Home » اصحاب رسول اور قرآن
تفسیر وحدیث کلام

اصحاب رسول اور قرآن

مبین قریشی

بات کی طرف آنے سے پہلے قرآن مقدس ( بلکہ دنیا کے ہر قانون یا تعلیم ) کو سمجھنے کے لئے جو پہلو فطری طور پر ضروری ہوتے ہیں ان میں سے دو تین پہلووں کو دیکھیں؛

‏1-عبارة النص: وہ تعلیم جو صاف لفظوں میں کھول کر بیان کی جارہی ہو۔ مثلاً فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ ( پس جو کوئی تم میں سے رمضان کا مہینہ پائے وہ اسکے روزے رکھے ) ۔ یہاں روزے کے احکام بتانے کے لئے ہی اس آیت کو لایا گیا ہے اور جو بات کہنا مقصود تھی اسے صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے ۔

‏2-إشارۃ النص: قرآن مقدس کے الفاظ میں وہ بات موضوع بناکر صاف لفظوں سے بیان تو نہیں ہورہی لیکن وہ آپ سے آپ واضح ہورہی ہے۔ مثلاً روزے کے احکام ہی بیان کرتے فرمایا کہ رمضان کے قمری مہینے میں 29 یا 30 کی گنتی روزے رکھ کر پوری کرنی ہے ۔ لیکن اس دوران اگر کوئی مریض ہو جائے تو وہ کسی دوسرے مہینے میں کہ جب وہ صحتیاب ہوجائے تو گنتی میں سے رہ جانے والے روزے پورے کرلے۔ یہاں دائمی مریض جو اب موت تک کبھی صحتیاب نہیں ہوگا اس کے لئے صاف لفظوں میں قرآن نے دائمی مریض کا لفظ استعمال کرکے کوئی حکم نہیں دیا۔ لیکن جو بات صاف لفظوں میں بیان ہوئی ہے اس سے یہ خود بخود واضح ہے کہ مریض پر روزہ مرض کی پوری مدت کے دوران رکھنا فرض نہیں ہے۔ اور چونکہ دائمی مریض کو صحت کے دن میسر ہی نہیں اسلئے اس پر ایام اخر کبھی بھی نہ آنے کی وجہ سے روزہ معاف ہے۔ یہ بات قرآن کی عبارت میں صاف صاف نہیں لکھی ہوئی لیکن آپ سے آپ واضح ہورہی ہے۔

‏3-دلالة النص : کوئی بات مثلاً منع کی جارہی ہے تو اس کے منع کرنے کی کوئی وجہ (علت) ہے جو خدا کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔ وہ وجہ اب جہاں کہیں کسی اور معاملے میں بھی پائی جائے گی وہ معاملہ اس وجہ کی بنیاد پر منع تصور ہوگا۔ مثلاً والدین کے متعلق حکم ہے کہ انھیں اُف بھی نہ کہو۔ اس کی وجہ اس بات کا انکی تکریم کے خلاف ہونا ہے۔ اب اگر قرآن نے صاف الفاظ کے ساتھ والدین کو چانٹا مارنے سے نہ بھی منع کیا ہو تو بھی ہر ایک کو خود ہی معلوم ہورہا ہے کہ جنھیں اُف تک کہنا منع ہے انھیں چانٹا مارنے کا حکم اور انجام کیا ہوگا ؟ اسی طرح نشے میں آئس کا لفظ استعمال کرکے کوئی حکم قرآن نے بیان نہیں بھی کیا تو اس سے کئ گنا کم درجے کی انگور ( پھل ) کی شراب جو دماغ پر خمار طاری کرے وہ اگر حرام ہے تو آئس تو بدرجہ اولی حرام ہے۔

