قرآن کی داخلی شہادتوں اور مستند احادیث کے برعکس جمع و تدوین قرآن کی جو کہانی سب سے زیادہ مقبول ہے وہ یہ ہے کہ مکہ بلکہ عرب میں نوشت و خواند کے اسباب بہت کم تھے اور کہیں کہیں گنتی کے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے. قرآن ہر چند کہ لکھا جاتا رہا لیکن اہل ایمان کی نجی کاوشیں تھیں اور دستیاب مواد مثلا پتوں، ہڈیوں، لکڑی اور پتھر کی تختیوں پر لکھا جاتا. عہد نبوی میں اسے ایک کتاب کی شکل میں مدون نہیں کیا جا سکا تھا. جنگ یمامہ میں بکثرت حفاظ شہید ہونے کے باعث قرآن کے مفقود ہونے کا خطرہ پیدا ہوا جس کے مداوا کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے لوگوں کے مذکورہ بالا نجی نوٹس کی مدد سے ایک کاپی تیار کی. اسے پڑھنے پر معلوم ہوا کہ سورہ توبہ کی آخری دو آیات نہیں ہیں. تلاش کی گئی تو ایک صحابی کی پاس سے وہ دو آیات مل گئیں. یہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہوا ان کی شہادت کے بعد سیدہ حفصہ کی تحویل میں آ گیا. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراات کے اختلافات ختم کرنے کے لیے اس کی مزید کاپیاں کراوئیں تو معلوم ہوا سورہ أحزاب کی ایک آیت کم ہے. اسے پورا کیا گیا. دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی کمیٹی میں ایک آیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ لے کر آئے وہ قبول نہیں ہوئ، ابن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایات کو اہمیت نہیں دی گئی. کچھ اور گواہیاں بھی مقبول نہیں ٹھہریں. انہیں روایات کی بنیاد پر منٹگمری واٹ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مواد کتابت کی کمیابی کی وجہ سے کچھ آیات سیاق و سباق سے ہٹ کر یادداشت کے لیے جھلی کے حواشی پر یا پچھلی طرف لکھ لی گئی تھیں جنہیں بعد میں قرآن کی مختلف سورتوں میں درج کر دیا گیا جس کی وجہ سے ان آیات کا ماسبق اور مابعد سے ربط نہیں رہا.
اس حوالے سے انہوں نے درج ذیل آیات کی نشان دہی کی ہے
البقرہ :20 _22 ،186، 285-286 ‘النساء، 88، الأنعام، 141_144، الأعراف، 57_58، التوبہ، 40،127_128، الحج، 5_8، الزمر، 75، المدثر، 31، القیامہ 16_19، النبأ، 33_34، العبس، 34-37، الانشقاق، 16_19، الغاشیہ 6_7، 17_20.
اس پہلو سے فقہاء کا زاویہ نگاہ بہت واضح ہے کہ
قرآن متواتر ہے اور دونوں پہلوؤں سے یعنی تحریر اور حفظ دونوں اعتبار سے شروع سے متواتر رہا ہے. اس کے نزول کی ترتیب مختلف ہونے اور نزول کا وقت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے جب بھی کوئی حصہ نازل ہوتا آپ اسے لکھوا دیتے، مردوں اور عورتوں کو پڑھاتے، یاد کرواتے اور فوری طور پر جسے جو شے میسر ہوتی اس پر لکھ لیتا، بعد میں اسے اپنی مستقل کاپی میں نقل کر لیتا. ہر سال رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے مہینے میں اس وقت تک کے نازل شدہ حصے کو مدون اور مرتب کروا دیتے. آخری سال کے رمضان میں آپ نے دوبار یہ عمل دھرایا اور بڑی تعداد میں صحابہ کرام نے اپنے اپنے نسخوں کو اس کی روشنی میں مدون کر لیا. ایک ماسٹر کاپی مسجد نبوی میں أسطوانة المصحف کے پاس ایک صندوق میں موجود ہوتی اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام کے پاس اپنے ذاتی مکمل نسخے بھی تھے. قرآن کی کوئی آیت غیر متواتر نہیں رہی.
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا آغاز ایسے لفظ سے کیا گیا جس سے تعلیم کا آغاز ہوتا ہے یعنی اقرأ اور تکمیل کا اعلان ہزاروں افراد کی موجودگی میں الیوم اکملت لکم دینکم سے کر کے اسے لاریب کر دیا گیا.
آئیے امر واقعہ جانتے ہیں
جمع و تدوین قرآن پر دو مختلف ورژن ہیں اور دونوں کی تائید روایات سے حاصل کی جاتی ہے. ایک یہ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم پورا قرآن ایک جلد میں مدون کر کے چھوڑ گئے تھے. دوسرا یہ کہ جنگ یمامہ کے بعد عہد صدیقی میں ایک کمیٹی نے لوگوں سے مخطوطات جمع کر کے اسے مدون کیا. ہر فریق دوسرے کے رواۃ کو تنقید کی سان پر کستا ہے اور اپنے رواۃ کو عصمت جبریل کی ردا پہنا دیتا ہے. سارے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ
قرآن جو موجودہ ترتیب سے نازل نہیں ہوا تھا اس کی سورتوں کی داخلی ترتیب رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم شروع میں ہی کرواتے رہتے تھے کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو اس کی جگہ متعین کروا دیتے. اس طرح قرآن سور کی شکل میں آپ کے پاس اور متعدد صحابہ کرام کے پاس موجود تھا جسے قرآن نے کتب قیمہ اور صحفا مطھرۃ کے الفاظ سے بیان کیا لیکن سورتوں کی باہمی ترتیب کیا تھی اسے آپ نے عرضہ اخیرہ میں تعلیم فرما دیا. آپ کی حیات طیبہ میں یہ اعلان نہیں ہوا کہ مزید کوئ آیت نازل نہیں ہوگی اگرچہ دین کی تکمیل کا اعلان ہو گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ نیا کوئی حکم نہیں آئے گا لیکن کوئی بھی تائیدی آیت نازل ہو سکتی تھی اس لیے آپ نے اس کی فائنل بائنڈنگ نہیں کروائ. تاہم لوگوں کے حفظ و کتابت کے نسخے تواتر کی حد تک تھے. یمامہ میں بہت سے صحابہ کی شہادت نے ایک وقتی توجہ دلائی کہ سرکاری نسخہ کو آخری شکل دے دی جائے. اس وقت کرنے کا اصل کام صرف یہ تھا کہ موجود دستاویز کی عرضہ اخیرہ کی روشنی میں Pagenation اندراج صفحات کا کام کر دیا جائے، کیونکہ قرآن کی مکمل فائل کے loose pages سارے کے سارے موجود تھے، اسے مزید موثق بنانے کے لیے اعلان عام کے ذریعے لوگوں سے ان کی ذاتی دستاویزات سے اصل کا موازنہ کر لیا گیا اور تمام سور کو عرضہ اخیرہ کے مطابق ایک کتاب کی شکل دے کر اس کی Binding کر دی گئی. یہ تھا عہد صدیقی کا جمع و تدوین قرآن کا پراجیکٹ. جو بڑے حفاظ صحابہ کرام اس پراجیکٹ میں شریک نہیں تھے انہوں نے اپنی پرانی ذاتی ترتیب باقی رکھی.
ذرا سی بات تھی اندیشہء عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
کمنت کیجے