دوست کا سوال ہے کہ اگر فاضل درس نظامی بھی عالم نہیں ہے تو عالم پھر کون ہے؟ واضح رہے کہ عالم کا ایک لغوی معنی ہے یعنی صاحب علم کہ جس کے پاس زندگی کے کسی نہ کسی شعبے کے بارے کچھ نہ کچھ معلومات موجود ہوں۔ اس معنی میں فاضل درس نظامی بھی عالم ہے اور یونیورسٹی گریجویٹ بھی۔ البتہ ہم جس عالم کی یہاں بات کر رہے ہیں، وہ شرعی معنی میں عالم ہے یعنی وہ علماء جو انبیاء کے وارث ہیں۔ یہ علماء کون ہیں؟ دیکھیں، جب ہم عالم کی شرعی تعریف متعین کرنا چاہیں گے تو ہم عرف سے نہیں کریں گے بلکہ کتاب وسنت سے کریں گے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
واضح رہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جبکہ منزل من اللہ نصوص میں علماء کے فضائل اور مراتب بیان ہو رہے تھے، نہ تو مدارس تھے اور نہ ہی درس نظامی کے مروجہ کورسز۔ صحابہ کرام کی جماعت اس امت کے بہترین علماء ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن وہ نہ تو کسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے اور نہ ہی ان کے پاس کسی قسم کی درس نظامی پاس ڈگری یا سرٹیفیکیٹ تھا۔ یہی معاملہ تابعین اور تبع تابعین کا بھی تھا کہ وہ بھی کسی مدرسے کے فارغ التحصیل یا کسی مخصوص اور متعین سلیبس سے گزرے ہوئے علماء نہ تھے۔ پس سوال یہ ہے کہ خیر القرون کے علماء جو اس امت کے بہترین علماء تھے، تو وہ کس بنیاد پر علماء تھے؟ ان کے علماء ہونے یا کہلانے کی وجہ اور سبب کیا ہے؟ اور یہی وہ علماء ہیں کہ جن کی کتاب وسنت میں تعریف بیان ہوئی ہے لہذا ان علماء کے بارے جاننا ضروری ہے۔
قرآن مجید نے آیت مبارکہ (أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ) میں علماء ان کو کہا ہے جو زمین وآسمان میں غور وفکر کے نتیجے میں اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ معرفت ان کے دلوں میں خشیت الہی کے پیدا ہونے کا باعث بن جاتی ہے۔ علم، اصل میں معرفت الہی کا علم ہے جو آفاق وانفس میں غور وفکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پس جب کوئی بندہ اپنے رب کی حقیقی کبریائی اور عظمت کو دل سے جان لیتا ہے تو اس کے دل میں خشیت پیدا ہوتی ہے۔ ایسے عارف باللہ کو قرآن مجید عالم کا نام دیتا ہے۔
سلف صالحین نے عالم کے معنی ومفہوم میں معرفت الہی، قلبی کیفیات واحوال اور علم نافع کو بہت اہمیت دی ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اسی آیت کے معنی ومفہوم میں یہ تفسیر مروی ہے کہ علماء وہ ہیں، جو اس بات کی معرفت رکھتے ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ انہی سے ایک اور تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ علماء وہ ہیں جو اللہ کی معرفت رکھتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ علم کثرت روایت کا نام نہیں ہے بلکہ علم تو خشیت الہی کو کہتے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ علم کثرت روایت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ نور ہے جو اللہ عزوجل اپنے بندے کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عالم وہ ہے کہ جس میں خشیت الہی ہو۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ علم تو وہ ہے جو علم نافع ہو یعنی اس پر انسان کا عمل ہو، اور جو صرف حافظے اور میموری کا حصہ ہو، وہ علم نہیں ہے۔ علم نافع کیا ہے؟ تابعین میں سے عبد الاعلی التیمی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اگر کسی صاحب علم کو اس کا علم رلاتا نہ ہو تو اس کا علم، علم نافع نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات کی دلیل کے طور یہ آیت مبارکہ پڑھی: إِنَّ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡعِلۡمَ ترجمہ: اس سے پہلے جو أصحاب علم تھے، جب ان پر آیات تلاوت کی جاتی تھیں تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے تھے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ علم دو قسم پر ہے؛ ایک وہ جو دل میں ہے، یہ علم نافع ہے یعنی مفید اور نفع بخش علم ہے۔ دوسرا وہ جو زبان پر ہے تو یہ انسان کے خلاف حجت ہو گا۔
شیخ وہبہ الزحیلی نے آیت مبارکہ «إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عَبَادِهِ الْعُلَمَاءُ» کی تفسیر میں لکھا ہے کہ کائنات میں غور وفکر کرنے والے سائنسی علوم کے ماہرین بھی اس آیت کا مصداق ہیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک صاحب ایمان ماہر طبیعیات پر کائنات کی وسعتیں اور ایک مومن ماہر طبیب اور فزیشن پر انسانی وجود کی پیچیدگیاں جس طرح ظاہر اور واضح ہوتی ہیں اور اس کے دل پر اللہ کی عظمت اور برائی کا نقش ثبت کرتی ہیں، دیگر علوم کے ماہرین کو اس کا تجربہ اس طرح نہیں ہوتا ہے۔ اللہ اکبر کسی فاضل درس نظامی کے لیے اللہ اکبر ہے یعنی مجرد اس کا معنی کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ لیکن ایک صاحب ایمان ماہر طبیعیات کے لیے اس کا معنی بہت بڑا اور بیان سے باہر ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کائنات کے رازوں کی بابت بعض سائنسدانوں کے اقوال کا جب مطالعہ کریں تو ان میں کئی ایک ایسے ہیں کہ کائنات کی وسعتیں بیان کرتے وقت ان کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید اس کائنات میں غور وفکر کی بار بار دعوت دیتا ہے لہذا پچھلی اقوام کی تاریخ میں غور وفکر سے سبق سیکھے یا زمین وآسمان میں بکھری اللہ کی نشانیوں پر غور کرے اور اللہ کی عظمت وکبریائی کا قائل ہو اور اس کا قلب خشیت الہی سے معمور ہو جائے، دونوں صورتوں میں وہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے سبب عارف باللہ ہو کر عالم کہلائے گا۔ وہ عالم کہ جسے قرآن مجید نے عالم کہا ہے نہ کہ عرفی عالم۔ عرف میں عالم اسی کو کہتے ہیں کہ جو مدرسہ سے فارغ التحصیل ہو۔
قرآن مجید میں علماء کے علاوہ دو اور اصطلاحات بھی استعمال ہوئی ہیں اور وہ ربانیوں اور احبار کی اصطلاحات ہیں۔ ربانیوں، ربانی کی جمع ہے۔ بعض نے اسے رب سے نسبت مانا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ عربی نہیں بلکہ سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، مجاہد، حسن بصری، قتادہ، ضحاک اور سدی رحمہم اللہ وغیرہ نے ربانی کا معنی فقہاء کیا ہے۔ احبار، حبر کی جمع ہے اور اس کا معنی علماء کیا گیا ہے۔ دونوں مصطلحات میں بہترین فرق امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے کیا ہے کہ ربانیون سے مراد وہ فقہاء ہیں جو دین کی گہری بصیرت کے علاوہ امور ومصالح دنیوی اور سیاست کو بھی سمجھتے ہوں جبکہ احبار سے مراد محض علماء ہیں جو رتبے اور درجے میں ربانیون سے کم ہیں۔
قرآن مجید جب ربانیون اور احبار کا تذکرہ کرتا ہے تو ان کی مدح بھی کرتا ہے اور ان پر تنقید بھی کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں ہے کہ ربانی وہ علماء ہیں جو کتاب کی درس وتدریس میں مشغول رہتے ہیں: وَلَٰكِن كُونُواْ رَبَّٰنِيِّـۧنَ بِمَا كُنتُمۡ تُعَلِّمُونَ ٱلۡكِتَٰبَ وَبِمَا كُنتُمۡ تَدۡرُسُونَ [آل عمران: 79]۔ سورۃ المائدہ میں ہے کہ ربانیون اور احبار، اللہ کی کتاب کے محافظ ہوتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلے کرنے والے ہوتے ہیں: يَحۡكُمُ بِهَا ٱلنَّبِيُّونَ ٱلَّذِينَ أَسۡلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَٱلرَّبَّٰنِيُّونَ وَٱلۡأَحۡبَارُ بِمَا ٱسۡتُحۡفِظُواْ مِن كِتَٰبِ ٱللَّهِ وَكَانُواْ عَلَيۡهِ شُهَدَآءَ [المائدة: 44]۔ ان دونوں قرآنی مقامات پر تو ربانیوں اور احبار یعنی فقہاء اور علماء کی مدح بیان ہوئی ہے جبکہ سورۃ المائدہ میں ہی ایک مقام پر ان کی مذمت میں کہا گیا ہے کہ یہ عامۃ الناس کو گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے روکتے کیوں نہیں ہیں؟ لَوۡلَا يَنۡهَىٰهُمُ ٱلرَّبَّٰنِيُّونَ وَٱلۡأَحۡبَارُ عَن قَوۡلِهِمُ ٱلۡإِثۡمَ وَأَكۡلِهِمُ ٱلسُّحۡتَۚ لَبِئۡسَ مَا كَانُواْ يَصۡنَعُونَ [المائدة: 63]۔ ایک اور جگہ سورۃ التوبہ میں عوام الناس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ احبار اور رہبان کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیتے ہیں: ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَٰنَهُمۡ أَرۡبَابٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِ [التوبة: 31]
قرآن مجید میں ربانیون اور احبار کی جو صفات بیان ہوئی ہیں، ان کے مطابق در اصل یہی وہ علماء ہیں کہ جنہیں عرف میں علماء کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق یہ کتاب اللہ کی درس وتدریس میں مشغول رہتے ہیں، یہ کتاب اللہ کے محافظ ہیں، یہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرنے والے ہوتے ہیں، یہ اگر بگڑ جائیں تو امر بالمعروف کا کام تو کریں گے، نہی عن المنکر کا کام نہیں کر پائیں گے۔ اسی طرح اگر ان میں کرپشن اور بڑھ جائے تو عوام الناس انہی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر بٹھا دیتے ہیں۔ سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت کی بابت جب عدی بن حاتم الطائی رضی اللہ عنہ نے عیسائیت سے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ سے شکوہ کیا کہ قرآن مجید ہمارے بارے یہ کہتا ہے کہ ہم اہل کتاب نے اپنے علماء اور صوفیاء کو رب بنا لیا تھا جبکہ ایسا تو نہ تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ایسا نہیں تھا کہ جب تمہارا کوئی عالم یہ کہتا ہے کہ یہ حلال ہے تو تم اس کو حلال سمجھ لیتے اور جب وہ اس کو حرام کہتا تو تم اسے حرام قرار دیتے،اور یہی تو ان کو رب بنا لینا تھا یعنی فائنل اتھارٹی تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں نہ کہ فقہاء وعلماء اور صوفیاء وبزرگان دین۔ لہذا علماء کو فائنل اتھارٹی بنا کر ان کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھ لینا اور کتاب وسنت کی طرف براہ راست رجوع نہ کرنا ہی ان کو رب بنا لینا ہے۔ تو ربانیون، احبار اور رہبان یہ سب راہرو منزل اور راہبر ہیں، خود منزل نہیں ہیں یعنی رستہ دکھانے والے ہیں، منزل مقصود نہیں ہیں۔ منزل مقصود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق علماء وہ ہیں جو عارف باللہ ہیں اور انہیں یہ معرفت الہی اس کائنات میں غور وفکر کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس معرفت الہی کے نتیجے میں ان کے قلوب میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔ اور خشیت سے مراد وہ ڈر ہے جو خالق کی عظمت اور کبریائی کی معرفت کے نتیجے میں دل میں پیدا ہو۔ اور وہ ڈر جو اپنے گناہوں پر سزا کے تصور سے ہو، تو اسے خوف کہتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید ہے: ويخشون ربهم ويخافون سوء الحساب۔ ایک فاضل درس نظامی اور یونیورسٹی گریجویٹ دونوں اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کے نتیجے میں معرفت الہی حاصل کر کے عالم کے درجے پر فائز ہو سکتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ لَأٓيَٰتٖ لِّأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ ٱلَّذِينَ يَذۡكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَٰمٗا وَقُعُودٗا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمۡ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هَٰذَا بَٰطِلٗا سُبۡحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ [آل عمران]
