Home » لفظ سے ظاہر ہونے والے معانی کے درجات: احناف کا طریقہ بحث
اسلامی فکری روایت زبان وادب کلام

لفظ سے ظاہر ہونے والے معانی کے درجات: احناف کا طریقہ بحث

ہمارے دور کی ایک سادہ فکری اگر یہ بات ہے کہ “قرآن اور اللہ کی وحی میں یہ بات آئی ہے تو گویا ہر بات قطعی ہی ہوگی” تو دوسری سادہ فکری یہ شکوہ ہے کہ “فقہا نے احکام کے اتنے درجے کہاں سے بنا دئیے؟” ایسی باتیں دراصل اصولی ذہن نہ ہونے کے شاخسانے ہیں جنہیں یہ ادراک نہیں کہ خطاب یعنی لینگویج سے معنی کیسے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ احناف کی لینگویج تھیوری کے ایک باب سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ 

لفظ معنی پر تین طرح دلالت کرتا ہے: بطریق وضع (by         way        of stipulation)، بطریق عقل اور بطریق حس (اس آخری کو اگنور کیجئے)۔ بطریق وضع دلالت یا تو کسی خاص متکلم کی جانب سے ہوگی اور یا مخاطبین کی جانب سے لفظ کے استعمال کی بنا پر۔ اگر دلالت بطریق عقل کو مخاطبین کے استعمال کی جانب لوٹا دیا جائے تو لفظ کے معنی جاننے کے دو ذرائع ہوئے: (الف) مخاطبین کا استعمال اور (ب) متکلم کی جانب سے خصوصی استعمال یا کوئی اصطلاحی معنی وضع کرنا۔ احناف کسی عبارت میں مستعمل لفظ سے ظاہر ہونے والے معنی کو یوں تقسیم کرتے ہیں:

1) لفظ سے ثابت ہونے والے معنی کا رجحان کسی ایک جانب ایسا قطعی ہو کہ خود متکلم کے مزید خطاب سے بھی یہ ثابت شدہ معنی و حکم نسخ (abrogation) کو قبول نہ کرے، اس درجے پر ثابت معنی کو “محکم” کہتے ہیں۔ اس درجے میں حسن و قبح عقلی سے ثابت ہونے والے چند احکام کا شمار ہوتا ہے جیسے شکر منعم کا واجب ہونا اور کذب کا قبیح ہونا (یعنی شارع کی جانب سے ایسا خطاب نہیں ہوسکتا جو ان احکام کو بدل دے)۔ ایسے احکام جن کے ساتھ ہمیشگی کے معنی دینے والے الفاظ آئیں، یہ بھی نسخ کو قبول نہیں کرتے (جیسے وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا)۔

2) لفظ سے ثابت ہونے والا معنی و حکم نسخ کے احتمال کو تو قبول کرے مگر تخصیص و تقیید (specification        and particularization) یا مجازی معنی مراد ہونے کے احتمال کو قبول نہ کرے، اسے “مفسر” کہتے ہیں۔ یہاں متکلم عام و مطلق (general      and        unqualified) الفاظ میں دئیے گئے حکم کے ساتھ ایسے اضافی کلمات ادا کرتا ہے جو تخصیص و تقیید اور مجازی معنی کے احتمال کو ختم کردیں، جیسے فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ میں لفظ “کل” کے استعمال سے تخصیص (یعنی بعض فرشتے مراد ہونے) کا احتمال رفع ہوجانا۔

3) لفظ سے ثابت ہونے والے معنی کسی ایک جانب یقین کا ایسا رجحان رکھیں کہ صرف یقین پیدا کرنے والے مخالف قرینے ہی سے وہ تخصیص و تقیید اور مجاز کو قبول کریں۔ انہیں “نص” و “ظاہر” کہتے ہیں (ان دونوں درجات کے مابین تھوڑا فرق ہے جسے فی الوقت اگنور کیجئے)۔ یہ قرآن و سنت میں مذکور عام و مطلق الفاظ سے ثابت ہونے والے احکام ہیں جو نصوص میں مذکور قرائن کی روشنی میں مجاز اور تخصیص و تقیید کو قبول کرتے ہیں لیکن مختلف شرائط کے ساتھ۔

