إليهم” سے تبلیغ کے معنے مراد لیے اور کیسے یہ معنے علامہ سرخسی کے اختیار کردہ معنے سے قریب ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے علامہ تفتازانی (م 792 ھ) کی ایک عبارت بھی اپنے دعوے کی صداقت کے طور پر پیش کی ہے۔
اس پوری گفتگو سے ان کا مقصود یہ دکھانا تھا کہ جسے وہ بیان کی لغوی تحقیق قرار دیتے ہیں ہمارے اصولی حضرات بھی اسی پر قائم تھے۔ اس طرح ان کی دانست میں علمائے تفسیر کے علاوہ علمائے اصول بھی اس معاملے میں غامدی صاحب کے ساتھ ہم زبان ہیں۔

تبصرہ
ہم غامدی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس پر تبصرہ فرمایا اور ذیل میں ان کے موقف واستدلال کا تجزیہ پیش کرنا جا رہے ہیں۔ ہمارے تجزیے کا محور غامدی صاحب کے درج ذیل مفروضے ہیں:
1) لفظ بیان کے لغوی طور پر دو معانی ہیں جسے ائمہ احناف بھی مانتے ہیں
2) نسخ “بیان کے دوسرے معنے، یعنی شرح” میں شامل نہیں ہوسکتا۔ تاہم پہلے معنے میں نسخ بیان ہو سکتا ہے۔
3) حنفی اصولیین کا بیان کی اقسام پر اختلاف اس لفظ کے لغوی معانی پر متفرع ہے نہ کہ اصطلاحی بحث پر۔
4) علامہ بزدوی کی جس عبارت کو انہوں نے برھان میں پیش کیا اس مقام پر امام بزدوی وہی بات کررہے تھے جو ان کا مقصود ہے۔
آئیے ان پر بات کرتے ہیں۔

1) ائمہ احناف کے مطابق بیان کی لغوی تحقیق
غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ امام بزدوی و سرخسی کے ہاں بیان کی اقسام کا فرق بیان کے ان دو معانی پر متفرع ہے جس کے غامدی صاحب مدعی ہیں۔ یہ دعوی درست ہونے کے لئے لازم ہے کہ ان ائمہ احناف نے لفظ بیان کی لغوی تحقیق کرتے ہوئے اس کے دو مفاہیم کی جانب کم از کم اشارہ ہی کیا ہو۔ لہذا سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ائمہ اصول نے اس لفظ کے لغوی تحقیق کرتے ہوئے ایسے دو معانی کا ذکر کیا بھی ہے یا نہیں۔

علامہ جصاص رازی (م 370 ھ)
علامہ سرخسی (م 483 ھ) اس کا یہ معنی لکھتے ہیں:إظهار المعنى وإيضاحه للمخاطب منفصلا عما تستر به. یہ تعبیر علامہ سرخسی نے علامہ جصاص (م 370 ھ) سے لی ہے جنہوں نے اس کے معنی پر قدرے تفصیل سے بات کی ہے۔ اس لیے ہم علامہ جصاص کا رخ کرتے ہیں۔ آپ سب سے پہلے بیان کی تعریف انہی الفاظ میں کرتے ہوئے اس میں ایک تفسیری جملہ شامل کرتے ہیں:

البيان إظهار المعنى وإيضاحه للمخاطب منفصلا مما يلتبس به ويشتبه من أجله
مفہوم: بیان مخاطب کو معنے کی ایسی وضاحت کرنا ہے جو التباس سے پاک اور اشتباہ سے دور ہو

وہ واضح کرتے ہیں کہ انہوں نے یہاں “انفصال” یعنی جدائی اور الگ ہونے کا خاص طور سے تذکرہ کیوں کیا اور بتاتے ہیں کہ “بیان” کے مادے میں دراصل مفارقت، انقطاع اور الگ ہونے کا تصور ہی کارفرما ہے۔ اس کے لیے آپ تین مختلف مصادر کا تجزیہ پیش کرتے ہیں:
بیان: معاملے کا صاف ہونا،
بین: جدائی،
بینونۃ: نکاح کا ٹوٹنا
یہاں تین مختلف مصادر تین مختلف استعمالات کے ساتھ خاص ہیں۔ لیکن ان سب میں قدر مشترک ایک ہی معاملہ ہے اور وہ “انقطاع” کا تصور ہے کہ ایک شے دوسری شے سے الگ ہو رہی ہے۔ مثلا نکاح کے ٹوٹنے کو “بینونۃ” کہا جاتا ہے۔ نیز معاملے کا صاف وواضح ہونے کے لیے “بان الامر” کی تعبیر آتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:

وأصله في اللغة من القطع والفصل يقال بان منه إذا انقطع قال، النبي صلى الله عليه وسلم «ما بان من البهيمة وهي حية فهو ميتة» ، وبان إذا فارق. قال جرير: وبان الخليط ولو طوعت ما بانا وبان الأمر إذا ظهر، وبانت المرأة بينونة إذا فارقت زوجها، ثم قالوا بان الأمر ووضح بيانا وبان من الفراق بينا ومن انقطاع النكاح بينونة، والأصل في جميع ذلك واحد وهو الانقطاع فسمي الفراق بينا لانقطاع المفارق عن صاحبه. وسمي إظهار المعنى وإيضاحه بيانا لانفصاله عما يلتبس به من المعاني فيشكل من أجله
مفہوم: لغت میں اس کی اصل کاٹنا اور جدا کرنا ہے۔ جب ایک شے دوسرے سے کٹے تو کہا جاتا ہے: “بان منہ”۔ چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث اسی سے ہے کہ زندہ جانور کا جو حصہ جدا ہوجائے، وہ مردار (کے حکم میں) ہے۔ نیز جب ایک انسان دوسرے سے جدا ہو، تو اس کے لیے “بان” کی تعبیر برتی جاتی ہے۔ مشہور شاعر جریر کا شعر ہے کہ: “یار بچھڑ گیا۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو نہ بچھڑتا”۔ نیز جب کوئی معاملہ صاف ہو جائے تو کہا جاتا ہے “بان الامر”۔ نیز جب عورت اپنے شوہر کے بندھن سے آزاد ہو جائے تو اس کے لیے کہا جاتا ہے: “بانت المرأة بينونة”۔ پھر اہل عرب نے ان مواقع استعمال میں فرق کرتے ہوئے، معاملے کے واضح اور صاف شفاف ہو جانے کو “بیانا” سے تعبیر کیا اور بچھڑنے کو “بینا” سے اور نکاح کے ٹوٹنے کو “بینونۃ” سے۔ تاہم اصل تصور ان سب میں یکساں ہے اور وہ ہے انقطاع وجدائی۔ چنانچہ جدائی کو “بین” اس لیے کہا گیا کہ وہاں ایک بندہ اپنے ساتھی سے بچھڑتا ہے جدا ہو جاتا ہے، نیز معنے کے اظہار اور اسے واضح کرنے کو بیان اس لیے کہا گیا کہ وہ ان دوسرے معانی سے جدا ومنفصل ہو جاتا ہے کہ جن سے گڈ مڈ ہو جائے تو اسے سمجھنے میں اشکال ہو۔

اہل علم حضرات کو معلوم ہے کہ عربی زبان میں لفظ کے مادے (Root) کا تصور ہے اور ایک ہی مادہ مختلف جگہوں پر برتا جاتا ہے اور وہ مختلف مواقع اس مادے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ بیان کا مطلب اگرچہ “بات کو واضح کرنا” ہے لیکن علامہ جصاص نے اس کی اصل کی طرف اشارہ کرنے کے لیے یہاں خاص طور سے “انفصال” کا تذکرہ کیا۔ وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ اہل عرب نے جب اس مادے کو اس جگہ برتا تو ان کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ گنجلگ یا مشتبہ بات یا معاملہ دراصل کسی دوسری بات یا معاملے سے گڈ مڈ ہو رہا ہوتا ہے اور سننے والے کا ذہن مقصود وغیر مقصود میں خط فاصل قائم نہیں کر پاتا۔ اسی بنا پر بیان ظاہر کرنے یا واضح ہونے کے مفہوم میں آتا ہے کیونکہ کسی چیز کو ظاہر کرنے یا اس کے ظاہر ہونے کا مطلب اسے کسی بنیاد یا پیمانے پر دوسری شے سے اس طرح جدا کرنا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ممتاز ہو جائیں۔ اس کے بعد علامہ دیگر مثالوں میں یہ لغوی ظاہرہ (Phenomenon) سمجھاتے ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
علامہ جصاص کی گفتگو سے واضح ہوا کہ امام سرخسی دراصل اس کے لغوی معنے ہی بیان فرما رہے تھے، بس فرق یہ ہے کہ علامہ سرخسی پوری گفتگو کے بجائے اس کا ایک ٹکڑا نقل کر کے آگے بڑھ گئے۔

امام بزدوی
علامہ بزدوی بھی اس لفظ کے اکہرے لغوی معنے ہی بیان کرتے ہیں اور آپ نے اس کی لغوی تحقیق کے ذیل میں دو معانی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ آپ لکھتے ہیں:

الْبَيَانُ فِي كَلَامِ الْعُرْفِ عِبَارَةٌ عَنْ الْإِظْهَارِ، وَقَدْ يُسْتَعْمَلُ فِي الظُّهُورِ ۔۔۔۔ وَالْمُرَادُ بِهَذَا كُلِّهِ الْإِظْهَارُ وَالْفَصْلُ
مفہوم: (لسانی) عرف میں بیان اظہار سے عبارت ہے اور کبھی کبھی ظاہر ہونے کے معنے میں بھی برتا جاتا ہے ۔۔۔ اس سب سے مقصود ظاہر کرنا اور ایک شے کو دوسری شے سے جدا کرنا ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ وہ بیان کے لغوی معنے اظہار یعنی کلام کو ظاہر کرنے کے معنے میں لے رہے ہیں اور دوسری بات یہ کر رہے ہیں کہ یہ کبھی ظاہر ہو جانے کے لیے آتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کبھی متعدی (Transitive) اور کبھی لازم (Intransitive) معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن بنیادی معنے ایک ہی ہیں۔
اس کے بعد آپ اس کی مختلف اقسام پر بحث کرتے ہیں جس میں آپ نسخ کو بھی شامل کرتے ہیں اور آپ کہیں اس بات کا تذکرہ نہیں کرتے کہ نسخ کا مفہوم بیان کے ایک معنے کے تحت شامل ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے تحت نہیں ہوتا۔ غامدی صاحب کی بات تب ثابت ہوسکتی تھی جب امام بزدوی نے بیان کے دو معانی ذکر کئے ہوتے اور پھر وہ کسی ایک کو ترجیح دیتے یا کم از کم ترجیح ہی دے دیتے مگر ایسا کچھ بھی ان کے کلام میں موجود نہیں۔ امام بزدوی و سرخسی کے کلام میں یہ بات غامدی صاحب نے اپنی جانب سے فرض کرکے شامل کردی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ دونوں بیان کا اصطلاحی مفہوم الگ الگ مراد لیتے ہیں (جیسا کہ آگے بالکل واضح ہوجائے گا) اور ان کا یہ فرق محض اصطلاح پر استوار ہے نہ کہ کسی دوگانہ لغوی مفہوم پر۔
الغرض علامہ سرخسی وبزدوی اور ان سے پہلے کے حضرات جب بیان کے اصطلاحی معنے پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی مختلف اقسام کا تجزیہ کر رہے تھے تو ان کے ہاں بیان کے لغوی طور سے ایک ہی معنے تھے جو کسی بات یا امر کو واضح کرنے یا اس کا ظاہر ہونے سے عبارت ہیں۔