رہے ربانیون اور احبار تو یہی وہ ہیں جو مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ یہی کتاب اللہ سے فتوی دیں گے اور اس کے اہل بھی یہی ہیں۔ لیکن قرآن مجید جب ان کا بھی تعارف کرواتا ہے تو اس انداز میں کہ یہ کتاب اللہ کی درس وتدریس میں مشغول، کتاب اللہ کے محافظ، کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرنے والے ہیں۔ لیکن اب کے مدارس کے نصاب میں کتاب اللہ یعنی قرآن مجید کو اس طرح سے فوکس نہیں کیا جاتا جیسا کہ کیا جانا چاہیے۔ عموما مدارس میں جن مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے تو وہ معاون فنون ہیں جیسا کہ صرف ونحو، منطق وبلاغت، اصول تفسیر واصول حدیث، عقیدہ واصول فقہ، فقہ ووراثت وغیرہ۔ قرآن اور حدیث کو بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ اور جو وقت دیا بھی جاتا ہے تو اس میں بھی قرآن وحدیث کو جدلی یعنی مناظرانہ انداز میں پڑھایا جاتا ہے نہ کہ معرفت الہی کے لیے۔ اسی لیے مدارس میں قرآن وحدیث تربیت کے مضامین نہیں بن پاتے بلکہ مجادلے ومناظرے کے مضامین بن جاتے ہیں۔ لہذا کتاب وسنت کا اصل مقصود فوت ہو جاتا ہے یعنی معرفت باری تعالی اور اس کے نتیجے میں تربیت نفس۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سوشل میڈیا پر بھی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کو دیکھ لیں کہ مجادلہ اور مناظرہ خوب کر پاتے ہیں لیکن تربیت وتزکیہ میں ناکام ہیں۔ ہم اس وقت تک کتاب وسنت کو معرفت الہی کا ذریعہ نہیں بنا سکتے جب تک کہ انہیں تذکیری اور تربیتی انداز اور اسلوب میں نہ پڑھائیں۔ اور بد قسمتی سے یہ کام ربانیون، احبار اور رہبان کا تھا لیکن کر برادرز رہے ہیں اور اسی وجہ سے عامۃ الناس ان برادرز سے جڑ رہے ہیں اور یہ معاصر احبار ورہبان کو برداشت نہیں ہو رہا ہے۔
ہم مروجہ درس نظامی کے خلاف نہیں ہیں البتہ اس کے انداز تدریس اور سلیبس کے حوالے سے بہت سے تحفظات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خود کئی ایک سالوں سے یونیورسٹی گریجویٹس کو جدید انداز میں درس نظامی پڑھا رہے ہیں اور انہیں علماء بنا رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ یونیورسٹی گریجویٹس ہی ہیں، جو اس گیپ یعنی علماء کے گیپ کو فل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ انہیں اس دین کی طرف راغب کر لیا جائے۔ لیکن جتنا ہم انہیں دین سے قریب کرتے ہیں، اتنا ہی احبار ورہبان انہیں دین سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت احبار ورہبان میں علماء نہ ہونے کے برابر ہیں، خال خال ہیں۔ جو اکثریت ہے، وہ مجادلے میں مشغول ہے اور اپنی صلاحیتیں اور اوقات خوب ضائع کر رہے ہیں۔ رہے عامۃ الناس تو ان کی اکثریت نے ان کو رب بنایا ہوا ہے اور خوب علماء پرستی ہو رہی ہے۔ یہ واضح رہے کہ خیر القرون کے دور میں تو علماء کا جو مفہوم تھا، وہ کتاب وسنت والا ہی غالب تھا لیکن بعد ازاں ربانیون اور احبار کے لیے بھی علماء کے لفظ کا اطلاق شروع ہو گیا تھا، یہ علماء کا عرفی مفہوم ہے، شرعی نہیں۔ البتہ ربانیون اور احبار میں علماء ہو سکتے ہیں، تو ہو سکتے ہیں بشرطیکہ علماء کی قرآنی صفات ان میں موجود ہوں یعنی کائنات میں غور وفکر کے نتیجے میں معرفت رب اور پھر خیشت الہی۔
جزاکم اللہ خیرا
کمنت کیجے