عمران شاہد بھنڈر
میں نے ابو حامد غزالی کے بارے میں اُردو زبان میں جو کچھ بھی پڑھا ہے، اس سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہو ا۔ بیشتر تحریروں میں مبالغہ آرائی عروج پر نظر آتی ہے۔جو لوگ غزالی کے مخالف ہیں وہ مخالفت میں تمام حدود کو عبور کرتے ہوئے غزالی کی تمام فکر کو دلائل کی بنیاد پر پرکھے بغیر رَد کر دیتے ہیں۔ان کے برعکس جو غزالی کے حمایتی ہیں، وہ ان کی حیثیت کا صحیح تعین کیے بغیر ان سے وہ باتیں منسوب کر دیتے ہیں جو کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ ایسے افراد کے ہاں اس قسم کے نتائج پڑھنے کو ملتے ہیں کہ”غزالی نے تمام یونانی فلسفے کو رَد کر دیا۔“ حالانکہ غزالی نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ یونانی فلسفے کو رَد کر رہے ہیں اور نہ ہی ”تہافت الفلاسفہ“ میں یونانی فلسفہ ان کا موضوع ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ غزالی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فلسفے میں دوسروں کے فلسفے کا استرداد معمول کی بات ہے۔ اس حوالے سے غزالی کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں:
”معلوم ہو کہ فلسفیوں کے اختلافات کی نقل و حکایت میں پڑنے سے بات بہت بڑھ جائے گی، کیونکہ ان کی تقریریں طولانی ہیں اور آپسی نزاع کثیر، آرا پراگندہ ہیں اور روشیں ان کی باہمی خانہ جنگی کا شکار، لہذا صرف اس کے نظریات میں تناقض اور باہمی ٹکراؤ دکھانے پر اکتفا کریں، جو ان کا پیش رو ہے اور فیلسوف مطلق اور معلّم اوّل، کہ اسی نے فلسفیوں کے علوم ترتیب دیے، اور ان پر فلسفیوں کے مزعومات کی ملمع کاری کی، اور ان کی آرا سے اضافیاتِ ساقط الاعتماد نکال کر، وہ باتیں اختیار کیں جو ان کے اصول سے قریب تر تھیں، وہ ”رسطالیس“ ہے، اس نے اپنے اگلوں کا رد کیا، حتیٰ کہ اپنے استاد کی بھی جس کا لقب ان کے یہاں افلاطونِ الٰہی ہے مخالفت کی۔“ (تہافت الفلاسفہ، ص، 83)۔
اس اہم اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ فلسفے میں رد و قبولیت کی روش پرانی ہے۔ سبھی فلسفی ایک دوسرے کی فکر کا ابطال کرتے آئے ہیں، کیونکہ اسی عمل سے فلسفہ آگے بڑھتا ہے۔ اگر فلسفے میں ایک فلسفی دوسرے فلسفی کی فکر کا ابطال نہ کرے تو فلسفہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ”تخالف“ ایک فلسفیانہ مقولہ ہے، جس کے بغیر فلسفیانہ فکر ساقط ہو جائے گی، لیکن یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ تفکر انسانی وجود کی پکار ہے۔ جو موجود ہے اس کی ماہیت کو جانا جاتا ہے اور جو نہیں موجود اس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غزالی کی ”تہافت الفلاسفہ“ کے فکری حصے (نہ کہ الٰہیاتی) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ غزالی کا یہ کتاب لکھنے کا اصل مقصد صرف ”فلسفیوں“ (ابو نصر فارابی، ابنِ سینا) کی فکر میں تضادات کو دکھانا تھا،نہ کہ کسی نئی فکر کو پیش کرنا ا س کا مطمع نظر تھا۔ غزالی مزید لکھتے ہیں:
”ہم نے یہ حکایت اس لیے نقل کی تاکہ معلوم ہو کہ ان کے مذہب کو خود ان کے یہاں بھی کسی طرح کا قرار اور جماؤ نہیں، یہ لوگ بلا تحقیق اور بلا یقین، محض ظن و تخمین سے حکم لگاتے ہیں، اور اپنے فلسفہ الٰہیات کے سچ اور مطابق واقع ہونے پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ، دیکھو ہمارا علمِ حساب اور علمِ منطق ایک کُھلی حقیقت ہے، اور اس طرح کمزور عقل والوں پر اندھیری ڈالتے ہیں، حالانکہ ان کا فلسفہ الٰہیات علمِ حساب کی طرح ٹھوس دلائل سے مالا مال اور افلاسِ ظن و تخمین سے بَری ہوتا تو یہ اس میں باہم مختلف نہیں ہوتے، جیسا کہ علمِ حساب میں باہم مختلف نہیں ہیں۔“ (تہافتہ الفلاسفہ، ص، 84)۔
اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غزالی کو علمِ حساب اور علمِ منطق کی حقانیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ ان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلسفیانہ افکار کا ”الٰہیات“ پر اطلاق قابلِ تیقن نہیں ہوتا۔ ان دونوں اقتباسات سے یہ غزالی کا سارا فکری پروجیکٹ واضح ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ الٰہیات کبھی بھی فلسفے کا موضوع نہیں تھیں۔ یہ فلسفے کا موضوع اس وقت بنی جب بعض مذہبی مفکروں نے منطقی و فلسفیانہ افکار کی بنیاد پر الٰہیات کو عقلی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ یہی کام بعد ازاں غزالی نے اپنی کتاب ”قسطاسِ مستقیم“ میں جاری رکھا جب انہوں نے قرآنی متن پر ارسطوئی منطق کا اطلاق کرتے ہوئے اسے عقلی سطح پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ اس کا تجزیہ ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ یہاں صرف یہی کہنا مقصود ہے کہ جو دعویٰ غزالی نے کیا تھا کہ الٰہیات میں فلسفیانہ فکر کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا، انہوں نے خود ہی اس کا رَد کر دیا۔
مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غزالی کو یقین تھا کہ الٰہیات میں منطق کا اطلاق تضادات میں الجھا دیتا ہے۔ اہم بات یہ کہ خود ارسطو نے اپنے سے پہلے تمام فلسفیوں کا رَد لکھا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسفہ و منطق میں کوئی بات ’حتمی‘ نہیں ہوتی، بلکہ انہیں مزید گہرائی میں دیکھ کر ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مابعد الطبیعات اور الٰہیات ایسے میدان ہیں کہ جہاں منطق کا استعمال کوئی یقینی علم فراہم نہیں کرتا، بلکہ فلسفی منطق کو بروئے کار لاکر جو نتائج اخذ کرتا ہے، اس سے بہتر نتائج کوئی دوسرا فلسفی اخذ کر سکتا ہے، اگر وہ منطق کا اس سے گہرا علم رکھتا ہے۔ تاہم توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ منطق کے استعمال سے مابعد الطبیعات میں جو بھی نتائج اخذ کیے جائیں انہیں ”حتمی“ نہیں گرداننا چاہیے، خواہ وہ نتائج ارسطو، فارابی اور ابنِ سینا نے ہی کیوں نہ نکالے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیوڈ ہیوم نے کہا تھا:
”قبل از تجربہ کسی خاص معلول کا تخیل و اختراع سراسر فرضی ہوگا۔۔۔ یہی سبب ہے کہ کسی فہمیدہ اور سنجیدہ فلسفی نے کبھی کسی طبعی عمل کی انتہائی علت بتانے کا دعویٰ نہیں کیا، نہ اس قوت کی صاف توضیح کی۔“ (فہمِ انسانی، ص، 60)۔
یہی وجہ ہے کہ ہر وہ عظیم فلسفی جو اپنی فکری پرواز سے علتِ اولیٰ تک پہنچا، اس نے اس سے آگے بڑھ کر اس کی ماہیت بتانے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ جس کا وہ علم بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غزالی بھی جب علت ومعلول کے درمیان تعلق کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر وہ ماورائے تجربہ عقلی استدلال سے کام لیتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آگ سے روئی کو جلانے کی علت اللہ ہے۔ یعنی وہ علت و معلول کو ایک عقلی مقولے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم اس سے متعلق وہ کوئی ایک بھی دلیل نہیں دے سکے کہ تجربے میں تشکیل عقلیت کے ذریعے تیقن تک کیسے لے جا سکتی ہے؟ تاہم غزالی نے ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کیا کہ وہ کسی دلیل سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ روئی کے آگ سے جلنے کا سبب اللہ ہے۔ بلکہ وہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں:
