دوست نے ایک ویڈیو کی جانب توجہ دلائی جس میں امام غزالی پر نقد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کے نظریہ خلق مستمر (جسے occasionalism یا continuous creation کہا جاتا ہے)، علت و معلول پر نقد اور صوفیوں کی کرامات کے دفاع کی وجہ سے مسلمانوں میں سائنس دم توڑ گئی، لہذا اس پر کچھ تبصرہ کیجئے۔
ہم نے ویڈیو دیکھی اور خود پر جبر کرنے کے باوجود پوری نہ دیکھ سکے کیونکہ اس کا مواد سوقیانہ حد تک سطحی تھا۔ تاہم دوست کے اصرار پر اس ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں، اگرچہ ان پر مختلف پیرایوں میں پہلے بھی تفصیلاً بات ہوتی رہی ہے۔
1) جو بات امام غزالی اور صوفیوں کے کھاتے میں ڈالی جارہی ہے وہ دراصل پوری سنی (بشمول شیعہ) روایت کا تصور ہے کہ کرامت ممکن ہے۔ یہ بات امام غزالی نے پہلی مرتبہ نہیں کہی تھی بلکہ پہلے سے امت میں چلی آرہی تھی جیسا کہ عقیدہ کی تمام کتب میں درج ہے۔ پس غزالی کو مطعون کرنا غیر مفید ہے۔ اگر غزالی سے پہلے بھی معجزے و کرامت کا یہ تصور موجود تھا مگر پھر بھی مسلمان سائنس میں ترقی کرتے رہے جیسا کہ ناقدین کا خیال ہے تو معلوم ہوا کہ یہ تصور سائنس کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہوسکتا۔
2) خلق مستمر مشاہدے میں آنے والی اشیاء کے مابین ایسی باہمی نسبت کے امکان و وقوع کی نفی نہیں کرتا کہ ان کے مابین اقتران (concomitance) رونما ہوسکے۔ خلق مستمر جس چیز کی نفی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اشیاء کے اندر کچھ ایسی تاثیرات (active potentials) ہیں جن کی وجہ سے خود نمو ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دوسری اشیاء پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں اور اشیاء سے متعلق یہ علم گویا ہمیں مشاہدے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک غیر معقول و غیر ثابت شدہ نظریہ ہے، چہ جائیکہ اس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ یہ تاثیرات اللہ کی قدرت و ارادے پر بھی بائنڈنگ ہیں کہ اللہ ان کے سوا نہیں کرسکتا۔
3) خلق مستمر یہ کہتا ہے کہ:
الف) عالم میں موجود سب اشیاء چونکہ حادث (یعنی عدم سے وجود پزیر ہوتی) ہیں لہذا یہ معلول یعنی effects ہیں، اس لئے کہ حادث بائے ڈیفینیشن ایفکٹ یا فعل کا اثر ہوتا ہے، اسے علت یا سبب قرار دینا عقلی طور پر ایک بالکل بنیادی زمراتی غلطی (category mistake) ہے۔ جب اس عالم میں سب کچھ معلول ہے تو علت یعنی مؤثر یا فاعل لازما اس سے ماوراء ہے اور وہ واحد علت ہی دراصل علت ہے۔
ب) جو شے حادث ہو وہ یک لمحاتی وجود کے لئے بھی مؤثر کی محتاج ہے اور پھر دوسرے لمحے میں بقا کے لئے بھی اس کی محتاج ہے۔ جب تک مؤثر یعنی فاعل اسے مسلسل وجود نہ دے، وہ باقی نہیں رہ سکتا۔ پس فاعل ہر لمحے پوری کائنات کو تخلیق کرتا ہے۔
ج) تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ فاعل بار بار ایک ہی ترتیب سے عالم کو پیدا نہیں کرسکتا۔ لہذا جب ہم مشاھدہ کرتے ہیں کہ وہ الف و ب اثرات کو ایک ترتیب سے ظاھر کرتا ہے تو اس سے ہم استقرائی طور پر یہ جان سکتے ہیں کہ اگر الف آئے گا تو پھر اس کے ساتھ یا بعد ب آئے گا اور استقرا سے حاصل ہونے والے اس علم کا درجہ ظن اس پر منحصر ہے کہ کتنی مرتبہ اس واقعے کا مشاہدہ ہوا۔ لیکن اس علم کی بنیاد یہ نہیں کہ الف میں کچھ ایسی تاثیر ہے جو ب کو لازم کرتی ہے بلکہ اس کی دلیل “فاعل کی عادت” ہے۔ پس تجرباتی علم ممکن ہے اور اس کی بنیاد فاعل کی عادت ہے۔
د) فاعل اگرچہ ماضی میں متعدد بار یا اب تک ہر بار الف کے ساتھ یا بعد ب ظاہر کرتا رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فاعل کے لئے الف کے بغیر ب کو ظاھر کرنا یا الف کے بعد ب کو معدوم رکھنا یا الف کے بعد ج کو ظاھر کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ فاعل کی جانب سے ایسی تبدیلی کو معجزہ و کرامت کہتے ہیں۔ جو اسے ناممکن کہتا ہے وہ دلیل لائے۔
5) علت کے دراصل تین تصورات ہیں:
الف) علت بمعنی مؤثر یا موجب
ب) علت بمعنی باعث یا غرض
ج) علت بمعنی علم یا نشانی
خلق مستمر یہ کہتا ہے کہ معلول اشیاء کو پہلے معنی میں علت کہنا لغو ہے کیونکہ جسے تاثیر کہتے ہیں وہ کبھی مشاھدے میں نہیں آتی، مشاھدہ صرف الف اور ب کے اقتران کا ہوتا ہے۔ یہ بات امام غزالی (م 505 ھ) سے تقریباً سو سال قبل قاضی باقلانی (م 403 ھ) پوری صراحت کے ساتھ اپنی کتاب “تمہید الاوائل” میں بیان کرچکے تھے۔ خلق مستمر کہتا ہے کہ جنہیں ہم اس دنیا میں علل کہتے ہیں وہ دراصل علامات (symbols or signs) ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ فاعل کس ترتیب سے فعل کرتا ہے۔ اس کی آسان مثال یوں ہے کہ اگر میں موٹروے پر سفر کروں اور “ریسٹ ایریا 2 کلومیٹر” بورڈ کے 2 کلو میٹر بعد ریسٹ ایریا موجود ہو اور کئی سو کلومیٹر سٖفر میں بار بار اس ترتیب کا مشاھدہ ہو کہ اس بورڈ کے ٹھیک 2 کلومیٹر بعد ریسٹ ایریا ہوتا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاص قسم کا سائن بورڈ ریسٹ ایریا پر مؤثر (یعنی اس کا سبب) ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سائن بورڈ ریسٹ ایریا کی علامت ہے کہ اس کے بعد ہم ریسٹ ایریا کی امید رکھ سکتے ہیں (کہ یہ مثلا ھائی وے اتھارٹی کے فعل کرنے کی ترتیب ہے)۔
امام غزالی نے یہ سب تفصیلات کتاب “تھافت الفلاسفة” کے باب 17، “الاقتصاد فی الاعتقاد”، “محک النظر” وغیرہ میں بیان کی ہیں۔ جن لوگوں کو علم کلام کی دلیل کے سٹرکچر کا علم نہ ہو اور نہ انہوں نے غزالی کو براہ راست پڑھا ہو وہ ان بحثوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ جس نے درج بالا امور کو سمجھ لیا وہ غزالی پر ایسے سطحی اعتراضات سے متاثر نہیں ہوسکتا۔
کمنت کیجے