علامہ سمرقندی حنفی (م 540 ھ)
اصولی ادب میں یہ بات اتنی واضح ہے کہ احناف کی سمرقندی روایت اور بعد از سرخسی وبزدوی اصولی حضرات بھی یہی بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے چیدہ چیدہ شخصیات کی مثال دینا چاہیں گے۔ آپ بیان کے باب میں اس کے لغوی و شرعی (اصطلاحی) مفہوم پر علیحدہ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:

في اللغة يستعمل في الظهور والانكشاف، ويستعمل في الإظهار. وأصله من البين وهو الانفصال ۔۔۔ وفي عرف الشرع: عام وخاًص. فالعام هو الدلالة، فيدخل فيه الدليل العقلي والسمعي. والخاص هو بيان المجمل والمشكل والمشترك وبيان العموم، وهو دليل تخصيص الأعيان، وبيان النسخ، وهو تخصيص الأزمان
مفہوم: بیان لغت میں ظاہر ہونے اور واضح ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے، نیز ظاہر کرنے کے لیے۔ اس کی اصل بین یعنی جدائی ہے۔ شریعت کے عرف میں ایک خاص معنے ہیں اور ایک عمومی معنے۔ عمومی معنے دلیل کے ہیں اور اس لحاظ سے اس میں عقلی ونقلی دونوں دلائل شامل ہیں جبکہ خصوصی معنے میں مجمل، مشکل و مشترک کا بیان شامل ہے، نیز عام کا بیان اس میں شامل ہے جو دراصل افراد کی تخصیص کی دلیل ہوتا ہے، اسی طرح بیان نسخ بھی شامل ہے جو زمانوں کی تخصیص کی دلیل ہوتا ہے۔

ملاحظہ کیجئے کہ آپ کس طرح بیان کا لغوی مفہوم وہی بتا رہے ہیں جو امام جصاص، سرخسی و بزدوی کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد اصولیین کی اصطلاح کو واضح کرتے ہیں کہ بیان مجمل، بیان مشترک، بیان عام (یعنی تخصیص با اعتبار اعیان) وبیان نسخ (یعنی تخصیص با اعتبار ازمان) وغیرہ یہ سب احکام شرع کے عرف کے اعتبار سے بیان ہے۔

علامہ ابن الھمام (م 861 ھ)
آپ رقم طراز ہیں:

الْبَيَانُ الْإِظْهَارُ لُغَةً وَاصْطِلَاحًا إظْهَارُ الْمُرَادِ بِسَمْعِيٍّ غَيْرِ مَا بِهِ ويقال لظهوره وَ لِلدَّالِ عَلَى الْمُرَادِ بِذَلِكَ
مفہوم: لغت کی رو سے بیان کا معنی اظہار ہے اور اصطلاح (اصولیین) کی رو سے اس سے مقصود وہ دلیل نقلی ہے جو اصل ابتدائی بات کے علاوہ ہو، نیز یہ اس نقلی دلیل کے ظاہر ہو جانے کے لیے بھی برتا جاتا ہے، نیز جس دلیل سے مقصود حاصل ہوتا ہے اسے بھی اصطلاح میں بیان کہتے ہیں۔ (اس تفصیلی ترجمے کے لیے ملاحظہ ہو ابن امیر الحاج کی شرح)

اس مقام پر یہ بات نوٹ کرکے رکھ لیجئے کہ آپ بیان کی اصطلاحی تعریف پر تین جہات سے بات کررہے ہیں جنہیں ان شاء اللہ اگے کھولا جائے گا۔ یہاں ہم اس بات کی جانب توجہ دلانا چاہیں گے کہ بیان کے لغوی مفہوم کے بارے میں درج بالا رائے صرف ائمہ احناف کی نہیں بلکہ تقریبا جمہور ائمہ اصول کی ہے۔ یہاں خوف طوالت کے سبب تفصیل کا موقع نہیں، تاہم شوقین حضرات قاضی باقلانی مالکی (403)، ابو الحسین البصری معتزلی (436)، قاضی ابو یعلی حنبلی (458)، ابو الولید الباجی مالکی (474)، امام غزالی شافعی (505)، ابوالوفا ابن عقیل حنبلی (513)، امام رازی شافعی (606)، علامہ آمدی شافعی (631) وغیرہ کی کتب ملاحظہ کریں۔ غامدی صاحب کی گفتگو سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انہوں نے دو ائمہ کا انتخاب صرف بطور مثال کیا ہے، گویا باقی حضرات بھی ان کی بات سے متفق ہیں۔ تاہم ان مختلف دبستان ہائے فقہ سے وابستہ حضرات کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ غامدی صاحب کی بات صرف اس حد تک درست ہے کہ یہ بیان کے لغوی معنے میں متفق اللسان ہیں لیکن اس دوگانہ معنے میں نہیں جس کے غامدی صاحب مدعی ہیں بلکہ اس بات میں متفق ہیں کہ اس کے اکہرے معنے ہیں۔

2) کیا نسخ کلام کے عقلی مضمرات میں شامل نہیں؟

اوپر یہ بات عیاں ہو چکی کہ اصولی حضرات کے ہاں بیان کا اکہرا لغوی مفہوم ہی ہے۔ اب آگے بڑھتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ نسخ کے بیان ہونے پر ہماری اصولی روایت ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے نیز یہ سمجھتے ہیں کہ اصولیین کے ہاں نسخ کے بیان میں شامل ہونے یا نہ ہونے کی رائے کس بنیاد پر استوار ہے۔ اصولیین کی اصطلاح بیان دراصل دو امور سے عبارت ہے:
• مکلف کے لئے از سر نو کوئی حکم لانا جو کسی مزید وضاحت کا محتاج نہ ہو کہ اسے کوئی احتمال لاحق نہیں۔ اسے “بیان ابتدائی” کہتے ہیں۔ چنانچہ “نماز قائم کرو” بیان ابتدائی ہے کہ یہاں “وجوب صلوۃ” واضح ہے جو کسی مزید بیان کا محتاج نہیں لیکن “صلوۃ” کا معنی مجمل ہے جو مزید بیان کا محتاج ہے۔ اسی طرح وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ میں “تین کی مقدار تک” عدت کا انتظار بیان ابتدائی ہے۔
• سابق کلام سے متعلق مخاطب کے کسی احتمال (اجمال یا ابہام وغیرہ) کو دور کرنا (اسے “بیان بنائی” کہتے ہیں) جیسے صلوۃ کا بیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے حاصل ہوا، اسی طرح “قروء” (جمہور کی اصطلاح میں) مجمل ہے جو مزید بیان چاہتا ہے، وضوح لانے والے اس اضافی بیان کو بیان بنائی کہا جائے گا۔
پس جمہور اصولیین کی اصطلاح میں کہا جائے تو شارع جب ابتدائی کلام لائے گا تو یا وہ مبین (یعنی بدون احتمال ظاہر) ہوگا اور یا پھر “غیر مبین”۔ واضح رہے کہ بیان کے عنوان کے تحت عام طور سے جو اقسام نقل کی جاتی ہیں وہ دوسرے مفہوم (یعنی بیان بنائی) کے لحاظ سے ہیں نہ کہ بیان ابتدائی کے اعتبار سے۔ یہ بات واضح ہے کہ پہلے مفہوم کے لحاظ سے نسخ کا بیان ہونا ہر شک وشبہے سے بالا تر ہے، اختلاف صرف دوسرے مفہوم کے لحاظ سے ہوا اور وہ بھی ایک خاص پہلو سے۔ علامہ بزدوی نے ایک جگہ گفتگو کرتے ہوئے اسے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

ولنا أن النسخ بيان مدة الحكم وابتداء حكم آخر
مفہوم: ہماری دلیل یہ ہے کہ نسخ مدت حکم کا بیان اور ایک نئے حکم کا آغاز ہے۔

چنانچہ “نئے حکم کے آغاز” کے لحاظ سے نسخ میں بیان ابتدائی بالکل اسی طرح ہے جس طرح “نماز قائم کرو” میں ہے۔ تاہم دوسرے اعتبار سے نسخ کے بیان ہونے پر اختلاف اس لئے ہوا کیونکہ یہ دو حیثیتوں کا حامل ہوتا ہے:
• جنہوں نے اسے بیان میں شامل نہیں کیا انہوں نے اس پہلو کو دیکھا کہ اگر ناسخ نہ آتا تو منسوخ حکم جاری وساری رہتا۔ چنانچہ ناسخ نے آ کر “رفع حکم” کر دیا، یعنی پچھلے حکم کو ختم کر دیا جس کے بارے میں مفروضہ تھا کہ وہ باقی رہے گا۔ چنانچہ یہ بیان نہیں کہ بیان کا مطلب مخاطب کے لئے کسی سابقہ کلام سے متعلق کسی احتمال کو واضح کرنا ہوتا ہے۔
• جنہوں نے اسے “انتہائے مدت کے اظہار” کی جہت سے دیکھا جیسا کہ علامہ بزدوی کی عبارت سے واضح ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بیان ہی ہے اس لیے کہ حکم از خود برقرار رہنے والا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو نبی کی حین حیات اس کی جانب یہ سوال متوجہ رہتا ہے کہ یہ مؤقت ہے یا مؤبد، لہذا نسخ میں مخاطب کو سابق حکم سے متعلق اس سوال کا جواب دیا جاتا ہے کہ آیا حکم ہمیشہ کے لئے تھا یا نہیں کیونکہ یہ احتمال اسے ابتدا ہی سے لاحق تھا۔
امام رازی نے اس نکتے کو “المحصول” میں واضح کیا ہے کہ نسخ کی دو تعبیرات رہی ہیں: “رفع حکم” اور “انتہائے مدت” جس کی بنا پر یہ اختلاف ہوا ہے۔ اس دوسری جہت سے دیکھنے کی وجہ سے امام بزدوی نے اسے “بیان محض” کے تحت رکھا تاکہ ان کی بات پہلی جہت سے دیکھنے والوں کی بات سے ممیز ہوجائے۔ نیز “انتہائے مدت” کی جہت سے نسخ دراصل کلام سابق کے عقلی مضمرات کا بیان ہی ہے۔
اگر خود غامدی صاحب کی اصطلاح کو بنیاد بنا لیا جائے تب بھی نسخ کلام کے عقلی مضمرات کے تحت بیان میں شامل ہوجاتا ہے کیونکہ کسی حکم کی “انتہائے مدت” کا بیان دراصل ایک ایسے سوال کا جواب ہے جو نبی کے زندگی میں (ماتریدیہ کے ہاں حسن و قبح عقلی کو چھوڑ کر) ہر حکم کو ابتدا سے لاحق ہوتا ہے۔ اس نقطے کی وضاحت ہم غامدی صاحب ہی کی بات سے کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں لفظ بیان کے حوالے سے غامدی صاحب سے سوال کیا گیا کہ اس میں یہ لفظ ایک ایسی حقیقت کے اظہار کے لئے آیا ہے جو رائے میں تبدیلی نیز غلطی پر تنبیہہ سے عبارت ہے۔ اس کی توجیہ غامدی صاحب نے اپنے نظام فکر میں اس طرح کی کہ چونکہ ان دونوں واقعات میں پہلے سے موجود و ثابت حقیقت کا اظہار ہوا تھا جو کہ عقلی مضمرات وغیرہ میں شامل تھی لہذا یہاں یہ لفظ ان کے بیان کردہ معنی کے خلاف نہیں۔ گویا غامدی صاحب کے اس جواب میں یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ اگر متکلم کے علم میں کسی بات کا کوئی پہلو پہلے سے موجود ہو تو کسی دوسرے وقت میں اس پہلو کا اظہار بیان کے منافی نہیں۔ بالفاظ دگر متکلم نے جب کلام کیا تو اس کلام میں جو جو معانی اور گوشے پوشیدہ تھے اگر متکلم نے وہ مراد لیے، تو بعد میں اس کا اظہار کیا جانا بیان ہی ہے۔ اگر غامدی صاحب کی واقعی یہی مراد ہے تو یقین جانیے نسخ اس سے سر مو الگ نہیں۔ اور اگر یہ مراد نہیں، تو حضرت ابراہیم و سلیمان علیہما السلام کے واقعے میں ان کا جواب اکھڑ کر رہ جاتا ہے۔
نسخ اور بیان کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل دو صورتیں ملاحظہ فرمائیے:
• شارع نے اپنے بندوں پر ایک حکم صادر کیا اور کہا: “۲۰۱۳ تک یہ قانون نافذ العمل ہے۔ اس کے بعد یہ کالعدم ہے”۔ سنہ ۲۰۱۴ کے آغاز ہوتے ہی وہ حکم بندوں سے ہٹ جائے گا۔ لیکن یہاں متکلم و مخاطب دونوں میں سے کسی کے لیے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ متکلم نے خود ہی حکم کی انتہائے مدت بیان کردی جس کے بعد وہ غیر مؤثر ہوگیا اور یہ بات مخاطب کو بھی ابتدا ہی سے معلوم تھی۔
• اس کے برعکس فرض کیجیے کہ شارع نے حکم صادر کرتے ہوئے اس کی وقت بندی نہ کی ہو بلکہ اسے مطلق رکھا ہو، پھر سنہ ۲۰۱۴ کی صبح شارع نے اس کے برعکس دوسرا فرمان جاری کر دیا ۔ یہاں اول وہلہ میں یہ تاثر ابھرا کہ شارع نے حکم کو بدل دیا لیکن جب بندے نے اس پہلو پر غور کیا کہ یہاں جس شارع کی بات ہو رہی ہے وہ حکیم وعلیم وخبیر اور اپنی رعایا کی مصلحت کی رعایت کرنے والا ہے نیز اس کی شان ہے کہ جب چاہے اور جو چاہے حکم دے، تو اسے ادراک ہوا کہ شارع کی جہت سے یہ تبدیلی ہے ہی نہیں بلکہ اسے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ یہ حکم ۲۰۱۴ سے پہلے تک نافذ رہے گا اور اس کے بعد ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ نیا فرمان “انتہائے مدت کے بیان” کے سوا کچھ نہیں اگرچہ شارع نے شروع میں بندے کو اس سے آگاہ نہیں کیا۔ نسخ یہی ہے۔
اب اس مثال کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ نسخ کی بابت یہ طے شدہ اصول ہے کہ یہ صرف نبی کی زندگی میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے، اس کے بعد نہیں نیز حاکم کی جانب سے کوئی حکم آجانا از خود اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا ہے بلکہ اس کی الگ سے دلیل درکار ہے۔ چنانچہ جب تک نبی کی زیست ہے یہ امکان موجود ہے کہ شارع کسی حکم کی بابت کہہ دے کہ وہ منسوخ ہے۔ اب یہاں دو باتیں لازمی طور سے متفرع ہوتی ہیں:
• نبی کی زندگی میں بندہ اس احتمال کو مانتے ہوئے حکم پر عمل کرے گا کہ شاید یہ حکم کسی معین مدت تک ہو، بالفاظ دیگر یہ احتمال ابتدا سے موجود ہے کہ یہ حکم “موقت” ہو۔
• تاہم اگر نبی کی زندگی تک ایسا کوئی بیان نہ آئے، تو اب واضح ہو گیا کہ یہ حکم “مؤبد” ہے۔
اب جب ہم “شرعی نسخ” کو اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ اس کے مخاطب کو اس کے احکام کے حوالے سے یہ عمومی اصول معلوم ہے یا ہونا چاہیے کہ نبی کی زندگی میں یہ منسوخ ہو سکتا ہے، تو اس کے لحاظ سے بھی حقیقت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور نسخ کلام سابق کو لاحق عقلی مضمرات ہی میں سے ایک ہے۔ پس غامدی صاحب جسے شرح کہتے ہیں نسخ اس کی رو سے بھی بیان ہے کہ نسخ میں شارع ایک ایسی بات و حقیقت کو واضح کرتا ہے جو ہمیشہ سے اس کے ہاں مراد اور ثابت شدہ بھی ہوتی ہے اور مخاطب اس کا جواب بھی چاہتا ہے۔
اب ہم اس حوالے سے ائمہ اصول کا کلام پیش کرتے ہیں۔

امام جصاص
امام جصاص نسخ کو بیان کی اقسام میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نسخ دراصل حکم کی مدت کا بیان ہے، اگرچہ ہمارے لحاظ سے یہ باقی رہنے والا معلوم ہو:

الْبَيَانُ فِي الشَّرْعِ عَلَى وُجُوهٍ: مِنْهَا الْأَحْكَامُ الْمُبْتَدَأَةُ ۔۔۔ وَمِنْهَا النَّسْخُ وَهُوَ بَيَانٌ لِمُدَّةِ الْحُكْمِ بَعْدَ أَنْ كَانَ فِي وَهْمِنَا وَتَقْدِيرِنَا بَقَاؤُهُ
مفہوم: شریعت کے عرف میں بیان چند وجوہ سے عبارت ہے: ان میں سے ایک ابتدائی احکام کا اجراء ہے ۔۔۔ اور ان وجوہ میں نسخ بھی ہے جو کسی حکم کی مدت کے بیان ہے اگرچہ ہمارے وھم و گمان میں اس کی بقا کا خیال ہو

نبی کی زیست میں (حسن لذاتہ اور قبیح لذاتہ کے علاوہ) ہر حکم کی تنسیخ ممکن ہے، اس تصور کو مشہور حنفی امام علامہ جصاص رازی نے احناف کے تصور تخصیص اور نسخ کے ضمن میں برت کر دکھایا۔ آپ نے اپنی کتاب میں “بیان کو خطاب سے موخر کرنے” کے حوالے سے فصل باندھ کراحناف کا موقف یہ بیان کیا کہ مجمل کے بیان میں تاخیر ہوسکتی ہے لیکن اس سے کم خفا کے امور میں تاخیر نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اگر کہیں حقیقت کی جگہ مجاز مراد ہو یا عموم میں تخصیص ہو تو بوقت خطاب ہی اس کا قرینہ یا بیان ہونا ضروری ہے۔ اس کی بنیاد امام صاحب نے یہ مقرر کی کہ اگر ہم مجاز وتخصیص کے معاملے میں ایسی تاخیر روا رکھیں، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مجمل سے اوپر کی اقسام میں شارع بندے کو اس کا پابند کر رہے ہیں کہ وہ حقیقی معنے اور تعمیم کا اعتقاد رکھے جبکہ شارع کا مقصود حقیقت نہیں مجاز، تعمیم نہیں بلکہ تخصیص ہے۔ اس طرح شارع بندے کو خلاف حقیقت امر کا اعتقاد رکھنے کا پابند کر رہے ہیں (اس استدلال میں یہ پہلو واضح رہے کہ مجمل پر عمل شارع کے بیان پر موقوف ہوتا ہے جبکہ اس سے اوپر کے درجوں میں ایسا نہیں ہوتا، اس لیے وہاں تاخیر بیان دراصل “تأخير البيان عن وقت الحاجة” بن جاتا ہے)۔
اس پر امام صاحب نے کسی کی طرف سے یہ سوال اٹھایا کہ یہ ماجرا نسخ میں بھی ہوتا ہے کہ جب شارع کوئی حکم دیتا ہے اور اس کی وقت بندی نہیں کرتا، تو مخاطب پر واجب ہے کہ اسے قائم ودائم سمجھے جبکہ امکان ہے کہ حقیقت میں وہ وقتی ہو۔ اس طرح بندے پر ایک خلاف حقیقت بات پر ایمان رکھنا واجب ٹھہرتا ہے۔ اس کے جواب میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ ہم یہ بنیادی مقدمہ ہی تسلیم نہیں کر رہے کہ نسخ کی بابت بندے پر واجب ہے کہ وہ اس کے دوام کا نظریہ رکھے بلکہ اس کے برعکس اس پر واجب ہے کہ نبی کی زیست میں وہ یہ نظریہ رکھے کہ یہ وقتی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ناسخ فرمان آ سکتا ہے۔ امام جصاص فرماتے ہیں:

فَإِنْ قَالَ (قَائِلٌ) : يَلْزَمُك مِثْلُهُ فِي النَّسْخِ لِأَنَّ كُلَّ مَا وَرَدَ عَنْ اللَّهِ تَعَالَى وَعَنْ رَسُولِهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَوَاجِبٌ عَلَيْنَا اعْتِقَادُ بَقَاءِ حُكْمِهِ، ثُمَّ لَا يَمْتَنِعُ مَعَ ذَلِكَ وُرُودِ نَسْخِهِ، كَذَلِكَ لَا يَمْتَنِعُ أَنْ يَلْزَمَنَا اعْتِقَادُ الْعُمُومِ مَا لَمْ يَرِدْ بَيَانُ الْخُصُوصِ۔ قِيلَ لَهُ: هَذَا غَلَطٌ لِأَنَّ كُلَّ مَا حَكَمَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ وَرَسُولُهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ مِمَّا يَجُوزُ نَسْخُهُ وَتَبْدِيلُهُ فَغَيْرُ جَائِزٍ لِأَحَدٍ أَنْ يَعْتَقِدَ بَقَاءَهُ مَا دَامَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – حَيًّا، بَلْ يَجِبُ عَلَيْنَا اعْتِقَادُ جَوَازِ نَسْخِهِ مَا بَقِيَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَإِذَا وَرَدَ النَّسْخُ فَإِنَّمَا وَرَدَ مَا كَانَ فِي اعْتِقَادِنَا عِنْدَ وُرُودِ الْفَرْضِ الْمُتَقَدِّمِ
مفہوم: اگر کوئی کہنے والا کہے کہ یہی بات تمہیں نسخ میں بھی پیش آتی ہے کیونکہ جو کچھ بھی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہمارے پاس آیا اس کی بابت یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ اس کا حکم باقی رہے گا، لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اس کا ناسخ آجائے۔ اسی طرح اس میں بھی کچھ بعید نہیں کہ ہم پر عام کے عموم کا نظریہ رکھنا لازم ہو یہاں تک کہ اس کی تخصیص کا بیان آجائے۔ اسے جواباً کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ہر قابل نسخ معاملے کے حوالے سے نبی کی زندگی میں یہ نظریہ رکھنا درست ہی نہیں کہ وہ باقی رہے گا، بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم نبی کی زیست میں اس کے منسوخ ہونے کے جواز کا نظریہ رکھیں۔ پس جب نسخ آتا ہے، تو وہ ہماری دانست میں جو سابقہ امکان موجود تھا اس کے عین مطابق آتا ہے۔

یہاں یہ آخری جملہ کتنی خوب صورتی سے یہ بیان کر رہا ہے کہ نسخ دراصل کچھ نیا نہیں ہوتا بلکہ کلام کی پیدائش کے وقت ہی جو امکان وسوال اسے لاحق ہوتا ہے اس کا بیان ہوتا ہے (جمہور اصولیین کی طرف سے احناف کے اس اعتراض کا جواب کہ عام کی تخصیص سے گویا مخاطب کے حق میں دھوکہ لازم آتا ہے جو ابانت کلام کے خلاف ہے، قاضی باقلانی (م 403 ھ) کے ہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔) الغرض یہ ہے وہ گفتگو جس کے پس منظر میں چوتھی صدی ھجری تک مختلف اصولی گروہوں کے مختلف مواقف وجود میں آچکے تھے اور بعد کے اصولیین اس پر اپنی بات کی بنیاد رکھتے ہیں۔

امام سرخسی (م 483 ھ)
علامہ سرخسی نے اگرچہ نسخ کو اقسام بیان کے تحت نہ رکھا، تاہم وہ بھی بیان کے اس پہلو کو اجاگر کرتے ہیں کہ نبی کی زندگی میں بندے کو حکم کے ظاہر سے یہ وہم گزرتا ہے کہ یہ دائم ہو لیکن ہم وثوق سے یہ نظریہ نہیں رکھ سکتے۔ پس بیان شارع کے حق میں بیان مدت اور ہمارے حق میں حکم کی تبدیلی اس پہلو سے ہے کہ اگر ناسخ حکم نہ آتا تو ہم پہلے حکم ہی پر عمل کرتے رہتے۔ پس یہ “فرضی پہلو” کہ اگر ناسخ حکم نہ آتا تو اصل حکم جاری رہتا ایک گونہ تبدیلی کا پہلو رکھتا ہے۔ علامہ سرخسی نسخ کی حقیقت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

هُوَ فِي حق الشَّارِع بَيَان مَحْض فَإِن الله تَعَالَى عَالم بحقائق الْأُمُور لَا يعزب عَنهُ مِثْقَال ذرة ثمَّ إِطْلَاق الْأَمر بِشَيْء يوهمنا بَقَاء ذَلِك على التَّأْبِيد من غير أَن نقطع القَوْل بِهِ فِي زمن من ينزل عَلَيْهِ الْوَحْي فَكَانَ النّسخ بَيَانا لمُدَّة الحكم الْمَنْسُوخ فِي حق الشَّارِع وتبديلا لذَلِك الحكم بِحكم آخر فِي حَقنا على مَا كَانَ مَعْلُوما عندنَا لَو لم ينزل النَّاسِخ
مفہوم: نسخ شارع کے حق میں نرا بیان ہے کہ اللہ تعالی کی ذات اقدس امور کی حقیقتوں سے خوب واقف ہے، ایک ذرہ برابر شے بھی اس پر مخفی نہیں۔ پھر شارع کی طرف سے کسی وقت بندی کے بغیر حکم دینا یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ یہ حکم قائم و دائم رہے گا تاہم صاحب وحی کے زمانے میں ہم قطعیت سے یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ پس نسخ شارع کے حق میں منسوخ حکم کی مدت ہی کا بیان ہے جبکہ ہمارے نقطہ نگاہ سے ایک حکم کو دوسرے سے بدلنا ہے جیسا کہ ناسخ کے نہ آنے کی مفروضہ صورت میں ہمارا علم تھا۔

اس آخری جملے میں امام صاحب یہ واضح فرما رہے ہیں کہ اگر ناسخ نہ آتا تو ہم اس حکم کو دائم ہی قرار دیتے اور جب وہ آ گیا تو اس نے ہمارے اس علم کے لحاظ سے حکم کو بدل دیا۔ یہاں مزید دو باتوں پر غور کیجیے:
• علامہ سرخسی بھی نسخ کو “بیان محض” ہی قرار دے رہے ہیں،
• نیز نسخ میں جو “نئے حکم” کی جہت ہے علامہ سرخسی اسے بھی واضح طور سے تسلیم کر رہے ہیں،
• مزید بر آں نسخ میں بیان انتہائے مدت کی جہت کو بھی واشگاف الفاظ میں لکھ رہے ہیں۔
اسی وجہ سے ہم نے اپنے مضمون میں یہ کہا تھا کہ ان دونوں حضرات کے ہاں یہ محض اصطلاح کا اختلاف ہے۔ اب یہاں سے ہمارے قارئین حضرات کو یہ سمجھنے میں چنداں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ جس جگہ علامہ سرخسی اور علامہ دبوسی نسخ کی بابت کہتے ہیں کہ وہ “بیان” نہیں، تو وہ اس جہت سے کہتے ہیں کہ اس کے دو پہلو ہیں، ان کی اس بات کا غامدی صاحب کی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں۔

امام بزدوی
امام بزدوی نے بھی امام سرخسی والی بات کو مزید نپے تلے انداز میں یوں بیان کیا:

هُوَ فِي حَقِّ صَاحِبِ الشَّرْعِ بَيَانٌ مَحْضٌ لِمُدَّةِ الْحُكْمِ الْمُطْلَقِ الَّذِي كَانَ مَعْلُومًا عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى إلَّا أَنَّهُ أَطْلَقَهُ فَصَارَ ظَاهِرُهُ الْبَقَاءَ فِي حَقِّ الْبَشَرِ فَكَانَ تَبْدِيلًا فِي حَقِّنَا بَيَانًا مَحْضًا فِي حَقِّ صَاحِبِ الشَّرْعِ
مفہوم: نسخ شارع کے زاویے سے اس مطلق حکم کی مدت کا نرا بیان ہی ہے جس (کی معینہ مدت) ہمیشہ سے اللہ تعالی کے علم میں تھی، تاہم شارع نے اس کا تذکرہ (پہلی مرتبہ) مدت کی قید کے بغیر کیا، پس انسانوں کے زاویے سے “بظاہر” وہ باقی رہنے والا حکم ٹھہرا۔ اس طرح نسخ ہمارے نقطہ نگاہ سے حکم میں تبدیلی جبکہ شارع کے پیش نظر وہ نرا بیان ہوا۔

لگے ہاتھوں یہ بھی ملاحظہ کر لیجیے کہ غامدی صاحب نے جملہ معترضہ کے طور پر فرمایا کہ اصولیین صرف بیان تقریر و تفسیر ہی کو بیان محض کہتے ہیں۔ اس عبارت سے واضح ہے کہ معاملہ ایسا نہیں اور امام بزدوی اور امام سرخسی دونوں نسخ کو ایک جہت سے بیان محض کہہ رہے ہیں۔ ان سے وہ باتیں اخذ نہیں کی جا سکتیں جو غامدی صاحب کرنے کی سعی فرما رہے ہیں۔ ایک بندہ اپنے والد کے لحاظ سے بیٹا اور اپنے بیٹے کے لحاظ سے باپ ہے۔ کوئی اسے باپ کہہ کر پکارے اور کوئی بیٹا کہہ کر، تو کیا اس سے کوئی اختلاف نمودار ہو گا؟

امام دبوسی
آپ کی کتاب امام سرخسی و بزدوی کی کتب کا ایک بڑا ماخذ ہے اور آپ بھی بیان کے باب میں اگرچہ نسخ کو اقسام قیاس میں ذکر نہیں کرتے مگر نسخ کے باب میں جا کر اسے جا بجا اظہار مدت کے معنی میں بیان کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ “نسخ القرآن بالسنۃ” کے جواز کی دلیل دیتے ہوئے آپ وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں آپﷺ کا وظیفہ “تبیین ما نزل الی الناس” آیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

ثم الدليل على الجواز ابتداء قول الله تعالى: {وأنزلنا إليك الذكر ‌لتبين ‌للناس ما نزل إليهم} فإذا أنزل الله تعالى نسخ ما في القرآن بحكم آخر بوحي غير متلو في القرآن صار الحكم الثاني مما نزل إلى الناس، ويلزم النبي صلى الله عليه وسلم بيانه للناس بحكم هذه الآية فإنه ألزمه بيان ما نزل إلى الناس من الأحكام وصار قوله: {وأنزلنا إليك الذكر} في معنى إنا أرسلنا إلى الناس وجعلناك رسولًا بما أنزلنا إليك الذكر ‌لتبين ‌للناس ما نزل إليهم من الأحكام
مفہوم: “(نسخ قرآن بذریعہ سنت کے) جواز کی دلیل سورہ نحل کی یہ آیت ہے کہ “ہم نے آپ کی جانب یہ ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ چیز بیان کردیں جو ان کی جانب نازل کی گئی”۔ پس جب اللہ تعالی نے وحی غیر متلو یعنی سنت کے ذریعے قرآن میں مذکور حکم کو منسوخ فرمایا، تو (سنت میں مذکور) یہ دوسرا حکم “جو لوگوں کی جانب نازل کیا گیا” کے معنی میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور اس آیت ہی کی رو سے آپﷺ پر لوگوں کے لئے اس دوسرے حکم کا بیان لازم تھا کیونکہ اللہ نے آپﷺ پر لوگوں کے لئے ان احکام کے بیان کو لازم قرار دیا ہے جو آپ پر نازل ہوں۔ اس طرح اللہ کے فرمان “ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا” کا مطلب یہ بن گیا کہ ہم نے آپ کو لوگوں کی طرف مبعوث کیا اور آپ پر جو ذکر نازل کیا اس کے ذریعے سے آپ کو رسول بنایا تا کہ آپ لوگوں کے لئے ان احکام کو بیان کردیں جو ان کے حق میں مقرر کئے گئے۔

ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ نسخ کے لئے کس طرح تبیین کی آیت کو پیش کررہے ہیں۔ یہ ضمنا غامدی صاحب کے لیے آیت نحل کے حوالے سے دعوت فکر بھی ہے کہ وہ قرآنی احکام کے حوالے سے نبی کے وظیفے کو اس آیت کی بنیاد پر محض ایسے مضمرات میں بند کر دیتے ہیں جو ایک مجتہد خود غور و خوض کر کے بھانپ سکتا ہے۔ غامدی صاحب کی رائے اس حقیقت کی پوری طرح رعایت کیے ہوئے نہیں کہ نبی پر وحی قرآن کے علاوہ بھی ہے اور وہ خود بھی اس کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ دبوسی کسی ناقد کے اعتراض کو پیش کرکے اس کا جواب دیتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ آپ غامدی صاحب ہی کو مخاطب بنائے ہوئے ہوں۔ لہذا ہم آپ کے الفاظ ہی میں وہ اعتراض اور اس کا جواب پیش کرتے ہیں:

فإن قيل: أخبر الله تعالى أن رسوله مبين، ولو جاز النسخ على لسانه لكان مبينًا للحكم الأخير رافعًا للحكم الأول قلنا: إنه بين الأول بتأويله وتبليغه. وبين الثاني بتبليغه وتأويله. وإنما رفع بقاء الأول ظاهرًا، وإنه بيان أيضًا لمدة البقاء حقيقة على ما مر وهذا الذي يتصور رفعًا ليس برفع لما ثبت بالنص على ما مر أن البقاء حكم ثبت بلا دليل، فثبت أنه مبين محض لما نزل إلينا. وإنما رفع ظاهرًا ما لم يثبت بالتنزيل والذي يوضحه أنا وإن سلمنا أن البقاء من حكم الكتاب فالبقاء يكون أبدًا، ويكون مؤقتًا، فيكون بيان الوقت بيانًا لأحد وصفيه
مفہوم: اگر کہا جائے کہ اللہ تعالی نے نبی کا وظیفہ مبین قرار دیا، اگر ان کی زبان سے نسخ جاری روا ہوتا تو آپ دراصل آخری (ناسخ) حکم کے مبین جبکہ پہلے حکم کو ختم کرنے والے قرار پائیں گے (بالفاظ دیگر حکم کو رفع کرنا نبی کے وظیفہ تبیین پر اضافہ ہے)۔ ہم کہیں گے کہ نبی نے پہلا حکم بھی تبلیغ و تفسیر دونوں طرح سے بیان کیا اور دوسرا بھی اسی طرح بیان کیا جبکہ جس پہلے حکم کو ختم کیا اس کا باقی رہنا صرف “ظاہر” کے لحاظ سے ہے ورنہ حقیقت میں وہ بیان مدت ہی ہے جیسا کہ گزرا۔ اور یہ جسے “حکم کو ختم کرنا” شمار کیا جاتا ہے حقیقت میں ایسا نہیں کیونکہ شارع کی نص سے یہ ثابت شدہ امر پیچھے گزر چکا کہ حکم کے باقی رہنے (کی یہ بات) بغیر کسی دلیل کے ہے (اسے استصحاب حال کہتے ہیں اور وہ اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں)۔ پس یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچی کہ نبی ان امور کے “مبین محض” ہیں جو ہمارے لئے نازل ہوئے۔ اور نبی نے بظاہر اس حکم کو ختم کیا جو قرآن سے ثابت ہی نہیں ہوا تھا (پس نسخ میں ایک ایسی بات کی نفی ہوتی ہے کہ جو قرآن سے ثابت ہی نہیں بلکہ وہ استصحاب حال سے ثابت ہے)۔ نیز اس پہلو کو مزید کھولتے ہوئے ہم بالفرض یہ مان بھی لیں کہ حکم کا باقی رہنا بھی قرآن ہی کا حکم ہے، تب بھی حکم کا باقی رہنا کبھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے اور کبھی ایک مدت تک۔ پس (اس لحاظ سے بقا میں بھی اجمال واحتمال پیدا ہوا) اور بیان مدت اس قرآنی حکم کے دو ممکنہ اوصاف میں سے ایک کی تعیین ہوئی (اور قرآن کے اجمال کا بیان نبی کا وظیفہ ہے۔)

یہاں یہ بھی غور کر لیجیے کہ قاضی صاحب نبیﷺ کو نسخ کے بیان کی حیثیت سے “مبین محض” کہہ رہے ہیں نیز آپ کی توجیہہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نسخ ایک پہلو سے حکم کو لاحق اجمال ہی کا بیان ہے۔ غامدی صاحب جب اس سوال کے جواب پر غور کریں گے کہ آخر نبی کی حین حیات جب احکام کا نزول ہورہا تھا اس وقت مخاطبین کو یہ علم و یقین کس دلیل سے ہو سکتا تھا کہ حکم منسوخ نہیں ہوسکتا، پھر جب آپ امام دبوسی کے درج بالا اقتباس پر غور کریں گے تو ان شاء اللہ ان پر اس معاملے کی تفہییم کے نئے دریچے کھلیں گے۔
بہر کیف غامدی صاحب کی دانست میں ان کے طے کردہ دو معانی میں سے ایک معنی (اظھار ما فی الشیء) امام دبوسی و سرخسی کے ہاں مراد ہیں اور دوسرے معنی (اظھار الشیء) امام جصاص و بزدوی کے ہاں۔ لیکن ہم نے واضح طور سے دیکھا کہ جو ائمہ بیان کی اقسام میں نسخ کو شامل نہیں کرتے وہ بھی جب نسخ کے باب میں آتے ہیں تو دوسروں سے ہم لسان ہو کر نسخ کو نہ صرف بیان قرار دیتے ہیں بلکہ اللہ تعالی کی جہت سے اسے بھی بیان محض ہی گردانتے ہیں۔ یہ بات پچھلے حصے میں دکھائی جا چکی کہ نسخ کو بیان کی اقسام میں شامل کرنا یا نہ کرنا دو لغوی مفاہیم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اصطلاحی معاملہ ہے۔

3) اصولی روایت میں بیان کی اصطلاح کا تناظر

اب تک یہ واضح ہوا کہ ائمہ اصول لغوی طور سے لفظ بیان کو کس پہلو سے دیکھتے ہیں، نیز خاص طور سے اس پر گفتگو ہوئی کہ نسخ کس طرح بیان میں شامل ہے حتی کہ اگر ہم غامدی صاحب کی دانست میں اس کے دوگانہ معنے بھی مراد لے لیں۔ ذیل میں ہم اصولی روایت میں بیان کی تعریف مقرر ہونے کا تناظر واضح کریں گے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آجائے گی کہ ائمہ کا اختلاف اصلاحی ہے اور اس کا غامدی صاحب کے مفروضہ معانی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
لفظ “علم” (knowledge) جب بطور اصطلاح استعمال کیا جاتا ہے، جیسے علم فقہ وغیرہ، تو اس کے مختلف اعتبارات ہوتے ہیں۔ “علم” جاننے کے عمل کو بھی کہتے ہیں اور اس حوالے سے یہ ایک مصدری معنے ہیں۔ کبھی علم اس عمل سے حاصل شدہ نتیجے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس اعتبار سے یہ “معلوم” کے معنی میں ہے (علم منطق کی کتابیں پڑھنے والے اس گفتگو سے بخوبی باخبر ہیں)۔ اسی طرح لفظ “بیان” اپنی ساخت میں مصدر ہے اور اس میں بھی مختلف اعتبارات دیکھے جا سکتے ہیں اور اصولی حضرات نے اس کی تعریف کرتے ہوئے ان میں سے کوئی پہلو چنا ہے۔ وہ اعتبارات تین ہیں:
الف) وضاحت لانے کا فعل یا عمل (the       act          of           clarifying)۔ اس معنی میں اسے “اعلام”، “تعرف” ، “فعل المبین” نیز “ایضاح المعنی، “ایضاح المراد” و “ایضاح المقصود” وغیرہ کہا جاتا ہے
ب) وہ بات جس سے وضاحت حاصل ہوتی ہے، اس جہت سے بیان اس “دلیل” کو کہتے ہیں جو وضاحت کے لئے پیش کی جائے
ج) وہ نتیجہ جو علم حادث کی صورت میں اس دلیل سے مخاطب ہو حاصل ہو۔ (یعنی یہ “فعل بیان” یا “دلیل بیان” کا حاصل ہے جو مخاطب کے اندر ایسا علم پیدا کرتا ہے جس سے اسے وضوح میسر آتا ہے)۔ اس اعتبار سے بیان کا مطلب دلیل کا “مدلول” ہے۔