”ہم یہ مانتے ہیں کہ احتراق کا فاعل جو روئی میں سیاہی اور روئی کے اجزا میں پراگندگی پیدا کر دے اور اسے سوختہ یا خاکستر کر دے وہ بلا شرکت غیرے صرف اللہ تعالیٰ ہے۔“ (تہافت، ص، 419)۔
واضح رہے کہ غزالی نے یہ مقدمہ تجربیت کی تشکیک پر کھڑا کیا ہے، کسی حقیقی منطقی و منطقی دلیل کی بنیاد پر نہیں۔ہم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں روئی کے جلنے کا سبب معلوم نہیں ہے۔ بصورتِ دیگر وہ دلائل پیش کرنے ہوں گے جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ روئی کے جلنے کا سبب اللہ ہے۔ تاہم یہاں غزالی نے Fallacy of Ignoratio Elenchi کا ارتکاب کرتے ہوئے اللہ کو ”احتراق کا فاعل“ قرار دے دیا۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ غزالی نے صرف ابو نصر فارابی اور ابنِ سینا کی فکر کے تضادات کو عیاں کیا تاکہ وہ ”عقیدے“ کے لیے جگہ بنا سکیں۔ یہی نتایج عظیم جرمن فلسفی کانٹ کے جناتی فلسفے میں نکالے گئے تھے۔ کانٹ چونکہ فلسفی تھا، اس لیے ایک حد سے آگے جا کر حکم لگانا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ جس فکر کی وہ حدود متعین کر رہا تھا اس سے آگے کیسے جا سکتا تھا! غزالی کے پیشِ نظر یہ فکری قضایا نہیں تھے۔ وہ جن حدود کو متعین کر رہے تھے، انہی کو خود کسی بھی دلیل کے بغیر عبور بھی کر رہے تھے۔ محمد اقبال اس حوالے سے غزالی اور کانٹ کی فکر میں مماثلت سے آگاہ تھے۔ اقبال اس نکتے پر یوں زور دیتے ہیں:
”جرمنی میں عقلیت مذہب کے حلیف کے طور پر ابھری، لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ مذہب کا اذعانی پہلو پیش کیے جا سکنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔ جرمنی میں دینیاتی فکر کی یہ صورتحال تھی، جب کانٹ کا ظہور ہوا۔ اس کی کتاب ”تنقید عقلِ محض“ نے انسان کی عقلی حدود کا اخفا کیا اور عقلیت پسندی کے تمام کارخانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اسے بجا طور پر اپنے ملک کے لیے خداوند کا عظیم ترین عطیہ کہا جاتا ہے۔“ (فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل، پہلا لیکچر، ص، 21)۔
سرسری نظر سے دیکھنے سے بھی یہ معلوم ہو جائے گا کہ غزالی کے بقول ان کا مقصد فارابی اور ابنِ سینا کی فکر میں تضادات کو عیاں کرنا تھا، تاکہ وہ عقیدے کو فلسفیانہ فکر کے دائرے سے باہر لے آئیں۔ ان دونوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی تھا کہ کانٹ کے پیشِ نظر مابعد الطبیعات تھی، جبکہ غزالی الٰہیات کو جواز فراہم کر رہے تھے۔ یعنی الٰہیات خود اپنا جواز فراہم نہیں کر سکتی تھی، اس لیے مابعد الطبیعات میں عقل کی معذوری کو دکھانا پڑا۔ کانٹ اور غزالی میں ایک اہم فرق ملحوظِ خاطر رہے کہ غزالی نے اس کام کے لیے ارسطوئی منطق کو استعمال کیا۔ جیسا کہ خود غزالی کہتے ہیں:
”ہاں ان کا کہنا ہے کہ ”منطقیات کا مضبوط ہونا ضروری ہے“، یہ صحیح بات ہے، لیکن منطق میں ان کی کیا خصوصیت ہے؟ یہ تو وہی اصل بنیاد ہے، جسے ہم علمِ کلام میں کتاب النظر کہتے ہیں، ان لوگوں نے رعب گانٹھنے کے لیے اس کا نام بدل کر منطق رکھ لیا، نیز ہم کبھی اسے کتاب الجدل سے موسوم کرتے اور کبھی مدارک العقول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔۔۔۔ اس کتاب میں ہم ان سے ان کی زبان میں مناظرہ کریں، یعنی منطق میں جو ان کی تعبیرات ہیں۔اور واضح کر دیں کہ منطق کی قسمِ برہانی میں، مادہ قیاس کی صحت سے متعلق، ان لوگوں نے جو شرطیں رکھیں، اور کتاب القیاس میں، صورتِ قیاس کے تعلق سے جو شرطیں باندھیں، نیز ایسا غوجی اور قاطیغوریاس میں، کہ منطق کے اجزا و مقدمات سے ہیں، جو اوضاع مقرر کیں، ان میں سے اپنے فلسفہ الٰہیات میں کچھ بھی پورا نہ کر سکے اور یکسر عاجز رہے۔“ (تہافت الفلاسفہ، ص، 96-97)۔
اس اقتباس میں غزالی نے الفارابی اور ابنِ سینا پر جو اعتراض کیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ دونوں منطق کے استعمال سے ”فلسفہ الٰہیات میں کچھ بھی پورا نہ کر سکے۔“ یہ خیال غزالی کی ساری کتاب میں رواں دواں ہے کہ منطق کے استعمال سے الٰہیات میں کوئی ”حتمی“ نتیجہ نہیں نکلتا۔ یہی وجہ ہے کہ غزالی جب فارابی اور ابنِ سینا کے تضادات دکھاتے ہیں تو اس کے بعد وہ کسی منطق کی بنیاد پر الٰہیات میں نہیں پہنچتے، بلکہ الٰہیات کو منطقی بحث سے خارج کر دیتے ہیں۔ محمد اقبال اس پہلو سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے اقبال کہتے ہیں:
”غزالی کی فلسفیانہ تشکیک نے کچھ زیادہ ہی طول کھینچ لیا، عملی طور پر عالمِ اسلام میں اسی طرح کا کام سرانجام دیا اور مغرور اور کھوکھلی عقلیت کی کمر توڑ دی جس کے سفر کی سمت کانٹ سے پہلے کی جرمن عقلیت جیسی تھی۔ بہرحال کانٹ اور غزالی کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ کانٹ اپنے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے خدا کے علم کا اثبات نہ کر سکا۔ غزالی کو تجزیاتی فکر میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی اور اس نے اپنا رُخ متصوفانہ تجربے کی جانب پھیر لیا، یہاں اس نے مذہب کے لیے خود منحصر مواد دریافت کر لیا۔“ (نئی تشکیل، ص، 21-22)۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال نے غزالی کی فکری سمت کی درست نشاندہی کی ہے۔ اگر ہم غزالی کی تقلید میں یہ تسلیم کر لیں کہ منطق کو الٰہیات میں تیقن کے ساتھ استعمال نہیں کیا جا سکتا، تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب بھی منطق کا مابعد الطبیعاتی استعمال ہو گا اس کی بنیاد ہمیشہ کمزور رہے گی۔ یہی دعویٰ غزالی کا بھی تھا کہ الٰہیات میں ریاضی جیسا تیقن موجود نہیں ہے کہ جسے منطقی استعمال سے حاصل کر لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ غزالی جب یہ کہتے ہیں کہ آگ روئی کو جلانے کا سبب نہیں ہے بلکہ اللہ ہے تو اس وقت وہ کوئی منطقی دلیل پیش نہیں کرتے کہ اللہ کس طرح روئی کو جلانے کا سبب ہے، بلکہ ان کا مقدمہ ”عقیدے“ پر کھڑا ہوتا ہے نہ کہ کسی منطقی دلیل پر! یہی وجہ ہے کہ اقبال نے کہا کہ”غزالی کو تجزیاتی فکر میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی۔“
حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی کسی مخصوص منطق کی بنیاد پر دلیل قائم کی جاتی ہے، جیسا کہ سارا ہی علم الکلام ارسطوئی منطق پر استوار ہے تو پھر جونہی منطقی تقاضے تبدیل ہوتے ہیں، اس منطق پر کھڑے تمام افکار بھی رَد و نمو کے مراحل سے گزرتے ہیں۔رَد و قبولیت منطق کی زندگی ہے، انہی سے منطق کا احیا ہوتا ہے۔ جبکہ عقیدے کے متعینات کے لیے یہ ضرر رساں ہے۔ ارسطوئی منطق جس نے دو ہزار برس انسانی ذہن پر حکومت کی ہے، وہ جدلیاتی منطق کے بعد اپنے مقام کو قائم نہیں رکھ پائی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ استخراجی منطق تہس نہس ہوچکی ہے، بلکہ استخراجی منطق مزید گہری ہو چکی ہے اور اسے ایک مختلف سطح پر پہلے سے زیادہ تیقن حاصل ہو چکا ہے۔وہ عقائد جو اپنے معتقدات کی بنیاد منطق پر رکھتے ہیں، وہ منطق کے مزید گہرا ہونے کی وجہ سے غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ یہ بات غزالی فراموش کر گئے اور ”قسطاسِ مستقیم“ میں الوہی فکر کو منطق سے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
بہت خوب سر