درج بالا تینوں میں یہ بات مشترک ہے کہ لفظ کے استعمال سے کوئی ایک معنی ابتدائی طور پر اس طرح متعین ہوجاتا ہے کہ کلام کے کسی دوسرے حصے کی جانب رجوع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ البتہ ابتدئی طور پر معلوم ہونے والے یہ معنی اپنے مفہوم میں کمی بیشی اور تبدیلی کے دو قسم کے احتمالات رکھ سکتے ہیں:

الف) حقیقت و مجاز اور تخصیص و تقیید، یہ نص و ظاھر کے درجے والے معنی کو لاحق ہوتا ہے

ب) نسخ، یہ مفسر کے درجے والے معنی کو لاحق ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ نص و ظاھر کو نسخ کا احتمال بھی ہوتا ہے

رہا محکم کا درجہ تو اس کے مفہوم میں تبدیلی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔

اس کے بعد معنی کے وہ درجات آتے ہیں جہاں ابتدائی کلام سے معلوم ہونے والے معانی کے یا مصداق میں عدم ظہور ہوتا ہے اور یا پھر معنی ہی مفہوم ہونے میں مشکل درپیش ہوتی ہے۔ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:

1) لفظ کے وضعی معنی تو ایک جانب واضح رجحان لئے ہوتے ہیں تاہم اس کے مصداق متعدد ہوجانے کی بنا پر یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ کونسی صورت لفظ کے معنی میں شامل ہے اور کونسی نہیں۔ جیسے لفظ سارق (چور) کا جیب کترے یا کفن چور پر اطلاق کرنے کا مسئلہ یا مثلاً زانی کا اطلاق لوطی پر کرنے کی بحث۔ یہاں اصل لفظ (مثلا زانی) سے ثابت ہونے والے دیگر مصداقات کے لئے زبان میں الگ الفاظ ہوتے ہیں (جیسے لوطی) اور بحث یہ ہوتی ہے کہ کیا دیگر الفاظ کے مفاہیم بھی پہلے لفظ کے مفہوم میں شامل ہیں یا نہیں؟ اسے “مخفی” کہتے ہیں جو خفا کا سب سے کم درجہ ہے۔

2) مخفی بعد عدم ظہور کا اگلا درجہ یہ ہے کہ لفظ کے بطریق وضع ایک سے زائد ایسے معانی ہوں کہ ہر جانب کا رجحان مساوی ہو، اسے “مشترک” کہتے ہیں۔ یہاں دو میں سے کسی ایک جانب کو ترجیح دینے کے لئے کلام کے داخلی قرائن کے اندر زبان کے اسالیب کی رو سے کسی ایک جانب کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی مثال “قروء” ہے۔ اگر قطعی دلائل سے مشترک کسی ایک جانب رجحان رکھے تو یہ مفسر ہوجاتا ہے اور اگر ظنی دلائل سے ایک جانب رجحان رکھے تو مؤول۔

3) اگر متکلم کوئی ایسا لفظ بولے جس کا معنی مخاطبین کے ہاں لفظ کے عام استعمال سے طے نہ ہوسکے تو اب دیکھنا ہوگا کہ کیا خود متکلم نے اس کی وضاحت کی ہے یا نہیں کی۔ اگر متکلم نے وضاحت کی ہو تو اسے “مجمل” کہتے ہیں اور اگر نہ کی ہو تو “متشابہ”۔ مجمل کی مثال لفظ صلوۃ ہے کہ عربی لغت میں اس کے جو معانی ہیں متکلم (یعنی شارع) کے ہاں وہ مراد نہیں بلکہ اس نے خود اس کا ایک خاص مفہوم مقرر کیا ہے۔ اسی طرح لفظ “لیلة القدر” ہے کہ متکلم کی وضاحت کے بغیر اس کا معنی و حقیقت محض لغت کی بنا پر نہیں جانی جاسکتی۔ اگر متکلم صرف “لیلة القدر” کہہ کر خاموش ہوجاتا اور اس کی وضاحت نہ کرتا تو یہ متشابہ میں شمار ہوتا۔ اس کی ایک اور مثال “القارعة” ہے۔ مجمل کی جب وضاحت ہوجائے تو بقدر وضوح دلیل وہ مفسر یا مؤول ہوجاتا ہے۔ پس جس لفظ کا معنی نہ مخاطبین کے ہاں لفظ کے استعمال سے جانا جاسکے اور نہ ہی متکلم اس کی وضاحت کرے، تو اسے متشابہہ کہتے ہیں جس کی مثال لفظ “ید اللہ” ہے۔ مشترک کے برخلاف مجمل و متشابہ کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ لفظ ایک سے زیادہ معانی کا اس طرح محتمل ہوجاتا ہے کہ مخاطبین کے استعمالات سے کسی ایک جانب کو ترجیح دینا ممکن نہیں رہتا۔

اگر اس تقسیم کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام فہمی کے عمل میں الفاظ سے مفہوم ہونے والے معانی کو لاحق ہوسکنے والے درج ذیل احتمالات کے اعتبار سے ہے:

ا۔ اس بات کا احتمال کہ کوئی لفظ متکلم کی ایسی خاص پوشیدہ بات یا اصطلاح ہو جسے وہ کسی وجہ سے عام مخاطبین کو نہیں بتانا چاہتا (مثلا یہ کہ مخاطبین اسے سمجھ نہیں سکتے) اور نہ ہی زبان میں اس لفظ کے عام استعمالات سے اس کا تعین ہوسکتا ہے، یہ متشابہ ہے

2۔ اس بات کا احتمال کہ کوئی لفظ متکلم کی خاص اصطلاح ہو جس کا مفہوم اس کے نزدیک مخاطبین کے ہاں مستعمل عام مفاہیم سے مختلف ہے اور اس نے وہ مفہوم بتا دیا ہے، اسے مجمل کہتے ہیں

3۔ اس بات کا احتمال کہ لفظ ایک سے زائد مساوی معانی کا حامل ہو

4۔ اس بات کا احتمال کہ ایک لفظ کے سوا دیگر الفاظ سے جو قریب المفہوم معانی ثابت ہوتے ہیں وہ بھی اس خاص لفظ کے مفہوم میں شامل ہوں

5۔ اگرچہ لفظ سے کوئی خاص معنی ثابت ہوئے لیکن اس بات کا احتمال کہ متکلم نے دیگر مقامات پر اس مفہوم کی تحدید (تخصیص و تقیید) کی ہو یا اسے مجازی معنی میں استعمال کیا ہو

6۔ اگرچہ لفظ سے کوئی خاص معنی اس طرح ثابت ہوئے کہ دیگر نظائر سے اس میں تحدید کا امکان نہیں لیکن یہ احتمال ہو کہ حکم منسوخ کردیا گیا ہو یا کردیا جائے

ہر درجے سے ثابت ہونے والے شرعی احکام الگ ہیں، ظاہر ہے جب متکلم نے ہر ہر مقام پر ایک ہی درجہ وضوح و قطعیت پیدا کرنے والے الفاظ میں کلام نہیں کیا تو سب الفاظ سے ثابت ہونے والے احکام بھلا ایک جیسے درجے اور شرعی حکم کے حامل کیوں کر ہوسکتے ہیں؟ ایسا مفروضہ کلام فہمی کے اصولوں سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

احناف سمیت دیگر اصولیین “بیان” کی جو اقسام کرتے ہیں وہ درج بالا کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہر صاحب علم شخص دیکھ سکتا ہے کہ لسانیات یعنی زبان کی تفہیم کا یہ طریقہ کتنا منظم و مرتب ہے جو طالب علم کو یہ سکھاتا ہے کہ خطاب سے معنی اخذ کرتے ہوئے کن پہلووں کا لحاظ رکھنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اصولیین نے یہ سب کام تقریباً ابتدائی چار صدیوں میں مکمل کرلیا تھا لیکن ہمارے دور کے اکثر نئے مفکرین و نئے مجتہدین کے ہاں زبان دانی کی یہ تفہیم آج بھی مفقود دکھائی دیتی ہے جبکہ بعض اسے غیر ضروری بھی گردانتے ہیں، اگرچہ یہ سب قرآن فہمی پر خوب زبانی جمع خرچ کرتے ہوں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں