Home » اصول اہل سنت کی رو سے حضرت علی کے مقابلے پر حضرت عائشہ اور ان کے ساتھی صحابہ رضی الله عنہم کا حکم
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار کلام

اصول اہل سنت کی رو سے حضرت علی کے مقابلے پر حضرت عائشہ اور ان کے ساتھی صحابہ رضی الله عنہم کا حکم

حضرت عثمان کی شہادت کے بعد جو افسوس ناک حادثے پیش آئے ان میں سے ایک جنگ جمل تھا۔ فریقین کے مواقف کی تفصیل کیا ہے نیز اس وقت حالات کیا تھے، اس کا بیان فی الوقت مقصود نہیں (ویسے بھی یہ سب کافی معروف ہے)۔ ایک دوست نے پوچھا ہے کہ کیا سنی اصول اجتہاد کی رو سے حضرت عائشہ، حضرت طلحہ و حضرت زبیر کو حضرت علی رضی الله عنہم کے خلاف اقدام پر باغی و گناہگار کہا جاسکتا ہے؟ کیا ان حضرات کے موقف کو حق کہا جاسکتا ہے؟ کیا حضرت علی کو خطاکار یا گناہگار کہا جاسکتا ہے؟

تبصرہ

اس موضوع کو چند مقدمات کی صورت سمجھا جاسکتا ہے۔

1۔ یہ بات متواتر طور پر ثابت ہے کہ اس معاملے میں صحابہ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور ہر گروہ سمجھتا تھا کہ وہ حق بات کا تقاضا کررہا ہے:

الف) وہ جو حضرت علی کے ساتھ تھے

ب) وہ جو حضرت عائشہ وغیرہ کے ساتھ تھے

ج) وہ جنہوں نے دونوں کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہنا پسند کیا اور اس نزاع میں کسی کا ساتھ نہ دیا، ان کی رائے میں متعلقہ صورت حال فتنے کی تھی جس سے حتی الامکان دور رہنا ضروری تھا۔

جب ہم نے یہ کہا کہ ہر فریق اپنے تئیں ایک بات کو حق سمجھ رہا تھا تو مطلب یہ کہ ایسا نہیں تھا کہ وہ خاص اقدام کرتے ہوئے ہر فریق یہ جانتا تھا کہ جس بات کا میں تقاضا کررہا ہوں وہ عند الله ہے تو غلط لیکن پھر بھی میں ایسا کروں گا۔

2) ہر تین گروہ میں مجتہد صحابہ شامل تھے، حضرت علی اور حضرت عائشہ صدیقہ کی مجتہدانہ بصیرت پر اہل سنت میں بھلا کسے شک ہوسکتا ہے۔ اسی طرح حضرت طلحہ و زبیر جیسے عشرہ مبشرہ کے صحابہ بھی اس نزاع میں حضرت عائشہ کے ساتھ فریق تھے۔ اسی طرح غیر جانبدار رہنے والے صحابہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص، عبد الله بن عمر، اسامہ بن زید وغیرہم شامل تھے۔

3) متکلمین و اصولیین شرعی مسائل کو دو قسم میں رکھتے ہیں اور اس کی وجہ حصر یوں ہے کہ کسی مسئلے میں اختلاف کرنے والا یا عند الله گناہگار ہوگا اور یا نہیں ہوگا۔

الف) اگر گناہگار ہوگا تو یا ابدی عقاب کا مستحق ہوگا اور یا وقتی۔ ایسے مسائل کو مسائل قطعیہ کہا جاتا ہے اور چونکہ ان میں حق یقینی طور پر ایک ہوتا ہے لہذا یہاں کوئی ایک ہی رائے سنی رائے ہوسکتی ہے اور مخالف رائے پر توبہ واجب ہے۔

ب) اگر گناہگار نہیں، تو ایسے مسائل کو مسائل ظنیہ (یا اجتہادیہ وغیرہ) کہا جاتا ہے۔ اگر گناہگار نہیں تو یا ہر مجتہد ماجور ہوگا اور یا صرف ایک ہی ماجور ہوگا۔ اس اختلاف کی بنیاد علمائے اصول کا یہ اختلاف ہے کہ کیا مسائل ظنیہ میں بھی ہر مسئلے میں عند اللہ حق متعین اور ایک ہی ہوتا ہے یا نہیں؟

* جمہور میں سے بعض نے کہا کہ ان مسائل میں حق عند الله متعین نہیں بلکہ بندے سے صرف یہ تقاضا ہے کہ وہ ظنی دلائل میں اجتہاد کرے اور اس اجتہاد سے وہ جس رائے تک پہنچے، عند الله وہی حق ہے اور اس سے اسی کی ادائیگی کا مطالبہ ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ جیسے افسر ماتحتوں کو کہے “پہاڑ پر چڑھو”، مگر کوئی ایسی خاص اونچائی مقرر نہ کرے جہاں تک چڑھنا بایں معنی واجب ہو کہ جو اس حد تک نہ چڑھا اسے سزا ملے گی۔ پس جو بقدر ہمت و نیت جہاں تک چڑھ گیا وہی اس کے حق میں افسر کی طلب ہوگی۔ اس رائے کے مطابق سبھی مجتہد مصیب (یعنی حکم الله ادا کردینے والے) اور مساوی اجر کے مستحق ہوں گے۔

