ایک صاحب علم دوست نے پوچھا کہ شیخ ابن عربی فرعون کے ایمان کے کیوں قائل تھے؟ سائل کا مقصود درست و غلط سے علی الرغم ان کے موقف کو سمجھنا تھا تو اس موضوع پر ان کے ساتھ جو گفتگو ہوئی وہ ذیل میں پیش خدمت ہے۔
شیخ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کی بیوی، جو کہ نیک خاتون تھیں، جب انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو بچپن میں پایا اور فرعون نے بچے کو قتل کرنا چاہا تو اہلیہ نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرو:
وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا
فرعون کی اہلیہ کی بات میں دو امور ہیں:
الف) یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھ کی ٹھنڈک کا باعث ہوگا
ب) ہمیں اس سے فائدہ ہوسکتا ہے
شیخ کا کہنا ہے کہ فرعون کو اللہ کے ان جلیل القدر نبی سے یہی فائدہ پہنچا کہ اس نیک خاتون کی دعا قبول ہوئی اور فرعون مرتے وقت ایمان لے آیا اور ابدی عذاب سے بچ گیا۔ پس جب فرعون غرق ہونے کے قریب تھا تو اس نے ایمان کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ذات پر ایمان لایا جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی ذات جس پر بنی اسرائیل والے ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں:
قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً
شیخ کہتے ہیں کہ فرعون کا یہ ایمان الفاظ کے ساتھ تھا جو قرآن میں مذکور ہیں، گویا یہ اس کے اقرار باللسان کی ایک واضح دلیل ہوئی۔ اس کے بعد “آلْآنَ” والے تبصرے کو شیخ فرعون کے عمل پر طنز یا اس کے ایمان کی ناقبولیت کے طور پر نہیں بلکہ تصدیقی تبصرے کے طور پر پڑھتے ہیں، یعنی یوں کہ “اب بالاخر تو ایمان لے آیا اگرچہ پہلے مفسدین میں سے تھا” اور آگے جو کہا کہ ہم تجھے بعد میں آنے والوں کے لئے نشانی بنادیں گے تو وہ اس تناظر میں ہے کہ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا چاہیے، توبہ و ایمان کی توفیق کبھی بھی مل سکتی ہے۔
اس موقف پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ:
الف) از روئے قرآن ایمان یاس (یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد مایوسی کی کیفیت والا ایمان) نفع بخش نہیں: فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا
ب) اس سے استثناء صرف حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ہے جیسا کہ کہا گیا: فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
ج) ازروئے قرآن حضرت الموت میں توبہ قبول نہیں: وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ
اس پر شیخ کا کہنا یہ ہے کہ پہلی آیت میں جس نفع بخشی کی نفی ہے وہ دنیاوی عذاب ٹلنے کی نفع بخشی ہے نہ کہ اخروی ثواب ملنے کی نفی۔ یعنی جب کسی قوم پر دنیا میں عذاب کا فیصلہ ہوجائے تو پھر اس عذاب کو ٹالنے میں ان کا ایمان انہیں مفید نہیں ہوتا، اس سے استتناء صرف قوم یونس کا تھا۔ پس وہ کہتے ہیں کہ جس آیت میں ایمان یاس کے مفید ہونے کی نفی کی گئی ہے اس سے اخروی ثواب ملنے کی نفی ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہی آیت میں اس کی صراحت ہے بلکہ دوسری آیت میں دنیاوی عذاب ہی کا ذکر ہے۔ لہذا وہ اس کیفیت کی توبہ و ایمان کو بھی اخروی دنیا میں ثواب کے لئے مفید سمجھتے ہیں جس میں فرعون ایمان لایا اور اس معاملے کو وہ ان آیات کے عموم کے تحت رکھتے ہیں جن میں کہا گیا کہ اللہ تعالی سب گناہ معاف کردیتا ہے وغیرہ۔ لیکن چونکہ دنیا کا عذاب اس ایمان سے نہیں ٹلا کرتا تو وہ فرعون پر آکر رہا۔ چنانچہ شیخ کا کہنا ہے کہ ان آیات سے ایسے ایمان کی اخروی نفع بخشی کی نفی پر استدلال تام نہیں کہ ایسی صراحت الفاظ میں موجود نہیں بلکہ اس معاملے میں فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ذات سے رحم کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
تیسری آیت کے ضمن میں بحث یہ ہے کہ “حضرت الموت” سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ کہ اگر ایک شخص کو مثلا یہ معلوم ہوگیا کہ مجھے کینسر ہے اور میں چند دن یا گھنٹوں میں مر جاؤں گا تو یہ بھی “حضرت الموت” ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی؟ یا ایک شخص قصاص میں قتل کی سزا ملنے کے بعد اگر توبہ کرے تو وہ بھی ناقابل قبول ہوگی؟ ظاہر ہے تیسری آیت میں اس قسم کی نری قرب موت کے آثار والی حضرت الموت مراد نہیں ہوسکتی، ایسی حضرت الموت میں تو از روئے شرع احکام بھی مؤثر ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ۔ اسی لئے امام رازی لکھتے ہیں:
قَالَ الْمُحَقِّقُونَ: قُرْبُ الْمَوْتِ لَا يَمْنَعُ مِنْ قَبُولِ التَّوْبَةِ، بَلِ الْمَانِعُ مِنْ قَبُولِ التَّوْبَةِ مُشَاهَدَةُ الْأَحْوَالِ الَّتِي عِنْدَهَا يَحْصُلُ الْعِلْمُ باللَّه تَعَالَى عَلَى سَبِيلِ الِاضْطِرَارِ
یعنی محقق علماء کا کہنا ہے کہ صرف قرب موت توبہ کی قبولیت میں مانع نہیں ہوتی بلکہ اس آیت میں جس حضرت الموت کا ذکر ہے وہ ان احوال کے مشاہدے سے عبارت ہے جس کے بعد ایمان باللہ اضطرار کی کیفیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہی بات اس آیت پر شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ یہ وہ کیفیت ہے جو دنیاوی زندگی کا جزو نہیں ہوتی اور اس لئے اس کیفیت کا عمل مفید نہیں ہوا کرتا:
فان ذلک الجزء من الحیاۃ الدنیا لیس منھا وانما ھو من البرزخ من الدار التی لا ینفع فیھا ما عمل فیھا
تو اب فرعون کے مسئلے پر ان کے نزدیک بحث یہ ہے کہ جب اس نے ایمان کا اقرار کیا، کیا اس پر اس خاص حضرت الموت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ شیخ کہتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے ایمان لے آیا تھا، یعنی فرعون نے جب یہ دیکھا کہ پانی نے بنی اسرائیل والوں کو یوں راستہ دے دیا ہے تو اس پر ظاہر ہوا کہ یہ ان کے ایمان ہی کے سبب ہے اور اس پر حق کھل گیا، تاہم وہ حیات کی امید پر اس پانی کی جانب بڑھا مگر غرق ہوگیا۔ تاہم علماء کا عام طور پر یہی کہنا ہے کہ فرعون کا یہ ایمان اس حضرت الموت میں تھا جہاں اس پر اخروی دنیا کا دروازہ کھل گیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ کے استدلال کے پس پشت اللہ کی رحمت کی وسعت کا تصور کار فرما ہے جو از روئے حدیث اس کے غضب سے سابق ہے اور اس لئے وہ اس رحمت کے پھیلاؤ کے لئے الفاظ سے جس قدر گنجائش نکلتی ہو اسے پیدا کرتے ہیں۔
تلاش و بسیار کے باوجود مجھے اب تک شیخ سے قبل فرعون کے ایمان پر یہ رائے اہل علم کے ہاں نہیں مل سکی اور کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک شاذ رائے ہے۔ اس مسئلے پر علامہ جلال الدین دوانی کی کتاب “ایمان فرعون” ملاحظہ کی جاسکتی ہے جس میں شیخ کے موقف کا دفاع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے رد میں ملا علی قاری کی “فر العون من مدعی ایمان فرعون” دیکھی جاسکتی ہے۔
کمنت کیجے