اہل علم جب مختلف اعتبارات میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ معاملہ الل ٹپ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس پشت کوئی اصول کارفرما ہوتا ہے۔ یہاں بھی ان اعتبارات میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتے ہوئے اصولیین کے سامنے بیان کی اقسام تھیں۔ چنانچہ جب یہ لوگ ان اعتبارات کو ترجیح دیتے ہیں تو کثرت سے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اس طرح فلاں قسم شامل نہیں رہتی جبکہ وہ شامل ہے۔اس بات کو سمجھانے کے لئے ہم یہاں پہلی جہت کو کچھ واضح کرتے ہیں جسے احناف نے بھی اپنایا۔
اس پہلی جہت سے جنہوں نے بیان کی تعریف کی ان میں سے بعض نے کہا کہ بیان کسی شے کو حیز اشکال سے نکال کر حیز تجلی میں لے آنا ہے (إخْرَاجُ الشَّيْءِ مِنْ حَيِّزِ الْإِشْكَالِ إلَى حَيِّزِ التَّجَلِّي)، یہ تعریف شافعی عالم الصیرفی (م 330 ھ) کی جانب منسوب ہے۔ علامہ محلاوی حنفی (م 1376 ھ) کے مطابق احناف کی اکثریت نے اسی جہت سے بیان کی تعریف یوں کی: “البیان اظهار المعنی و ایضاحه للمخاطب”۔ اس تعریف پر متعدد اعتراضات کئے گئے۔ مثلا یہ کہ اس تعریف کی رو سے بیان ابتدائی، “جیسے نماز قائم کرو”، بیان سے نکال جاتا ہے جب کہ وہ اتفاقی طور سے بیان کا حصہ ہے (غور کیجیے کہ بیان کی اقسام خواہ علامہ سرخسی کی لیجیے خواہ علامہ دبوسی کی، دونوں کے ہاں بیان ابتدائی کو شامل نہیں جبکہ اس کے بیان شریعت ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ اب کیا غامدی صاحب اپنی منطق کے مطابق یہ مفروضہ قائم کریں گے کہ بیان ابتدائی ہمارے اصولی حضرات کے ہاں لغوی بیان میں شامل ہی نہیں)۔ اسی طرح بعض نے کہا کہ اس سے بیان تقریر، بیان تغییر و بیان تبدیل نکل گئے۔ بعض کے مطابق اس تعریف سے معدوم کا بیان بھی جاتا رہا کیونکہ معدوم شے نہیں ہوتی۔ اس تنقید کے نتیجے میں اس تعریف کے الفاظ میں رد و بدل کیا جاتا رہا کہ ایک ایسا مفہوم سامنے آجائے جس میں تمام امور داخل ہوں۔
اس کے برعکس بعض لوگوں نے دلیل کی جہت سے تعریف کی ان میں قاضی باقلانی، امام جوینی، امام غزالی، امام رازی وغیرہ جیسے اصولیین شامل ہیں۔ اس تعریف اور اسی طرح تیسری جہت پر مبنی تعریف پر بھی اعتراضات وارد کئے گئے جن کی تفصیل میں جانا یہاں مطلوب نہیں۔ اس مقام پر علامہ ابن الھمام کی اوپر پیش کردہ اس عبارت کا اعادہ کرلیجئے جس میں ان اعتبارات کا تذکرہ گزرا اور ہم نے کہا تھا کہ اس پر آگے بات آئے گی۔
یہاں اصل بات یہ ہے کہ مفسرین جب بیان کا مفہوم بتاتے ہوئے “التعرف” یا حنفی ائمہ اس کی تعریف میں “ایضاح المقصود” و “ایضاح المعنی والمراد” جیسے الفاظ بولتے ہیں تو وہاں پس منظر میں تعریف کے ان تین اصطلاحی اعتبارات میں سے پہلا اعتبار ہوتا ہے، لیکن غامدی صاحب اس تناظر کو پس پشت ڈال کر ان سے “بیان الشیء و بیان ما فی الشیء” جیسے تصورات کشید کرنے میں مصروف ہیں۔ ائمہ اصولیین ان کلمات سے کیا مراد لینا چاہ رہے ہیں وہ ان حضرات کی گفتگو سے واضح ہے۔

اب اس کے بعد علامہ تفتازانی کی جانب سے امام بزدوی و امام سرخسی کی بات کی تطبیق سمجھنا بہت آسان ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

الْبَيَانُ يُطْلَقُ عَلَى فِعْلِ الْمُبَيِّنِ كَالسَّلَامِ، وَالْكَلَامِ، وَعَلَى مَا حَصَلَ بِهِ التَّبْيِينُ كَالدَّلِيلِ، وَعَلَى مُتَعَلَّقِ التَّبْيِينِ وَمَحَلِّهِ، وَهُوَ الْعِلْمُ وَبِالنَّظَرِ إلَى هَذِهِ الْإِطْلَاقَاتِ قِيلَ هُوَ: إيضَاحُ الْمَقْصُودِ، وَقِيلَ الدَّلِيلُ، وَقِيلَ الْعِلْمُ عَنْ الدَّلِيلِ، وَإِلَى الْأَوَّلِ ذَهَبَ الْمُصَنِّفُ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – وَحَصَرَهُ فِي بَيَانِ الضَّرُورَةِ وَبَيَانِ التَّبْدِيلِ، وَبَيَانِ التَّفْسِيرِ وَبَيَانِ التَّغْيِيرِ، وَبَيَانِ التَّقْرِيرِ وَذَكَرَ فِيهِ وَجْهَ ضَبْطٍ وَبَعْضُهُمْ جَعَلَ الِاسْتِثْنَاءَ بَيَانَ تَغْيِيرٍ، وَالتَّعْلِيقَ بَيَانَ تَبْدِيلٍ وَلَمْ يَجْعَلْ النَّسْخَ مِنْ أَقْسَامِ الْبَيَانِ لِأَنَّهُ رَفْعٌ لِلْحُكْمِ لَا إظْهَارٌ لِحُكْمِ الْحَادِثَةِ إلَّا أَنَّ فَخْرَ الْإِسْلَامِ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – اعْتَبَرَ كَوْنَهُ إظْهَارًا لِانْتِهَاءِ مُدَّةِ الْحُكْمِ الشَّرْعِيِّ، وَلَا يَخْفَى أَنَّهُ إنْ أُرِيدَ بِالْبَيَانِ مُجَرَّدُ إظْهَارِ الْمَقْصُودِ فَالنَّسْخُ بَيَانٌ وَكَذَا غَيْرُهُ مِنْ النُّصُوصِ الْوَارِدَةِ لِبَيَانِ الْأَحْكَامِ ابْتِدَاءً. وَإِنْ أُرِيدَ إظْهَارُ مَا هُوَ الْمُرَادُ مِنْ كَلَامٍ سَابِقٍ فَلَيْسَ بَيَانًا، وَيَنْبَغِي أَنْ يُرَادَ إظْهَارُ الْمُرَادِ بَعْدَ سَبْقِ كَلَامٍ لَهُ تَعَلُّقٌ بِهِ فِي الْجُمْلَةِ لِيَشْمَلَ النَّسْخَ دُونَ النُّصُوصِ الْوَارِدَةِ لِبَيَانِ الْأَحْكَامِ ابْتِدَاءً مِثْلَ {أَقِيمُوا الصَّلاةَ} [الأنعام: 72] مفہوم: لفظ بیان سلام وکلام کی طرح بیان کنندہ کے فعل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، نیز اس کے لیے بھی جس سے بیان حاصل ہو جیسے دلیل اور اس بیان کے محل کے لیے بھی جس سے تبیین کا فعل وابستہ ہوتا ہے یعنی علم۔ انہی مختلف اطلاقات کی رعایت کی وجہ سے کہیں یہ کہا گیا کہ بیان کسی مقصود کو واضح کرنا ہے، کہیں کہا گیا کہ وہ دلیل ہے اور کہیں کہا گیا کہ وہ دلیل سے حاصل شدہ علم ہے۔ مصنف (یعنی صدر الشریعہ) پہلے اعتبار کے قائل ہیں اور انہوں نے بیان کو ضرورت، تبدیل، تفسیر، تغییر اور تقریر میں بند کیا اور ان اقسام کو منضبط کرنے کا طریقہ بھی بتایا جبکہ بعض اصولی حضرات (جیسے علامہ سرخسی) نے استثنا کو بیان تغییر اور کسی حکم کے شرط سے معلق کرنے کو بیان تبدیل گرادنا اور نسخ کو بیان میں شمار نہیں کیا کیونکہ (ان کی نظر میں) یہ کسی حکم کو ختم کرنا ہے نہ کہ کسی نوپید حکم کو ظاہر کرنا۔ تاہم فخرالاسلام بزدوی نے نسخ کو انتہائے مدت کے زاویے سے دیکھا (اس لئے اسے بیان میں شمار کیا)۔ چنانچہ یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اگر بیان سے محض کسی مقصود کو واضح کرنا مراد لیا جائے تو نسخ اور ابتدائے شریعت کے اظہار کے لیے وارد شدہ نصوص بھی بیان ہیں، اور اگر بیان سے کسی سابقہ کلام کی مراد واضح کرنا مراد لیا جائے تو نسخ بیان نہیں۔ تاہم ‘سابقہ کلام کی مراد واضح کرنے’ سے مراد ایسا کلام ہونا چاہیے جس کو (اس حکم سے) ایک گونہ تعلق ہو اور اس طرح نسخ بھی اس میں شامل ہو جائے گا تاہم شریعت کے ابتدائی بیان کے لیے وارد نصوص، جیسے نماز قائم کرو، اس میں شامل نہیں ہوں گی۔

یہاں غور کیجیے کہ:
• علامہ تفتازانی نے علامہ سرخسی وعلامہ بزدوی کے مابین فرق کو محض ایک اصطلاحی فرق قرار دے کر اس کی توجیہہ کی
• انہوں نے علامہ سرخسی کے لیے جب یہ توجیہہ کی کہ ان کے ہاں کلام سابق کی مراد واضح کرنا مقصود ہے، تو اگلے ہی جملے میں واضح کردیا کہ ایک پہلو سے نسخ بھی کلام سابق کی مراد کو کھولنا ہی ہے، اس لیے کہ اگر کلام سابق سے تعلق کو عمومی معنے میں لیں تو نسخ خود بخود اس میں شامل ہو جائے گا۔ اور یہ وہی بات ہے جو ہم پچھلے ایک حصے میں کر آئے کہ نسِخ کلام کے عقلی مضمرات ہی میں سے ہے
• اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ راجح اصطلاح علامہ بزدوی ہی کی ہے
• مزید برآں علامہ تفتازانی نے واضح فرمایا کہ ابتدائے شریعت اور نسخ دونوں پہلی اصطلاحی تعریف (یعنی اظھار المقصود) کی رو سے بیان میں شامل ہوجاتے ہیں جبکہ دوسری تعریف (مَا هُوَ الْمُرَادُ مِنْ كَلَامٍ سَابِقٍ) میں اگر کلام سابق کے ساتھ تعلق کو عمومی مفہوم میں لے لیا جائے تو نسخ اگرچہ اس میں شامل ہوجائے گا تاہم بیان ابتدائی پھر بھی اس میں شامل نہ ہوسکے گا جس کی بنا پر یہ تعریف جامع نہیں رہتی
غامدی صاحب نے اس پوری عبارت کے اتنے الفاظ کو نقل کرکے اپنا یہ مطلب کشید کرنا چاہا کہ اظھار الشیء کے معنی میں نسخ شامل بیان ہے اور اظھار ما فی الشیء کے معنی میں شامل نہیں:

إنْ أُرِيدَ بِالْبَيَانِ مُجَرَّدُ إظْهَارِ الْمَقْصُودِ فَالنَّسْخُ بَيَانٌ ۔۔۔۔ وَإِنْ أُرِيدَ إظْهَارُ مَا هُوَ الْمُرَادُ مِنْ كَلَامٍ سَابِقٍ فَلَيْسَ بَيَانًا