* بعض نے کہا کہ ان مسائل میں حق عند الله متعین ہے اور وہ ایک ہی ہے، لیکن شارع نے بندوں کی آسانی کی خاطر اس خاص حق تک پہنچنے کو واجب قرار نہیں دیا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ افسر نے کہا “پہاڑ پر چڑھو”، اور چڑھائی کا خاص مطلوبہ مقام مقرر بھی کیا اگرچہ وہ لوگوں سے مخفی ہے، لیکن لوگوں پر اس خاص مقام تک چڑھنے کو واجب نہ کہا (کہ جو یہاں نہ پہنچ سکا اسے سزا ملے گی)۔ لہذا دلائل ظنیہ سے جو شخص اپنی کاوش سے جس مقام تک پہنچ گیا وہ بایں معنی مصیب ہوگا کہ اس نے اپنی جانب متوجہ حکم کو ادا کردیا اور ایک اجر کا مستحق بھی ہوگا، تاہم جو شخص اس خاص مقررہ مقام تک پہنچ گیا جو حاکم کے نزدیک مقرر ہے تو اسے دو اجر ملیں گے۔ اس رائے میں ہر شخص خود کو عند الله مصیب کہنے میں حق بجانب ہوسکتا ہے، لیکن چونکہ یہ بات قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں ہوتی کہ آیا وہی اس خاص مقام تک پہنچا جو حاکم نے مراد لی تو اس لئے مخالف کو گناہگار نہیں کہا جاتا بلکہ حکم ادا کرنے والا ہی کہا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری رائے میں نتیجے کے اعتبار سے البتہ اتنا فرق ہے کہ اول الذکر میں دونوں مساوی طور پر ماجور ہوتے ہیں جبکہ دوسری میں درجہ بندی کے ساتھ۔ اس کی مثال حنفی و شافعی فقہی مسائل کی ہے جہاں ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے لیکن دوسرے کے بارے میں یہی فرض کرتا ہے کہ عند الله مثلا اس کی نماز بھی ادا ہوگئی، البتہ اسے میرے مقابلے میں کم اجر ملا اور میرے مقابلے میں وہ اجتہادی خطا پر ہے۔

* بعض نے کہا کہ ان مسائل میں حق متعین بھی ہے اور اس تک پہنچنا واجب بھی، جو اس خاص مقررہ مقام تک نہیں پہنچا وہ گناہگار ہے۔ گویا یہاں ہر فریق دوسرے کو ہر ہر مسئلے میں خود سے اختلاف کرنے پر عند الله فاسق و گناہگار قرار دیتا ہے جس پر توبہ لازم ہے۔ پس یہاں ایک ہی شخص حق پر اور ایک ہی ماجور ہوتا ہے اور دوسرا گناہگار۔ یہ ائمہ معتزلہ میں سے بعض کا اصول تھا، اہل سنت اس کے قائل نہیں۔ یہ رائے مسائل ظنیہ و قطعیہ کو یکساں بنا دیتی ہے۔

اس سے واضح ہوا کہ پہلے دو اقوال کی رو سے مسائل اجتہادیہ یا ظنیہ میں ہر رائے سنی رائے شمار ہوگی (بشرطیکہ وہ مجتہد کی رائے ہو اور اس پر دور صحابہ و خیر القرون میں اجماع نہ ہوا ہو) جبکہ تیسرے قول کے قائلین کے مطابق صرف ایک ہی رائے سنی ہوگی اور اس کی مخالف ہر رائے غیر سنی ہوگی۔ ان مسائل میں ہر رائے سنی ہونے کا مطلب یہ ہے ہر کسی نے اپنے اجتہاد سے اپنی جانب جس حکم الله کو متوجہ سمجھا، اس کی ادائیگی میں وہ مصیب (یعنی حکم الله ادا کردینے والا) ہے، علی الرغم اس سے کہ اسے ایک اجر ملا یا دو۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے حنفی و شافعی دونوں مانتے ہیں کہ حنفی اپنے اجتہاد سے جن احکام کی ادائیگی کررہا ہے، وہ بدرجہ ظن ان کی جانب متوجہ بھی تھے اور عند الله وہ ان کے حق میں ادا بھی ہوگئے۔ البتہ جن کے مطابق حق متعدد ہوسکتے ہیں وہ کہیں گے کہ دونوں کو مساوی اجر ملا اور کوئی خطا کار بھی نہیں اور جن کے مطابق حق ایک ہی ہوتا ہے وہ کہیں گے ایک کو دوہرا اجر ملا اور دوسرا اجتہادی خطا پر ہے اگرچہ ایک اجر حاصل کرنے والا ہے۔