اب موضوع کی طرف آئیے ۔ قرآن مقدس کسی دوسرے پر بغیر ثبوت کے الزام لگانے کو بڑا گناہ بتاتا ہے۔ اسی طرح کسی خاتون پر تہمت لگانے کے لئے چار گواہ لانے ورنہ اسی کوڑے کی سزا اور آئندہ گواہی کے قابل قبول نہ ہونے کی سزا بیان کرتا ہے۔ زنا جتنا بھی بڑا گناہ ہو لیکن یہ قتل سے بڑا گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح قتل بہت بڑا جرم ہے لیکن الفتنہ اشد من القتل کے مصداق فساد بعض اوقات قتل سے بھی بڑا جرم ہوتا ہے۔ اب مزکورہ بالا پوائنٹس میں اشارہ النص اور دلالہ النص کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ اگر کسی شخص پر زنا کی تہمت خدا کے نزدیک ایسا سخت جرم ہے تو کسی پر قتل اور فساد کے الزامات لگانا کس قدر بڑا جرم ہوگا ؟ اگر عام لوگوں کے معاملے میں یہ ایسا جرم اور گناہ ہے تو والذین معہ کی وہ جماعت کہ جسے قرآن مقدس امنوا کما امن الناس ( ویسے ایمان لاو جیسے یہ ایمان لائے ) کنتم خیر امہ ( تم اس امت کے بہترین لوگ ہو ) ، مہاجرین و انصار میں سے السابقون الاولون اور انکی اتباع میں دیگر بعد والے بھی رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ( اللہ ان سے راضی ہوچکا اور وہ اللہ سے ) اور کلا وعداللہ الحسنی ( اول و آخر سب سے بہتر انجام کا وعدہ ہے ) کی طرح کی کئ درجن آیات کے زریعے بعد والوں کو انکا تعارف کرواتا ہے تو انھیں قتل و فساد جیسے قبیح جرائم کے الزامات کے کٹہرے میں کھڑا کرلینا کیسا جرم ہونا چاہیے؟ اگر قتل و فساد کے مقابل زنا جیسے چھوٹے جرم پر قرآن بغیر چشم دید گواہ و ثبوت زبان کھولنے سے منع کرتا ہے تو کیا بلا ثبوت شرعی قتل و فساد کے جرائم کی لسٹ گنوانے کو بدرجہ اولی منع نہیں کرتا ؟ کہا جاتا ہے کہ فتنہ پھیلا اور فتنے کے نتیجے میں اصحاب رسول ص کی دو جماعتیں بنتے ان میں جنگ بھی چھڑی تو کیا اس جنگ کا تزکرہ کرنا جرم ہوسکتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ مومنوں کی دو جماعتوں میں جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس کا زکر سورہ حجرات آیت 9 ( وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ المؤمنین اقتتلوا) میں بھی ہے لیکن یہاں بھی قرآن ان دونوں کو مجرموں کی بجائے مومنوں کی جماعتیں ہی کہہ رہا ہے۔ اور جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو پھر قرآن کے مخاطب بھی صرف وہ لوگ ہیں جو بنفس نفیس بطور چشم دید گواہ خود وہاں موجود ہوں جو آئندہ قیامت کو خدا کی عدالت میں اپنے علم و عمل کے جوابدہ بھی ٹھہرائے جاسکیں۔ شہادت عثمان رض کے نتیجے میں ایسا اندھا بہرا فتنہ آیا کہ جس سے پے در پے فتنے پھوٹتے چلے گئے۔ عرب کے بدوؤں نے اسلام قبول کیا تھا اور اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ صدیوں سے سوپر پاور رہنے والوں کی اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ چالوں سے بالا تر ہوگئے تھے۔ دوسرے خلیفہ سے لیکر آئندہ پے در پے شہادتیں ہوتی گئیں۔ عمر رض ابو لولوء فیروز کے ہاتھوں شہید ہوئے تو علی رض جمل و صفین میں اپنے سپاہی عبدالرحمان بن ملجم کے ہاتھوں۔بلکہ علی رض ، معاویہ رض اور عمرو رض کو ایک ہی دن قتل کرکے ٹیبل ٹرن کردینے کی سازش ایک ہی مجلس میں بنی۔ حسن و حسین رض بھی اسی دشمن نے شہید کئے۔ وہ تو بھلا ہو معاویہ رض کا کہ جو ابوبکر و عمر رض کی طرح بلند قامت ثابت ہوتے اس فتنے کے سامنے کچھ سانس کی مہلت کے لئے دیوار بنے ۔ ورنہ دشمن اس وقت تک صورتحال کو وہاں تک پہنچا چکا تھا کہ اب اسے بیک وقت علی رض ، معاویہ رض و عمرو رض کو شہید کرکے پورا ٹیبل ہی ٹرن کردینا تھا۔ آج بھی اگر کوئی چھوٹا سا غیر متمدن ملک کسی سوپر پاور کو فتح کرنے میں کامیاب ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ مفتوح ہوجانے کے بعد بھی اس سوپر پاور کی انڈر گراونڈ اسٹبلشمنٹ اپنے صدیوں کے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ایک مدت تک فاتح کو نقصان سے دو چار کرتی چلی جائے گی۔ مفتوح سے اس نقصان سے بچنے کے لئے فاتح کو چنگیز خان بننا ہوتا ہے لیکن اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اتنی بات تاریخی حقیقت ہے کہ اصحاب رسول ص کو فارس فتح کرتے اتنا نقصان نہیں ہوا کہ جتنا مفتوح سوپر پاور فارس کے ہاتھوں ہوا ۔ یہ صورتحال کو اپنی اپنی اسٹریٹیجی سے قابو پانے کے باہمی اختلاف پر دو جماعتوں میں منقسم بھی ہوگئے اور آپس میں لڑ بھی پڑے۔ لیکن ان لڑائیوں میں ناموں کے ساتھ جزئیات کی تفصیل ناقابل اعتبار زرائع سے منتقل ہوکر ہم تک پہنچی ہے۔ اس لئے تیسری چوتھی نسل میں یہ سنی سنائی تفصیل وہ شرعی شہادت نہیں بن سکتی کہ جس کی بنیاد پر کسی کا نام لیکر اس پر کسی جرم کا الزام لگایا جاسکے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں