حافظ محمد اسحق
اسلام میں شخصیات کی اہمیت کیا ہے؟
اسے سمجھنے کیلئے ہمیں اسلامی اکیڈمیا اور جدید سائنسی اکیڈمیا کے موضوع اور طرز استدلال کاباہمی فرق سمجھنا ہوگا کیونکہ مغالطات کا جدید انگریزی ورژن بنیادی طور پر سائنسی اکیڈمیا کے تحت کام کرتا ہے جب کہ اسلامی اکیڈمیا میں دلیل اور شخصیت کا مقام سائنسی اکیڈمیا میں دلیل کی تعریف سے تھوڑا سا الگ ہے۔
سائنس کا بنیادی موضوع حواس خمسہ کے دائرہ میں آنے والی چیز یعنی مادہ اور اس کے متعلقات ہیں جہاں کسی قول/دعوی کا ثبوت یعنی دلیل صرف عموی مشاہدہ یا تجربہ سے پیش کی جاتی ہے۔چنانچہ سائنسی اکیڈمیا میں حرف آخر وہی دلیل ہے جو کسی مشاہدہ یا تجربہ پر منتج ہو۔
جبکہ اسلامی اکیڈمیا یا ہمارے مذھب کا بنیادی موضوع مغیبات ہیں۔ذات باری تعالٰی کا وجود،پیغمبران اسلام علیھم التسلیمات کی نبوت و رسالت،قیامت جنت جہنم کا اذعان۔۔۔یہ سب چیزیں مغیبات کی قبیل سے ہیں اور مافوق الحواس ہونے کے سبب مادے اور اس کے متعلقات سے یکسر الگ چیز ہیں۔چنانچہ اسلامی اکیڈمیا میں دلیل کی انتہاء مخبر صادق کی دی ہوئی مستند خبر پر ہوتی ہے۔قرآن پاک اور حدیث متواتر مخبر صادق کی دی ہوئی سب سے مستند خبر ہے۔
خلاصہ یہ کہ سائنسی اکیڈمیا میں دلیل کی انتہاء تجربہ یا مشاہدہ پر اور اسلامی اکیڈمیا میں دلیل کی انتہاء مخبر صادق پر اعتماد پر منتج ہوتی ہے۔یوں سائنس اور مذھب کا بنیادی موضوع الگ الگ ہونے کے سبب ہماری دلائل کی ترتیب کبھی بھی سو فیصد سائنسی نہیں ہوسکتی۔البتہ ہم اپنے دلائل کی معقولیت(ان کے عقل سلیم کیلئے عین درست ہونے)کو بلکل اسی طرح ثابت کرسکتے ہیں جس طرح ہم سائنس کی محض مادہ اور اس کے متعلقات تک محدودیت کو ثابت کرسکتے ہیں۔
سائنسی طریقہ کار میں کچھ مقدس ہے،ناہی کسی فرد/ شخص کی کوئی ایسی بات قابل قبول ہوسکتی ہے جسے جانچ اور پرکھ کی کسوٹی سے ناگزار جا سکے۔
اس کے مقابل مذھب کی بنیاد چونکہ غیب پر ایمان ہے اور وہاں اصل یہی ہے کہ خالق کائنات نے خود کو پردہ مستور میں رکھ کر انسانیت کو امتحان میں ڈالا ہے اور اس تک اپنا پیغام چند مخصوص بندوں(پیغمبروں)ہی کے ذریعے بھیجا ہے،سو یہاں فرد اور شخصیت بسا اوقات بہت الگ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔عام سائنسی طرز فکر کے مقابل ہمارا کسی خاص شخص پر یہ اعتماد بھی اگرچہ مکمل طور پر معقولی اور دلائل پر مبنی ہوتا ہے مگر اس کے باوجود یہ مخصوص سائنسی طرز استدلال کے تحت نہیں آتا۔اسی لیے اسلامی اکیڈمیا میں دلائل کے ضمن میں خبر یا قول صادق کو ایک مستقل دلیل شمار کیا جاتا ہے۔
ہماری نگاہ میں یہ وہ بنیادی چیز ہے جس کے سبب سائنسی طرز فکر کے حاملین اسلامی اکیڈمیا کے پیٹرن کو سمجھ نہیں پاتے اور انہیں ہمارے بیشتر دلائل بے سروپا لگتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہمارے ہاں تقلید ایک شرعی مسئلہ ہے اور تقلید میں مقلد اصل دلیل تک رسائی حاصل نہیں کرتا بلکہ محض شخصیت پر ہی اعتماد کرتا ہے۔ایک سائنسی طرز فکر کا عادی شخص شائد اسے دلیل تسلیم نا کرے،مگر ہم اس پر بہرحال اس دلیل کی معقولیت عیاں کر سکتے ہیں کہ دنیا کے تمام علوم کا تمام اشخاص کو بیک وقت حاصل ہونا محال عقلی و حسی ہے۔پس لازم ہے کہ ہم بعض امور میں بعض قابل اعتماد اشخاص پر اعتبار کریں۔اسی کا دوسرا نام تقلید ہے اور یہی چیز مذھب سے ہٹ کر ہماری خارجی دنیا میں بھی بیسیوں جگہوں پر پریکٹس ہورہی ہے۔پس اس کی معقولیت مسلمہ ہے،چنانچہ ہمارا اسے بعض جگہوں پر بطور دلیل اپنانا بلکل درست ہے۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا شخصیت کبھی دلیل بن سکتی ہے یا نہیں؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں یورپ میں مسیحیت کے پاپائیت ماڈل پر اک نگاہ ڈالنی چاہیے جہاں پوپ کی بات حرف آخر سمجھی جاتی تھی اور کوئی اسے کسی دلیل یا کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتا تھا۔حتی کہ پوپ کیلئے یہ بھی لازم نہیں تھا کہ وہ اپنے قول کو اپنی مذھبی کتاب سے ہی ثابت کردے۔اسی استبداد اور اندھیر نگری کا نتیجہ تھا کہ جب مغرب نے ایک طویل اندرونی کشمکش کے بعد بالآخر پاپائیت سے خلاصی پائی تو ان کے ہاں تقدیس اور مذھب ایک گالی بن کر رہ گیا اور یوں وہاں اس سائنسی طرز فکر کا رجحان پڑا جو مشاہدے اور تجربہ کے سوا ہر دلیل کا منکر تھا۔
بد قسمتی سے یہی طرز فکر اب ہمارے ہاں بھی سوسائٹی میں نہایت تیزی سے فروغ پارہا ہے اور اسی طرز فکر کا شاخسانہ ہے کہ محمد علی مرزا صاحب جیسا بظاہر ٹھیٹھ مذھبی دکھلائی دیتا انسان بھی کرامات پر محض اس لیے یقین نہیں کرنا چاہتا کہ ان کی نگاہ میں کرامت کا کوئی سائنسی ثبوت دستیاب نا ہے۔(حالانکہ اسلامی روایت حتی کہ قرآن و سنت کے بیسیوں واقعات معجزات کے ساتھ ساتھ کرامت کو ثابت کرتے ہیں)
پاپائیت اور سائنسی اکیڈمیا کی ان دو انتہاوں کے بیچ میں اسلامی اکیڈمیا کی روایت نہایت معتدل ہے۔اسلام میں پاپائیت کے برعکس کسی بڑے سے بڑے عالم کا قول بھی حرف آخر نہیں بلکہ اس باب میں حرف آخر امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا وہ قول ہے جو انہوں نے روضہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ
“سوائے اس صاحب قبر(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ہر شخص کی بات سے اختلاف و اتفاق ممکن ہے۔”
چنانچہ اسلامی اکیڈمیا میں بڑے سے بڑے اہل علم کیلئے لازم ٹھہرا کہ وہ اپنی بات کی اصل قرآن و سنت سے پیش کرے۔(البتہ اہل تشیع عصمت ائمہ کے قائل ہوکر مسیحی ماڈل کے قریب تر ہیں کہ ان کے ہاں بھی امام سے دلیل طلب نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ خود دلیل ہوتا ہے)
ہمارے اصول الفقہ میں ادلہ اربعہ کے بیان میں قرآن و سنت کے بعد قیاس اور اجماع کا بطور دلیل ذکر ہونا اس طرف مشیر ہے کہ ہم نام صرف مسیحیت کے پاپائیت والے ماڈل سے بیزار ہیں بلکہ ہمارا طرز استدلال سائنسی اکیڈمیا سے بھی قدرے مختلف ہے چنانچہ یہاں صرف تجربہ اور مشاہدہ ہی دلیل نہیں بلکہ ماہر شخص کا ذاتی اجتہاد(قیاس) اور اہل علم کی اکثریت کا اتفاق(اجماع) بھی ایک مستقل دلیل ہے۔یوں اسلامک اکیڈمیا شخصیت اور دلیل کو ایک حد تک قبول بھی کرتا ہے مگر مسیحیت کی مانند اندھا دھند نہیں،بلکہ ایک جانب اسے مہارت اور اہلیت سے مشروط کرتا ہے اور دوسری جانب اسے اپنی اصل یعنی قران و سنت سے استناد تک بھی لازم قرار دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قیاس اور اجماع کو “من وجہ اصل” اور “من وجہ فرع” کہا جاتا ہے۔(یہ دونوں اصول الفقہ کی مخصوص اصطلاحات ہیں)
تیسرا سوال یہ تھا کہ دلیل اور شخصیت کب کب جمع ہوسکتے ہیں اور کب کب نہیں؟
سو اس سوال کی بابت عرض ہے کہ اسلامی اکیڈمیا میں چونکہ اصل دلیل قرآن و سنت ہیں اس لیے ہمارے ہاں شخصیت اور دلیل کا اتحاد صرف جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارکہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قول فعل حتی کہ تقریر رسول(آپ علیہ السلام کی موجودگی میں کسی فعل کے صدور کے وقت آنجناب کا اس پر سکوت فرمانا)بھی ایک طرح کی دلیل ہے جس کی تفصیل اصولی مباحث میں دیکھی جاسکتی ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ اصحاب پیغمبر علیہ الرضوان سے لے کر ائمہ عظام تک۔ہر شخص کا قول فعل صرف تب دلیل بن سکتا ہے جب اس کا استناد قرآن و سنت تک ہو۔
پھر چونکہ قرآن و سنت ہمیں بتلاتے ہیں کہ اصحاب پیغمبر علیھم الرضوان وہ نجوم ہدایت ہیں جن میں سے ہر ایک مینارہ ہدایت ہے،سو ان کی پیروی و اقتداء بھی (ایک درجہ میں) معتبر ٹھہرتی ہے۔اسلامی تعلیمات ہمیں بتلاتی ہیں کہ دور خیر القرون مشہود بالخیر ہے سو ہم اپنے اسلاف سے تمسک کو بھی یک گونہ دلیل حق و صداقت کہتے ہیں۔اور ان سے جتنا کوئی ہٹتا جائے گا،ہماری نگاہ میں وہ اسی قدر غیر معتبر اور مشکوک ٹھہرے گا۔سو یہ اسلاف بھی ایک درجہ میں(ثانوی) دلیل بنتے ہیں
بہرحال اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شخصیت اور دلیل کا تصور جدید سائنسی اکیڈمیا سے قدرے مختلف قرار پاتا ہے۔یہی وجہ ہے اگر مغالطات کے باب میں صرف جدید سائنسی ورژن ہی کو مدنظر رکھا جائے تو خود اسلامی اکیڈمیا میں دلیل اور شخصیت کے تصور پر خاصا خلجان پیدا ہوسکتا ہے۔
محترم عاطف ہاشمی صاحب کے دوسرے محولہ پیرا گراف کے حوالے سے یہ تمام امور مد نظر رکھے جائیں تو امید ہے کہ ان کی اس عبارت سے کچھ الجھاؤ پیدا نہیں ہوگا۔نیز اس امر کی بھی کچھ نا کچھ وضاحت ہوگئی ہوگی کہ کسی شخصیت کی شہرت،اثر پذیری اور قابلیت کب کب مغالطہ کا سبب بن سکتی ہے اور کب ان چیزوں کو درست طور پر برت کر صحیح استدلال قائم کیا جاسکتا ہے۔
محترم عاطف ہاشمی صاحب نے دوسرا مغالطہ
(Analogical Fallacy)
کے نام سے پیش کیا ہے یعنی جزوی تشبیہ کو کلی بنا کر پیش کرنا۔
عاطف ہاشمی صاحب نے اس کی دو آسان اور قدرے سہل مثالوں کے ذریعے وضاحت کی ہے اور یقینا عقل سلیم رکھنے والوں کیلئے اتنا بیان کافی ہے مگر یہاں بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ بعضے کم فہم اس مغالطے کی پوری حقیقت جانے بنا اسے خود اسلامی مثالوں پر اپلائی کرکے اس سے غلط نتائج نا نکال بیٹھیں(جس سے صاحب تحریر یقینا بری الذمہ ہیں)
مثال کے طور پر جب شراب کی حرمت پر کسی نشہ آور چیز مثلا افیون کی حرمت کو قیاس کیا جائے تو کوئی کم فہم یہ گمان کرسکتا ہے کہ شراب اور افیون میں محض ایک جزوی تشبیہ کی بنا پر دونوں کو حرام سمجھنا یہی کلی اور جزوی مشابہت کا منطقی مغالطہ(Analogical Fallacy)ہے،کیونکہ یہ امر بلکل ظاہر و باہر ہے کہ دونوں میں ہر اعتبار سے مطابقت بہرحال نہیں ہے۔،سو اس واسطے اس مغالطے کی کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔
دراصل اس مغالطے(Analogical Fallacy)کا اصل تعلق دو چیزوں کے مابین موجود مشترکات اور ان کے بیچ کے مختلفات کی درست جانچ اور پرکھ سے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی ہم دو چیزوں کے بیچ کے مشترکات تلاش کرکے ان پر حکم لگانا چاہتے ہیں اور گاہے ہم دو چیزوں کے مابین پائے جانے والے فروق کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
ان مشترکات اور فروق کو سمجھنے کیلئے ہمیں پہلے دو چیزوں کے مابین ممکنہ صورتوں کو سمجھنا ہوتا ہے۔طلباء منطق جانتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والا ہر مفہوم کسی بھی دوسرے مفہوم سے چار طرح کی نسبت رکھ سکتا ہے۔
تساوی:
یعنی دونوں مفہوم بلکل یکساں ہوں۔
جیسے بانی تحریک انصاف اور عمران خان
تباین:
دونوں بلکل جدا جدا ہوں۔
جیسے بانی پاکستان اور بانی تحریک انصاف
عموم خصوص مطلق:
دونوں میں سے ایک مفہوم دوسرے کو شامل ہو مگر دوسرا پہلے کو شامل نا ہو۔
جیسے ہر لاہوری پاکستانی ہے مگر ہر پاکستانی لاہوری نہیں۔
عموم خصوص من وجہ:
دونوں مفہوم ایک دوسرے کو تھوڑا بہت شامل بھی ہوں مگر تھوڑا بہت الگ الگ بھی ہوں۔
جیسے سفیدی اور جانور۔بعض جانور سفید ہیں جیسے بگلا۔یہاں دونوں مفہوم جمع ہیں۔بعض جانور تو ہیں مگر سفید نہیں جیسے کوا اور بھینس۔اور اسی طرح بعض چیزیں سفید ہیں مگر جانور نہیں جیسے کاغذ اور چونا۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سوائے تباین والی صورت کے،باقی تینوں صورتوں میں دو مفہوم ایک دوسرے کے ساتھ موافقت بھی کرسکتے ہیں اور بعض امور میں مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔پھر ان تین میں سے بھی تساوی کی صورت میں چونکہ دو امور میں موافقت کلی ہوتی ہے،چنانچہ یہاں یہ امر متصور ہی نہیں ہوسکتا کہ ایک مفہوم کے پائے جانے پر دوسرا مفہوم نا پایا جائے۔(سو یہاں یہ نکتہ ملحوظ رکھا جائے کہ بالفرض کسی جگہ پر ایسے دو مفاہیم کے مابین جزوی مشابہت بھی پیش کی جائے،تب بھی وہاں اصلا یہ مغالطہ پیدا نہیں ہوگا۔)
البتہ عموم خصوص مطلق اور من وجہ میں دو مفہوم گاہے ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور گاہے الگ۔چنانچہ یہاں ہمیں ان کے باہمی مشترکات اور مختلف ہونے کے مواقع کی الگ الگ پہچان ضروری ہوگی۔
عموم خصوص مطلق میں چونکہ خاص تحت العام ہوتا ہے جیسے (ہر لاہوری پاکستانی ہے)اس لیے عام (پاکستانی )بول کر خاص(لاہوری) مراد لینا بایں معنی درست ہے کہ خاص بہرحال عام کے تحت ہے۔لیکن اسی عموم خصوص مطلق کو جب اس حیثیت سے دیکھا جائے کہ خاص وہ ہوتا ہے جو عام پر کچھ زائد معنی رکھتا ہے مثلا لاہوری وہ ہے جو صرف پاکستانی نا ہو بلکہ اس کے ساتھ کچھ مزید اختصاص (لاہور کا باشندہ ہونے کا)بھی رکھتا ہو،تو اس اعتبار سے خاص کا مفہوم عام سے بڑھ کر ہے اس لیے اب عام بول کر خاص مراد لینا درست نہیں ہوگا۔
اسی طرح جب خاص بول کر عام مراد لیا جائے تو یہ بھی اس لحاظ سے درست ہے کہ خاص بہرحال عام سے گزر کر ہی بنتا ہے۔(ہر لاہوری پہلے پاکستانی ہی ہے۔)البتہ خاص بول کر عام مراد لینا اس وقت درست نہیں ہوگا جب خاص کا اختصاص زیر بحث ہو۔کیونکہ اب خاص کی جو حیثیت زیر بحث ہے،وہ عام کے بس کی چیز نہیں۔
عموم خصوص مطلق میں عام کی جگہ خاص یا خاص کی جگہ عام کو برتنے کی چاروں صورتوں پر غور کیجیے تو یہ مثال دراصل بڑی صراحت سے عیاں کرتی ہے کہ ہم ایک ہی نسبت کی حامل دو چیزوں کو کس طرح الگ الگ طور پر برت سکتے ہیں جب ان کے مابین عموم خصوص مطلق کی نسبت ہو۔
عموم خصوص من وجہ میں چونکہ تین مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں دو افتراقی اور ایک مادہ اجتماعی ہوتا ہے اس لیے وہاں بھی حیوان بول کر ابیض مراد لینا یا ابیض بول کر حیوان مراد لینا صرف تب روا ہے جب مادہ اجتماعی (حیوان ابیض)زیر بحث ہو۔لیکن عموم خصوص من وجہ میں(ڈپٹی نذیر احمد کے بقول)افتراق کے مادوں کی کی کثرت اس امر دلالت کرتی ہے کہ مادہ اجتماع کے مقابل یہاں افتراق زیادہ ہے اس لیے عمومی قاعدہ یہی ٹھہرے گا کہ حیوان یا ابیض میں سے ایک بول کر دوسرا مراد نہیں لیا جاسکے گا۔
اب آجائیے اس مغالطہ کی جانب جو کسی صاحب کو شراب اور افیون کے بیچ لاحق ہوا تھا۔
سو وہاں جواب یہ ہوگا کہ شراب اور افیون کے بیچ کے جمیع مشترکات کو جاننا اور پھر ان پر حکم لگانا ہمارا قصد ہی نہیں تھا۔ہم جب افیون کو حرام قرار دیتے ہیں تو اس کیلئے محض یہ تلاشتے ہیں کہ وہ کونسی ایسی علت مشترکہ ہے جو شراب اور افیون میں دائر(دونوں جگہ موجود)بھی ہے اور شراب کی حرمت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ایسی اکلوتی علت “سکر” یعنی شراب کے نشہ آور ہونا ہے۔
پس جب شراب میں حرمت والے حکم کی علت یہ اکلوتی چیز ہے تو ہم نے شراب اور افیون کے بیچ کے باقی تمام مشترکات اور مختلفات کو نظر انداز کردیا کیونکہ وہ زائد از کار ٹھہرے۔
طلباء منطق “تناقض” اصطلاحی کی شرائط میں بیان کردہ “وحدات ثمانیہ” سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ان شرائط میں سے ایک شرط کل اور جز میں مطابقت ہوتی ہے۔کل اور جز میں مطابقت نا ہونے کے باوجود ان دونوں کو باہمی متناقض سمجھنا بھی یہی (Analogical Fallacy) ہے۔
ملحوظ رہے کہ مغالطہ اور تناقض اپنی اصل میں الگ الگ چیز ہیں مگر اس مقام پر جاکر یہ دونوں بغل گیر بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ بسا اوقات تناقض کی شرائط کا عدم لحاظ بھی بندے کو (تناقض کے)مغالطے میں واقع کردیتا ہے۔
بہرحال اینالوجیکل فلاسی ایک ایسا منطقی مغالطہ ہے جس میں دو چیزوں کے مابین جزوی مماثلت کو کلی مماثلت کا رنگ دے کر مدمقابل کو اس غلط استدلال کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔تاہم آگر کسی جگہ جزوی مشابہت ہی زیر بحث ہو (نا کہ کلی مشابہت کے ساتھ اس کا جھانسہ)تو وہاں اس مغالطے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
مثال کے طور پر یہ کہنا کہ موجود ہونے میں انسان اور گدھا دونوں برابر کی حقیقت ہیں تو یہاں انسان کو گدھے سے مشابہہ نہیں کیا گیا بلکہ محض اک امر واقعہ کو بیان کیا گیا ہے۔یہ امر خوش کلامی کے لحاظ سے نامناسب ہوسکتا ہے مگر انسان کی توہین ہرگز نہیں۔(قریب یہی معاملہ مولانا اشرف علی تھانوی کی اس عبارت کا ہے جس میں بہائم کے علم کا ذکر ہے۔چنانچہ وہ عبارت بھی کسی توہین پر مشتمل نہیں البتہ اسے زیادہ سے زیادہ خوش کلامی سے فروتر عبارت قرار دیا جاسکتا ہے۔)
بدقسمتی سے ہمارے مناظروں میں استغاثہ اور توسل اور غیر اللہ سے استعانت جیسے مسائل میں اس مغالطے کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ عام روز مرہ کی استعانت سے غیر اللہ کو بھی مستغیث ثابت کر کے اس سے مافوق الاسباب استعانت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسی طرح سنت و بدعت کے جھگڑوں میں ہر لغوی بدعت کو آلہ کار بناکر اس سے شرعی بدعات کا جواز تراشنا عام سی بات ہے۔ملحدین ذات باری تعالٰی کو انسانی فطرت یا مزاج جیسا ثابت کرنے کیلئے بھی اسی مغالطے کا شکار ہوتے ہیں۔
بہرحال اس مغالطے کی صحیح پرکھ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم چیزوں کے باہمی مشترکات اور فروق کو مکمل طور پر مدنظر رکھ کر ان کے احکام معلوم کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسحق الہندی صاحب نے جامعہ مدنیہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔فل کی ڈگری حاصل کی ۔ موصوف پچھلے پندرہ سال سے جامعہ مدنیہ لاہور میں مختلف فنون و علوم کی تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں
کمنت کیجے