4) حضرت علی و حضرت عائشہ کے گروہ کے مابین جو نزاع ہوا، متکلمین اسے مسائل اجتہادیہ و ظنیہ میں شمار کرتے ہیں نہ کہ مسائل قطعیہ میں۔ جس معاملے پر مجتہد صحابہ کی ایسی جماعتوں میں اختلاف ہوجائے اور جو تواتر کے ساتھ منقول ہو، اس میں کسی ایک کو حتمی طور پر اس طرح درست کہنا کہ دوسری جماعت فاسق و گناہگار کہلائے، اصول اہل سنت کی رو سے یہ درست نہیں ہوسکتا۔ لہذا اس مسئلے پر مسائل اجتہادیہ کے درج بالا اصولوں کو لاگو کیا جاتا ہے۔

5) اب اگر یہ چار مقدمات ذہن نشین رہیں تو نفس مسئلہ پر درج ذیل آراء پیدا ہوسکتی ہیں جن کا حکم بھی متعین کیا جاسکتا ہے:

الف) حضرت علی اور حضرت عائشہ و طلحہ وغیرہ رضی الله عنہم دونوں گروہ اپنی جگہ مساوی طور پر حق پر تھے، یہ ان کے قول کے مطابق ہے جو مسائل اجتہادیہ میں ہر مجتہد کو حق متعدد ہونے کی بنا پر مساوی طور پر حق پر کہتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی حضرت عائشہ و طلحہ و زبیر کو حضرت علی کے مساوی حق پر کہے (یعنی یہ بات کہے کہ حضرت علی بھی اپنے تقاضے میں من وجہ حق پر تھے اور حضرت عائشہ بھی)، تو یہ رائے سنی اصول اجتہاد کی رو سے سنیت سے خارج نہ ہوگی، اگرچہ یہ مثلاً حنفیت سے باہر ہو جن کے مطابق حق عند الله ہر ہر مسئلے میں صرف ایک ہے۔ تاہم ایسی رائے رکھنے والے کو پھر تمام مسائل ظنیہ میں ایک ہی اصول لاگو کرنا چاہئے۔

ب) حضرت علی حق پر اور حضرت عائشہ وغیرہ اجتہادی خطا و تاویل پر تھے، یعنی حضرت علی کو دو اجر ملے جبکہ ان کے مخالفین کو اجتہاد کرنے کا ایک اجر ملا اور یہ بھی کہا جائے گا کہ ان کے اجتہاد کی رو سے بدرجہ ظن ان کی جانب جو حکم متوجہ تھا وہ انہوں نے ادا کیا۔ یہ ان کے قول کے مطابق ہے جن کے ہاں حق صرف ایک ہوتا ہے لیکن سب درجہ بدرجہ ماجور ہوتے ہیں۔

ج) جن کے قول کے مطابق مسائل ظنیہ میں بھی حق ایک ہی ہوتا ہے جس تک پہنچنا واجب ہے، ان میں سے بعض نے کہا کہ دونوں ہی گروہ فاسق و گناہگار ہوگئے تھے اور بعض نے کہا کہ حضرت علی حق پر اور حضرت عائشہ کا گروہ فسق و گناہ پر تھا۔ اس رائے کے حاملین البتہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ اور ان کے ساتھ صحابہ نے بعد میں اپنے اس عمل سے توبہ و رجوع کرلیا تھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ کے گروہ کے عمل کو فسق قرار دینے کے لئے تین میں سے کوئی ایک مفروضہ ماننا ہوگا:

* نفس مسئلہ مسائل قطعیہ میں سے تھا، متکلمین اہل سنت اس کے قائل نہیں

* نفس مسئلہ مسائل ظنیہ میں سے تھا اور ان مسائل میں بھی ایک خاص رائے تک پہنچنا ہی عند الله واجب ہے۔ اہل سنت اس کے بھی قائل نہیں

* نفس مسئلہ ظنی تھا مگر حضرت عائشہ اور ان کے ساتھ صحابہ مجتہد نہ تھے (یا وہ نفس پرستی کی بنا پر ایسا کررہے تھے وغیرہ)۔ یہ درج بالا دوسرے مقدمے کے خلاف ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ان کے گروہ کو گناہگار قرار دینا درست نہیں۔

د) حضرت علی اور ان کا گروہ گناہگار اور حضرت عائشہ کا گروہ حق پر تھا۔ یہ رائے انہی وجوہ کی بنا پر بطریق اولی غلط ہے جو اوپر (ج) میں مذکور ہیں کیونکہ متکلمین اہل سنت کا اجماع ہے کہ ان کی خلافت منعقد ہوگئی تھی۔

ھ) حضرت علی اور ان کا گروہ اجتہادی خطا پر تھا اور حضرت عائشہ کا گروہ مصیب تھا۔ چونکہ متکلمین اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضرت علی کی خلافت منعقد ہوگئی تھی نیز وہ مجتہد بھی تھے، لہذا انہیں اطاعت کا تقاضا کرنے پر اجتہادی خطا پر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لہذا یہ رائے بھی غلط ہے۔

پس اس مسئلے پر (5 الف) اور (5 ب) آراء ہی سنی اصول اجتہاد سے ہم آھنگ ہیں اور ائمہ علم کلام کی عبارات اس پر دال ہیں۔ یہ اس مسئلے پر ہمارے فہم کے مطابق تنقیح ہے۔

والله اعلم بالصواب۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں