Home » قرآن میں گرامر کی غلطیاں
زبان وادب شخصیات وافکار

قرآن میں گرامر کی غلطیاں

ابو الحسین آزاد

اپنے تحقیقی سفر میں اب مبشر زیدی اُس مرحلے پہ آگئے ہیں جہاں اُنھیں بات کہنے کو بس تنکے کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ چناں چہ اپنی حالیہ پوسٹ میں اُنھوں نے قرآن میں گرامر کی ”غلطیوں“ کی نشان دہی کی ہے اور اس سلسلے میں ایک مشنری مسیحی پادری انیس شروش اور ایک اور عرب مسیحی مصنف سامی الذیب (جس کا نام اُنھوں نے سامی الدیب لکھ دیا ہے) کی ”تحقیقات“ کا حوالہ دیا ہے۔ اُس کے ساتھ اُنھوں نے اِیک صفحہ بھی شیئر کیا ہے۔عرب مشنری پادریوں کی مسلمانوں سے مڈبھیڑ چلتی رہتی ہے اور قرآن کے متعلق اُن کی رنگا رنگ کتابیں منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔
روایتی علماء کے جواب کو مبشر زیدی نے ایسے ذکر کیا ہے جیسے محض ایمان اور تقدیس و احترام میں وہ کہہ دیتے ہوں: قرآن برتر ہے لہذا گرامر اِس کے تابع ہو گی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ قرآن میں عربی گرامر کی غلطیوں کا دعویٰ کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہومر کی شاعری میں یونانی گرامر کی غلطیوں کا دعویٰ۔ قرآن عربی زبان میں لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے اور عربی گرامر کی ابتدائی کتابیں اِس کتاب کے تقریبا سو سال بعد لکھی گئیں۔ گرامر کے قواعد اہلِ زبان کے محاورے اور بول چال کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور اُن میں ہمیشہ استثنیٰ موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر عربی زبان کا ایک قاعدہ ہے کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے لیکن کفیٰ باللہ حسیبا میں یہ قاعدہ نہیں چلتا۔ قواعد محاورے اور اہلِ زبان کی ٹکسالی روایت کے تابع ہوتے ہیں نہ کہ اہلِ زبان کے کام کو قواعد کے تابع کیا جاتا ہے۔
زیدی نے ایک صفحہ بھی شیئر کیا ہے اُس پہ تفصیلی بحث کرنے کا فائدہ نہیں کیوں کہ جنھیں عربی نہیں آتی اُنھیں سمجھانا بے کار ہے اور جنھیں عربی آتی ہے وہ اِن مباحث کو تفسیر کی کسی بھی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ صرف ایک مثال لکھنا چاہتا ہوں۔اس صفحے میں نساء 162 کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہاں والمقيمين الصلوة لکھا ہے جب کہ پچھلے سارے الفاظ رفع کے محل میں ہیں لہذا اسے والمقیمون الصلوۃ ہونا چاہیے تھا۔ بات یہ ہے کہ جاہلی عربی ادب میں یہ رواج رہا ہے کہ کچھ اوصاف کو ذکر کرتے ہوئے جس وصف کی خصوصی مدح و تمجید مقصود ہوتی تھی اُس کے اعراب کو رفع کی بجائے نصب میں بیان کرتے تھے مثلاً:
لا يبعدن قومي الذين هم
سم العداة وآفة الجزر
النازلين بكل معترك
والطيبون معاقد الأزر
یہاں باقی سب اوصاف رفع میں ہیں جب کہ النازلین حالتِ نصب میں ہے بالکل المقیمین کی طرح۔
مسیحی مصنف سامی الذیب، جس کا خیال ہے کہ قرآن دراصل ایک یہودی حاخام کی لکھی ہوئی تصنیف ہے، کی جس کتاب کا زیدی نے ذکر کیا ہے وہ قرآن سے ڈھونڈی گئی ایسی ”غلطیوں“ سے لدی ہوئی ہے جنھیں اگر واقعی غلطی تسلیم کر لیاجائے تو جاہلی ادب کا سارا ذخیرہ (بلکہ ہماری اردو فارسی کی ساری غزلیہ شاعری بھی) گرامر کی غلطیوں کا عبرت ناک نمونہ بن جائے گی۔ مثلاً سامی الذیب نے لکھا کہ قرآن کئی جگہوں پر غائب یا متکلم کے صیغے میں بات کرتے کرتے اچانک مخاطب پہ آجاتا ہےیا کہیں اس کے الٹ ہو جاتا ہے کہ متکلم سے غائب کی طرف التفات ہو جاتا ہے۔ پتا نہیں سامی نے امرؤ القیس کے یہ دو شعر پڑھے ہیں یا نہیں:
وإن شفائي عبرة مهراقة
فهل عند رسم دارس من معول
كدأبك من أم الحويرث قبلها
و جارتها أم الرباب بمأسل
آخری بات یہ ہے کہ مبشر زیدی کے آبائی شہر کے شاعر کا ایک شعر ہے:
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
شعر زیدی صاحب کی نذر کرنے کے لیے نہیں لکھا بلکہ اِس شعر پہ میرا گرامر کی رو سے ایک ”اعتراض“ ہے۔ جب آپ نے کام کے ساتھ ”بہت“ لگایا تو کام واحد نہیں جمع ہو گیا ہے لہذا درست مصرع یوں ہونا چاہیے تھا: بہت کام رفو کے نکلے۔بس یوں سمجھیے کہ جتنی قیمت میرے اِس اعتراض کی ہے اُس سے کچھ ہی کم قیمت اُن اعتراضات کی ہے جو قرآن میں گرامر کی غلطیاں ڈھونڈنے والوں نے کیے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں