الہام کی حجیت کو سمجھنے میں لوگ شبہات کا شکار نظر آتے ہیں، آئیے امام غزالی رحمہ اللہ سے اس کی نوعیت سمجھتے ہیں۔ آپ کتاب “روضة الطالبین و عمدۃ السالکین” میں ایک باب “فی معرفة الخواطر و اقسامھا و محاربة الشیطان و قھرہ و التدبیر فی دفع شرہ” کے عنوان سے باندھتے ہیں، یعنی قلب میں پیدا ہونے والے خیالات اور ان کی اقسام کی معرفت کا بیان نیز اس چیز کا بیان کہ شیطان اس معاملے میں کس طرح حملہ آور و غالب ہوتا ہے اور اس سے بچنے کی تدابیر۔ اس کی ابتدا میں آپ واضح کرتے ہیں کہ بندے کے قلب میں جو بھی خیال پیدا ہوتا ہے اصلاً وہ خدا کی جانب سے ہوتا ہے کیونکہ الله ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ یہ خیالات چار اقسام پر مشتمل ہیں:
• وہ خیال جو الله بندے کے قلب میں ابتداء پیدا فرماتا ہے، اسے “خاطر محض” کہتے ہیں۔ یہ خیال بندے کے اکرام کے لئے کبھی اچھا ہوتا ہے اور کبھی اس کی آزمائش کے لئے ہوتا ہے
• وہ خیال جو بندے کے نفس کی خواہش سے ملائم اور اس کے موافق ہوتا ہے، اسے “خاطر نفسی” کہتے ہیں۔ یہ عام طور پر شر کے ساتھ ہوتا ہے مگر کبھی اس میں کسی پہلو سے خیر بھی ہوتا ہے
• وہ خیال جس کے ساتھ شیطان کی دعوت بھی شامل ہوتی ہے، اسے “وسوسہ” کہتے ہیں اور یہ شر ہوتا ہے، البتہ یہ خیال بطور مکر کبھی خیر کے بھیس میں بھی آتا ہے
• وہ خیال جو صرف خیر ہوتا ہے، اسے “الہام” کہتے ہیں اور یہ بندے کی نصیحت و راھنمائی کے لئے ہوتا ہے
صوفی فکر میں خواطر کی تمیز و تفریق اہمیت کی حامل ہے، اس لئے امام صاحب ہر قسم کو الگ کرنے کے پیمانوں پر بحث کرتے ہیں۔ الہام کی حجیت کے لحاظ سے یہاں چوتھے کی پہچان کی بات متعلق ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ خیر کے خیال کو شر کے خیال سے فرق کرنے کے تین پیمانے ہیں:
الف) اس خیال کو شریعت پر پیش کیا جائے، اگر وہ اس کی جنس سے ہو تو وہ خیر ہے، اور اگر اس کے خلاف ہو تو وہ شر
ب) اگر اس سے بھی بات واضح نہ ہو تو اسے صالحین کے عمل کے میزان پر تولو، اگر وہ ان کی اقتدا میں ہو تو خیر ہے ورنہ شر
ج) اگر اس سے بھی واضح نہ ہو تو نفس پر پیش کرکے دیکھو، اگر وہ نفس کی جانب راغب کرے لیکن رب کی اطاعت کی جانب میلان محسوس نہ ہو تو وہ شر ہے
قلب میں پیدا ہونے والے خیال کے الہام ہونے کا جو پہلا پیمانہ آپ پیش کرتے ہیں، یہ بعینہہ وہی پیمانہ ہے جسے قیاس کی بحث میں آپ تخریج مناط کہتے ہیں، امام صاحب نے کتاب “شفاء الغلیل” میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ شارع کے خطاب میں کسی وصف کو براہ راست کسی حکم کی علت نہیں بنایا گیا ہوتا بلکہ مجتہد شریعت کے مجموعی احکامات کے پیش نظر ان کے پس پشت مقاصد کو دیکھتے ہوئے ایک وصف کو حکم کی علت مقرر کرتا ہے۔ اسے مقاصد شریعت کی روشنی میں احکام کی علل مقرر کرنا کہتے ہیں (عام اس سے کہ وہ علت صرف توجیہہ احکام کے لئے ہو یا احکام پھیلانے کے لئے)۔ وہ وصف جو اس طرز سے حکم کی علت مقرر ہو اسے “جنس وصف” کہتے ہیں۔ “جنس وصف” و “جنس حکم” کے مد مقابل “عین وصف” و “عین حکم” کا تصور ہے جس کا مطلب کسی حکم کی وہ علت اور وہ حکم ہے جو نص میں براہ راست مذکور ہو، جیسے “خمر کی حرمت” عین حکم ہے کہ یہ معین خطاب میں مذکور ہے جبکہ بھنگ کو اس حکم میں شامل کرنا اس جنس حکم کی بنا پر ہے کہ شارع کے پیش نظر “ہر نشہ آور شے کی حرمت” ہے۔ اسی طرح بچے کے مالی امور کی ولایت ولی کے سپرد ہونے کے معاملے میں بچپن یا صغر عین وصف ہے لیکن اس حکم میں پاگل کو شامل کرنا اس جنس وصف کی بنا پر ہے کہ یہ معین حکم دیتے ہوئے شارع کے پیش نظر “مال میں تصرف کرسکنے سے عاجزی” ہے۔ “صغر” کے وصف کو “مال میں تصرف کرسکنے سے عاجزی” کی علامت مقرر کرنے کا خیال شریعت کے اس مقصد سے اعتبار حاصل کرتا ہے کہ مال کا تحفظ شریعت کا ایک مقصد ہے جو متعدد احکام سے ثابت ہے۔ اسی طرح “خمر” کو “ہر نشہ آور شے” کی علامت مقرر کرنا اس مقصد کی بنا پر معتبر ہے کہ شریعت “عقل کا تحفظ” چاہتی ہے۔ چنانچہ مقاصد شریعت یعنی احکام کے مجموعی مقاصد کے پیش نظر کسی عین وصف یا عین حکم سے جنس وصف یا جنس حکم کے سفر کو تخریج مناط کہا جاتا ہے اور اس عمل سے جو امور معلوم ہوں اسے کسی شے کے “شریعت کی جنس” سے ہونا کہا جاتا ہے جس کی متعدد مثالیں ہوسکتی ہیں (مثلاً ایصال ثواب کے لئے قرآن پڑھنا، جنگ میں کفار اگر چند مسلمانوں کو ڈھال بنالیں تو انہیں قتل کرنا جائز ہونا، فقہا کا یہ کہنا کہ مخصوص ایام میں خواتین کے لئے نماز کا تشبہہ اختیار کرنا مستحب ہے کہ نماز کی عادت جاتی نہ رہے، یا یہ کہنا کہ جب اصل حکم پر عمل ممکن نہ ہو تو شریعت ان کا بدل مقرر کردیتی ہے، یا حقیقت محمدیہﷺ کا تصور وغیرہ)۔
صوفیا کی “تفسیر اشاری” بھی اسی قبیل کی چیز ہے کیونکہ شریعت کے مقاصد میں صرف بندوں کے ظاہری مقاصد کی اصلاح نہیں ہے بلکہ قلبی احوال کی اصلاح بھی ہے۔ جس طرح تخریج مناط میں احوال ظاھریہ کے مقاصد کے پیش نظر بعض چیزوں کو سبب و مقصد کے تعلق (means-ends relationship) میں پرو کر انہیں بعض دیگر کی علامت (symbolized form) سمجھ کر کلام کا اعتباری مفہوم متعین کیا جاسکتا ہے، اسی طرح شارع کے پیش نظر باطنی احوال کی اصلاح کی رو سے بھی درجہ ظن میں کلام کے ایسے اعتبارات مقرر کرنا جائز ہے جن کے ذریعے بندہ کلام کے ظاہر کو اپنے باطنی احوال سے متعلق کرکے شارع کے ہاں مطلوب اصلاح نفس کی تحریک پاسکے۔ مثلا حضرت موسی علیہ السلام کو مقدس وادی میں قدم رکھنے پر رب کی جانب سے جو حکم دیا گیا کہ اپنے جوتے اتار دیجئے (فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى)، تو یہاں ظاہری معنی سے معلوم ہونے والے حکم کو ثابت مانتے ہوئے یہ باطنی معنی مراد لینا بھی جائز ہے کہ انہیں رب کی بارگاہ میں پیشی کے وقت اپنے قلب سے دنیا کے ہر خیال کو نکال دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا جوتا یہاں “دنیاوی خیال” کی علامت تھا اور وادی مقدس رب تعالی کی بارگاہ کی علامت تھی، اس لحاظ سے “جوتا اتارنے” کا عین حکم “قلب سے دنیاوی خیالات نکالنے” کے جنس حکم کی علامت تھا، نیز چونکہ بارگاہ خداوندی میں حاضری کے وقت شرع کو بندے کا یہ حال مطلوب ہے لہذا یہ باطنی تفسیر بھی جنس شریعت میں سے ہونے کی بنا پر درجہ ظن میں جائز ہوگی۔ ظاہری مقاصد کے پیش نظر تخریج مناط سے معلوم کردہ حکم جس طرح درجہ ظن میں دین ہوتا ہے، باطنی مقاصد کے پیش نظر معلوم ہونے والا حکم بھی درجہ ظن میں دین ہوتا ہے، اگرچہ درجات ظن میں فرق ہو اور یہ فرق خود تخریج مناط کی مختلف صورتوں میں بھی ہوتا ہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ قلب میں پیدا ہونے والے خیال کی صحت کا پیمانہ امام غزالی اس خیال کا جنس شریعت سے ہونا بتا رہے ہیں اور یہی تخریج مناط کے ذریعے کسی حکم کی “فلاں علت” ہونے کے خیال کے ظن کے درجے میں صحت مقرر کرنے کا پیمانہ ہے۔ اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں:
الف) صوفیا جسے الہام کہتے ہیں وہ شریعت سے کوئی ایسی اوبھری (alien) یا ماوراء شے نہیں ہوتی جو شارع کو مطلوب نہ ہو، چہ جائیکہ وہ خلاف شریعت بھی ہو۔ اگر وہ خیال خلاف یا ماورائے شریعت ہو تو اسے الہام نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ دیگر تین اقسام کے خواطر میں سے کوئی ایک ہوگا
ب) وہ علما جو تخریج مناط کے قائل ہیں وہ کشف و الہام کی حجیت کا اصولاً انکار نہیں کرسکتے، زیادہ سے زیادہ وہ کسی خاص الہام کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شریعت کے خلاف ہے یا اس کی جنس سے نہیں
ج) کسی شے کا جنس شریعت سے ہونا چونکہ ظنیات کی قبیل سے ہے لہذا اس باب میں علما کا اختلاف ہوجانا عام سی بات ہے۔ پس اگر ایک مجتہد یہ کہے کہ میرے نزدیک فلاں الہامی بات کا دعوی جنس شریعت سے نہیں تو اس کے باوجود وہ اس کے قطعی طور پر غلط ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ کسی کی تضلیل و تکفیر کرے۔ ہاں اگر وہ اس بات کا خلاف شریعت ہونا ثابت کرے تو الگ بات ہے، لیکن اس صورت میں دلیل اس کے ذمے ہے، الہام کا دعوی کرنے والے کے ذمے یہ دلیل دینا ہے کہ وہ خیال جنس شریعت سے ہے
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ صوفیا کلام سے معنی اخذ کرنے کے معیاری طرق سے باہر جاکر معنی اخذ کرتے ہیں انہیں قیاس میں تخریج مناط کی بحثوں کی جانب متوجہ ہونا چاہئے۔ درج بالا گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ صوفی ڈسکورس فہم کلام سے متعلق اصول فقہ کی اسلامی روایت کے پیش نظر ہی پروان چڑھا۔ جدید دور کے اکثر محققین کو چونکہ اصول فقہ کی بحثوں میں مہارت نہیں ہوتی، لہذا وہ الہام و کشف کا اسلامی علوم کی روایت سے ربط سمجھ نہیں پاتے۔ اسی لئے ہم ایسے ناقدین سے پوچھتے ہیں کہ آپ اپنی لینگویج تھیوری بتائیں، یعنی یہ کہ آپ کے نزدیک الفاظ کن طرق سے معنی پر دلالت کرتے ہیں۔
امام غزالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے کلام، قانون اور تصوف کو جمع کیا۔ درج بالا بحث کے پیش نظر اس بات کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے۔
کمنت کیجے