جس بھی شخص کو اصول فقہ کی متعلقہ بحثوں سے واقفیت ہے وہ اس پوری عبارت کے پیش نظر سمجھ سکتا ہے کہ یہاں بیان کے بارے میں جس اختلاف کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ ایک اصطلاحی استعمال سے متعلق ہے۔ عبارت کو یوں سیاق و سباق کی بحثوں سے نکال کر اس کے ایک ٹکڑے کو یہ معنی پہنانا بے معنی استدلال ہے۔
اس بحث سے یہ سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے کہ آخر بعد کی حنفی روایت میں علامہ بزدوی کی اصطلاحی اقسام کو کیونکر قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ اس کے لیے حنفی روایت کے محقق علی الاطلاق علامہ ابن الھمام کی کتاب تحریر اس کی شروح کے ساتھ، نیز اساطین احناف میں سے ایک اہم شخصیت علامہ ابن نجیم (م 960 ھ) کی رسالہ منار کی شرح “فتح الغفار” کے متعلقہ باب کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
اب تک کی مجموعی گفتگو سے یہ واضح ہوگیا کہ ہماری اصولی روایت بیان کو ایک ہی لغوی معنے میں لیتی ہے، نیز نسخ کلام کے عقلی مضمرات ہی میں سے ہے۔ مزید برآں اصولی حضرات کے ہاں بیان کی گفتگو کا تناظر یہ واضح کرتا ہے کہ ائمہ احناف بیان کی اصطلاحی تقسیمات کے پیش نظر بیان کی تعریف مقرر کرتے ہیں۔ یعنی جس نے نسخ کو بیان میں شامل کرنا چاہا (اس حقیقت کے پیش نظر کہ وہ انتہائے مدت کا بیان ہے) اس نے اصطلاح سازی میں اس کا لحاظ رکھا۔ ائمہ اصول کی اس گفتگو کا غامدی صاحب کے مفروضات سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔

4) امام بزدوی کی عبارت کی بحث

اب تک کی گفتگو سے اگرچہ غامدی صاحب کی جانب سے امام بزدوی و سرخسی کے الفاظ سے کئے جانے والے بے محل استدلال کا جواب ہوگیا، تاہم یہاں ہم صراحت کے ساتھ اس پر بھی کلام کر دیتے ہیں تاکہ گفتگو تمام ممکنہ پہلووں کو حاوی ہو۔ پہلے “برہان” سے غامدی صاحب کی گفتگو پر دوبارہ نظر ڈال لیجیے:

“علمائے اصول میں سے جن لوگوں کی نگاہ اِس حقیقت پر رہی ہے، اُنھوں نے ’تبیین‘ کی تعریف میں یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے۔ امام بزدوی علم اصول پر اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
حَدَّ الْبَيَانِ مَا يَظْهَرُ بِهِ ابْتِدَاءُ وُجُودِهِ فَأَمَّا التَّغْيِيرُ بَعْدَ الْوُجُودِ فَنَسْخٌ وَلَيْسَ بِبَيَانٍ
بیان کا اطلاق اُس شے پر کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے اُس شے کا ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہونا ظاہر ہو جاتا ہے ۔ رہا وہ تغیر جو کلام کے وجود میں آنے کے بعد کیا جائے تو وہ نسخ ہے ۔ اُسے بیان قرار نہیں دیا جا سکتا”

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب کا علامہ بزدوی وسرخسی کے باہمی اختلاف کے حوالے سے موقف ہی یہ ہے کہ چونکہ ان کے ہاں بیان کے تصورات ٘مختلف ہیں اس لیے انہوں نے اس کی اقسام میں فرق کیا۔ لیکن علامہ بزدوی کی طرح علامہ سرخسی بھی یہ بات کہتے ہیں کہ نسخ بیان محض ہے جیسا کہ اوپر عبارت گزری۔ غامدی صاحب کی رائے کے مطابق علامہ سرخسی کو یہ بات قطعاً نہیں کہنی چاہیے تھی۔ اس لیے یہاں غامدی صاحب کے موقف میں سخت الجھاؤ ہے۔ اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ امام بزدوی درج بالا عبارت کس سیاق میں لائے۔

علامہ بزدوی بیان کے لغوی معنے طے کر کے اس کی اقسام کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں:

وَالْبَيَانُ عَلَى أَوْجُهٍ: بَيَانُ تَقْرِيرٍ وَبَيَانُ تَفْسِيرٍ وَبَيَانُ تَغْيِيرٍ وَبَيَانُ تَبْدِيلٍ وَبَيَانُ ضَرُورَةٍ فَهِيَ خَمْسَةُ أَقْسَامٍ
مفہوم: بیان مختلف طرح پر ہے: بیان تقریر، بیان تفسیر، بیان تغییر، بیان تبدیل اور بیان ضرورت، پس یہ پانچ طرح کا ہوا۔

آپ ہر قسم کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بیان تفسیر کے تحت آپ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہیں کہ احناف کے نزدیک عام کا تخصیصی بیان مؤخر ہونا جائز نہیں اس لئے کہ ہمارے نزدیک عام کی دلالت قطعی ہے جبکہ امام شافعی کے نزدیک یہ جائز ہے کیونکہ وہ عام کی دلالت ظنی مانتے ہیں۔ امام شافعی کے اصول پر عام کا یہ تخصیصی بیان بھی “بیان محض” بنتا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ پھر آپ بیان تغییر میں پہنچتے ہیں جس کا تعلق “کلام غیر مستقل” سے ہوتا ہے اور اس میں استثنا اور شرط شامل ہیں کہ حقیقت میں جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی متکلم ان لغوی ادوات کے ذریعے سے واضح کر دیتا ہے کہ کون سے امور اس کے کلام میں شامل نہیں۔ بیان تغییر میں استثنا وغیرہ سے جو امور خارج کیے جاتے ہیں ان کی بابت مفروضہ ہی یہ ہے کہ گویا متکلم نے اس میں کلام ہی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ استثنا کو “تکلم بالباقی” کہا جاتا ہے، نیز اسی لیے احناف کے ہاں بیان تغییر سے عام اور مطلق کی قطعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اب جب یہاں مفروضہ ہی یہ ہے تو سوال پیدا ہوا کہ اسے “تغییر” کہنے کی وجہ کیا ہے؟ اس پر علامہ بزدوی فرماتے ہیں کہ مثلا کوئی بندہ اپنے غلام سے کہے کہ “تم آزاد” ہو، تو وہ آزاد ہو جائے گا۔ لیکن اگر وہ اسے کسی شرط سے معلق کرے کہ “اگر میرا بیٹا صحیح سلامت گھر لوٹ آیا، تو تم آزاد” اب اس شرط نے غلام پر سے آزادی کے حکم کو ایک مدت تک کے لیے روک دیا، یعنی معلق کر دیا۔ اس زاویے سے شرط بیان تغییر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امام صاحب وہ عبارت لائے ہیں جسے غامدی صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد امام صاحب بیان کی آخری قسم کی طرف آتے ہیں اور فرماتے ہیں: ‌‌”باب بيان التبديل وهو النسخ” اور اسے آپ بیان محض قرار دیتے ہیں جس کی تفصیل اوپر گزر چکی۔
قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ جن اقسام میں امام صاحب نسخ کو ایک باقاعدہ قسم شمار کر رہے ہیں انہی میں سے ایک قسم کے ضمن میں وہ یہ جملہ کہہ رہے ہیں۔ امام بزدوی اس بحث میں یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ بیان تغییر اور بیان تبدیل میں فرق کیا ہے کہ ایک میں کوئی چیز ابتدائے وجود ہی سے داخل نہیں ہوتی (یعنی بیان تغییر میں) جبکہ دوسرے میں وہ داخل ہو کر نکلتی ہے (یعنی بیان تبدیل ونسخ میں) مگر پھر بھی دونوں بیان کس طرح ہیں۔ چنانچہ اگر ہم نسخ کی رفع حکم والی جہت کو دیکھیں نہ کہ بیان انتہائے مدت والی جہت کو، تو نسخ بیان نہیں جبکہ بیان تغییر بہر کیف بیان ہے۔ چنانچہ علامہ بزدوی کے شارح بخاری علامہ بزدوی کے اس جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے صاف کہتے ہیں کہ:

وهذا الكلام إنما يستقيم على اختيار القاضي الإمام و شمس الأئمة رحمهما الله فإنهما لم يجعلا النسخ من أقسام البيان فأما على اختيار الشيخ فلا يستقيم؛ لأنه جعل النسخ أحد أقسام البيان وسماه بيان التبديل، ثم قال هاهنا إنه ليس ببيان ووجه التوفيق بينهما أنه إنما جعل النسخ من أقسام البيان باعتبار أنه عند الله تعالى بيان انتهاء مدة الحكم ولم يجعله بيانا هاهنا باعتبار الظاهر فإنه في الظاهر رفع الحكم الثابت وإبطاله فلا يكون بيانا له
مفہوم: علامہ بزدوی کی یہ عبارت صرف قاضی دبوسی اور شمس الائمہ علامہ سرخسی کی اختیار کردہ اصطلاح پر درست بیٹھتی ہے۔ جہاں تک علامہ بزدوی کی اپنی اصطلاح کا تعلق ہے تو یہ اس سے ہم آہنگ نہیں کیونکہ وہ ایک طرف نسخ کو بیان کی ایک قسم شمار کرتے ہوئے اسے بیان تبدیل کہتے ہیں جبکہ یہاں اس کے بیان ہونے کی نفی کر رہے ہیں۔ علامہ بزدوی کی ان دونوں باتوں میں ہم آہنگی یوں ہے کہ انہوں نے نسخ کو بیان کی قسم اس لحاظ سے گردانا کہ یہ اللہ تعالی کے ہاں انتہائے مدت کا بیان ہے اور یہاں نسخ کے ظاہری پہلو کے پیش نظر اسے بیان میں سے نہیں گردانا کہ یہ ثابت شدہ حکم کو ختم کرنے سے عبارت ہے جس بنا پر وہ بیان نہ ہوا۔

یہ ہے وہ مکمل بحث جس کے تناظر میں بیان تغییر کے تحت ایک سوال کا تجزیہ کرتے ہوئے امام بزدوی وہ الفاظ لائے جسے غامدی صاحب نے سیاق و سباق سے نکال کر “برھان” میں نقل کرکے اپنے اس نتیجے کی دلیل بنا لیا کہ جن حضرات کی نظر اس حقیقت پر رہی کہ شرح میں نسخ شامل نہیں ہوسکتا انہوں نے وہی بات کہی جس کے یہ مدعی ہیں جبکہ امام بزدوی کی مجموعی گفتگو خاص طور سے اور اصول فقہ کی بحثیں عام طور سے پیش نظر ہوں تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ امام بزدوی عین اس کے الٹ بات کہہ رہے ہیں: یعنی ان کے نزدیک جسے بیان کی اصل حقیقت (یعنی بیان محض) کہتے ہیں اس میں نسخ شامل ہے۔
جناب عمار خان ناصر صاحب نے بھی اپنی کتاب “قرآن و سنت کا باہمی تعلق” میں اس موضوع کی متعلقہ اصولی بحثوں سے اغماز برتتے ہوئے یہ رائے قائم فرمائی کہ احناف کے نزدیک نسخ بیان میں شامل ہی نہیں، گویا اس معاملے میں غامدی صاحب نے جو یہ رائے اختیار کی ہے وہ احناف کی رائے کی بازگشت ہے۔ اس مسئلے پر ان کی جانب سے احناف کے موقف کی غلط ترجمانی کو درج بالا بحث سے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔

غامدی صاحب کے تصور بیان پر چند تاثرات

غامدی صاحب ائمہ احناف کی عبارات کے معاملے میں جس مخمصے کا شکار ہوئے اس کی گتھی یہ ہے کہ غامدی صاحب کا تصور بیان ہی اصولیین کے منھج سے الگ ہے۔ اصولیین یوں بحث کرتے ہیں کہ متکلم جب مخاطب پر کسی حکم کی تکلیف کے لئے خطاب کرتا ہے تو کسی پہلو سے وہ احتمال رکھتا ہوگا یا نہیں۔ جس پہلو سے اس میں احتمال نہ ہو اس پہلو سے وہ “مبین” (بیان یعنی ظاہر) ہوتا ہے اور جس پہلو سے اس میں احتمال ہو اس کے لحاظ سے مجمل و مبھم (غیر احناف کی اصطلاح کے مطابق)۔ مثلا آیت “وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ” مطلقہ خواتین کے لئے “تین” قروء کی مدت بطور عدت مقرر کرنے میں خود مکتفی و واضح ہے لیکن “قروء” کا معنی ظاہر کرنے اور اسی طرح مدخولہ و غیر مدخولہ خواتین کی عدت کا حکم بتانے کے اعتبار سے محتمل ہے۔ مخاطب کی جہت سے کلام کو لاحق ہوسکنے والے یہ احتمالات متعدد ہوسکتے ہیں جن کی وضاحت کے لئے متکلم مزید کلام لاتا ہے اور یہ مزید کلام بیان تقریر، بیان تفسیر، بیان تغییر، بیان تخصیص و بیان تبدیل وغیرہ کے لئے ہوسکتا ہے (ان میں سے ہر ایک قسم ایک الگ قسم کے احتمال کو رفع کرتی ہے)۔ اس کے برعکس غامدی صاحب کے ہاں درج بالا مفہوم میں بظاہر بیان نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں یہاں تک کہ یہ (احناف کے اصطلاحی) “مجمل” کے معاملے میں بھی “تاخیر البیان عن وقت الخطاب” کو ابانت کلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایسے میں جسے یہ بیان بمعنی شرح یا کلام کے مضمرات کہتے ہیں وہ شاید اطلاقی (یعنی تحقیق مناط) نوعیت کی چیزوں سے متعلق رہ جاتا ہے۔ جب خشت اول ہی میں فرق ہو تو ایسے میں بھلا ان کی اصطلاح حنفی اصولیین کی اصطلاح سے کیسے ھم آھنگ ہوسکتی ہے؟ مگر اس فرق کے باوجود غامدی صاحب ایک الگ اصطلاحی نظام سے عبارت لے کر اپنی اصطلاح کے لئے پیوند کاری کرنا چاہتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ بیان کے دو معانی کرتے ہوئے “اظھار الشیء” اور “اظھار مافی الشئی” کی اصطلاحات ہی بے معنی ہیں۔ یہ تقسیم بظاہر اس تمثیل پر مبنی ہے کہ “اظھار الشیء” ایک صندوقچی ہے اور “اظھار ما في الشيء” اس صندوقچی میں بند ساز و سامان جسے صندوقچی دکھانے کے سوا قابل فہم طور پر الگ بھی دکھایا جاسکتا ہے حالانکہ لفظ و معنی کے مابین “دال و مدلول” کا جو ربط ہے اس کے لیے یہ تمثیل اور یہ تقسیم اصل حقیقت پر پردہ ڈالنے والی ہے۔ اس کی معقولیت اگر ہو سکتی ہے تو صرف اتنی کہ کلام میں اظھار الشیء کا مطلب “نرے الفاظ بدون معنی” ظاہر کرنا ہے جبکہ اظھار مافی الشئء ان الفاظ کے معنی بتانا ہے۔ ظاہر ہے ایک با معنی کلام کے اظھار وبیان کے تناظر میں یہ ایک بے معنی تقسیم ہے کیونکہ یہ لفظ و معنی کے مابین دال و مدلول کے تعلق کی نفی سے عبارت ہے۔ غامدی صاحب جسے بار بار کلام کی شرح کہہ کر اظھار ما افی لشیء کہتے ہیں، وہ الفاظ کے ان مدلولات ہی کو ظاہر کرنے کا عمل ہے جن کے بغیر کلام کے ظھور (یعنی اظھار الشیء) کا کوئی مطلب نہیں۔ الغرض بیان کی یہ دوگانہ تقسیم اپنی اصل میں غیر معقول ہے۔
جب بات صندوقچی اور اس میں موجود سامان کی تمثیل کی طرف آہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک اور تمثیل کی طرف بھی اشارہ کردیں جسے غامدی صاحب “شرح” کی وضاحت کے لیے اکثر لاتے ہیں۔ آپ بیان کنندہ ومبین کو غالب کی شاعری کے شارح کی مانند قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ شرح میں نسخ شامل نہ ہونے کو سمجھانے کے لئے وہ کہتے ہیں کہ غالب کے شعر کی شرح میں نسخ شامل نہیں ہوسکتا، حالانکہ زیر بحث موضوع میں یہ تمثیل نہ صرف غیر متعلق ہے بلکہ اصل حقیقت کو مسخ کرنے والی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا غالب کی شاعری میں نسخ کا اصول جاری ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ جس کلام میں نسخ کا اصول سرے سے لاگو ہی نہیں ہوتا اس کی شرح میں نسخ شامل نہ ہونے کی بات کو یہاں بطور مثال پیش کرنا کیسے بامعنی ہوا؟ آپ غالب کی شاعری کو چھوڑئیے، خود شرعی امور میں سے کئی ایسے ہیں جن میں نسخ جاری ہی نہیں ہوتا تو غالب کی شاعری بچہ رسد!۔ اس معاملے کی درست نظیر قانون صادر کرنے والے اداروں یا جہات کی ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوئی اور قانون کی زبان میں بیان نسخ شرح ہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ غالب کے شارح کو اس کی شاعری سے وہ نسبت نہیں جو شارع علیہ السلام کو قرآن سے ہے۔ قرآن کے نازل کرنے والے نے شارع کو اپنے کلام کا مبین قرار دیا اور نسخ صرف یہ خبر دینا ہے کہ حاکم کو حکم کی تعمیل فلاں وقت تک مطلوب تھی اور یہ خبر وہی دے سکتا ہے جو اس حاکم کا مجاز نمائندہ ہو۔ لیکن غالب کے ہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ حقیقت میں ہمیں قرآن کا علم ہی شارع عليه الصلاة والسلام کی زبان اقدس سے ہوا اور ان کے بتانے ہی سے معلوم ہوا کہ کیا قرآن ہے اور کیا سنت ہے جبکہ غالب کی شاعری کے ابلاغ میں ہم ان کے شراح کے ایسے محتاج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تشبیہ وتمثیل سے جہاں افہام و تفہیم سے کام لیا جاتا ہے، وہاں اگر اسے ایک حد پر روکا نہ جائے تو اصل معنے ہی مسخ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

خلاصہ بحث

ہماری یہ تحریر کچھ طویل ہوگئی کیونکہ ائمہ احناف کی عبارات کو جس طرح تختہ مشق بنا کر ان سے معنی کشید کئے جارہے تھے، ان عبارات کا اصل پس منظر سامنے لانا ضروری تھا۔ اہل علم کے لئے یہ امور واضح تھے۔ اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
1۔ ہماری اصولی روایت بھی نسخ کے ایک ہی لغوی معنے بیان کرتی ہے، غامدی صاحب کے دوگانہ مفہوم کا ذکر کہیں نہیں ملتا
2۔ نسخ کے بیان ہونے یا نہ ہونے کا اختلاف اصطلاحی فرق ہے، اس کا بھی غامدی صاحب کے مفروضہ دوگانہ مفاہیم سے تعلق نہیں
3۔ علامہ بزدوی وعلامہ سرخسی کی عبارت میں جہاں وہ کہتے ہیں کہ نسخ بیان نہیں وہاں وہ نسخ کے اس پہلو کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں کہ نسخ میں حکم کو اٹھایا جاتا ہے لیکن جب وہ دوسری جہت سے بات کرتے ہیں تو عین نسخ کے باب میں وہ صاف الفاظ میں اس کے بیان ہونے کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اسے “بیان محض” بھی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے قاضی دبوسی کے کلام میں دیکھا کہ وہ شارع علیہ السلام کو بیان نسخ کے تناظر میں “مبین محض” کہہ کر یاد کرتے ہیں۔
4۔ غامدی صاحب کے تصور شرح یا إظهار ما في الشيء میں بھی نسخ شامل ہے کہ وہ کلام کے عقلی مضمرات میں سے ہے
5۔ اصولی حضرات کی گفتگو کا مکمل تناظر واضح کرتا ہے کہ غامدی صاحب نے ہماری اصولی حضرات کی جستہ جستہ جن عبارات کو پیش کیا اس سے وہ مقصود بالکل نہیں جس کا تاثر انہوں نے قبول کیا۔ چنانچہ علامہ تفتازانی نے جہاں علامہ سرخسی وبزدوی کے اصطلاحی فرق کی توجیہہ کی وہاں واضح کر دیا کہ یہ فرق کوئی معنی خیز نہیں۔ بلکہ انہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ علامہ سرخسی کے عمل کی جو توجیہ ہے بنظر غائر اس میں بھی نسخ شامل ہو جاتا ہے کہ وہ کلام سابق سے “ایک گونہ تعلق” رکھتا ہے۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ اس سے علامہ بزدوی کی اصطلاح راجح ثابت ہوتی ہے اور بعد کی حنفی روایت نے ایسا ہی کیا
6۔ جناب عمار خان ناصر صاحب نے غامدی صاحب کے گمان کو یقین میں بدلنے کے لئے حنفی تصور بیان سے نسخ کو خارج قرار دینے کا جو تجزیہ اپنی کتاب میں پیش کیا، اس تحریر سے اس کی غلطی عیاں ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں