Home » شیخ ابن عربی اور “انبیاء الاولیاء” کی اصطلاح کا مفہوم
اسلامی فکری روایت تصوف شخصیات وافکار کلام

شیخ ابن عربی اور “انبیاء الاولیاء” کی اصطلاح کا مفہوم

حال ہی میں عدالت عظمی میں قادیانی کیس کے بعد جناب حسن الیاس صاحب (جناب غامدی صاحب کے ادارے کے ڈائریکٹر) کی جانب سے شیخ پر بنائی گئی ان کی ایک پرانی ویڈیو پھر سے شئیر کی گئی ہے جس میں شیخ کی ایک عبارت پر گفتگو ہے۔ ہم نے اس کا جواب پہلے بھی دے رکھا ہے، تاہم ان کا زور اس بات پر ہے کہ دیکھو شیخ نے غیر نبی کے لئے انبیاء الاولیاء کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مطلب گویا یہ ہوا کہ وہ ختم نبوت کے بعد بھی اس مفہوم میں نبوت کے اجراء کے قائل ہیں جسے علمائے عقیدہ نبوت کہتے ہیں (عبارت سے دوسرا پہلو یہ بھی پیدا کیا گیا کہ دیکھو غیر نبی کو نبی سے زیادہ علم والا کہہ دیا، اس کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے)۔ شیخ کی اس اصطلاح پر ہم نے اپنی کتاب کے باب نمبر 8 (شیخ ابن عربی اور الہام کی شرعی حیثیت) میں ایک مستقل سیکشن میں بحث کی ہے جس کا عنوان ہی “انبیاء الاولیاء کا مفہوم و حیثیت” ہے جہاں ہم نے حسن صاحب کی پیش کردہ عبارت سے بھی زیادہ صریح عبارات پیش کی ہیں۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ برادر حسن صاحب نے اس سیکشن کے پیش نظر یہ بتانے کی زحمت نہ فرمائی کہ اس میں شرعا مسئلہ کیا ہے۔ چونکہ ان حضرات کی جانب سے شیخ کی اس عبارت کو پھر سے قادیانیوں کو راستہ دینے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے لہذا ہم اس اصطلاح کی وضاحت کرتے ہیں۔

کتاب “شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدہ ختم نبوت” میں ہم نے شیخ کی عبارات کی روشنی میں شرح و بسط کے ساتھ ان کا تصور نبوت واضح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کا مرزا کے دعووں کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں اور اس حوالے سے ناقدین کو شیخ کی اصطلاح سے عدم واقفیت کی وجہ سے التباس ہوا ہے۔ لہذا سب سے پہلے مختصراً یہ سمجھئے کہ شیخ اس بحث میں اصطلاح کیسے بناتے ہیں۔

شیخ کے ہاں نبوت خدا اور کائنات کے مابین تعلق (God        world relationship) سے عبارت ہے، یعنی اس کائنات کی ہر شے ذات باری سے “نبا” (خبر) وصول کرتی ہے اور یہ خبر اسے اپنے خالق کے شعور سے معمور اور اس کی تسبیح پر مامور رکھتی ہے (شیخ کے ہاں خدا کے عمل تخلیق اور مخلوق کو شعور عطا کئے جانے میں دوئی نہیں بلکہ ایک معنی میں فیضان وجود عطا کیا جانا ہی نبوت عامہ ہے، یعنی کائنات کو خدا سے وہ نسبت نہیں جو مثلا ایک میز کو بڑھئی سے ہوتی ہے کہ بڑھئی میز بنا دیتا ہے اور میز کو بڑھی کا شعور نہیں ہوتا)۔ اسے شیخ “نبوت عامہ” کہتے ہیں جو حدوث کائنات سے لے کر ابد الاباد تک قائم رہے گی اور اس کے اجزاء پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی نبوت عامہ کے تحت انبیاء کی امت میں الہام و مبشرات کا وہ سلسلہ جاری رہتا ہے جسے حدیث میں نبوت کا چھیالیسواں جزو کہا گیا ہے نیز جو ختم نبوت کے بعد بھی اس امت میں باقی رکھی گئی ہے۔ از روئے حدیث نزول مسیح علیہ السلام کے بعد ان پر جو وحی نازل ہوگی، شیخ اسے بھی نبوت عامہ کے تحت رکھتے ہوئے نصوص کو ہم آہنگ بناتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ نبوت جو احکام شریعہ کے اجراء کے لئے ہوتی ہے اور بندوں پر تکلیف شرعی لازم کرتی ہے نیز جس سے انکار کفر ہے، یعنی وہ نبوت جو علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں نبوت کہلاتی ہے اور جو آپﷺ پر ختم ہوگئی، اسے “نبوت عامہ” کی اپنی اصطلاح کے پیش نظر شیخ “نبوت خاصہ” یا “نبوت تشریع” کہتے ہیں تاکہ قاری کو ان کی بات سمجھنے میں التباس پیدا نہ ہو اور معاملہ گڈ مڈ نہ ہو۔ اپنی اصطلاح کے اس توسع کے پیش نظر شیخ کہا کرتے ہیں کہ نبوت عامہ اب بھی باقی ہے جبکہ نبوت تشریع ختم ہوگئی۔ اہل سنت کے علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں شیخ یہی بات کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اگرچہ نبوت ختم ہوگئی البتہ خدا اور کائنات کا تعلق اب بھی باقی ہے، مبشرات بصورت الہام کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد ان پر وحی بھی ہوگی، بس فرق اتنا ہے کہ شیخ نے ان تین صورتوں کے لئے نبوت عامہ کی جامع اصطلاح استعمال کی تاکہ مختلف نصوص اپنے ظاہر پر رہتے ہوئے ہم آہنگ ہوجائیں۔ اس معاملے کو نہ سمجھنے کی بنا پر جناب جاوید احمد غامدی صاحب اور جناب حافظ زبیر صاحب نے شیخ کو مرزا قادیان کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ جلی طریقے سے ختم نبوت کا انکار کرنے والا قرار دیا (بلکہ جناب غامدی صاحب نے بات کو بڑھاتے ہوئے اپنے استاد کی پیروی میں اسے اسلام کے “متوازی دین” کا عنوان بھی دے دیا)۔

بعض مقامات پر اپنے نظام فکر اور اصطلاحات کے توسعات کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے وہ اولیاء جن پر اللہ تعالی الہام فرمائیں اور جنہیں “محدث” اور “ملہم” کہا جاتا ہے، ان حضرات کے لئے شیخ ابن عربی “انبیاء الاولیاء” کی اصطلاح بھی استعمال کرلیا کرتے ہیں۔ اس ترکیب سے شیخ قطعاً وہ انبیاء اور نبوت مراد نہیں لیتے جسے اصطلاحی معنی میں علمائے عقیدہ نبوت اور شیخ نبوت خاصہ کہتے ہیں۔ ہم یہاں طویل تبصرے کرنے کے بجائے شیخ کی چند عبارات پیش کردیتے ہیں تاکہ گرد و غبار کے بادل چھٹ جائیں اور ان کی بات صاف ہوجائے:

ایک مقام پر بات صاف کرنے کے لئے آپ ان کا ذکر یوں کرتے ہیں:

انبیاء الاولیاء اهل النبوة العامة

مفہوم: “انبیاء الاولیاء (جو) نبوت عامۃ کے حامل ہوتے ہیں”

انبیاء کے مقامات کا ذکر کرتے ہوئے شیخ کہتے ہیں:

وان کان سؤاله عن مقام الانبیاء من الاولیاء ای انبیاء الاولیاء، وهی النبوة التی قلنا انها لاتنقطع فانها لیست نبوة الشرائع (۔۔۔) فهذا هو مقام نبوة الولایة لا نبوة الشرائع

مفہوم: “اور اگر (سائل کا) سوال اولیاء میں سے انبیاء یعنی انبیاء الاولیاء کے مقام سے متعلق ہے، تو یہ وہ نبوت (عامہ) ہے جس کا ذکر ہم نے کیا کہ وہ منقطع نہیں ہوتی کیونکہ وہ نبوت تشریع نہیں (۔۔۔) تو یہ مقام ‘نبوت ولایت’ کا ہے نہ کہ ‘نبوت شرائع’ کا”

اجزائے نبوت میں سے کسی ایک جزو سے متصف شخصیت کو اصطلاحی معنی میں مطلقاً نبی و رسول کہنا شیخ جائز نہیں کہتے:

کمن یوحی الیه فی المبشرات وهی جزء من اجزاء النبوة وان لم یکن صاحب المبشرة نبیا، فتفطن لعموم رحمة الله، فما تطلق النبوة الا لمن اتصف بالمجموع فذلک النبی وتلک النبوة التی حجزت علینا وانقطعت، فان من جملتها التشریع بالوحی الملکی فی التشریع وذلک لا یکون الا لنبی خاصة

مفہوم: “جیسے کسی کی طرف مبشرات کے باب سے کوئی وحی آئے، جو کہ اجزائے نبوت میں سے ایک جزو ہے، لیکن وہ صاحب مبشرات نبی نہیں ہوجاتا۔ پس اللہ کی رحمت کے عموم کو سمجھو۔ تو (اصطلاح) نبوت کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے جو تمام اجزاء سے متصف ہو، پس وہی نبی ہے۔ یہی وہ نبوت ہے جو ہم سے روک لی گئی ہے اور جو منقطع ہوچکی، کیونکہ اس کی تکمیل کرنے والی چیز فرشتے کے ذریعے تشریع کا عمل ہے اور وہ نبی کے لئے خاص ہے۔”

ان انبیاء الاولیاء یعنی محدثین پر جو علم ظاہر ہوتا ہے، اس کی نوعیت اور ان کے مقام کو واضح کرتے ہوئے ایک اور مقام پر شیخ کہتے ہیں:

فهؤلاء هم الانبیاء الاولیاء ولا یتفردون قط بشریعة ولا یکون لهم خطاب بها الا بتعریف ان هذا هو شرع محمدﷺ (۔۔۔) فحكمهم حكم المجتهد الذي ليس له أن يحكم في المسألة بغير ما أداه إليه اجتهاده وأعطاه دليله وليس له أن يخطئ المخالف له في حكمه فإن الشارع قد قرر ذلك الحكم في حقه فالأدب يقتضي له أن لا يخطئ ما قرره الشارع حكما

مفہوم: “یہ انبیاء الاولیاء ہوتے ہیں اور یہ کبھی بھی انفرادی شریعت والے نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے کسی شریعت کا خطاب کیا جاتا ہے، ما سوا اس عرفان کے کہ (فلاں معاملے میں) شرع محمدﷺ کا حکم یہ ہے۔ (۔۔۔) پس یہ ایسے مجتہد کے حکم میں ہیں جس کے لئے کسی مسئلے میں ایسی بات کا فیصلہ جائز نہیں جو اس کے اجتہاد و دلیل کے خلاف ہو۔ اور اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مخالف کو اس کے (اجتہادی) حکم میں خطا کار کہے کیونکہ شارع نے اس حکم کو اس کے حق میں (اس کے اجتہاد کے اعتبار سے ایسے ہی) مقرر کیا ہے۔ پس ادب کا تقاضا ہے کہ جس چیز کو شارع نے بطور حکم مقرر کردیا ہے اسے خطا نہ کہا جائے۔”

یعنی ان حضرات کا علم شریعت کے فہم و عرفان سے عبارت ہوتا ہے نیز اس علم سے ظاہر ہونے والا علم ان کی اپنی ذات کے لئے اجتہاد کی مثل ہوتا ہے اور جیسے ہر مجتہد اپنی دلیل کے لحاظ سے اپنے اجتہاد پر عمل کرتا ہے، انبیاء الاولیاء یعنی محدثین و ملہمین بھی ایسا ہی کرتے ہیں نیز اپنے اجتہاد سے اختلاف کرنے والوں کی وہ تکفیر و تضلیل بھی نہیں کرتے۔ ایک مقام پر اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ “کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی محدث شریعت محمدیﷺ کے خلاف کوئی بات کہے” شیخ نے جامعیت کے ساتھ الہام و کشف کے فہم شریعت سے تعلق اور انبیاء الاولیاء کے مختلف پہلووں کو کھولا ہے:

فانه یجوز للشافعی ان یحکم بما یخالف به حکم الحنفی وکلاهما شرع محمدﷺ فانه قرر الحکمین فخالفت شرعه بشرعه، فاذ اتفق ان تخبر انبیاء الاولیاء فیما یعلمهم الحق من احکام شرع رسول اللهﷺ او یشهدون الرسولﷺ فیخبرهم بالحق فی امر یری خلافه احمد والشافعی ومالک وابوحنیفه لحدیث رووه صح عندهم من طریق النقل فوقفت علیه انبیاء الاولیاء وعلمت من طریقها الذی ذکرناه ان شرع محمدﷺ یخالف هذا الحکم وان ذلک الحدیث فی نفس الامر لیس بصحیح وجب علیهم امضاء الحکم بخالفه ضرورة، کما یجب علی صاحب النظر اذا لم یقم له دلیل علی صحة ذلک الحدیث وقام لغیره دلیل علی صحته وکلاهما قد وفی فی الاجتهاد حقه،فیحرم علی کل واحد من المجتهدین ان یخالف ما ثبت عنده وکل ذلک شرع واحد، فمثل هذا یظهر من انبیاء الاولیاء بتعریف الله انه شرع هذا الرسول، فیتخیل الاجنبی فیه انه یدعی النبوة وانه ینسخ بذلک شرع رسول اللهﷺ فیکفره۔وقد راینا هذا کثیرا فی زماننا وذقنا من علماء وقتنا، فنحن نعذرهم لانه ما قام عنده دلیل صدق هذه الطائفة وهم مخاطبون بغلبة الظنون۔ وهؤلاء علماء بالاحکام غیر ظانین بحمد لله، فلو وفوا النظر حقه لسلموا له حاله کما یسلم الشافعی للمالکی حکمه ولا ینقضه اذا حکم به الحاکم، غیر انهم رضی الله عنهم لو فتحوا هذا الباب علی نفوسهم لدخل الخلل فی الدین من المدعی صاحب الغرض فسدوه وقالو ان الصادق من هؤلاء لا یضره سدنا هذا الباب ونعم ما فعلوه۔ ونحن نسلم لهم ذلک ونصوبهم فیه و نحکم لهم بالاجر التام عند الله ولکن اذا لم یقطعوا بان ذلک مخطیء فی مخالفتهم فان قطعوا فلا عذر لهم فان اقل الاحوال ان ینزلوهم منزلة اهل الکتاب لا نصدقهم ولا نکذبهم، فانه ما دل لهم دلیل علی صدقهم ولا کذبهم، بل ینبغی ان یجروا علیه الحکم الذی ثبت عندهم مع وجود التسلیم لهم فیما ادعوه، فان صدقوا فلهم وان کذبوا فعلیهم

مفہوم: ’’(یہ اس معنی میں جائز ہے جیسے) امام شافعی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم دیں جو حنفی کے حکم کے خلاف ہو کہ دونوں ہی کو شرع محمدﷺ نے برقرار رکھا ہے، پس تم نے (ایک لحاظ سے) آپﷺ کی شریعت کی مخالفت کی لیکن آپﷺ ہی کی شریعت کی بنیاد پر۔ (اسی طرح) اگر ایسا ہو کہ انبیاء الاولیاء (یعنی محدثین) کو اللہ تعالی شریعت محمدی کے حوالے سے کسی درست بات کی خبر دیں یا آپﷺ سے ملاقات میں وہ انہیں حق بات بتائیں، جبکہ ابوحنیفہ، مالک، شافعی و حنبل رحمہم اللہ کسی روایت کردہ حدیث کی بنیاد پر اس سے اختلاف کرتے ہوں، لیکن انبیاء الاولیاء کو اس طرح، جس طرح ابھی ذکر گزرا، علم ہوا کہ آپﷺ کی شریعت دراصل اس کے خلاف ہے (جس کی طرف ان مجتہدین کا رجحان ہے) اور وہ حدیث (جس کی بنیاد پر ان ائمہ کی یہ رائے بنی) درست نہیں، تو ان انبیاء الاولیاء پر لازم ہے کہ اس حدیث کے خلاف (جس سے مجتہدین نے استدلال کیا) فیصلہ کریں جس طرح مجتہد کے لئے (اپنے اجتہاد پر) عمل واجب ہے جبکہ اس کے نزدیک دلیل سے کچھ ثابت ہوا اور دوسرے کے نزدیک اجتہاد سے کچھ اور دونوں ہی نے اجتہاد کا حق ادا کیا، ان میں سے ہر ایک پر حرام ہے کہ اپنے اجتہاد کی مخالفت کرے جبکہ یہ سب ایک شریعت ہی کے تحت ہے۔ اسی کی مثل اللہ کے (عطا کردہ) علم سے محدثین پر ظاہر ہوتا ہے کہ (فلاں بات) رسول کی شریعت ہے۔ اور ان سے نا آشنا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ لوگ دعویٰ نبوت اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر رہے ہیں اور وہ تکفیر کردیتا ہے۔ ہم نے اپنے زمانے میں یہ بہت دیکھا ہے اور اپنے زمانے کے علماء سے ایسی باتیں جھیلی ہیں۔ ہم ان کو معذور سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک گروہ اولیاء کی صداقت ثابت نہیں ہوتی، وہ غلبہ ظن ہی کے پابند ہیں۔ جبکہ اللہ کا شکر ہے کہ اولیاء احکام کو ظن سے جاننے والے نہیں ہوتے (بلکہ انہیں حق پر قلبی ٹھنڈک بھی میسر ہوتی ہے)۔ اگر یہ (علماء) غور و فکر کا حق ادا کرتے تو ان کی بات ایسے ہی تسلیم کرتے جیسے شافعی کسی مالکی کی بات تسلیم کرتا ہے اور اگر حاکم اس کے مطابق فیصلہ کرے تو وہ اسے توڑتا نہیں۔ البتہ اگر اولیاء (اس کشفی استنباط کا) دروازہ کھول دیتے تو صاحب غرض شخص کے دعویٰ کے سبب دین میں خلل واقع ہو جاتا۔ اسی لیے اولیاء نے اسے بند کر دیا اور کہا کہ سچے ملہم کو یہ دروازہ بند کرنے سے کوئی زیاں نہیں، حقیقت میں ان اولیاء نے یہ بہت ہی اچھا کیا اور ہم ان کی بات تسلیم کرتے ہیں اور انہیں درست قرار دیتے ہیں اور ان کے لیے اللہ کی بارگاہ میں اجر تام کے بھی قائل ہیں بشرطیکہ وہ قطعیت کے ساتھ یہ نہ کہیں کہ (صوفیا میں سے) ان کی مخالفت کرنے والا غلط ہے، اگر وہ قطعیت کے ساتھ ایسا کہیں تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ (اس ملہم کا) کم سے کم درجہ یہ ہے کہ وہ اہل کتاب کی مانند ہو کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں نہ تکذیب کیونکہ ان کے پاس ان کی سچائی یا جھوٹ کی کوئی دلیل نہیں۔ چنانچہ انہیں چاہئے کہ ان پر وہی حکم لاگو کریں جو ان کے نزدیک ثابت شدہ ہے، ان (اولیاء) کے دعوے (کا حق) تسلیم کرتے ہوئے۔ پس اگر وہ سچے ہیں تو اس کا نفع ان کے لیے اور اگر وہ جھوٹے ہیں تو اس کا وبال بھی انہی پر۔‘‘

چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ “انبیاء الاولیاء” محض شیخ کے نظام فکر میں استعمال ہونے والے تصور نبوت کی لغوی وسعت کی بنا پر جنم لینے والے الفاظ ہیں اور جو اپنے مفہوم و مرتبے کے اعتبار سے ملہم، محدث و مجتہد کے ہم معنی ہیں، اس کا اس نبوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جسے علم کلام و عقیدہ کی اصطلاح میں نبوت کہا جاتا ہے۔ اس تفصیل کو جاننے کے باوجود بھی اگر کوئی شیخ ابن عربی کے کلام کو مرزا قادیان کے ساتھ ملاتا ہے تو یا وہ مرزا کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہے اور یا وہ کند ذہن ہے۔ کہاں شیخ ابن عربی جو انبیاء الاولیاء کہہ کر ایسا مجتہد مراد لیتے ہیں جس کے لئے یہ روا نہیں کہ اپنے مخالف کو خطا کار کہے اور کہاں مرزا قادیانی جو اپنی بات کے منکرین کو کافر اور کنجریوں کی اولاد!

رہے ہمارے دور میں قادیانیوں کے وہ ہمدرد جو اپنی طرف سے مرزا کی باتوں کی تاویل کرکے یہ کہنے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ مرزا نے وہ نہیں کہا تھا جو بعد میں قادیانیوں نے کہا تو اس بحث میں ان “مدعی سست گواہ چست” محققین کی بات کی کوئی علمی حیثیت نہیں، مرزا صاحب کیا کہہ گئے اس کا تعین اب ان کی باتوں سے نہیں ہونا۔ لہذا یہ محققین اپنی یہ تاویل قادیانیوں سے منوائیں۔ یہ ہمدرد اس غیر حنفی محقق کی طرح ہیں جو کہتا رہے کہ قروء سے امام ابوحنیفہ تو “طہر” ہی مراد لیتے تھے البتہ بعد میں حنفیوں نے اسے “حیض” کہنا شروع کردیا، لہذا اس مسئلے میں اصلی حنفی مذہب “طہر” ہی ہے اور اور پھر اسے عدالت سے منوا کر حنفیوں پر لاگو بھی کرنا چاھے جبکہ سب حنفی حیض کہہ رہے ہوں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں